• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اھلِ حدیث اجماع کے منکر؟

شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عام طور پر اھلِ حدیث پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ اجماع کے منکر ہیں۔
فورم پر موجود دیوبند و بریلویں سے درخواست ہے کہ اگر یہ بات واقعی سچ ہے تو برائے مھربانی اکابرینِ اھلِ حدیث یا دور حاضر کے اھلِ حدیث علماء میں سے کسی کا حوالہ دیں کے انھوں نے انکار کیا ہو اجماع کا!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چند اہل حدیث علماء یہ سمجھتے ہیں کہ اجماع چونکہ کسی نہ کسی دلیل کی بنیاد پر ہوتا ہے ، اس لیے اصل دلیل کو لینا چاہیے ، اجماع کی کوئی ضرورت نہیں ، لیکن اکثر اہل حدیث علماء اجماع کی حجیت کے قائل ہیں ۔ بلکہ قیاس ( صحیح ) کو بھی مانتے ہیں ۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,981
پوائنٹ
323
السلام علیکم ورحمۃ اللہ شیخ اجماعِ صحابہ اور اجماعِ امت میں سے کون سا اجماع حجت ہے یا دونوں ہی حجت نہیں ہیں؟ اور اگر حجت ہیں تو کیا مطلقاً حجت ہیں؟
الجواب بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب والیہ المرجع والمآب
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

۱۔ کوئی بھی اجماع " حجت " نہیں ہوتا ! یعنی اجماع کو دلیل بنا کر مسائل کا استنباط و استخراج نہیں کیا جا سکتا !

۲۔ اجماع کی تعریف اہل فن نے یہ کی ہے کہ : کسی بھی دور کے تمام تر مجتہدین کتاب وسنت کی کسی نص سے مستنبط مسئلہ پر متفق ہو جائیں تو وہ اجماع کہلاتا ہے ۔ لیکن اپنی اس تعریف کے مطابق اجماع کو آج تک کوئی ثابت نہیں کرسکا ہے , ہاں دعوے اجماع کے بہت سوں نے کیے ہیں ۔ مگر ہر دعوائے اجماع کی بنیاد اجماع سکوتی پر ہے , جبکہ اجماع سکوتی کا سبھی انکار کرتے ہیں سوائے چند ایک لوگوں کے ۔ اجماع سکوتی یہ ہوتا ہے کہ چند مجتہدین امت نے ایک مسئلہ مستنبطہ از کتاب وسنت پر اتفاق کیا اور باقیوں کا اتفاق یا اختلاف معلوم نہ ہوا تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ باقیوں نے سکوت یعنی خاموشی اختیار کی ہے چونکہ انکی خاموشی اقرار ہی ہے لہذا اجماع ہو گیا ۔

۳۔ آج کے دور میں ایک طبقہ ایسا بھی پیدا ہوا ہے کہ جو اجماع کے لیے کتاب وسنت کی دلیل کو ضروری نہیں سمجھتا , وہ کہتے ہیں قرآن وحدیث میں ایک مسئلہ کی دلیل ہو یا نہ ہو اگر علماء ایک مسئلہ پر جمع ہو جائیں تو وہ اجماع ہے اور پھر وہ اسے مستقل بالذات حجت مانتے ہیں ۔ اور یہ بہت بڑی منہجی گمراہی ہے ۔ الغرض " اجماع " کی ذاتی کوئی حیثیث نہیں ! , وہ کتاب وسنت کی دلیل کا محتاج ہے , مگر اجماع اپنی شروط سمیت آج تک ثابت نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا ہو سکتا ہے , کون ہے جو دنیا بھر کے تمام تر مجتہدین امت کا کسی مسئلہ پر اتفاق نقل کرے ؟؟؟ جن لوگوں نے اجماع پر کتب لکھی ہیں انہوں نے بھی " اکثریت " کے اتفاق کو اجماع سے تعبیر کیا ہے ۔

مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-swal-253.html
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ایک ہے ’’ مثبت شرع ‘‘ وہ سوائے قرآن وسنت کے اور کچھ نہیں۔
دوسرا ہے ’’ مظہر شرع ‘‘ اس میں اجماع بھی آتا ہے ۔
اگرچہ اجماع بذاتہ کوئی دلیل نہیں ، لیکن چونکہ اجماع کی بنیاد کتاب وسنت میں سے کسی پر ہوتی ہے ، اس لیے اس کو حجت کہا جاتا ہے ۔
باقی وقوع اجماع کا انکار کرنا ، اس بات کا دعوی ہے کہ آج تک امت مسلمہ کسی بات پر اکٹھی نہیں ہوسکی ۔
ہمارے نزدیک ’’ اجماع ‘‘ کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جن مسائل میں قرآن وسنت کی نصوص کے ساتھ ساتھ اجماع بھی قائم ہو چکا ہے ، ان نصوص کی معنوی تحریف کرتے ہوئے کوئی اپنی خانہ ساز تشریح نہیں کرسکتا ۔
صبح کی دو ، ظہر ، عصر ، عشاء کی چار اور مغرب کی تین رکعات فرض ہیں ، اس پر امت مسلمہ کا اجما ع ہے ۔ کوئی ادھر ادھر کی باطل تاویلات کے ذریعے ان رکعات کی تعداد میں کمی بیشی نہیں کرسکتا ۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,981
پوائنٹ
323
صبح کی دو ، ظہر ، عصر ، عشاء کی چار اور مغرب کی تین رکعات فرض ہیں ، اس پر امت مسلمہ کا اجما ع ہے ۔ کوئی ادھر ادھر کی باطل تاویلات کے ذریعے ان رکعات کی تعداد میں کمی بیشی نہیں کرسکتا ۔
کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن پر ا جماع ناگزیر ہوتا ہے , اور حقیقت میں وہ اجماع کی مذکورہ تعریف کے مطابق اصطلاحی اجماع نہیں ہوتا کیونکہ زمانہ نبوت سے ہی ان پر اتفاق چلا آتا ہے , جبکہ اجماع زمانہ نبوت کے بعد کتاب وسنت کی نص سے مستنبط کسی مسئلہ پر مجتہدین امت کے اتفاق کا نام ہے۔ مثلا بعض لوگ کہتے ہیں کہ ثابت شدہ اجماعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر دن رات میں صرف پانچ نمازیں فرض ہیں ۔ پانچ نمازوں کی فرضیت پہ اتفاق کو اجماع سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ واضح نصوص کے ساتھ ثابت ہے اور دور نبوی میں بھی اس بارہ میں کوئی اختلاف نہ تھا۔

مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-swal-608.html
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن پر ا جماع ناگزیر ہوتا ہے , اور حقیقت میں وہ اجماع کی مذکورہ تعریف کے مطابق اصطلاحی اجماع نہیں ہوتا کیونکہ زمانہ نبوت سے ہی ان پر اتفاق چلا آتا ہے , جبکہ اجماع زمانہ نبوت کے بعد کتاب وسنت کی نص سے مستنبط کسی مسئلہ پر مجتہدین امت کے اتفاق کا نام ہے۔ مثلا بعض لوگ کہتے ہیں کہ ثابت شدہ اجماعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر دن رات میں صرف پانچ نمازیں فرض ہیں ۔ پانچ نمازوں کی فرضیت پہ اتفاق کو اجماع سے تعبیر کرنا درست نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ واضح نصوص کے ساتھ ثابت ہے اور دور نبوی میں بھی اس بارہ میں کوئی اختلاف نہ تھا۔
لیکن آپ کی یہ تحریر پہلی تقریر سے مطابقت نہیں رکھتی :
۲۔ اجماع کی تعریف اہل فن نے یہ کی ہے کہ : کسی بھی دور کے تمام تر مجتہدین کتاب وسنت کی کسی نص سے مستنبط مسئلہ پر متفق ہو جائیں تو وہ اجماع کہلاتا ہے ۔ لیکن اپنی اس تعریف کے مطابق اجماع کو آج تک کوئی ثابت نہیں کرسکا ہے , ہاں دعوے اجماع کے بہت سوں نے کیے ہیں ۔ مگر ہر دعوائے اجماع کی بنیاد اجماع سکوتی پر ہے , جبکہ اجماع سکوتی کا سبھی انکار کرتے ہیں سوائے چند ایک لوگوں کے ۔ اجماع سکوتی یہ ہوتا ہے کہ چند مجتہدین امت نے ایک مسئلہ مستنبطہ از کتاب وسنت پر اتفاق کیا اور باقیوں کا اتفاق یا اختلاف معلوم نہ ہوا تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ باقیوں نے سکوت یعنی خاموشی اختیار کی ہے چونکہ انکی خاموشی اقرار ہی ہے لہذا اجماع ہو گیا ۔
 
Top