ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
اہلِ بدعت کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین اور آئمہ کا طرزِ عمل
1 ۔ ابو داؤد اور ترمذی نے مجاہد رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنھما کے ساتھ ایک مسجد میں گیا۔ وہاں اذان ہو چکی تھی۔ ابھی ہم نماز کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ مؤذن نے الصلوٰۃ الصلوٰۃ کے الفاظ سے تثویب شروع کی۔ ابن عمر رضی اللہ عنھما نے مجاہد سے فرمایا ۔ اُخرج بنا من عند ھذا المبتدع ’’ ہمیں اس بدعتی کے پاس سے باہر لے چلو‘‘ اور ابن عمر رضی اللہ عنھما نے اس مسجد میں نماز نہیں پڑھی ۔ مجاہد کا بیان ہے
انما کرہ عبداللّٰہ بن عمر ؓرضی اللہ عنھما التثویب الذی احدثہا الناس بعد
( سنن أبي داود » كتاب الصلاة » باب في التثويب ، سنن الترمذي » كتاب الصلاة » أبواب الأذان » باب ما جاء في التثويب في الفجر)’’
گویا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے اس مکرر اعلان کو جو لوگوں نے بعد میں جاری کیا تھا برا سمجھا‘‘ ۔
2 ۔ نافع رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ایک شخص کو جو ابن عمر رضی اللہ عنھماکے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ چھینک آئی۔ اس شخص نے کہاالحمد للہ والسلام علی رسول اللہ‘‘ہر تعریف اللہ کے لئے ہے اور رسول اللہ پر سلام ہو ۔
یہ سن کر ابن عمر رضی اللہ عنھما نے فرمایا : وانا اقول الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ ولیس ھکذا علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علمنا ان نقول الحمد للہ علی کل حال۔
( الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 2738 خلاصة حكم المحدث: حسن)’’
میں بھی کہتا ہوں الحمدللہ اور السلام علی رسول اللہ لیکن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح تعلیم نہیں دی بلکہ ہمیں تو یہ تعلیم دی ہے کہ ہم ہر حال میں الحمدللہ کہیں ‘‘۔
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جسے چھینک آئے وہ الحمد للّٰہ کہے مگر اس موقع پر والسلام علی رسول اللہ کے الفاظ کی نبی کریم نے کوئی تعلیم نہ فرمائی تھی۔ اس لئے ابن عمر رضی اللہ عنھما نے اس پر انکار کیا۔
3 ۔ انہی ابن عمر رضی اللہ عنھمانے لوگوں کو سفر میں فرائض کے بعد سنتیں پڑھتے دیکھا تو فرمایا : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ (سفر میں بہت) رہا ہوں مگر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں سنتیں پڑھتے کبھی نہیں دیکھا اور اللہ تعالیٰ (سورۃ الممتحنہ میں) فرماتا ہے کہ “ بیشک تم لوگوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال میں ایک بہترین نمونہ ہے۔”
صحیح بخاری نماز کا قصر کا بیان باب : سفر میں فرض نماز کے بعد سنتیں نہ پڑھنا۔
4 ۔ رأى عمارة بن رويبة بشر بن مروان وهو يدعو في يوم جمعة فقال عمارة قبح الله هاتين اليدين قال زائدة قال حصين حدثني عمارة قال لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر ما يزيد على هذه يعني السبابة التي تلي الإبهام
عمارۃ بن روبیہ رضی اللہ عنہ نے بشر بن مروان کو خطبہ کے دوران منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو سخت لہجہ میں فرمایا :’’اللہ تعالی یہ دونوں ہاتھ توڑ دے ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ اس سے زیادہ نہ کرتے اور پھر انہوں نے اپنی انگشت شہادت کی جانب اشارہ کیا ۔ یعنی اس سے زیادہ نہ اٹھاتے‘‘۔
سنن أبي داود » كتاب الصلاة » تفريع أبواب الجمعة » باب رفع اليدين على المنبر
