اہلحدیث کا منہج و عقیدہ !!!
(21) تقدیر پر ایمان رکھنا:اس طرح سے کہ اچھی اور بری تقدیر سب اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ تعالی کسی رونما ہونے والے واقعے کا پہلے سے علم رکھتاہے اور ہر چیز کو اس نے پہلے سے لوح محفوظ میں ثبت کررکھاہے،ہر چیز کا خالق ہے،جو چاہتاہے کر گزرتاہے۔
(22 ) ایمان بالغیب:صحیح دلائل سے ثابت شدہ تمام غیب کی خبروں پر بلا تاویل ایمان رکھنا،مثلاً عرش،کرسی،جنت،دوزخ،قبر کا کسی کے حق میں نعمت اور کسی کے حق میں عذاب ہونا،پل صراط اور ترازو کا نصب ہونا،(غرض) ان سب پر ایمان رکھنا۔
(23 ) شفاعت محشر:قیامت کے روز محمدﷺ کی شفاعت اور باقی انبیاء،ملائکہ اور صالحین کی شفاعت پر صحیح دلائل سے ثابت شدہ تفصیل کے مطابق ایمان رکھاجائے۔
(24 ) بروز قیامت اللہ کا دیدار:قیامت کے دن جنت اور میدان حشر میں اہل ایمان کا اللہ رب العزت کو دیکھنا بر حق ہے۔جو اس کا انکار کرتاہے یا تاویل کرتاہے وہ بھٹکا ہوا اور گمراہ ہے۔
(25 )کرامت اولیاء:اولیاء اللہ کی کرامتیں بر حق ہیں مگر ہر خرق عادت(عام قانون سے ہٹا ہوا) کام کرامت نہیں ہوتا، وہ شعبدہ بھی ہوتاہے،کرامت پابندِ شریعت سے رونما ہوتی ہے اور شعبدہ، فاسق وفاجر سے۔(کرامت، دنیا کے طبیعی قوانین کے خلاف(معجزے کی طرح) واقع ہونے والا وہ عمل ہے جو اللہ کے کسی نیک اور صالح بندے سے صادر ہوتاہے،جبکہ معجزے کا صدور صرف انبیاء علیہم السلام سے ہوتاہے۔ معجزے اور کرامت میں دوسرا فرق یہ ہے کہ نبی علمِ وحی کی بنا پر معجزے کا دعویدار ہوتاہے،جبکہ ولی کسی کرامت کا دعوی نہیں کرسکتا،کیونکہ اسے نہ وحی آتی ہے ،نہ علم غیب ہی ہوسکتا ہے،بلکہ عام لوگوں کی طرح اُسے بھی کرامت کا پتہ اس کے وقوع ہونے کے بعد ہی چلتاہے۔ معجزے اور کرامت میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں اللہ کے افعال ہونے کے ناطے صرف اسی کے اذن(مرضی) سے ہی وقوع پذیر ہوسکتے ہیں، چنانچہ جس طرح نبی معجزے کے ظہور میں اپنا کوئی اختیار نہیں رکھتا،اسی طرح ولی بھی کرامت ظاہر کرنے میں بے اختیار وبے بس ہوتاہے۔
( 26) ولایت:تمام اہل ایمان اللہ تعالی کے ولی ہیں۔ہرمومن میں یہ ولایت اس کے ایمان(کے درجے) مطابق ہوتی ہے۔
(27)توحید الوہیت:اللہ تعالی اکیلا اور یکتاہے،عبادت میں،کائنات کے انتظام وانصرام میں اور اس کے اسماء حسنی اور صفات میں اس کا شریک نہیں، وہ تمام جہانوں کا تنہا پر وردگارہے اور ہرقسم کی عبادت کا اکیلا مستحق ہے۔
(28 ) دعا کرنا،مصیبت کے وقت پکارنا،مدد مانگنا، نذرانہ پیش کرنا، ذبیحہ دینا،توکل کرنا، ڈرنا، امید رکھنا اور محبت کرنا،اسی طرح کسی قسم کی کوئی عبادت غیر اللہ کے لیے بجالانا شرک ہے،خواہ مقرب فرشتے انبیاء ورسل اور صالحین وغیرہ ہی کیوں نہ ہوں۔
(29 )عبادت:محبت،خوف اور امید کی ملی جلی کیفیت کا نام ہے لہٰذا اللہ کی ایسے ہی عبادت کی جائے ،اس سلسلہ میں علماء کرام یہ اصول بیان فرماتے ہیں:جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ کی عبادت صرف اس کی محبت ہے وہ زندیق ہے، جو صرف ڈر اور خوف کے مارے عبادت کرتاہے وہ حروری(خارجی)ہے،اور جو عبادت کا مطلب صرف خوش امیدی سمجھتاہے وہ مرجئی ہے۔
