ڈاکڑ سید شفیق الرحمن نےاپنے اس مفید کتابچے میں واضح کیا ہےکہ اللہ پر ایمان کا کیا مطلب ہے،غیر اللہ کی بندگی کیا ہوتی ہےاور صحیح عقیدہ سے انحراف کے اسباب کیا ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ان کی اس کوشش کو نفع بخشش بنائے اور لوگ اس کے ذریعے سیدھی راہ کی طرف رہنمائی حاصل کریں۔آج بہت سے لوگ کہانی،قصوں،خوابوں اور خود ساختہ کرامات پر اعتماد کرتے ہیں اور ایمان باللہ کی حقیقت سے ناآشنا ہیں۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺسے جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟آپﷺنے فرمایا:’’نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھیر لوبلکہ اصل نیکی یہ ہےکہ کوئی شخص اللہ پر،روز قیامت پر ،فرشتوں پر،کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان لائے‘‘
آیت اور حدیث مبارکہ سے واضح ہےکہ اصل نیکی ایمان ہےاوراللہ تعالیٰ پر ایمان پہلا رکن ہے۔اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے میں چار باتیں شامل ہیں:’’ایمان یہ ہےکہ تم اللہ پر،اس کے فرشتوں پر،اس کی نازل کردہ کتابوں پر،اس کے رسولوں پراور آخرت کے دن پر ایمان لاؤاور بھلی بری تقدیر(کے اللہ کی جانب سے ہونےپر)ایمان لاؤ‘‘(ان کو ایمان کے ارکان کہتے ہیں)}صحیح مسلم:1{
اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار سوائے دہریوں اور کیمونسٹوں کے کسی نے نہیں کیا۔’’کیا یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کےخودبخود پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خود اپنے آپ کو پیدا کرنے والے ہیں‘‘
لیکن توحید ربوبیت پر ایمان مشرکین مکہ کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوا،سیدنا محمدﷺنےانہیں اس بات کی دعوت دی کہ اللہ ہی کو الہٰ یعنی معبود حقیقی بھی تسلیم کرو۔چونکہ انہوں نے رسول اللہﷺکی یہ دعوت قبول نہ کی تو آپ نے توحید ربوبیت پر ان کے اقرار کے باوجودان سے قتال کیا اورقیامت کے دن مستقل جہنمی ہونے کی وعید سنائی۔صرف اللہ تعالیٰ ہی اس پوری کائنات کا رب ہےیعنی اس کائنات کو پیدا کرنے والا،اس کائنات کا مالک اور اس کائنات کا انتظام چلانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے،وہی جسے چاہتا ہے بادشاہت دیتا ہےاور جس سے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتا ہے،وہی عزت دیتا ہے،وہی ذلت دیتا ہے،وہ ہر چیز پر قادر ہے،دن اور رات کو وہی بدلتا ہے،زندگی اور موت اسی کے ہاتھ میں ہیں،اس میں اس کاکوئی شریک اور مددگار نہیں ہے،مشرکین مکہ اور ہر دور کے مشرکین تو حید ربوبیت پر ایمان رکھتے ہیں۔
وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَۙ(الزخرف:۸۷)’’اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا وہ ضرور کہیں گے انہیں غالب دانا اللہ نے ہی پیدا کیا‘‘
قُلْ مَنْۢ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ هُوَ يُجِيْرُ وَ لَا يُجَارُ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ(الزخرف:۸۹)’’اور اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے؟تو یقینا یہی جواب دیں گےکہ اللہ نے،پھر یہ کہاں الٹے جا رہے ہیں؟‘‘
آج بہت سے کلمہ گو قبروں پرجا کر شرک کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کو خالق،رازق،زندگی عطا کرنے والا اور موت دینے والا مانتے ہیں لہذا ہمارا اللہ پر ایمان درست ہے۔وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔جب تک وہ تنہا اللہ ہی کو عبادت کا حقدار نہ سمجھیں مسلمان نہیں بن سکتے’’پوچھئے،کہ تمام چیزوں کا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے؟کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلے میں کسی کو پناہ نہیں مل سکتی؟وہ ضرور کہیں گےکہ اللہ ہی ہے‘‘
تمام انبیاء علیہم السلام اپنی قوم کے پاس یہی دعوت لے کر آئےکہ جو تمہارا رب ،خالق اور رازق ہے وہی تمہاری عبادت کا مستحق ہےاللہ کو رب ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس بات کا بھی اقرار کیا جائےکہ تمام قسم کی عبادات کا حقدار بھی وہی ہے۔الہٰ وہ ہوتا ہےجس کی محبت اور تعظیم کے ساتھ عبادت کی جائے،صرف اللہ تعالیٰ کو معبود برحق ماننا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا توحید الوہیت ہے۔