5 ۔ عمرو بن یحیی اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا کا بیان نقل کرتے ہیں ایک مرتبہ ہم صبح کی نماز سے پہلے سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لاتے تو ہم ان کے ساتھ چلتے ہوئے مسجد تک آیا کرتے تھے اسی دوران سید نا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لے آئے اور دریافت کیا کیا سید نا ابوعبدالرحمن (حضرت عبداللہ بن مسعود) رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے۔ ہم نے جواب دیا نہیں تو سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ ہمارے ساتھ بیٹھ گئے یہاں تک کہ سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے جب وہ آئے تو ہم سب اٹھ کران کے پاس آگئے سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمن رضی اللہ عنہ آج میں نے مسجد میں ایک ایسی جماعت دیکھی ہے جو مجھے پسند نہیں آئی اور میرا مقصد ہر طرح کی حمد اللہ کے لیے مخصوص ہے صرف نیکی ہےسید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا وہ کیا بات ہے سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے جواب دیاشام تک آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ حلقے بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور نماز کا انتظار کر رہے ہیں ان میں سے ہر ایک حلقے میں ایک شخص ہے جس کے سامنے کنکریاں موجود ہیں اور وہ شخص یہ کہتا ہے سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو۔ تو لوگ سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔ پھر وہ شخص کہتا ہے سو مرتبہ لاالہ الا اللہ پڑھو تو لوگ سو مرتبہ یہ پڑھتے ہیں پھر وہ شخص کہتا ہے سومرتبہ سبحان اللہ پڑھو تو لوگ سبحان اللہ پڑھتے ہیں سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا آپ نے ان سے کیا کہاسید نا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں نے آپ کی رائے کا انتظار کرتے ہوئے ان سے کچھ نہیں کہا۔ سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا آپ نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں اور آپ نے انہیں ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ (راوی بیان کرتے ہیں) پھر سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ چل پڑے ان کے ہمراہ ہم بھی چل پڑے یہاں تک کہ سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس تشریف لائے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا یہ میں تمہیں کیا کرتے ہوئے دیکھ رہاہوں انہوں نے جواب دیا اے ابوعبدالرحمن یہ کنکریان ہیں جن پر ہم لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ گن کر پڑھ رہے ہیں سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا تم اپنے گناہوں کو گنو میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت تمہارا ستیاناس ہو تم کتنی تیزی سے ہلاکت کی طرف جا رہے ہو یہ تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ تمہارے درمیان بکثرت تعداد میں موجود ہیں اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے ہیں جو ابھی پرانے نہیں ہوئے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برتن ہیں جو ابھی ٹوٹے نہیں ہیں اس ذات کی قسم جس کے یاتھ میں میری جان ہے تم ایسے طریقے پر ہو جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے؟ یا پھر تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو۔ لوگوں نے عرض کی اللہ کی قسم اے ابوعبدالرحمن ہمارا ارادہ صرف نیکی کا ہے ۔ سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کتنے نیکی کے خواہش مند ایسے ہیں جو نیکی نہیں کرتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا اور اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم ہوسکتا ہے ان میں سے اکثریت تم لوگوں کی ہو ۔ پھر سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے اٹھ کر آگئے۔ عمرو بن سلمہ بیان کرتے ہیں ہم نے اس بات کا جائزہ لیا ان حلقوں سے تعلق رکھنے والے عام افراد وہ تھے جنہوں نے نہروان کی جنگ میں خوارج کے ساتھ مل کر ہمارے ساتھ مقابلہ کیا۔
سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 206 سید نا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس اثر کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے السلسلہ الصحیحہ میں میں ذکر کیا ہے ۔
6 ۔ عن سعيد بن المسيب ـ رحمه الله ـ (( أنه رأى رجلاً يصلي بعد طلوعالفجر أكثر من ركعتين يكثر فيها الركوع والسجود فنهاه ، فقال : يا أبا محمد يعذبني الله على الصلاة ؟ قال : لا ولكن يعذبك على خلاف السنة )) .روى عبد الرزاق في المصنف (3/52ح 4755 ) ، والدارمي في سننه (1/404 ح405) ، والبيهقي في السنن الكبرى (2/466) ، والخطيب في الفقيه والمتفقه ( 1 / 380ح 387) من طريقين
امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے ایک شخص کو طلوع فجر کے بعد دورکعتوں سے زیادہ نماز پڑھتے اور اس میں کثرت کے ساتھ رکوع و سجود کرتے دیکھا ۔ سعید بن المسیب نے اسے منع کیا۔ اس نے عرض کیا اے ابو محمد کیا اللہ تعالیٰ مجھے نماز پر بھی عذاب دے گا۔ انہوں نے فرمایا: ولکن یعذبک بخلاف السنۃ ’’نہیں بلکہ تجھے خلاف سنت فعل پر عذاب دے گا‘‘۔
7 ۔ قال الامام مالك رحمه الله لرجل أراد أن يحرم قبل ذي الحليفة : لا تفعل ، فإني أخشي عليك الفتنة ، فقال : وأي فتنة في هذه ؟ ! وإنما : هي أميال أزيدها ! قال : وأي فتنة أعظم من أن ترى أنك سبقت إلى فضيلة قصر عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ ! إنى سمعت الله يقول : (( فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ )) الإرواء الغليل (4/181)
امام مالک رحمہ اللہ سے ایک آدمی نے پوچھا کہ : ''ابو عبداللہ ! میں احرام کہاں سے باندھوں؟'' امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا : '' ذو الحلیفہ سے جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا'' اس آدمی نے کہا''میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے باندھنا چاہتا ہوں'' امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا : ''ایسا مت کرنا مجھے تمہارے بارے میں فتنہ میں مبتلا ہونے کا ڈر ہے '' اس آدمی نے عرض کیا: ''اس میں فتنے کی کونسی بات ہے میں نے چند میل پہلے (احرام باندھنے) کا ارداہ کیا ہے '' امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا '' اس سے بڑا فتنہ کیا ہوسکتا ہے کہ تم یہ سمجھو (کہ احرام باندھنے کے ثواب میں ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سبقت لے گئے ہو جس سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قاصر رہے میں نے اللہ کا فرمان پڑھا ہے ۔ ''جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیےکہ وہ کسی فتنے یا دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں''(سورة النورآیت 63)
8 ۔ امام بیہقی (متوفی ۴۵۸ھ)اور امام ابن عبد البر مالکی (متوفی ۴۶۳ھ) امام مالک رحمہ اللہ سے اپنی اپنی سند کے ساتھ ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں : «یحیٰی بن یحیٰی یقول: کنا عند مالك بن أنس فجاء رجل فقال: یا أبا عبد اﷲ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ فکیف استوٰی؟ قال: فأطرق مالك برأسه حتی علاه الرحضاء ثم قال: الاستواء غیر مجهول، والکیف غیر معقول، والإیمان به واجب، والسؤال عنه بدعة، وما أراك إلا مبتدعًا، فأمر به أن یخرج»19 ''
یحییٰ بن یحییٰ سے روایت ہے کہ ہم حضرت مالک بن انس کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اوراس نے سوال کیا: اے ابو عبد اللہ! اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور یہ استواء کس طرح کا ہے؟ [راوی کہتے ہیں کہ] امام مالک رحمہ اللہ نےاپنا سر جھکایا یہاں تک کہ اُنہیں غصے سے پسینہ آ گیا۔ پھر اُنہوں نے کہا:استوا مجہول نہیں ہے [یعنی معلوم ہے] اور اس کی کیفیت غیر معقول ہے اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور اس کے بارے سوال کرنا بدعت ہے۔ اور میرا گمان یہ ہے کہ تو [یعنی سائل] بدعتی ہے ۔اور امام مالک رحمہ اللہ نے اس سائل کو اپنی مجلس سے نکالنے کا حکم دیا۔''
