• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایمان باللہ کی حقیقت

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
فہرست

عرض ناشر
اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان
اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر ایمان
اللہ تعالیٰ کے تنہا الہٰ برحق ہونے پر ایمان
اللہ تعالیٰ کی قولی بندگی
اللہ تعالیٰ کی بدنی بندگی
اللہ تعالیٰ کی مالی بندگی
اللہ تعالیٰ کے اسماءوصفات پر ایمان
غیر اللہ کی بندگی کا انکار

1:غیر اللہ کی قولی بندگی
2:غیر اللہ کی بدنی بندگی
3:غیر اللہ کی مالی بندگی
4:غیر مشروط اطاعت
لا الہ الا اللہ کی شروط
صحیح عقیدہ سے انحراف کے اسباب

۱:صحیح عقیدہ سے نا واقفیت
۲:آباء واجداد کے طریقوں پر جمے رہنا
3:انبیائے کرام اور اولیاء اللہ کی شان میں غلو کرنا
مشرکوں کی چند صفات

1:واسطہ اور وسیلہ
2:اللہ اکیلے کا ذکر سن کر ان کا دل تنگ ہوجاتا ہے۔
ہماری تخلیق کا اہم مقصد
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
عرض ناشر

لا الہ الا اللہ دو حصوں پر مشتمل ہے،پہلے جزء لا الہٰ میں باطل معبودوں کی نفی ہےاور دوسرے جزو’’الا اللہ‘‘میں صرف اللہ کے معبود ہونے کاذکر ہے
پس’’لا الہ الا اللہ‘‘کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو شخص اس کلمے کو دل کی گہرائیوں سےتسلیم کرتے ہوئےپڑھے گا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرے گااس کے منافی تمام امور سے بچے گااس کا اللہ پر ایمان درست ہوگا۔اورجو شخص اللہ پر ایمان کےدعوی کے ساتھ شرک اکبر میں ملوث ہوااس کا ایمان اس کو فائدہ نہیں دے گا۔
آج بہت سے لوگ کہانی،قصوں،خوابوں اور خود ساختہ کرامات پر اعتماد کرتے ہیں اور ایمان باللہ کی حقیقت سے ناآشنا ہیں۔
ڈاکڑ سید شفیق الرحمن نےاپنے اس مفید کتابچے میں واضح کیا ہےکہ اللہ پر ایمان کا کیا مطلب ہے،غیر اللہ کی بندگی کیا ہوتی ہےاور صحیح عقیدہ سے انحراف کے اسباب کیا ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ان کی اس کوشش کو نفع بخشش بنائے اور لوگ اس کے ذریعے سیدھی راہ کی طرف رہنمائی حاصل کریں۔
’’دارالبلاغ‘‘لوگوں کے عقائد کے اصلاح کی خاطر اس کتابچہ کو شائع کرنے کا شرف حاصل کر رہا ہے۔
آپ کا دینی بھائی
ابو عبداللہ​
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِيّٖنَ(البقرہ:۱۷۷)
’’نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھیر لوبلکہ اصل نیکی یہ ہےکہ کوئی شخص اللہ پر،روز قیامت پر ،فرشتوں پر،کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان لائے‘‘
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺسے جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟آپﷺنے فرمایا:
’’ایمان یہ ہےکہ تم اللہ پر،اس کے فرشتوں پر،اس کی نازل کردہ کتابوں پر،اس کے رسولوں پراور آخرت کے دن پر ایمان لاؤاور بھلی بری تقدیر(کے اللہ کی جانب سے ہونےپر)ایمان لاؤ‘‘(ان کو ایمان کے ارکان کہتے ہیں)}صحیح مسلم:1{
آیت اور حدیث مبارکہ سے واضح ہےکہ اصل نیکی ایمان ہےاوراللہ تعالیٰ پر ایمان پہلا رکن ہے۔اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے میں چار باتیں شامل ہیں:
1:اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان
جو شخص بھی کائنات کےتمام اجزاء کے درمیان موجود گہرے ربط و ضبط کو دیکھے گاوہ پکار اٹھے گاکہ کوئی ذات ہےجس نے اس کائنات کو بنایا ہے،یہ کائنات نہ تو اتفاقیہ طور پر وجود میں آئی ہےاور نہ خود اپنی خالق ہے،اللہ تعالیٰ نے اس عقلی دلیل کا یوں ذکر فرمایا ہے:
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَؕ(الطور:۳۵)
’’کیا یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کےخودبخود پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے آپ کو پیدا کرنے والے ہیں‘‘
اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار سوائے دہریوں اور کیمونسٹوں کے کسی نے نہیں کیا۔
2:اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر ایمان
