• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آہ! لیبیا کے مظلوم مسلمان اور یہ جو کر (بہروپیے) حکمران

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
آہ! لیبیا کے مظلوم مسلمان اور یہ جو کر (بہروپیے) حکمران

امیر حمزہ
کوئی وقت تھا دیہات کے بعض لوگ سادہ لوح ہوا کرتے تھے، وہ سودا سلف خریدنے شہر میں آیا کرتے تھے، میں نے خود اپنے شہر ننکانہ میں یہ منظر کئی بار دیکھا کہ ایک جوکر جس کے کپڑے پھٹے ہوئے، سرخ رنگ انڈیلا ہوا۔ سر اور چہرہ بھی سرخ رنگ سے لہولہان بنایا ہوا۔ اب وہ ہاتھ میں اینٹ پکڑے ہوئے ہے، کسی سادہ لوح دیہاتی کو اینٹ سے ڈرا رہا ہے، اگر تو وہ ڈر کر بھاگ اٹھتا تو یہ جوکر بھی پیچھے بھاگ پڑتا۔ دکانوں کے لوگ باہر کھڑے ہو کر نظارہ کرتے اور ہنستے۔ الغرض! اس مذاق میں جوکر کا مقصد آخر کار دیہاتی سے چند ٹکے حاصل کرنا ہوتا تھا۔
شہروں میں بھی آج کل کثرت سے جوکر نظر آتے ہیں، جوکروں کی یہ نئی قسم یورپ کی نقالی کا شاہکار ہے۔ بھالو کا لباس پہنے یہ جوکر پٹرول پمپوں پر، پلازوں پر اور شاپنگ مارکیٹوں میں نظر آتے ہیں۔ یہ الٹی سیدھی حرکتیں کر کے بچوں کا دل بہلاتے ہیں اور پھر ماں اپنے بچے کو پیسے دیتی ہے بچہ یہ پیسے جوکر کے حوالے کردیتا ہے۔ وہ بچہ جس نے زندگی میں پہلی بار جوکر دیکھا ہو وہ ڈر بھی جاتا ہے۔
مسلم دنیا میں بہت سارے مسلمان حکمران امریکہ کے جوکر ہیں۔ اپنی رعایا کو کبھی سادہ لوح دیہاتی سمجھ کر خونخواری کا روپ دھار لیتے ہیں اور کبھی جوکر بن کر معصوم بچوں سے پیسے بٹور کر، اربوں ڈالر کے مالک بنتے ہیں۔ ان جوکروں میں جو اعلیٰ ترین درجے کا بہروپیا اور جوکر ہے وہ ہمارے خیال میں لیبیا کا کرنل قذافی ہے۔ بیالیس سال سے لیبیا کا حکمران چلا آ رہا ہے۔ شروع شروع میں اس نے اسلام کا روپ دھارا۔ پھر اس نے عرب قوم پرستی کا لبادہ اوڑھا۔ روسی بلاک میں شامل ہو کر اشتراکیت کا لباس پہنا۔ اپنی کتاب ’’سبز کتاب‘‘ کے نام سے لکھی جسے قرآن کا مدمقابل بنا کر پیش کیا۔ قرآن کی بعض آیات میں تحریف تک کا ارتکاب کیا۔ ساتھ ساتھ اسلام کے نام پر ایک کونسل بھی بنا دی، ہر سال علماء کو بلاتا اور سیرت کانفرنس کا انعقاد بھی کرتا۔ ایٹم بم بنانے کے لئے کوشاں رہا۔ دبائو پڑا تو سینٹری فیوج مشینیں امریکہ کے جہازوں میں لدوا دیں۔ برطانیہ کا مسافر ہوائی جہاز مار گرایا۔ دبائو پڑا تو ہرجانہ ادا کر دیا۔ ملک میں جو شخص داڑھی رکھ لیتا وہ غائب کر دیا جاتا ہے۔ جو شخص پانچ وقت مسجد چلا جائے اس کا پتہ ہی نہیں چلے گا کہاں ہے۔ عجیب و غریب رنگین لباس پہن کر سچ مچ جوکر لگتا ہے۔ اپنے مخالف کو غیر ملکوں میں بھی قتل کروا دیتا ہے۔ عرب قوم کا لیڈر بننے میں ناکام رہا تو اب افریقہ کا لیڈر ہونے کا روپ دھار رکھا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