1 ۔ ابو داؤد اور ترمذی نے مجاہد رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ میں عبداللہ بن عمررضی اللہ عنھما کے ساتھ ایک مسجد میں گیا۔ وہاں اذان ہو چکی تھی۔ ابھی ہم نماز کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ مؤذن نے الصلوٰۃ الصلوٰۃ کے الفاظ سے تثویب شروع کی۔ ابن عمر رضی اللہ عنھما نے مجاہد سے فرمایا ۔ اُخرج بنا من عند ھذا المبتدع ’’ ہمیں اس بدعتی کے پاس سے باہر لے چلو‘‘ اور ابن عمر رضی اللہ عنھما نے اس مسجد میں نماز نہیں پڑھی ۔ مجاہد کا بیان ہے
انما کرہ عبداللّٰہ بن عمر ؓرضی اللہ عنھما التثویب الذی احدثہا الناس بعد
( سنن أبي داود » كتاب الصلاة » باب في التثويب ، سنن الترمذي » كتاب الصلاة » أبواب الأذان » باب ما جاء في التثويب في الفجر)’’
گویا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما نے اس مکرر اعلان کو جو لوگوں نے بعد میں جاری کیا تھا برا سمجھا‘‘ ۔
2 ۔ نافع رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ایک شخص کو جو ابن عمر رضی اللہ عنھماکے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ چھینک آئی۔ اس شخص نے کہاالحمد للہ والسلام علی رسول اللہ‘‘ہر تعریف اللہ کے لئے ہے اور رسول اللہ پر سلام ہو ۔
یہ سن کر ابن عمر رضی اللہ عنھما نے فرمایا : وانا اقول الحمد للہ والسلام علی رسول اللہ ولیس ھکذا علمنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علمنا ان نقول الحمد للہ علی کل حال۔
( الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 2738 خلاصة حكم المحدث: حسن)’’
میں بھی کہتا ہوں الحمدللہ اور السلام علی رسول اللہ لیکن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح تعلیم نہیں دی بلکہ ہمیں تو یہ تعلیم دی ہے کہ ہم ہر حال میں الحمدللہ کہیں ‘‘۔
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جسے چھینک آئے وہ الحمد للّٰہ کہے مگر اس موقع پر والسلام علی رسول اللہ کے الفاظ کی نبی کریم نے کوئی تعلیم نہ فرمائی تھی۔ اس لئے ابن عمر رضی اللہ عنھما نے اس پر انکار کیا۔
3 ۔ انہی ابن عمر رضی اللہ عنھمانے لوگوں کو سفر میں فرائض کے بعد سنتیں پڑھتے دیکھا تو فرمایا : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ (سفر میں بہت) رہا ہوں مگر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں سنتیں پڑھتے کبھی نہیں دیکھا اور اللہ تعالیٰ (سورۃ الممتحنہ میں) فرماتا ہے کہ “ بیشک تم لوگوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال میں ایک بہترین نمونہ ہے۔”
صحیح بخاری نماز کا قصر کا بیان باب : سفر میں فرض نماز کے بعد سنتیں نہ پڑھنا۔
4 ۔ رأى عمارة بن رويبة بشر بن مروان وهو يدعو في يوم جمعة فقال عمارة قبح الله هاتين اليدين قال زائدة قال حصين حدثني عمارة قال لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر ما يزيد على هذه يعني السبابة التي تلي الإبهام
عمارۃ بن روبیہ رضی اللہ عنہ نے بشر بن مروان کو خطبہ کے دوران منبر پر دونوں ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو سخت لہجہ میں فرمایا :’’اللہ تعالی یہ دونوں ہاتھ توڑ دے ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ اس سے زیادہ نہ کرتے اور پھر انہوں نے اپنی انگشت شہادت کی جانب اشارہ کیا ۔ یعنی اس سے زیادہ نہ اٹھاتے‘‘۔
سنن أبي داود » كتاب الصلاة » تفريع أبواب الجمعة » باب رفع اليدين على المنبر