انسان سب سے پہلے یہ دیکھتا ہےکہ اس کے نفع و نقصان کا مالک کون ہے؟جب وہ یقین کر لیتا ہےکہ ہر قسم کی بھلائی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہےاور ہرقسم کے نقصان سے وہی بچا سکتا ہےتو یقینا وہ ان طریقوں کو تلاش کرے گاجو اسے اللہ کے قریب کردیں،جن سے اللہ راضی ہو تا ہےلہذا توحید ربوبیت توحید الوہیت کا دروازہ ہے۔’’اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کروجس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا‘‘
لا الہٰ الا اللہ کے بھی یہی معنی ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،ہر دور کے مشرکوں نے اس توحید کا انکار کیا۔’’اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو،اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں‘‘
عبادت جسم کے ظاہری اعضاء سے کی جاتی ہےاور باطنی اعضاء یعنی دل سے بھی کی جاتی ہےبلکہ ظاہری اعضاء سے عبادت بعد میں ظاہر ہوتی ہےپہلے انسان دل سے اس کی عبادت کرتا ہے،مثلا ایک شخص جب یہ دیکھتا ہےکہ اس کو اس دنیا میں پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے،وہی اس کا حقیقی مالک ہے،اس کا دل ،دماغ،جگر،گردہ غرض جسم کا ہر حصہ اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے،جب تک اللہ چاہتا ہےیہ اعضاء صحیح کام کرتے ہیں اور جب وہ چاہتا ہےوہ اس کو موت دیتا ہے،وہی رزق دینے والا ہے،رزق میں فراخی اور تنگی اسی کے ہاتھ میں ہے،وہی جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہےذلیل کرتا ہے،اولاددینا اسی کے اختیار میں ہےہر قسم کی نعمت اسی کی طرف سے ہے
ایک مومن محبت،خوف اور امید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہےاگر کوئی شخص اللہ سے بغض اور نفرت رکھتے ہوئے اس کی تابعداری کرتا ہےتو وہ عبادت کرنے والا نہیں سمجھا جائے گااور اگر اللہ سے محبت تو کرتا ہےمگر اس کی تابعداری بالکل ہی نہیں کرتاتو وہ بھی عبادت کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا۔محبت،امید ،بھروسہ،رغبت،خوف،خشیت اور انتہائی محبت کے ساتھ غایت درجہ عاجزی اور انکساری دل کی عبادات ہیں اور پوشیدہ ہیں،دل کی اس کیفیت کے بعدانسان ظاہری اعضاء سے اللہ کی عبادت کرتا ہےتاکہ ان افعال کے ذریعےوہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوسکے اسے توحید عبادت بھی کہتے ہیں۔
پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺنے فرمایا:إن الدعاء ھو العبادۃ’’بے شک دعا عبادت ہے‘‘
اللہ تعالیٰ کی بندنی بندگی:’’تمہارا رب کہتا ہے ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘(جامع ترمذی:۳۳۷۲،ابوداود:۱۴۷۹)
اللہ تعالیٰ کی مالی بندگی:’’کہہ دوبے شک میری نماز،میری قربانی،میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لیے ہےجو جہانوں کا پالنے والا ہےاس کا کوئی شریک نہیں،مجھے اسی کا حکم ہواہے اورمیں سب ماننےوالوں میں سے پہلا ہوں‘‘
اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِيَآءَ(الاعراف:۳)جن چیزوں کا تعلق عادات سے ہےجیسے سونا،کھاناپینا،خریدوفروخت کرنا،رزق تلاش کرنا اور نکاح کرنا اگر ایک مسلم ان میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی اطاعت کرتا ہےتویہ بھی عبادت میں شمار ہوتی ہیں کیونکہ غیر مشروط اطاعت بھی عبادت ہے،اپنے جسم اور مال غرض پر چیز پر اللہ تعالیٰ کے احکامات نافذ کرنااللہ تعالیٰ کی بندگی ہے،کیونکہ عبادت مشروع کرنے والا اور معاملات کا فیصلہ کرنے والابھی وہی ہے۔
۴:اللہ تعالیٰ کے آسماء وصفات پر ایمان لانا:’’لوگو! جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اُس کی پیروی کرو اور اپنے ربّ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو‘‘
2:اللہ تعالیٰ کے نام اور صفات کا دارومدارقرآن مجید اور رسول اللہﷺکے فرامین یعنی احادیث صحیحہ پر ہے۔ہم اپنی طرف سے اللہ کا کوئی نام یا صفت بیان نہیں کر سکتے۔
ان کے معانی اہل عرب کے ہاں معروف ہیں صرف ان کی کیفیت معلوم نہیں،جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات بیان ہوئے وہ برحق اور حقیقی ہیں ان کو ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے گا۔
۴:اللہ عزوجل کےاسماء وصفات کسی بھی مخلوق کے مشابہ نہیں ہیں بلکہ یہ اسماء وصفات اس کمال کو پہنچتی ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لائق اور شایان شان ہیں۔
اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے(طہ:۵)اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کامل ہیں،کسی بھی پہلو سے ان میں کوئی نقص و عیب نہیں،جس طرح اللہ تعالیٰ سبحانہ کی ذات ہر پہلو سے کامل ہےاسی طرح اس کی صفات بھی کامل ہیں۔اللہ تعالیٰ’’السمیع‘‘یعنی سننے والا’’العلیم‘‘یعنی جاننے والا’’القادر’’یعنی قدرت والا ہے۔وہ خوش ہوتا ہے،محبت کرتا ہے،غضبناک ہوتا ہےاور ناراض ہوتا ہے،نافرمانوں کو ناپسند کرتا ہے،
آیات اور حدیث سے بالکل واضح ہےکہ مومن ہونے کے لیے یہ شرط ہےکہ یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے،اگرچہ وہ سنتا ہر جگہ سے ہے،وہ ہر جگہ دیکھتا ہےاس کا علم اور اس کی قدرت ہر جگہ کو گھیرے ہوئے ہےلیکن وہ خود عرش پر مستوی ہے۔معاویہ بن حکم سلمیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ میری ایک لونڈی تھی جو بکریاں چراتی تھی ایک دن بھیڑ یا ریوڑ میں سےایک بکری اٹھا لے گیا،مجھے غصہ آیا اور میں نے ایک تھپڑ رسید کر دیا،میں رسول اللہﷺکے پاس آیا اوراس واقعہ کا ذکر کیاآپﷺنے میرے اس فعل کو برا کہا،میں نے عرض کہ اے اللہ کے رسول!کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کردوں؟آپﷺنے فرمایا:’’اسے میرے پاس لے آؤ‘‘میں اسے آپﷺکے پاس لے گیا،آپﷺنے اس سے پوچھا:’’اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟لونڈی نے جواب دیا:’’فی السماء‘‘’’آسمان میں‘‘آپﷺنے پوچھا میں کون ہوں؟کہنے لگی آپﷺاللہ کے رسول ہیں۔آپﷺنے فرمایا:’’اسے آزاد کردو یہ مومنہ ہے‘‘(مسلم:۵۳۷)
جس نے اللہ کے بعض ناموں یا بعض صفات کا نکار کیا یا اللہ کے نام وصفات جن حقیقی معنی پر دلالت کرتے ہیں ان کا انکار کیا یااللہ کے اسماء وصفات کو مخلوق سے تشبیہ دی تو اس کا اللہ پر ایمان درست نہیں۔’’اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں سو انہی ناموں سے اسے پکارو،اور ایسے لوگوں سے تعلق بھہ نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کجروی کرتے ہیں،ان کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی‘‘
طاغوت وہ باطل معبود ہیں جو اللہ کے علاوہ پوجے جا رہے ہیں اور وہ اپنے پوجے جانے پر راضی ہیں۔’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا ، اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ ’’ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔ ‘‘
آج کلمہ پڑھنے والاسمندر میں مصیبت آنے پر بھی رسول اللہﷺ،حسین رضی اللہ عنہ اور اپنے بنائے ہوئے فقیروں اور پیروں کو امداد کے لیے پکارتے ہیں جبکہ مشرکین مکہ صرف خشکی پر شرک کرتے تھےسمندر میں خالص اللہ کو پکارتے تھےگویا آج کے کلمہ گو شرک میں مشرکین مکہ سے ایک قدم آگے ہیں۔’’اور جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہووہ تمہاری مدد کی طاقت نہیں رکھتے،بلکہ وہ تو اپنی مدد بھی نہیں کر سکتے‘‘
غیر اللہ کی بدنی بندگی:’’جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں ، پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکا یک یہ شرک کرنے لگتے ہیں‘‘
معلوم ہوا کہ برکت کے لیے اپنی طرف سے جگہیں مقرر کرنا اس چیز کی عبادت کرنا ہے۔ابو واقد لیثی بیان کرتے ہیں کہ ہم جنگ حنین کے موقع پر رسول اللہﷺ کے ساتھ جا رہے تھےہمارا کفر کا زمانہ ابھی نیا نیا گزرا تھا،راستے میں ایک جگہ بیری کا درخت آیا جس کو ذات انواط کہا جاتا تھا،مشرکین اس درخت کے پاس بیٹھنا باعث برکت خیال کرتے تھے اور اپنے ہتھیار بھی برکت کے لیے اس درخت سے لٹکایا کرتے تھے۔جب ہم اس درخت کے پاس سے گزرےتو ہم نے آپ سے عرض کیا کہ جیسے ان مشرکوں کے لیے ذات انواط ہےتوآپ ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجیے۔آپﷺنے اللہ اکبر کہا اور فرمایا:’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہےتم نے وہی بات کہی جو بنی اسرائیل نےموسی علیہ السلام سے کہی تھی کہ اے موسی ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دو جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں،موسی علیہ السلام نے کہا تم لوگ بڑے جاہل ہو‘‘پھر نبی کریمﷺنے فرمایا:’’تم بھی اگلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے‘‘(جا مع ترمذی)