محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۰ۭ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ شَطْرَہٗ۰ۙ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّۃٌ۰ۤۙ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ۰ۤ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِيْ۰ۤ وَلِاُتِمَّ نِعْمَتِىْ عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَ۱۵۰ۙۛ كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۱۵۱ۭۛ
مشرکوں کا اعتراض تھا کہ دیکھیے دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم مذہب ابراہیمی کے پابند ہیں اور مرکز عبادت بیت المقدس ہے اب جب کہ بیت المقدس سے منہ موڑ کر کعبہ کو قبلہ مان لیا گیا تو دونوں گروہوں کو تشفی ہوگئی۔ پھر اتمام نعمت اور ہدایت ارزانی کا بھی سامان ہوگیا یعنی ساری دنیائے انسانیت کو ایک مرکز پر جمع ہونے کی دعوت دی اور عملاً حج میں اس طرح کے وظائف اور ارکان داخل کیے جنھیں دیکھ کرقلب میں رقت طاری ہوجائے اور اسلام کی حقیقی شان وجدت وانکسار آنکھوں میں پھرجائے۔ جن لوگوں نے حج کے کوائف پر نفسیاتی غورکیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس میںکس قدر بصائرو معارف پنہاں ہیں اور کس طرح ہرنوع کے انسانوں کو چن چن کر اکٹھا کیا ہے اور سب کو ایک خدا کے سامنے جھکادیاہے ۔ لبیک لبیک کی مخلصانہ آوازیں کتنی ایمان پرور اور روح میں نزہت پیدا کرنے والی ہیں۔
جہاں تو نکلے مسجد حرام کی طرف منہ پھیر اور جہاں تم ہو، اپنے منہ اس کی طرف پھیرو تاکہ لوگوں کو تم پر حجت باقی نہ رہے مگر جو لوگ ان میں ظالم ہیں (وہ تم سے ضرور جھگڑیں گے) سو تم ان سے نہ ڈرو اورمجھ سے ڈرو اور اس لیے کہ میں اپنا فضل تم پر پوراکروں۔ شاید تم ہدایت پاؤ۔۱؎(۱۵۰) جیسے کہ ہم نے ایک رسول تمہارے ہی درمیان سے تم میں بھیجا۔ وہ ہماری آیتیں تم پر پڑھتا ہے اورتمھیں سنوارتا ہے اور کتاب وحکمت اور وہ باتیں بتلاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔۲؎(۱۵۱)
۱؎ فَوَلِّ وَجْہَ کو تین دفعہ ذکر کیا ہے اس لیے بھی کہ مقصود تاکید ہے جو ان مواقع میں ضرور ہوجاتی ہے جب کہ کوئی اہم اور موجب شبہات حکم نازل ہواور اس کے لیے ضروری تھا کہ ہروجہ کے بعد معلول بھی ذکر کیا جائے یا یہ کہ پہلی صورت میں اس حالت کا ذکر ہے جب آپ کعبہ کے سامنے ہوں۔ دوسری صورت وہ ہے جس میں آپ شہر کی دیگر مساجد میں نماز پڑھیں اور تیسری صورت میں مراد یہ ہے کہ جب تم مسافر ہو تو بھی تمھارا قبلہ کعبہ ہی رہے۔یعنی بہرحال مسلمان کا ہرسجدہ اور اس کی ہر عبادت نہایت درجہ منسلک اور ایک نظام کے ماتحت ہونی چاہیے۔ ان آیات میں یہ بتایا کہ تحویل قبلہ سے دو فائدے یہ بھی ہیں کہ یہودیوں اور مشرکین مکہ کا اعتراض اٹھ گیا۔ یہودی پہلے کہا کرتے تھے کہ مسلمان بھی عجیب ہیں۔ نماز تو ہمارے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھتے ہیں اور ہمارے مذہب کی مخالفت کرتے ہیں۔آیات کے تکرار کا سبب
مشرکوں کا اعتراض تھا کہ دیکھیے دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم مذہب ابراہیمی کے پابند ہیں اور مرکز عبادت بیت المقدس ہے اب جب کہ بیت المقدس سے منہ موڑ کر کعبہ کو قبلہ مان لیا گیا تو دونوں گروہوں کو تشفی ہوگئی۔ پھر اتمام نعمت اور ہدایت ارزانی کا بھی سامان ہوگیا یعنی ساری دنیائے انسانیت کو ایک مرکز پر جمع ہونے کی دعوت دی اور عملاً حج میں اس طرح کے وظائف اور ارکان داخل کیے جنھیں دیکھ کرقلب میں رقت طاری ہوجائے اور اسلام کی حقیقی شان وجدت وانکسار آنکھوں میں پھرجائے۔ جن لوگوں نے حج کے کوائف پر نفسیاتی غورکیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس میںکس قدر بصائرو معارف پنہاں ہیں اور کس طرح ہرنوع کے انسانوں کو چن چن کر اکٹھا کیا ہے اور سب کو ایک خدا کے سامنے جھکادیاہے ۔ لبیک لبیک کی مخلصانہ آوازیں کتنی ایمان پرور اور روح میں نزہت پیدا کرنے والی ہیں۔
۲؎ کَمَا اَرْسَلْنَا سے مقصد یہ ہے کہ کعبہ کی ہادیانہ حیثیت اسی طرح ہے جس طرح ایک رسولﷺ آیات اللہ کی تلاوت کرے اور تعلیم وتزکیہ کے رموز سمجھائے ۔ یا یہ بتانا مقصد ہے کہ تعیین اسی طرح کی ایک نعمت ہے جس طرح کہ ایک خدا کے سابعثت رسولﷺ۔ضمناً یہ بتایا ہے کہ وظیفۂ رسولﷺکیا ہے ۔ یا انبیاء علیہم السلام اور عام مصلحین میں کیا بین امتیاز ہے ؟ وہ یہ کہ عام مصلحین صرف کہتے ہیں ۔ صرف تعلیم دیتے ہیں لیکن انبیاء علیہم السلام تعلیم وتدریس کے ساتھ ساتھ قلوب کو جلا بھی دیتے ہیں جیسے دماغوں کو معارف وحکم سے منور کرتے ہیں، ویسے دلوں کی تاریک دنیا کو بھی اُجالے بخشتے ہیں۔ ان کی نگاہیں علم و معرفت کی سطح پر ہی مرکوز ہوکر نہیں رہ جاتی بلکہ وجدان وطمانیت کی گہرائیوں تک نفوذ کرجاتی ہیں۔ وہ دنیا میں قول وعمل کا ایک بہترین امتزاج ہوتے ہیںیعنی جوامع الکلم کے ساتھ مکارم اخلاق کا اجتماع صرف ان کے ساتھ ہی مخصوص ہوتا ہے ۔وظیفۂ رسالت
{حُجَّۃٌ} اصل معنی دلیل کے ہیں یعنی مراد اعتراض ہے ۔حل لغات