صرف اللہ تعالیٰ ہی اس پوری کائنات کا رب ہےیعنی اس کائنات کو پیدا کرنے والا،اس کائنات کا مالک اور اس کائنات کا انتظام چلانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے،وہی جسے چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہےاور جس سے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتا ہے،وہی عزت دیتا ہے،وہی ذلت دیتا ہے،وہ ہر چیز پر قادر ہے،دن اور رات کو وہی بدلتا ہے،زندگی اور موت اسی کے ہاتھ میں ہیں،اس میں اس کاکوئی شریک اور مددگار نہیں ہے،مشرکین مکہ اور ہر دور کے مشرکین تو حید ربوبیت پر ایمان رکھتے ہیں۔
لیکن توحید ربوبیت پر ایمان مشرکین مکہ کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوا،سیدنا محمدﷺنےانہیں اس بات کی دعوت دی کہ اللہ ہی کو الہٰ یعنی معبود حقیقی بھی تسلیم کرو۔چونکہ انہوں نے رسول اللہﷺکی یہ دعوت قبول نہ کی تو آپ نے توحید ربوبیت پر ان کے اقرار کے باوجودان سے قتال کیا اورقیامت کے دن مستقل جہنمی ہونے کی وعید سنائی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُۙ(الزخرف:۹)
’’اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا وہ ضرور کہیں گے انہیں غالب دانا اللہ نے ہی پیدا کیا‘‘
وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَۙ(الزخرف:۸۷)
’’اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے؟تو یقینا یہی جواب دیں گےکہ اللہ نے،پھر یہ کہاں الٹے جا رہے ہیں؟‘‘
قُلْ مَنْۢ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ هُوَ يُجِيْرُ وَ لَا يُجَارُ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ(الزخرف:۸۹)
’’پوچھئے،کہ تمام چیزوں کا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے؟کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلے میں کسی کو پناہ نہیں مل سکتی؟وہ ضرور کہیں گےکہ اللہ ہی ہے‘‘
آج بہت سے کلمہ گو قبروں پرجا کر شرک کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کو خالق،رازق،زندگی عطا کرنے والا اور موت دینے والا مانتے ہیں لہذا ہمارا اللہ پر ایمان درست ہے۔وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔جب تک وہ تنہا اللہ ہی کو عبادت کا حقدار نہ سمجھیں مسلمان نہیں بن سکتے
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
3:اللہ تعالیٰ کے تنہا الہٰ برحق ہونے پر ایمان
الہٰ وہ ہوتا ہےجس کی محبت اور تعظیم کے ساتھ عبادت کی جائے،صرف اللہ تعالیٰ کو معبود برحق ماننا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا توحید الوہیت ہے۔
تمام انبیاء علیہم السلام اپنی قوم کے پاس یہی دعوت لے کر آئےکہ جو تمہارا رب ،خالق اور رازق ہے وہی تمہاری عبادت کا مستحق ہےاللہ کو رب ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس بات کا بھی اقرار کیا جائےکہ تمام قسم کی عبادات کا حقدار بھی وہی ہے۔
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ(البقرہ:۲۱)
’’اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کروجس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا‘‘
انسان سب سے پہلے یہ دیکھتا ہےکہ اس کے نفع و نقصان کا مالک کون ہے؟جب وہ یقین کر لیتا ہےکہ ہر قسم کی بھلائی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہےاور ہرقسم کے نقصان سے وہی بچا سکتا ہےتو یقینا وہ ان طریقوں کو تلاش کرے گاجو اسے اللہ کے قریب کردیں،جن سے اللہ راضی ہو تا ہےلہذا توحید ربوبیت توحید الوہیت کا دروازہ ہے۔
ہر رسول نے اپنی قوم سےسب سے پہلے جو بات کہی وہ یہی تھی:
يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ(الاعراف:۱۶۵)
’’اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو،اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں‘‘
لا الہٰ الا اللہ کے بھی یہی معنی ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،ہر دور کے مشرکوں نے اس توحید کا انکار کیا۔
آج بہت سے کلمہ پڑھنے والے لا الہ الا اللہ کا زبان سے اقرار کرتے ہیں مگر اللہ کی بندگی میں غیروں کو شریک کرتے ہیں لہذا عبادت اور بندگی کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