(30 ) تسلیم ورضا اور مطلق اطاعت فقط اللہ تبارک وتعالی اور اس کے رسولﷺ کے لیے رواہے،اللہ تعالی کو رب،(الہ) ماننے میں اس کا حاکمِ اعلی ہونا بھی شامل ہے،اس کے اتارے ہوئے قوانین اور فیصلوں میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ایسے قوانین بنانا جن کے بنانے کا اس نے حکم نہیں دیاہے،طاغوت سے فیصلے کروانا، شریعت محمدیہ کے علاوہ کسی اور قانون کو قابل اتباع سمجھنا اور شریعت میں کمی وبیشی جیسے کام کرنا،یہ سب کچھ کفر ہے،اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ کوئی ہستی شریعت کے قانون سے آزاد ہے، وہ کافر ہے۔
(31 ) اللہ تعالی کے نازل کردہ قانون کے علاوہ کسی قانون کے ذریعے فیصلہ کرنا کفر اکبر(ایسا کفر جو اسلام سے خارج کردے) ہے،البتہ بعض اوقات کفر اصغر(ایسا کفر، جو کفراکبر کے لیے ذریعہ بنے) بھی ہوتاہے، کفر اکبر یہ ہے کہ اللہ تعالی کی شریعت کے علاوہ کسی اور شریعت کے تحت فیصلے کیے جائیں یا غیر اللہ کا قانون روارکھاجائے۔ کفر اصغر میں شریعت، اسلامی ملک میں جاری وساری ہوتی ہے وہی قانون کا ماخذ بھی ہوتی ہے۔لیکن کسی(خاص) واقعہ میں فیصلہ کرنے والا خواہش نفسانی کی وجہ سے خلاف شریعت فیصلہ صادر کرتاہے(تاہم فیصلہ کرنے والا اس میں بنیاد شریعت ہی کو بناتا ہے، اگر چہ بنیاد مرجوح دلائل اور ضعیف روایت واقوال پر ہوتی ہے۔)
( 32) دین کو شریعت اور طریقت میں اس طرح تقسیم کرنا کہ اول الذکر عوام کے لیے اور ثانی الذکر خواص کے لیے ہو،نیز سیاست ومعیشت یا کسی شعبہ زندگی کو دین سے جدا سمجھنا باطل اور حرام ہے بلکہ وہ ہر چیز جو شریعت کے خلاف ہو حسب مرتبہ کفر یا گمراہی میں سے کوئی ایک ضرور ہوگی۔
(33 ) عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس کے برعکس عقیدہ رکھنا کفر ہے۔ البتہ اللہ تعالی اپنے رسولوں کو جس قدر چاہتاہے امور غیب میں سے مطلع فرماتاہے۔(یعنی اللہ نے کسی نبی میں غیب کی باتیں جاننے کی کوئی صفت نہیں رکھی،البتہ جب چاہا،انھیں وحی کے ذریعے ضروری غیب کی باتیں بتائیں، اور جب چاہا غیب کی بہت سی باتوں کو ان سے پوشیدہ رکھا۔
(34 ) نجومیوں اور کاہنوں کی تصدیق کرنا کفر ہے اور ان سے راہ ورسم رکھنا کبیرہ گناہ ہے۔
(35 ) جس وسیلہ کا قرآن میں ذکر ہے اس سے مراد اطاعت وفرماں برداری کے ذریعے قرب الٰہی کا حصول ہے،وسیلے کی تین اقسام ہیں:
(الف)جائز:اللہ تعالی کی طرف اس کے اسماء وصفات کو وسیلہ بنانا یا اپنے کسی نیک عمل یا کسی بقید حیات بزرگ کی دعا کو وسیلہ بنانا مباح ہے۔
(ب) بدعت:ایسی چیز کو وسیلہ بنانا جو شرعی دلیل سے ثبت نہ ہو بدعت ہے مثلاً انبیاء وصالحین کی ذات یا ان کی بزرگی کو وسیلہ بنانا۔
(ج) شرک:کسی فوت شدہ بزرگ کی وساطت سے عبادت کرنا یا اس سے دعا کرنا،اسے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا۔