باڈی گارڈز کے لئے مردوں کی بجائے خوبصورت لڑکیوں کو باڈی گارڈ بنا رکھاہے۔ بعض اوقات روپ یوں بھی دھارتا ہے کہ کسی ملک کے دورے پرجائے تو وہاں خیمہ گاڑ لیتا ہے۔ یہ خیمہ کہنے کو خیمہ ہوتا ہے مگر یہ وسیع و عریض اور بیش قیمت خیمہ ہر طرح کی شاہانہ سہولتوں سے آراستہ ہوتا ہے۔ موصوف اٹلی میں گئے تو یہی خیمہ گاڑ لیا۔ وہاں اپنے سفیر کے ذریعہ اعلان کیا کہ اٹلی کی ایک سو خوبصورت عورتوں کو صدر قذافی اسلام پر لیکچر دیں گے۔ ان لڑکیوں کے حسن کے ساتھ ساتھ عمر کا تعین بھی کر دیا گیا کہ عمر 20 اور 30 سال کے درمیان ہو۔ خوبصورتی کا تعین سفیر کرتا رہا۔ انتخاب ہو گیا تو ان جواں، خوبصورت گوری لڑکیوں کو صدر صاحب نے اسلامی لیکچر دیا۔ ہر ایک کو قرآن اور تحائف دیئے اور کہا جو مسلمان ہو جائے گی اسے لیبیا کا دورہ اور یہ کچھ دیا جائے گا۔
ابھی لیبیا میں عوام مظاہروں کے لئے اٹھے تو قذافی نے اپنے عوام کو چوہے اور گٹر کے لال بیگ قرار دیا اور کہا کہ فوجی انہیں مار دیں۔ بات اور آگے بڑھی تو قذافی نے کہا یہ مظاہرے کرنے والے القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے لوگ ہیں۔ پھر ان کا قتل عام شروع کر دیا حتیٰ کہ ان پر بمباری شروع کر دی۔ فضائیہ اڑانیں بھرنے لگی، اپنے ہی ملک کے شہریوں پر بم برسانے لگی۔ کوئی حکمران اپنے عوام کے ساتھ یوں لڑنے لگے جیسے دشمن کے خلاف لڑا جاتا ہے۔ فوج جو عوام کے ٹیکسوں سے عوام کی حفاظت کے لئے ہوتی ہے اسے عوام ہی پر چڑھا دیا جائے اور آخری ہتھیار یعنی فضائی بمباری کی سطح پر یہ کھیل کھیلا جائے تو کوئی بھی اسے برداشت نہیں کرتا۔
اس کی مثال یوں سمجھئے کہ اگر کوئی حیوانی اور درندہ
دل شخص اپنی بیوی کو مارنا شروع کر دے یا اپنے بچوں کو پیٹنا شروع کر دے اور اس قدر مارے اور پیٹے کہ ڈنڈوں کی آوازیں پڑوسیوں تک پہنچ جائیں چیخیں سارے محلے کو دلدوز کر کے دہلا ڈالیں تو پڑوسی دروازہ کھٹکھٹائیں گے، نہ کھلے اور مار جاری رہے تو لوگ دیواریں پھاند کر اندر آئیں گے اور بچوں کو چھڑوائیں گے۔ وہ کہے، تم کون ہو، یہ میرے بچے ہیں؟ پڑوسی کہیں گے، ہاں! تمہارے بچے ہیں مگر اس طرح کی مار اور چیخیں ہم برداشت نہیں کریں گے کہ تم ان کو جان سے مارڈالو اس طرح کی حرکتیں کرنا ہیں تو محلہ چھوڑ جائو۔ جنگل میں چلے جائو، یہ باتیں سن کر اس کی اپنی بیوی سکون کا سانس لے گی کہ درندہ شوہر جو میرے بچے کو جان سے مار دینے لگا تھا۔ کسی نے اس کا ہاتھ تو پکڑا… اگر وہ اپنی بیوی کو مار رہا تھا تو بچے شکر کریں گے کہ پڑوسیوں کی مداخلت سے ان کے درندے والد سے ان کی ماں کو ریلیف ملا۔