عبادت جسم کے ظاہری اعضاء سے کی جاتی ہےاور باطنی اعضاء یعنی دل سے بھی کی جاتی ہےبلکہ ظاہری اعضاء سے عبادت بعد میں ظاہر ہوتی ہےپہلے انسان دل سے اس کی عبادت کرتا ہے،مثلا ایک شخص جب یہ دیکھتا ہےکہ اس کو اس دنیا میں پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے،وہی اس کا حقیقی مالک ہے،اس کا دل ،دماغ،جگر،گردہ غرض جسم کا ہر حصہ اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے،جب تک اللہ چاہتا ہےیہ اعضاء صحیح کام کرتے ہیں اور جب وہ چاہتا ہےوہ اس کو موت دیتا ہے،وہی رزق دینے والا ہے،رزق میں فراخی اور تنگی اسی کے ہاتھ میں ہے،وہی جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہےذلیل کرتا ہے،اولاددینا اسی کے اختیار میں ہےہر قسم کی نعمت اسی کی طرف سے ہے
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
۱:انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے لیے شدید محبت پیدا ہوتی ہے:
وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ(البقرہ:۱۶۵)
’’اور مومن تو شدید محبت اللہ سے کرتے ہیں‘‘
۲:اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وہ نا امید نہیں ہوتا:
وَ مَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ(الحجر:۵۶)
’’اور اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا گمراہوں کا کام ہے‘‘
۳:پھر وہ اللہ ہی پربھروسہ اور توکل کرتا ہے:
وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(آل عمران:۱۲۲)
’’اور اللہ ہی پر مومنوں کو بھروسہ کرناچاہیے‘‘
۴:اللہ کے ہر حکم اور فیصلے پر صبر کرتا ہے۔
۵:اللہ کے عذاب سے خوف محسوس کرتا ہے۔
۶:پھر وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔
وَ لَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ(التوبہ:۱۸)
’’اور وہ اللہ کے سواکسی سے نہیں ڈرتے‘‘
محبت،امید ،بھروسہ،رغبت،خوف،خشیت اور انتہائی محبت کے ساتھ غایت درجہ عاجزی اور انکساری دل کی عبادات ہیں اور پوشیدہ ہیں،دل کی اس کیفیت کے بعدانسان ظاہری اعضاء سے اللہ کی عبادت کرتا ہےتاکہ ان افعال کے ذریعےوہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوسکے اسے توحید عبادت بھی کہتے ہیں۔
ایک مومن محبت،خوف اور امید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہےاگر کوئی شخص اللہ سے بغض اور نفرت رکھتے ہوئے اس کی تابعداری کرتا ہےتو وہ عبادت کرنے والا نہیں سمجھا جائے گااور اگر اللہ سے محبت تو کرتا ہےمگر اس کی تابعداری بالکل ہی نہیں کرتاتو وہ بھی عبادت کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
رسول اللہﷺنے نماز میں تشہد سکھایا،اس کے ابتدائی الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’التحیات للہ والصلوت والطیبات‘‘
’’میری ساری قولی،بدنی اور مالی عبادات اللہ کے لیے ہیں‘‘(بخاری و مسلم)
اللہ تعالیٰ کی قولی بندگی:
اس کی چند اقسام مندرجہ ذیل ہیں:
۱:اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنا،ذکر واذکار کرنا،سبحان اللہ،الحمدللہ،اللہ اکبر کہنا قرآن مجید کی تلاوت کرنا،بھلائی کاحکم دینا اور برائی سے روکنا۔
۲:مشکلات میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺنے فرمایا:إن الدعاء ھو العبادۃ’’بے شک دعا عبادت ہے‘‘
پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:
وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَؒ(غافر:۶۰)
’’تمہارا رب کہتا ہے ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘(جامع ترمذی:۳۳۷۲،ابوداود:۱۴۷۹)
اللہ تعالیٰ کی بندنی بندگی:
مثلاً نماز،طواف کعبہ،روزہ،حج،جہاد،اعتکاف،سجدہ اوررکوع بدنی بندگی میں شامل ہیں۔
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙلَا شَرِيْكَ لَهٗ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ(الانعام:۱۶۲۔۱۶۳)
’’کہہ دوبے شک میری نماز،میری قربانی،میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لیے ہےجو جہانوں کا پالنے والا ہےاس کا کوئی شریک نہیں،مجھے اسی کا حکم ہواہے اورمیں سب ماننےوالوں میں سے پہلا ہوں‘‘
اللہ تعالیٰ کی مالی بندگی:
مثلاً قربانی کرنا اور نذر ونیاز دینا ،فرمایا:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ(الکوثر:۳)