5 ۔ عمرو بن یحیی اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا کا بیان نقل کرتے ہیں ایک مرتبہ ہم صبح کی نماز سے پہلے سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لاتے تو ہم ان کے ساتھ چلتے ہوئے مسجد تک آیا کرتے تھے اسی دوران سید نا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لے آئے اور دریافت کیا کیا سید نا ابوعبدالرحمن (حضرت عبداللہ بن مسعود) رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے۔ ہم نے جواب دیا نہیں تو سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ ہمارے ساتھ بیٹھ گئے یہاں تک کہ سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے جب وہ آئے تو ہم سب اٹھ کران کے پاس آگئے سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمن رضی اللہ عنہ آج میں نے مسجد میں ایک ایسی جماعت دیکھی ہے جو مجھے پسند نہیں آئی اور میرا مقصد ہر طرح کی حمد اللہ کے لیے مخصوص ہے صرف نیکی ہےسید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا وہ کیا بات ہے سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے جواب دیاشام تک آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ حلقے بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور نماز کا انتظار کر رہے ہیں ان میں سے ہر ایک حلقے میں ایک شخص ہے جس کے سامنے کنکریاں موجود ہیں اور وہ شخص یہ کہتا ہے سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو۔ تو لوگ سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔ پھر وہ شخص کہتا ہے سو مرتبہ لاالہ الا اللہ پڑھو تو لوگ سو مرتبہ یہ پڑھتے ہیں پھر وہ شخص کہتا ہے سومرتبہ سبحان اللہ پڑھو تو لوگ سبحان اللہ پڑھتے ہیں سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا آپ نے ان سے کیا کہاسید نا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں نے آپ کی رائے کا انتظار کرتے ہوئے ان سے کچھ نہیں کہا۔ سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا آپ نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں اور آپ نے انہیں ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ (راوی بیان کرتے ہیں) پھر سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ چل پڑے ان کے ہمراہ ہم بھی چل پڑے یہاں تک کہ سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس تشریف لائے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا یہ میں تمہیں کیا کرتے ہوئے دیکھ رہاہوں انہوں نے جواب دیا اے ابوعبدالرحمن یہ کنکریان ہیں جن پر ہم لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ گن کر پڑھ رہے ہیں سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا تم اپنے گناہوں کو گنو میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت تمہارا ستیاناس ہو تم کتنی تیزی سے ہلاکت کی طرف جا رہے ہو یہ تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ تمہارے درمیان بکثرت تعداد میں موجود ہیں اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے ہیں جو ابھی پرانے نہیں ہوئے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برتن ہیں جو ابھی ٹوٹے نہیں ہیں اس ذات کی قسم جس کے یاتھ میں میری جان ہے تم ایسے طریقے پر ہو جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے؟ یا پھر تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو۔ لوگوں نے عرض کی اللہ کی قسم اے ابوعبدالرحمن ہمارا ارادہ صرف نیکی کا ہے ۔ سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کتنے نیکی کے خواہش مند ایسے ہیں جو نیکی نہیں کرتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا اور اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم ہوسکتا ہے ان میں سے اکثریت تم لوگوں کی ہو ۔ پھر سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے اٹھ کر آگئے۔ عمرو بن سلمہ بیان کرتے ہیں ہم نے اس بات کا جائزہ لیا ان حلقوں سے تعلق رکھنے والے عام افراد وہ تھے جنہوں نے نہروان کی جنگ میں خوارج کے ساتھ مل کر ہمارے ساتھ مقابلہ کیا۔
سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 206 سید نا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس اثر کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے السلسلہ الصحیحہ میں میں ذکر کیا ہے ۔
