امامِ کعبہ کا فکر انگیز خطاب
پیر 9 رجب 1436هـ - 27 اپریل 2015م
انور غازی
’’اسلام میں تعصب اور منافرت کی کوئی گنجائش نہیں۔ بعض لوگ تشدد کے ذریعے دینِ اسلام کے تشخص کو مسخ کررہے ہیں۔ اسلام دُشمن قوتیں دینِ اسلام کو متشدد مذہب کے طور پر پیش کرتی ہیں، حالانکہ اسلام رحمت اور درگزر کا دین ہے جو کسی کو زبردستی دینِ اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہیں کرتا۔ معیشت سمیت تمام معاملات میں قرآن و سنت سے راہنمائی لی جائے۔ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں۔ تفرقے میں نہ پڑیں۔ ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھیں۔‘‘ یہ الفاظ امام کعبہ جناب شیخ خالد الغامدی کے ہیں جو انہوں نے لاہور میں خطبۂ جمعہ میں کہے۔مغرب کی طرف سے اسلام پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو تشدد پر اکساتا ہے۔ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے اور جہادی نظریہ اس کی واضح علامت ہے۔
جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے، یہ تاریخ مسخ کرنے والے اعتراضات ہیں۔ اگر آپ اسلام کی تاریخ پر سرسری سی نظر بھی ڈالیں تو احساس ہوگا کہ آغاز ہی سے اسلام کی روشنی دنیا کے کونے کونے میں پھیلنا شروع ہوئی۔ پھر موجودہ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر یورپ، افریقہ اور سینٹرل ایشیا تک مسلمان سلطنتیں قائم ہوئیں۔ اگر ہر طرف اسلام کا ڈنکا بجنے لگا تو اس عروج میں بنیادی عنصر مسلمان کا اپنا کردار تھا۔ مسلمان جہاں جہاں گئے وہاں اپنے ساتھ سچائی، احترام انسانیت، ایمان داری، انصاف، مساوات،حیا،محبت،فراخدلی اور خداترسی کا پیغام لے کر گئے۔ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جہاں کہیں گئے چند صدیوں میں اکثریت بن گئے۔ انہوں نے اپنے مثالی قول وعمل اور کردار سے دوسروں کو بھی متاثر کیا۔ آپﷺ نے سو سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں، لیکن ان 100 سے زائد جنگوں میں مسلمانوں اور کفار کے صرف ایک ہزار 18 افراد قتل ہوئے۔
1492ء میں اسپین میں اسلامی حکومت ختم ہوئی۔ ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو مذہبی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان میں تقریباً 30 ہزار کو سزائے موت ملی اور 12000 کو زندہ جلادیا گیا۔ جنگِ عظیم اول میں دو کروڑ اور جنگِ عظیم دوم میں 5 کروڑ سے زائد انسان تہ تیغ ہوئے۔ 1945ء میں جاپان کے دو شہروں ’’ہیروشیما اور ناگاساکی‘‘ پر امریکہ نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایٹم بم گرائے۔ اس بربریت سے چشم زدن میں دو لاکھ افراد پانی کے بلبلے کی طرح پگھل کر رہ گئے۔ کوئی چرند پرند نہیں بچا تھا۔ جو لوگ بچ گئے تھے وہ زندہ درگور تھے۔ 2001ء کے بعد افغانستان میں 6 لاکھ اور 2003ء کے بعد سے عراق میں 12 لاکھ عراقیوں کو بے دردی سے مارا جاچکا ہے، جبکہ اسلامی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ مسلمانوں نے جب بھی علاقے فتح کئے، وہاں کے لوگوں خصوصاً خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا اسلام درگزر کا درس دیتا ہے چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا تھا: آج سب کو معاف کردیا گیا ہے۔
اپنی جان کے پیاسوں تک کو معاف کردیا۔ ہندہ، جس نے آپﷺ کے چچا حضرت امیر حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا، آپ نے اس کو بھی معاف کردیا۔ وحشی جس نے حضرت امیر حمزہ کو بے دردی سے قتل کیا تھا، آپ نے اس کو بھی معاف کرنے کے بعد صرف اتنا کہا: ’’میرے سامنے نہ آنا کیونکہ مجھے میرے چچا یاد آجاتے ہیں۔‘‘ یہ اسلام ہی تو ہے جس نے غیروں کی بھی حفاظت کا نہ صرف حکم دیا بلکہ عمل کرکے بھی دکھایا۔ فارس جب فتح ہوا تو بادشاہ نوشیروان کی بیٹی بھی مالِ غنیمت کے ساتھ گرفتار کرکے لائی گئی۔ اسے جب دربارِ نبوی میں پیش کیا گیا تو ان کے سر پر ڈوپٹہ نہیں تھا۔ آپ نے حکم دیا: ان کے سر پر ڈوپٹہ رکھا جائے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! یہ تو مسلمان نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے خواہ کسی کی بھی ہو۔‘‘ انسان تو انسان حیوانوں کے ساتھ بھی اسلام نے اعلیٰ برتائو کیا۔ وہ واقعہ تو سب کو یاد ہوگا ایک اونٹ نے آپﷺ کے قدموں میں سر رکھ کر اپنے مالک کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کا مالک اس سے کام زیادہ لیتا ہے اور اسے گھاس کم دیتا ہے۔ اسکے بعد آپ نے جانوروں کے حقوق بھی بیان فرمائے۔ مغرب میں جمہوریت کے بڑے دعوے کئےجاتے ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت اور شورائیت بھی تو اسلام کی عطا کردہ ہے۔
