• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اپنے دل سے فتوی لو، مومن کا نفس (روح) بہترین مفتی ہے،

126muhammad

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 26، 2022
پیغامات
69
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
21
وَنَفۡسٍ وَّمَا سَوّٰٮهَا ۙ‏ ﴿7﴾فَاَلۡهَمَهَا فُجُوۡرَهَا وَتَقۡوٰٮهَا ۙ‏ ﴿8﴾


قسم ہے نفس کی اور اسے درست بنانے کی پھر سمجھ دی اسکو بدکاری اور نیکی کی ۔ (القران , سورہ شمس)

عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الأَنْصَارِىِّ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنِ الْبِرِّ وَالإِثْمِ فَقَالَ « الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالإِثْمُ مَا حَاكَ فِى صَدْرِكَ وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ »
’’نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ نیکی عادت کا اچھا ہونا ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو اس بات کو نا پسند جانے کہ لوگ اس پر اطلاع پائیں۔ [مسلم: 14,15]


اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر خیر وشر میں تمیز کا ملکہ پیدا کیا ہے ،اُسے انگریزی میں Conscienceاور اردو میں ضمیر کہتے ہیں ، قرآنِ کریم میں سورۃ القیامہ میں اسے ’’نَفسِ لَوَّامہ‘‘ سے تعبیر فرمایاگیا ہے،اگر انسان کا نفس اور دل گناہوں کے میل سے پاک ہے تو وہ خیر وشر میں تمیز کی کسوٹی ہے ، اسی کو عقلِ سلیم بھی کہتے ہیں،

حضرت وابصہؓ بیان کرتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے ارادہ کیا کہ آج نیکی اور گناہ کے بارے میں سب کچھ پوچھ کر رہوں گا، اس وقت آپ کے اردگرد صحابۂ کرامؓ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی اور وہ اپنے اپنے سوالات پوچھ رہے تھے ،میں اُن کی گردنیں پھلانگ کر آگے بڑھنے لگا تو انہوں نے کہا: وابصہ! رسول اللہ ﷺ سے فاصلے سے رہو، میں نے کہا: مجھے چھوڑو،میں آپ ﷺ کے قریب جانا چاہتا ہوں ، کیونکہ لوگوں میں سے میں جن کی قربت حاصل کروں ، آپ ﷺ مجھے اُن سب کے مقابلے میں زیادہ محبوب ہیں، دریں اثناء خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: وابصہ کو چھوڑو،پھر فرمایا، وابصہ قریب آئو۔وابصہؓ بیان کرتے ہیں : پھر میں قریب ہوکر آپﷺ کے سامنے بیٹھ گیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: وابصہ! میں تمہیں بتائوں (کہ تم کیا پوچھنے آئے ہو)یا تم سوال کرو گے؟میں نے کہا: یارسول اللہﷺ! آپ ہی بتادیجیے ،تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھنے آئے ہو، میں نے عرض کیا: جی ہاں! (ایسا ہی ہے)، حضوراکرم ﷺ نے اپنی انگلیوں کو جمع کر کے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: وابصہ! اپنے دل سے پوچھو، تین مرتبہ فرمایا: اپنے جی سے پوچھا ،(پھر فرمایا:)نیکی وہ ہے جس پر تمہیں قلبی اطمینان ہو اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تمہیں اس کے بارے میں تردُّد ہو(کہ کروں یا نہ کروں)، خواہ لوگ تمہیں (کچھ بھی ) فتویٰ دیتے پھریں، (مسند احمد:18006)‘‘۔

ایک اور حدیث میںہے:’’ابوامامہؓ بیان کرتے ہیں:ایک شخص نے خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ سے پوچھا: گناہ کیا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی چیز تمہارے دل میں کھٹکے تو اُسے چھوڑ دو، اس نے پھر پوچھا: ایمان کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: جب تمہاری برائی تمہیں بری لگے اور تمہاری نیکی سے تمہیں روحانی سرور نصیب ہو، تو (سمجھ لوکہ) تم مومن ہو، (مسند احمد: 22195)‘‘۔

غرض انسان کو اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے ، اپنے ضمیر کو ٹٹولتے رہنا چاہیے، ضمیر اللہ کی وہ نعمت ہے کہ جو انسان کو برائی پر ٹوکتا ہے ،گناہ پر دل میں چُبھن اور کُڑھن محسوس ہوتی ہے ،یعنی گناہ کی طرف قدم بڑھاتے وقت یا گناہ میں مبتلا ہوتے وقت انسانی ضمیر کسی نہ کسی مرحلے پر انسان کو ضرور متنبہ کرتا ہے، خبردار کرتا ہے اور ٹوکتا ہے، اب یہ خود انسان پر منحصرہے کہ اس کی آواز پر کان دھرتا ہے یا نہیں۔

۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کی دو علامات بیان فرمائی ہیں پہلی یہ کہ وہ سینے میں کھٹکتا ہے آدمی کو اس پر تسلی نہیں ہوتی، ایک خیال یہ آتا ہے کہ یہ کام کر لوں اس کی صاف ممانعت تو کہیں نہیں ملتی دوسرا خیال آتا ہے کہ نہیں یہ کام اچھا نہیں اس پر اللہ تعالی ناراض ہو گا، لوگوں میں بد نامی ہو گی یہ کیفیت انسان کو بے چین رکھتی ہے، اسی کا نام گناہ ہے۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےیہ حدیث حفظ کی:
« دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لاَ يَرِيبُكَ فَإِنَّ الصِّدْقَ طُمَأْنِينَةٌ وَإِنَّ الْكَذِبَ رِيبَةٌ » [صحیح الترمذی]
’’ جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ کر وہ چیز اختیار کرو جو تمہیں شک میں نہ ڈالے کیونکہ سچ اطمینان (کا باعث) ہے اور جھوٹ بےچینی (کا باعث) ہے۔‘‘
گناہ کی دوسری علامت یہ بیان فرمائی کہ تمہیں یہ بات ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کام کا علم ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ سبھی لوگوں کا کسی چیز کوبرا جاننا اس بات کی علامت ہے کہ وہ کام گناہ ہے اسی لیے آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اچھے کام لوگوں کو معلوم ہوں اور برے کام معلوم نہ ہوں۔ ریا کی بیماری بھی یہیں سے پیدا ہوتی ہے۔
جب وہ کام گناہ ہیں جن میں شبہ ہو، جن کے جائز اور نا جائز ہونے میں واضح حکم موجود نہ ہو اور جن کے متعلق دل میں کھٹکا ہو تو جو کام صاف الفاظ میں منع کیے گئے ہیں ان کے گناہ ہونے میں کیا شبہ ہے؟
اگر کسی کام کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہو مگر لوگ جہالت کی وجہ سے اسے ناپسند کریں تو لوگوں کی پروا نہیں کی جائے گی۔ مسلمان کی شان یہ ہے:
﴿ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ﴾ [المائدۃ:54]
’’ وہ کسی ملامت گر کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔‘‘
اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں اچھے اور برے کی پہچان رکھ دی ہے۔ اسی لیے عربی میں نیکی کو معروف کہا جاتا ہے کہ اس کام کا اچھا ہونا سب کے ہاں پہچانی ہوئی چیز ہے اور برائی کو منکر کہتے ہیں جس کا معنی ہے:
’’ نہ پہچانی ہوئی چیز‘‘ یعنی فطرت انسانی اس کام کو قبول نہیں کرتی اور نہ پہچانتی ہے۔
 
Top