(36 ) برکت:برکت صرف اللہ تعالی کی جانب سے ہوتی ہے، اللہ تعالی اپنی جس مخلوق میں چاہتاہے برکت فرمادیتاہے، بر کت سے مراد خیر کی کثرت اور زیادتی اور اس کی ہمیشگی ہے، کسی چیز کے باعث برکت ہونے کے لیے شرعی دلیل ضروری ہے،اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے جو باعث بر کت ہیں ان میں شب قدر کو وقت کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہے، مقامات میں تین مساجد بیت اللہ، مسجد نبوی اور مسجد اقصی فضیلت والی ہیں، اشیاء میں آب زمزم باعث بر کت ہے،اعمال میں ہر نیک عمل مبارک ہے،اور اشخاص میں بابرکت انبیاء ہوتے ہیں۔کسی شخص کی ذات یا اس کی جسمانی یا استعمال شدہ چیزوں سے تبرک حاصل کرنا ناجائزہے ماسوائے نبی ﷺ کی ذات کے،کیونکہ نبی ﷺ کے علاوہ یہ خصوصیت کسی اور شخص کے لیے ثابت نہیں ہے ،اور آپﷺ کی وفات اور ماثورات کے بعد اس کا سلسلہ منقطع ہو گیاہے۔
( 37) تبرک کس طرح حاصل ہوگا اس کا تعین ہم نہیں شریعت کرے گی لہٰذا جس چیز کے باعث برکت ہونے کی دلیل نہ ہو،اس سے حصول تبرک ناجائز ہے۔
(38 ) قبروں کی زیارت اور ان کے پاس جو لوگ اعمال کرتے ہیں وہ حسب ذیل تین اقسام کے ہوتے ہیں:
(الف) جائز:آخرت کی یاد کے لیے،اہل قبور کو سلام کرنے اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے کے لیے جانا۔
(ب) بدعت:جو امور توحید کی روح کے منافی اور شرک کا سبب ہیں جیسے قبر پر عبادت بجالانے کو تقرب الٰہی کا ذریعہ سمجھنا ،ان قبروں سے برکات حاصل کرنا یا ثواب بخشانا یا ان کو پختہ بنا نا اورمزار کی شکل دینا،ان کو رنگ وروغن کرنا،ان پر چراغ جلانا یا ان پر چادریں چڑھانا، انھیں عبادت گاہ بنانا اور ان کی طرف رخت سفر باندھنا بدعت کے کام ہیں۔ یہ ایسے اعمال ہیں جن کی بابت نبیﷺسے ممانعت ثابت ہے ، یا پھر ثواب کی خاطر ایسے اعمال کرنے کا ثبوت شریعت میں نہیں ہے۔
(ج) شرک:زیارت کا یہ طریقہ توحید کے منافی ہے، ایسی زیارت میں عبادات کی مختلف شکلیں شامل ہوتی ہیں،مثلاً زائر کا صاحب قبر کو پکارنا، اسے غوث سمجھنا،فریاد کرنا، مدد مانگنا،قبر کے گرد طواف کی طرح چکر لگانا،اس کے نام کا چڑھاوا دینا اور نذر ونیاز ماننا۔
(39 ) اسلامی قانون کے مطابق جو حکم کسی خاص چیز کا ہوتاہے وہی اس کے ذرائع اور طریقہ کار کے اختیار کر نے کا بھی ہوتاہے(یعنی جو چیز خود حرام ہو، اس تک پہنچانے والے تمام ذرائع اور راستے بھی حرام ہوتے ہیں) لہٰذا اللہ تعالی کی عبادت میں شرک کے ہر ذریعہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو تو ہر بدعت کو رائج نہ ہونے دینا ضروری ہے کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے۔
(40) ایمان:ایمان قول وعمل کے مجموعے کا نام ہے جس میں اطاعت اور معصیت (نافرمانی) کے اعتبار سے کمی وبیشی واقع ہوتی ہے ۔قول سے دل اور زبان دونوں کا اقرار اور عمل سے مراد،زبان اور اعضاء کا فعل ہے، سچائی اور پختہ یقین دل کا قول ہے اور زبان سے اظہار واقرار زبان کا قول ہے۔ اسی طرح عمل سے دل،زبان اور بدنی عبادتیں سب کا ہم آہنگ عمل مراد ہے۔دل کے عمل میں رضا ورغبت،اخلاص اور سچی محبت کے ساتھ فرماں برداری پر کار بند رہنا شامل ہے ،اسی طرح نیک اعمال کے لیے اردہ کرنا بھی دل کا عمل ہے،جسمانی اعضاء کا عمل وہ بدنی عبادات ہیں جن کا حکم دیا گیا ہے نیز جن امور سے اجتناب (پرہیز) کرنے کا حکم ہے ان سے بچنا بھی اعضاء کا عمل ہے۔