اس کے ذریعے تو مسلمانوں کے خلیفہ کا انتخاب کیا گیا تھا۔ یہی تو قرآن کا حکم ہے اسلام ہی نے ’’مجلسِ شوریٰ‘‘ (پارلیمنٹ) کا حکم دیا۔ جس کو اندازِ حکمرانی اسلام اور مسلمانوں نے سکھائی آج وہ ہی اسلام اور مسلمانوں کو غیر مہذب، شدت پسند، دہشت گرد کہہ رہے ہیں۔امریکہ اور یورپ نے تو کل ترقی کی ہے۔ اسکی ترقی کے جو اسباب ہیں، وہ ہیںجو اسلام نے عطا کئے۔ تعلیم، انصاف، شورائیت، مساوات، جدید ٹیکنالوجی کا حصول، محنت ومشقت، غریب پروری، عدل۔ یہ سب وہ احکام ہیں جن پر عمل کرکے مغرب نے ترقی کی ہے۔ جدید علوم جن کی وجہ سے مغرب اوجِ ثریا پر پہنچا ہے۔ ان میں سے اکثر کی بنیادوں میں مسلمان ہی ہیں۔ بوعلی سینا، ابوریحان البیرونی، موسیٰ الخوارزمی، الفارابی، یعقوب الکندی، ابن الہیثم، ابن خلدون، ضیاء الدین ابن بیطار اور حکم عمر خیام جیسے بیسیوں مسلمان ہیں جنہوں نے جدید علوم روشناس کرائے۔
طب وصحت ہو یا سائنس، ریاضی ہو یا فلکیات ہر جگہ مسلمان ہی نظرآتے ہیں۔ مغرب کو اندازِ جہاں بانی، صحرانشیں اور سادہ منش مسلمانوں ہی نے تو سکھائے ہیں۔ مسلمانوں کا حکمراں رعایا کی خبر گیری کیلئے راتوں گلیوں میں چکر لگایا کرتا تھا۔ اپنی کمر پر سامان لادکر غریبوں کے گھر پہنچاتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا تھا:’’اگر دریائے فرات کے کنارے بھوکا پیاسا بکری کا بچہ بھی مرجاتا ہے تو اس کا ذمہ دار میں ہوں۔‘‘ رسول اکرمﷺ نے اُمت کو ایک جسم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے جسم کے کسی بھی حصے میں تکلیف ہو اس کا درد پورا جسم محسوس کرتا ہے۔ اُمت کے اس تصور کو مسلمانوں نے جس طرح جذب کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اُمت کے اس تصور سے مزاج میں ایک آفاقیت اور ایک بین الاقوامیت پیدا ہوتی ہے۔ مذہبی رواداری کا فروغ اور تمام مذاہب کا احترام ہونا چاہئے اور یہ بات بھی مدِّ نظر رہنی چاہئے کہ اسلام برحق مذہب ہے اور تاقیامت یہی رہیگا۔ اسلام کا مبینہ دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ ہی اسلام صرف تلوار اور طاقت کے زور پر پھیلا ہے۔
ہاں! اس بات پر اسلام اور مغرب سب متفق ہیں جو اعلیٰ انسانی اقدار اور روایات معاشرے کیلئے مفید ہوں اور اسے فلاح ونجات کی طرف لے جاتی ہوں اس کیلئے طاقت کے استعمال کی ضرورت ہے اوراسکے جواز پر کسی کا کوئی اختلاف نہیں، البتہ اعلیٰ انسانی اقدار کے تعین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہی دیگر مذاہب میں سے ایک ایسا مذہب ہے جو تمام فطری، معاشرتی اور سماجی تقاضوں کو کماحقہٗ پورا کرتا ہے۔ اسی کے طرف امام کعبہ نے اپنے اس خطبے میں اشارہ کیا ہے۔امام کعبہ نے اپنے اس خطبے میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ وہ تفرقے میں نہ پڑیں۔ کاش! مسلم دنیا امام کعبہ کی آواز سنے اور اس پر لبیک کہے، کیونکہ آج جو مسلمان پستی اور ذلت کا شکار ہیں اس کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کا آپس کے اختلافات ہی ہیں۔ عالم اسلام کے 58ممالک اور اس کے حکمرانوں میں اتحاد نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی بھی ملک کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی حریف ہیں۔ حزبِ اقتدار اور اختلاف میں ذاتی دشمنیاں اور عناد ہیں۔ دینی اور مذہبی جماعتوں، اداروں اور رہنمائوں میں اتنا اختلاف ہے کہ ایک دوسرے کو منافق، ملحد اور ایجنٹ ہونے کے القاب سے نوازتے ہیں۔
صوبائیت، لسانیت، قومیت اور وطنیت کے جھگڑے ہیں۔ مسلمان مسلمان کا ہی گلا کاٹ رہا ہے۔ مسلمان ملکوں میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر حملے ہورہے ہیں۔ ایک اللہ، ایک نبی اور ایک قرآن کے ماننے والے ایک دوسرے کے جانی اور ازلی دشمن معلوم ہوتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اتفاق واتحاد پر دیا گیا ہے۔ آپس میں محبت، اخوت، بھائی چارہ، ایمان، اتحاد اور یقین مسلمانوں کا موٹو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں حکم فرمایا تھا: ’’دیکھو! باہمی اختلافات میں نہ پڑنا۔‘‘ قرآن میں ہے ’’اختلاف ہرگز ہرگز نہ کرو۔‘‘ تاریخ اُٹھاکر دیکھیں اختلاف ہی کی وجہ سے بڑے نقصانات اُٹھانا پڑے ہیں۔ اختلافات ہی کی وجہ سے مسلمان ممالک تنزلی کا شکار ہیں۔
بہ شکریہ روزنامہ "جنگ"