برادر ابوحارث نعیم الرحمان!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ ۔ ٹیگ کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے نہیں معلوم برادر ابوبکر قدوسی مجھے جانتے ہیں یا نہیں۔ اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ موصوف میری تحریروں کو شائع کرنا پسند بھی کریں گے یا نہیں۔ تجربہ کے طور پر ذیل کا انشائیہ پیش خدمت ہے۔ اگر آپ کا اُن سے رابطہ ہے تو پوچھ کر بتلائیں کہ کیا وہ اس تحریر کو اپنے بلاگ میں شائع کرنا پسند کریں گے؟ میں بوجوہ از خود اسے بھیجنا نہیں چاہتا۔
اداکارہ، اداکاری اور کاری ادا
یہ ایک اداکارہ ہے۔ اداکاری کے پردے میں کاری ادا دکھانے اور کاری حملہ کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ آنکھوں کے راستے دل میں اتر کر وہیں بسیرا کر لیتی ہے۔ اور یوں دل اپنی من مانی کرنے پر اتر آتا ہے۔ ان کا حملہ ٹین ایجرز پر فوری اثر کرتا ہے اور اگر فوری علاج نہ کیا جائے تو بڑھاپے تک اس کا سحر قائم رہتا ہے۔
اداکارہ کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بیشتر مشہور و معروف اداکاراؤں نے گھر سے بھاگ کر ہی اپنی اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ کیونکہ گھریلو رشتے اداکارہ کی اداکاری کے راستے کی سب سے بڑی دیوار ہوتی ہے، جسے یہ پہلے ہی ہلے میں گرا دیتی ہے۔ کوئی شریف لڑکی اس وقت تک اداکارہ نہین بن سکتی جب تک وہ شرافت کا لبادہ اتار اور قدرتی رشتوں کو چھوڑ نہیں دیتی۔ ایک وقت تھا جب ڈرامہ نگاروں اور فلم سازوں کو اداکاراؤں کی سپلائی صرف اور صرف طوائفوں کے کوچہ سے ہوا کرتی تھی مگر شیطان کی کرپا سے اب یہ محتاجی نہیں رہی۔ ایک فلم ساز جب ایک خوبرو طوائف کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے تو اسے اپنی فلم میں کام کرنے کی پیشکش کر ڈالی۔ بھولی طوائف بولی۔ یہاں بڑے بڑے لوگ میرے پیچھے آتے ہیں۔ فلموں میں مجھے ٹکے ٹکے کے لوگوں کے پیچھے بھاگنا پڑے گا۔ جب اللہ نے مجھے یہاں عزت دولت سب کچھ دے رکھا ہے تو پھر میں فلموں میں کیوں جاؤں؟
فلم یا ڈرامہ کی مرکزی اداکارہ کو ہیروئین بھی کہتے ہیں۔ ان کا نشہ بھی پوست والے ہیروئین سے کم نہیں ہوتا۔ البتہ ہر فلم بین کا برانڈ یعنی پسندیدہ ہیروئین جدا جدا ہوتی ہے۔ پرستار اپنی پسندیدہ ہیروئین کے نشہ میں دنیا و مافیہا سے بےگانہ ہو جاتے ہیں جبکہ اداکارہ کو خبر ہی نہین ہوتی کہ
کون مرتا ہے مری زلف کے سر ہونے تک – ع
زیادہ سے زیادہ ہیرو کے ساتھ کام کرنے والی ہیروئین کی زیادہ سے زیادہ عزت کی جاتی ہے۔ جبکہ قبل ازیں اپنے پرانے پیشے میں یہ جتنے کم لوگوں سے وابستہ رہتی تھی، اس کی عزت و توقیر اتنی ہی زیادہ ہوا کرتی تھی۔ سچ ہے، وقت اور اسکے اقدار بدلتے دیر نہیں لگتی۔ بولڈ اینڈ بیوٹی کسی بھی اداکارہ کی دو بنیادی وصف شمار ہوتی ہے۔ اداکاراؤں کے حوالے سے بولڈنس نسبتاً ایک نئی اصطلاح ہے۔ قبل ازیں اسے بے شرمی کہا جاتا تھا۔ اداکاراؤں کے پیشے کی ابتدا ہی شرم و حیا کے لباس کو اتارنے سے ہوتی ہے۔ اور جوں جوں یہ آگے بڑھتی جاتی ہے، اس کا لباس اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف سکڑتا چلا جاتا ہے۔ لیکن میرا ایک دوست بالکل الٹ بات کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے : جس تیزی سے ایک اداکارہ کا لباس اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی طرف سکڑتا چلا جاتا ہے، وہ اسی تیزی سے ترقی کرتی چلی جاتی ہے۔ لباس کے بارے میں اداکارائیں بہت حساس ہوتی ہیں۔ ان کا پسندیدہ لباس قدرتی لباس ہے۔ اس لباس میں ان کی اداکاری کی مانگ اور قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اداکارائیں شادی کو اپنے کیرئیر کی تباہی اور طلاق کو ترقی کا زینہ سمجھتی ہیں۔ اسی لئے اداکارائیں شادی سے کم اور طلاق سے زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔
کوئی اداکارہ اس وقت تک پرفیکٹ ایکٹریس نہیں کہلاتی جب تک وہ محبت کے مناظر کی عکاسی کروانے میں مہارت نہ حاصل کر لے۔ یعنی ایسے مکالمے و افعال جو ایک شریف زادی صرف اپنے بیڈ روم میں اور اپنے سر کے تاج کے سامنے، یا ایک طوائف زادی اپنے کوٹھے کی چہار دیواری کے اندر صرف اپنے گاہک کے سامنے انجام دیتے ہوئے بھی شرما جاتی ہے۔ اسے ایک اداکارہ چکاچوند روشنی میں بہت سے لوگوں کی موجودگی میں اس خوبصورتی اور بولڈنس یعنی بے شرمی کے ساتھ ریکارڈ کرواتی ہے کہ اس کی ہر ادا، جسمانی خد و خال اور نشیب و فراز تمام باریکیوں کے ساتھ محفوظ ہو جاتے ہیں، جنہیں دیکھ دیکھ کر ان کے پرستار محظوظ اور ہیروئین کے نشے میں چور ہو جاتے ہیں۔
ایک کامیاب اداکارہ صرف لوسین ہی نہیں بلکہ اینٹی لو سین میں بھی مہارت رکھتی ہے۔ جہاں یہ بہ رضا و رغبت اپنے پورے جسم کو پیش کرنے میں رتی بھر بھی نہیں ہچکچاتی وہیں یہ ولن کے ہاتھوں اپنی عزت لٹوانے کے تمام مراحل کو بڑی تفصیل سے پیش کرنے میں بھی یکساں مہارت رکتھی ہے۔ حالانکہ قبل ازیں اپنے پرانے پیشے میں کوئی ایسا کرنے کی جرات کرے تو وہ اسے اپنے پالتو غنڈوں سے یا سرکاری اہلکاروں سے پٹوا دیا کرتی تھی۔ کہتے ہیں کہ جسم فروش کواتین نے خود کو بیچنے کا آغاز ناچ گانے سے کیا تھا۔ پہلے یہ امراء کے لئے مجرا کیا کرتی تھیں۔ بعد ازاں عوام کی خاطر گلوکاری اور اداکاری شروع کر دی۔ مجرا یا تو امراء کی کوٹھی پر ہوا کرتا تھا یا طوائف کے کوٹھے پر۔ عوام کے لئے گلوکاری کا آغاز ریڈیو سے ہوا۔ ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری نے جب ریڈیو پر موسیقی کے پروگرام کا آغاز کیا تو پہلے پروگرام کی بکنگ کے لئے وہ خود بہ نفس نفیس طوائفوں کے کوٹھے پر گئے تھے۔ بعد ازاں ریڈیو پاکستان اس معاملہ میں نہ صرف خود کفیل ہو گیا بلکہ ریڈیو سے تربیت یافتہ گلوکاراؤں کو ٹی وی اور فلم کے لئے ایکسپورٹ بھی کرنے لگا۔ آج پاکستان دنیا بھر کو بالعموم اور مڈل ایسٹ کو بالخصوص بولڈ اینڈ بیوٹی وافر تعداد و مقدار میں ایکسپورٹ کرتا ہے اور خاصہ زرمبادلہ کماتا ہے۔
اداکارہ چھوٹی ہو یا بڑی، سب کی منزل ایک ہوتی ہے۔ قدآور اداکارہ وہ کہلاتی ہے جو اپنے قد و قامت اپنے کپڑوں سے باہر نکال سکے۔ اداکاراؤں کا کوئی دین، کوئی نظریہ یا کوئی کیریکٹر نہیں ہوتا سوائے فلمی کیریکٹر کے۔ یہی وجہ ہے کہ اداکارہ ایک فلم میں جسے بھائی بناتی ہے، اگلے فلم میں اسے پریمی یا شوہر بناتے ہوئے کوئی عار نہیں ہوتا۔ ایک اداکارہ سین کی ڈیمانڈ کو پورا کرنا اپنا دھرم اور ایمان سمجھتی ہے۔ خواہ وہ سین اس کے اپنے دین دھرم کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ اداکارہ پہلے مسلمان ہو ہندو ہو یا عیسائی، اداکاری کے شعبہ میں داخل ہونے کے بعد صرف اور صرف اداکارہ رہ جاتی ہے۔ لہذا کسی اداکارہ کے کسی بھی فعل کو کسی دین دھرم بالخصوص اسلام کے حوالے سے تو دیکھنا ہی نہیں چاہیے۔ ایک ٹی وی مذاکرے میں جاوید شیخ نے کیا خوب کہا تھا کہ فلم انڈسٹری کی بات کرتے ہوئے آپ اسلام کی بات نہ کیا کریں۔ اسلام کا فلم سے یا فلم کا اسلام سے کیا تعلق۔
کہتے ہیں کہ جہنم میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ اگر ایسا ہوا تو یقیناً وہاں اداکاری کرنے والی عورتوں ہی کی بہتات ہو گی۔ خواہ ایسی عورتیں ڈراموں اور فلموں میں اداکاری کرتی رہی ہوں یا گھروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ۔ اچھے وقتوں میں جب کوئی غلط کام کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کرتا تھا تو لوگ خوش گمانی کے تحت کہا کرتے تھے کہ زیادہ اداکاری نہ کرو اور سدھر جاؤ ورنہ ۔۔۔ اب یہی اداکاری بولڈنس یعنی بے حیائی کے ساتھ ایک پیشہ بن چکی ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو اداکارہ کی اداکاری اور اس کی کاری ادا سے محفوظ رکھے۔ آمین۔