• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آیات کے تکرار کا سبب + وظیفۂ رسالت۔ ۔ تفسیر السراج۔ پارہ:2

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۭ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَہٗ۝۰ۙ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّۃٌ۝۰ۤۙ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ۝۰ۤ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِيْ۝۰ۤ وَلِاُتِمَّ نِعْمَتِىْ عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَ۝۱۵۰ۙۛ كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۝۱۵۱ۭۛ
جہاں تو نکلے مسجد حرام کی طرف منہ پھیر اور جہاں تم ہو، اپنے منہ اس کی طرف پھیرو تاکہ لوگوں کو تم پر حجت باقی نہ رہے مگر جو لوگ ان میں ظالم ہیں (وہ تم سے ضرور جھگڑیں گے) سو تم ان سے نہ ڈرو اورمجھ سے ڈرو اور اس لیے کہ میں اپنا فضل تم پر پوراکروں۔ شاید تم ہدایت پاؤ۔۱؎(۱۵۰) جیسے کہ ہم نے ایک رسول تمہارے ہی درمیان سے تم میں بھیجا۔ وہ ہماری آیتیں تم پر پڑھتا ہے اورتمھیں سنوارتا ہے اور کتاب وحکمت اور وہ باتیں بتلاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔۲؎(۱۵۱)
آیات کے تکرار کا سبب
۱؎ فَوَلِّ وَجْہَ کو تین دفعہ ذکر کیا ہے اس لیے بھی کہ مقصود تاکید ہے جو ان مواقع میں ضرور ہوجاتی ہے جب کہ کوئی اہم اور موجب شبہات حکم نازل ہواور اس کے لیے ضروری تھا کہ ہروجہ کے بعد معلول بھی ذکر کیا جائے یا یہ کہ پہلی صورت میں اس حالت کا ذکر ہے جب آپ کعبہ کے سامنے ہوں۔ دوسری صورت وہ ہے جس میں آپ شہر کی دیگر مساجد میں نماز پڑھیں اور تیسری صورت میں مراد یہ ہے کہ جب تم مسافر ہو تو بھی تمھارا قبلہ کعبہ ہی رہے۔یعنی بہرحال مسلمان کا ہرسجدہ اور اس کی ہر عبادت نہایت درجہ منسلک اور ایک نظام کے ماتحت ہونی چاہیے۔ ان آیات میں یہ بتایا کہ تحویل قبلہ سے دو فائدے یہ بھی ہیں کہ یہودیوں اور مشرکین مکہ کا اعتراض اٹھ گیا۔ یہودی پہلے کہا کرتے تھے کہ مسلمان بھی عجیب ہیں۔ نماز تو ہمارے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھتے ہیں اور ہمارے مذہب کی مخالفت کرتے ہیں۔

مشرکوں کا اعتراض تھا کہ دیکھیے دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم مذہب ابراہیمی کے پابند ہیں اور مرکز عبادت بیت المقدس ہے اب جب کہ بیت المقدس سے منہ موڑ کر کعبہ کو قبلہ مان لیا گیا تو دونوں گروہوں کو تشفی ہوگئی۔ پھر اتمام نعمت اور ہدایت ارزانی کا بھی سامان ہوگیا یعنی ساری دنیائے انسانیت کو ایک مرکز پر جمع ہونے کی دعوت دی اور عملاً حج میں اس طرح کے وظائف اور ارکان داخل کیے جنھیں دیکھ کرقلب میں رقت طاری ہوجائے اور اسلام کی حقیقی شان وجدت وانکسار آنکھوں میں پھرجائے۔ جن لوگوں نے حج کے کوائف پر نفسیاتی غورکیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس میںکس قدر بصائرو معارف پنہاں ہیں اور کس طرح ہرنوع کے انسانوں کو چن چن کر اکٹھا کیا ہے اور سب کو ایک خدا کے سامنے جھکادیاہے ۔ لبیک لبیک کی مخلصانہ آوازیں کتنی ایمان پرور اور روح میں نزہت پیدا کرنے والی ہیں۔
وظیفۂ رسالت
۲؎ کَمَا اَرْسَلْنَا سے مقصد یہ ہے کہ کعبہ کی ہادیانہ حیثیت اسی طرح ہے جس طرح ایک رسولﷺ آیات اللہ کی تلاوت کرے اور تعلیم وتزکیہ کے رموز سمجھائے ۔ یا یہ بتانا مقصد ہے کہ تعیین اسی طرح کی ایک نعمت ہے جس طرح کہ ایک خدا کے سابعثت رسولﷺ۔ضمناً یہ بتایا ہے کہ وظیفۂ رسولﷺکیا ہے ۔ یا انبیاء علیہم السلام اور عام مصلحین میں کیا بین امتیاز ہے ؟ وہ یہ کہ عام مصلحین صرف کہتے ہیں ۔ صرف تعلیم دیتے ہیں لیکن انبیاء علیہم السلام تعلیم وتدریس کے ساتھ ساتھ قلوب کو جلا بھی دیتے ہیں جیسے دماغوں کو معارف وحکم سے منور کرتے ہیں، ویسے دلوں کی تاریک دنیا کو بھی اُجالے بخشتے ہیں۔ ان کی نگاہیں علم و معرفت کی سطح پر ہی مرکوز ہوکر نہیں رہ جاتی بلکہ وجدان وطمانیت کی گہرائیوں تک نفوذ کرجاتی ہیں۔ وہ دنیا میں قول وعمل کا ایک بہترین امتزاج ہوتے ہیںیعنی جوامع الکلم کے ساتھ مکارم اخلاق کا اجتماع صرف ان کے ساتھ ہی مخصوص ہوتا ہے ۔
حل لغات
{حُجَّۃٌ} اصل معنی دلیل کے ہیں یعنی مراد اعتراض ہے ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۝۱۵۲ۧ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۝۱۵۳
میں تمھیں یاد کروں گا اور میرے شکر گزار رہواور ناشکری نہ کرو۔(۱۵۲)مومنو! صبر اور نماز سے قوت حاصل کرو۔ بے شک خدا صابروں کے ساتھ ہے ۔۱؎(۱۵۳)
۱؎ ان آیات میں دعوت ذکر ہے اور فلسفہ یاد الٰہی کا یہ بتایا ہے کہ جس طرح کا ایمان کسی شخص کے دل میں ہوگا، اسی درجہ اللہ کی عنایات اس پر زیادہ ہوں گی۔ حدیث میں آتا ہے ۔انا عند ظن عبدی بی کہ میں بالکل ویسا ہی لوگوں سے سلوک روا رکھتاہوں جیسا کہ وہ مجھ سے متوقع ہیں۔ اس کے بعد اس کا ذکر ہے کہ جب تم کسی مصیبت میں گرفتار ہوجاؤ تو صبر سے کام لو۔ گھبراؤ نہیں۔ یعنی مصیبتیں اس لیے نہیں آتیں کہ مرد مومن کے مضبوط دل میں رخنہ انداز ہوں اور اسے جادئہ عافیت سے دور ہٹادیں بلکہ اس لیے کہ وہ برداشت کرنے کا عادی ہوجائے اور خدا کے آستانہ پر دعا اور عبادت کے لیے جھک جائے یعنی کسی حالت میں بھی مسلمان مایوس نہیں ہوتا۔ ہروقت اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا امید وار رہتا ہے ۔
 
Top