’’پس اپنے رب کی نماز پڑھ اور قربانی کر‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
غیر مشروط اطاعت:
جن چیزوں کا تعلق عادات سے ہےجیسے سونا،کھاناپینا،خریدوفروخت کرنا،رزق تلاش کرنا اور نکاح کرنا اگر ایک مسلم ان میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی اطاعت کرتا ہےتویہ بھی عبادت میں شمار ہوتی ہیں کیونکہ غیر مشروط اطاعت بھی عبادت ہے،اپنے جسم اور مال غرض پر چیز پر اللہ تعالیٰ کے احکامات نافذ کرنااللہ تعالیٰ کی بندگی ہے،کیونکہ عبادت مشروع کرنے والا اور معاملات کا فیصلہ کرنے والابھی وہی ہے۔
اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِيَآءَ(الاعراف:۳)
’’لوگو! جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اُس کی پیروی کرو اور اپنے ربّ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو‘‘
۴:اللہ تعالیٰ کے آسماء وصفات پر ایمان لانا:
اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر ایمان کے چند بنیادی اصول ہیں:
1:
اللہ تعالیٰ کے نام اور صفات کا دارومدارقرآن مجید اور رسول اللہﷺکے فرامین یعنی احادیث صحیحہ پر ہے۔ہم اپنی طرف سے اللہ کا کوئی نام یا صفت بیان نہیں کر سکتے۔
2:
قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات بیان ہوئے وہ برحق اور حقیقی ہیں ان کو ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے گا۔
ان کے معانی اہل عرب کے ہاں معروف ہیں صرف ان کی کیفیت معلوم نہیں،جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’اللہ کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہےلیکن اس کی کیفیت معلوم نہیں۔اس پر ایمان رکھنا واجب اور اس کےبارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘
یہی حکم اللہ کی تمام صفات مثلاً ہاتھ،انگلیاں،پنڈلی اور آسمان دنیا پر نزول وغیرہ کا ہے۔
۳:
اللہ عزوجل کےاسماء وصفات کسی بھی مخلوق کے مشابہ نہیں ہیں بلکہ یہ اسماء وصفات اس کمال کو پہنچتی ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لائق اور شایان شان ہیں۔
۴:
اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کامل ہیں،کسی بھی پہلو سے ان میں کوئی نقص و عیب نہیں،جس طرح اللہ تعالیٰ سبحانہ کی ذات ہر پہلو سے کامل ہےاسی طرح اس کی صفات بھی کامل ہیں۔اللہ تعالیٰ’’السمیع‘‘یعنی سننے والا’’العلیم‘‘یعنی جاننے والا’’القادر’’یعنی قدرت والا ہے۔وہ خوش ہوتا ہے،محبت کرتا ہے،غضبناک ہوتا ہےاور ناراض ہوتا ہے،نافرمانوں کو ناپسند کرتا ہے،
اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے(طہ:۵)
اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام سے کلام کیا(النساء:۱۶۴)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اے ابلیس تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نےدونوں ہاتھوں سے پیدا کیا(ص:۷۵)
اللہ تعالیٰ اسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے۔(صحیح مسلم:۷۵۸)
مخلوق اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی کیفیت نہیں جان سکتی اور نہ کسی مخلوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات کو تشبیہ دی جا سکتی ہے۔
لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ(شوری:۱۱)
’’کوئی چیز اس کی مثل نہیں ہے‘‘
لہذا اللہ تعالیٰ کی صفات کے حقیقی معنیٰ پر ایمان لا کر بغیر کسی تاویل اور تمثیل کے ان صفات کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہیےجو اسماء وصفات اللہ اور اس کے رسول نے بیان فرمائے اسے ایک مسلمان تسلیم کرتا ہےاورجس چیز کی اللہ اور اس کے رسول نے نفی فرمائی اس کی نفی کرتا ہےمثلاً اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا اورجس سے اللہ اور اس کے رسول نے خاموشی اختیار فرمائی اس سے خاموش رہتا ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
مگر افسوس آج اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات میں کجروی کی جارہی ہے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ(الاعراف:۵۴)
’’بے شک تمہارا رب اللہ ہےجس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیاپھر عرش پر مستوی ہوا‘‘

اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى (طہ:۵)
’’رحمن عرش پر مستوی ہے‘‘

ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَآءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْرُۙ(الملک:۱۶)
’’کیا تم اس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے، تمہیں زمین میں دھنسا دے اور یکا یک یہ زمین ہچکولے کھانے لگے؟‘‘

معاویہ بن حکم سلمیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ میری ایک لونڈی تھی جو بکریاں چراتی تھی ایک دن بھیڑ یا ریوڑ میں سےایک بکری اٹھا لے گیا،مجھے غصہ آیا اور میں نے ایک تھپڑ رسید کر دیا،میں رسول اللہﷺکے پاس آیا اوراس واقعہ کا ذکر کیاآپﷺنے میرے اس فعل کو برا کہا،میں نے عرض کہ اے اللہ کے رسول!کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کردوں؟آپﷺنے فرمایا:’’اسے میرے پاس لے آؤ‘‘میں اسے آپﷺکے پاس لے گیا،آپﷺنے اس سے پوچھا:’’اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟لونڈی نے جواب دیا:’’فی السماء‘‘’’آسمان میں‘‘آپﷺنے پوچھا میں کون ہوں؟کہنے لگی آپﷺاللہ کے رسول ہیں۔آپﷺنے فرمایا:’’اسے آزاد کردو یہ مومنہ ہے‘‘(مسلم:۵۳۷)
آیات اور حدیث سے بالکل واضح ہےکہ مومن ہونے کے لیے یہ شرط ہےکہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے،اگرچہ وہ سنتا ہر جگہ سے ہے،وہ ہر جگہ دیکھتا ہےاس کا علم اور اس کی قدرت ہر جگہ کو گھیرے ہوئے ہےلیکن وہ خود عرش پر مستوی ہے۔
اتنے واضح دلائل کے باوجودآج لوگوں میں یہ عقیدہ عام ہےکہ اللہ ہر جگہ ہے،یہ اللہ کی صفات میں تحریف ہے۔افسوس تویہ ہےکہ قرآن مجید کی تفسیر لکھنے والےعلماء نے بھی عوام کے اندراسی عقیدہ کو پھیلایا،سورہ ملک کی آیت نمبر۱۶کی شرح میں ان دلائل کو ذکر کیا جن سے واضح ہوتا ہےکہ اللہ عرش پر مستوی ہےلیکن دلائل لکھنے کے باوجوداسی عقیدے کا اظہار کیاکہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے(تفہیم القرآن،از سید ابو الاعلی مودودی)

وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا١۪ وَ ذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْۤ اَسْمَآىِٕهٖ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ(الاعراف:۱۸۰)
’’اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں سو انہی ناموں سے اسے پکارو،اور ایسے لوگوں سے تعلق بھہ نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کجروی کرتے ہیں،ان کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی‘‘
جس نے اللہ کے بعض ناموں یا بعض صفات کا نکار کیا یا اللہ کے نام وصفات جن حقیقی معنی پر دلالت کرتے ہیں ان کا انکار کیا یااللہ کے اسماء وصفات کو مخلوق سے تشبیہ دی تو اس کا اللہ پر ایمان درست نہیں۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
غیر اللہ کی بندگی کا انکار