6 ۔ عن سعيد بن المسيب ـ رحمه الله ـ (( أنه رأى رجلاً يصلي بعد طلوعالفجر أكثر من ركعتين يكثر فيها الركوع والسجود فنهاه ، فقال : يا أبا محمد يعذبني الله على الصلاة ؟ قال : لا ولكن يعذبك على خلاف السنة )) .روى عبد الرزاق في المصنف (3/52ح 4755 ) ، والدارمي في سننه (1/404 ح405) ، والبيهقي في السنن الكبرى (2/466) ، والخطيب في الفقيه والمتفقه ( 1 / 380ح 387) من طريقين
امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے ایک شخص کو طلوع فجر کے بعد دورکعتوں سے زیادہ نماز پڑھتے اور اس میں کثرت کے ساتھ رکوع و سجود کرتے دیکھا ۔ سعید بن المسیب نے اسے منع کیا۔ اس نے عرض کیا اے ابو محمد کیا اللہ تعالیٰ مجھے نماز پر بھی عذاب دے گا۔ انہوں نے فرمایا: ولکن یعذبک بخلاف السنۃ ’’نہیں بلکہ تجھے خلاف سنت فعل پر عذاب دے گا‘‘۔
7 ۔ قال الامام مالك رحمه الله لرجل أراد أن يحرم قبل ذي الحليفة : لا تفعل ، فإني أخشي عليك الفتنة ، فقال : وأي فتنة في هذه ؟ ! وإنما : هي أميال أزيدها ! قال : وأي فتنة أعظم من أن ترى أنك سبقت إلى فضيلة قصر عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ ! إنى سمعت الله يقول : (( فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ )) الإرواء الغليل (4/181)
امام مالک رحمہ اللہ سے ایک آدمی نے پوچھا کہ : ''ابو عبداللہ ! میں احرام کہاں سے باندھوں؟'' امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا : '' ذو الحلیفہ سے جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا'' اس آدمی نے کہا''میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے باندھنا چاہتا ہوں'' امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا : ''ایسا مت کرنا مجھے تمہارے بارے میں فتنہ میں مبتلا ہونے کا ڈر ہے '' اس آدمی نے عرض کیا: ''اس میں فتنے کی کونسی بات ہے میں نے چند میل پہلے (احرام باندھنے) کا ارداہ کیا ہے '' امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا '' اس سے بڑا فتنہ کیا ہوسکتا ہے کہ تم یہ سمجھو (کہ احرام باندھنے کے ثواب میں ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سبقت لے گئے ہو جس سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قاصر رہے میں نے اللہ کا فرمان پڑھا ہے ۔ ''جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیےکہ وہ کسی فتنے یا دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں''(سورة النورآیت 63)
8 ۔ امام بیہقی (متوفی ۴۵۸ھ)اور امام ابن عبد البر مالکی (متوفی ۴۶۳ھ) امام مالک رحمہ اللہ سے اپنی اپنی سند کے ساتھ ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں : «یحیٰی بن یحیٰی یقول: کنا عند مالك بن أنس فجاء رجل فقال: یا أبا عبد اﷲ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ فکیف استوٰی؟ قال: فأطرق مالك برأسه حتی علاه الرحضاء ثم قال: الاستواء غیر مجهول، والکیف غیر معقول، والإیمان به واجب، والسؤال عنه بدعة، وما أراك إلا مبتدعًا، فأمر به أن یخرج»19 ''
یحییٰ بن یحییٰ سے روایت ہے کہ ہم حضرت مالک بن انس کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اوراس نے سوال کیا: اے ابو عبد اللہ! اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور یہ استواء کس طرح کا ہے؟ [راوی کہتے ہیں کہ] امام مالک رحمہ اللہ نےاپنا سر جھکایا یہاں تک کہ اُنہیں غصے سے پسینہ آ گیا۔ پھر اُنہوں نے کہا:استوا مجہول نہیں ہے [یعنی معلوم ہے] اور اس کی کیفیت غیر معقول ہے اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور اس کے بارے سوال کرنا بدعت ہے۔ اور میرا گمان یہ ہے کہ تو [یعنی سائل] بدعتی ہے ۔اور امام مالک رحمہ اللہ نے اس سائل کو اپنی مجلس سے نکالنے کا حکم دیا۔''