T.K.H
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 05، 2013
- پیغامات
- 1,123
- ری ایکشن اسکور
- 330
- پوائنٹ
- 156
ایمان باللہ جتنا مضبوط ہو گا اُتنا ہی انسان کے عمل میں اخلاص ہو گا اور اُتنا ہی وہ اللہ سے محبت کریگا اور اس عمل میں اُس کو جتنی تکالیف و مصائب برداشت کرنا پڑیں محض اللہ کی رضا کی خاطرکریگا اور کسی کی مطلق پرواہ نہیں کریگا۔ گویا کہ وہ اپنا سودا صرف اللہ کی رضا کی خاطر کرتا ہے اور حقیقی معنوں میں ایمان باللہ کی شہادت دیتا ہے۔سو معلوم ہوا کہ ایمان بااللہ میں محبت کا پہلو غالب ہے کیونکہ وہ محبتِ الٰہی میں وہ کام بھی کر جاتا ہے جو بسا اوقات انسانی نفس پر گراں معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے دعوٰی کو اللہ کی راہ میں قربانی پیش کر کے سچ ثابت کرتے ہیں چاہے وہ قربانی مال کی ہو یا پھر جان کی یا اپنے نفس کی۔ یہی محبین کا درجہ و مقام ہے جس میں ایک انسان اپنی رضا کو فقط اللہ کی قضاء پر قربان کر دیتا ہے۔
اس کا بہترین نمونہ حضرت ابراہیمؑ کی زندگی ہے کہ جب محبتِ الٰہی نے تقاضا کیا تو حضرت ہاجرہ ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کو بلا تردد جنگل اور بے آب و گیاں وادی میں چھوڑ آئے، جب باطل نے للکارا تو فقط رضائےالٰہی میں بھڑکتی ہوئی آگ میں بے خوف و خطر کود پڑے اور جب آسمان سے نداء ِالٰہی آئی تو اپنے معصوم اور فرمانبردار بیٹے(اسماعیلؑ) کی گردن پربے چون و چرا تیز چھری رکھ دی۔ ان تینوں مراحل میں حضرت ابراہیمؑ سے محبتِ الٰہی کا امتحان لیا گیا پہلا امتحان فرمانبردار اور نیک بیوی کے متعلق تھا دوسرا اپنی ذات کے متعلق جبکہ تیسرا فرمانبردار اور بردبار بیٹے کے متعلق تھا۔ اور ان تینوں مراحل میں حضرت ابراہیمؑ پوری طور پر کامیاب و کامران رہے اور آخر میں حضرت ابراہیمؑ کو ''امام الناس'' کا خطاب دیا گیا۔
اس کا بہترین نمونہ حضرت ابراہیمؑ کی زندگی ہے کہ جب محبتِ الٰہی نے تقاضا کیا تو حضرت ہاجرہ ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کو بلا تردد جنگل اور بے آب و گیاں وادی میں چھوڑ آئے، جب باطل نے للکارا تو فقط رضائےالٰہی میں بھڑکتی ہوئی آگ میں بے خوف و خطر کود پڑے اور جب آسمان سے نداء ِالٰہی آئی تو اپنے معصوم اور فرمانبردار بیٹے(اسماعیلؑ) کی گردن پربے چون و چرا تیز چھری رکھ دی۔ ان تینوں مراحل میں حضرت ابراہیمؑ سے محبتِ الٰہی کا امتحان لیا گیا پہلا امتحان فرمانبردار اور نیک بیوی کے متعلق تھا دوسرا اپنی ذات کے متعلق جبکہ تیسرا فرمانبردار اور بردبار بیٹے کے متعلق تھا۔ اور ان تینوں مراحل میں حضرت ابراہیمؑ پوری طور پر کامیاب و کامران رہے اور آخر میں حضرت ابراہیمؑ کو ''امام الناس'' کا خطاب دیا گیا۔