اللہ تعالیٰ پر ایمان اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک ایک مسلمان یہ اقرار کرےکہ اللہ کے سوا کوئی اور عبادت کا حقدار نہیں ہے۔یہ لا الہٰ کا مطلب ہےیہ شرک کی تمام قسموں کو باطل قرار دیتا ہے۔
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ(النحل:۳۶)
’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا ، اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ ’’ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔ ‘‘
طاغوت وہ باطل معبود ہیں جو اللہ کے علاوہ پوجے جا رہے ہیں اور وہ اپنے پوجے جانے پر راضی ہیں۔
لا الہ الا اللہ کا مطلب ہی یہ ہےکہ غیر اللہ کے لیے ہر قسم کی عبادت کے باطل ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے ہر قسم کی عبادت صرف اللہ ہی کی کی جائے۔
آج ہمارے معاشرے میں غیر اللہ کی جو عبادت کی جارہی ہےاس کے چند مناظر ملاحظہ فرمائیں اور یاد رکھیے جب تک یہ عقیدہ نہ ہوکہ غیر اللہ کی یہ عبادت اللہ کے ساتھ شرک ہےاور اس شرک سےآدمی کے سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں اور وہ مستقل جہنم کا ایندھن بن جاتا ہےاس وقت تک آدمی مسلم نہیں ہو سکتا۔
غیر اللہ کی قولی بندگی:
آج نعتوں اور قوالیوں میں رسول اللہﷺحسن،حسین،علی رضی اللہ عنہم اجمعین،امام بری اور ہجویری کی محبت کو آڑ بنا کر ان کی تعریف میں غلو کیا جاتا ہے،انہیں مشکلات میں پکارا جاتا ہے۔
حق مولا علی علی مشکل کشا علی علی
بری بری امام بری میری کھوٹی قسمت کر کھری
آئے ہیں تیرے در پرتو کچھ لے کر جائیں گے​
مصیبت میں اللہ کے سوا کسی نبی علیہ السلام یا کسی ولی اللہ کو پکارنا،ان سے فریاد کرنا ان کی قولی بندگی اور مشرکین مکہ کا شرک بھی یہی تھا۔

وَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۠ نَصْرَكُمْ وَ لَاۤ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ(الاعراف:۱۹۷)
’’اور جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہووہ تمہاری مدد کی طاقت نہیں رکھتے،بلکہ وہ تو اپنی مدد بھی نہیں کر سکتے‘‘
آج کلمہ پڑھنے والاسمندر میں مصیبت آنے پر بھی رسول اللہﷺ،حسین رضی اللہ عنہ اور اپنے بنائے ہوئے فقیروں اور پیروں کو امداد کے لیے پکارتے ہیں جبکہ مشرکین مکہ صرف خشکی پر شرک کرتے تھےسمندر میں خالص اللہ کو پکارتے تھےگویا آج کے کلمہ گو شرک میں مشرکین مکہ سے ایک قدم آگے ہیں۔
فَاِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ يُشْرِكُوْنَۙ(العنکبوت:۶۵)
’’جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں ، پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکا یک یہ شرک کرنے لگتے ہیں‘‘
غیر اللہ کی بدنی بندگی:
آج بعض بد نصیب اپنی مشکلات کو دور کرنے کے لیے قبروں کے سامنے با آدب ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں،بعض قبروں پر رکوع اور سجدہ کی حالت میں گر جاتے ہیں،قبر کا طواف کرتے ہیں،صاحب قبر کو راضی کرنے کے لیے گھنٹوں اس کی قبر پر بیٹھے رہتے ہیں،اس کی قبر پر پڑے پتھروں کو برکت کے لیے جسم پر ملتے ہیں،برکت کے لیے اس کی جھاڑو جسم پر پھیرتے ہیں،غرض بدنی میں غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں صالحین کی قبروں پر جا کر ان کی قبر کے پتھر یا درخت سے برکت حاصل کرنا شرک ہے۔
ابو واقد لیثی بیان کرتے ہیں کہ ہم جنگ حنین کے موقع پر رسول اللہﷺ کے ساتھ جا رہے تھےہمارا کفر کا زمانہ ابھی نیا نیا گزرا تھا،راستے میں ایک جگہ بیری کا درخت آیا جس کو ذات انواط کہا جاتا تھا،مشرکین اس درخت کے پاس بیٹھنا باعث برکت خیال کرتے تھے اور اپنے ہتھیار بھی برکت کے لیے اس درخت سے لٹکایا کرتے تھے۔جب ہم اس درخت کے پاس سے گزرےتو ہم نے آپ سے عرض کیا کہ جیسے ان مشرکوں کے لیے ذات انواط ہےتوآپ ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجیے۔آپﷺنے اللہ اکبر کہا اور فرمایا:’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہےتم نے وہی بات کہی جو بنی اسرائیل نےموسی علیہ السلام سے کہی تھی کہ اے موسی ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دو جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں،موسی علیہ السلام نے کہا تم لوگ بڑے جاہل ہو‘‘پھر نبی کریمﷺنے فرمایا:’’تم بھی اگلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے‘‘(جا مع ترمذی)
معلوم ہوا کہ برکت کے لیے اپنی طرف سے جگہیں مقرر کرنا اس چیز کی عبادت کرنا ہے۔
 
Top