اللہ اللہ…میرے مولا! لیبیا کے مظلوموں پر، ہمارے بھائیوں بہنوں پر۔ ہمارے مسلمان لیبیائی بچوں پر جب قذافی جیسا درندہ ظلم کر رہا تھا تو پڑوسی کہاں مر گئے تھے۔ عرب مسلمان حکمران کہاں چلے گئے تھے جو عرب قومیت کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے۔ 57 مسلمان ملکوں کے حکمران کہاں کھو گئے تھے۔ او آئی سی کہاں سو گئی تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کی متحدہ فوج لیبیا میں اترتی قذافی کا ہاتھ روکتی۔ امن قائم کرتی، جس کو لوگ چاہتے وہ حکمران بنتا اور یہ فوج اپنا کردار ادا کر کے واپس آ جاتی۔ مگر! آہ، میرے مولا! کلمہ توحید و رسالت میں شریک اور اکٹھے لوگوں نے کوئی کردار ادا نہ کیا اور یوں لیبیا کے مظلوم عوام کی ہمدردی کے نام پر جن لوگوں نے وہاں مداخلت کی وہ لوگ ہمارے کلمے کے دشمن ہیں، وہ صلیبی ہیں، عراق، افغانستان اور فلسطین و کشمیر میں دہشت گردانہ مظالم کے ذمہ دار ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی متحدہ فوج ناٹو (NATO)نے وہاں بمباری شروع کر دی۔ ظلم کا ایک اور کھیل شروع ہو گیا۔ ادھر عوام نے اسلحہ خانے لوٹ لئے۔ فوج کا ظلم، آپس کی خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ اب قذافی نے ایک اور روپ بدلا۔ اب وہ کہتا ہے میں صلیبیوں کے خلاف آخری دم تک لڑوں گا۔ کوئی پوچھے کن کے لئے لڑے گا؟ کس روپ میں لڑے گا، کس جوکر پن کے ساتھ لڑے گا اور کن سے لڑے گا؟ صلیبی تو زمین پر اترے ہی نہیں اور فضائی بمباری کر رہے ہیں۔ الغرض! جوکر پن کا ایک اور لباس جو بے حد الجھا ہوا، پھٹا ہوا، خون آلود، اپنے اوپر سرخ رنگ انڈیلے ہوئے، ہاتھ میں اینٹ پکڑے ہوئے۔ ارے! یہ کس کو مارے گا، چند ٹکے لے کر بیٹھ جائے گا، یا بھاگ جائے گا۔ اگلا نقشہ کیا ہو گا۔ آیئے! ہم سب مل کر انتظار کریں، اس لئے کہ ہمارے جوکر حکمران سوائے تماشا دیکھنے کے کچھ نہیں کر سکتے اور ہم سب ان جوکروں کی رعایا ہیں۔ ہم سے تماشا نہیں دیکھا جاتا۔ ہاں! دل روتاہے، سینہ چاک ہے، غم سے بھرا جگر ہے، مگر مگر! ہم اپنے اللہ سے پرامید ہیں وہ میرا مولا ظلم کے اس طوفان سے وہ ٹھنڈی ہوا چلائے گا جو سارے منظر بدل دے گی۔ یہ ضرور بدلے گا اس لئے کہ اب جوکروں کا ٹائم بہرحال تھوڑا رہ گیا ہے۔ جوکر پن اور مذاق پن اب ختم ہونے والا ہے۔ اسلام کا حسین اور پررحمت چہرہ اپنی ٹھنڈی تجلیات کے جلومیں اپنے ماننے والوں کو گود میں لینے والا ہے۔ (ان شاء اللہ)
مظلومو! اک ذرا صبر کہ جوکر پن کے دن تھوڑے ہیں۔
 
Top