کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
ایچ ای سی میں اصلاح کی ضرورت
January 1, 2016
کالم: بریگیڈئیر (ر) محمد یوسف
کالم: بریگیڈئیر (ر) محمد یوسف
فیض احمد فیض مرحوم نے کیا خوب کہا تھا:
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو درد تھے کچھ لادوا نہ تھے
اپنے بدنصیب ملک میں حکمران اور ان کے کاسہ لیس دانشور شرفاءاور غریب عوام کو تنگ کرنے کیلئے ایسے ایسے طریقے ایجاد کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آج کل محکمہ تعلیم کے توسط سے تو ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) اس کارخیر میں مصروف ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ پچھلے دنوں ایچ ای سی لاہور کے ریجنل آفس میں دیکھنے کو ملا۔ورنہ ہمیں جو درد تھے کچھ لادوا نہ تھے
میں یہاں ابتدا ہی میں اس بات کا اظہار کرتا چلوں کہ لاہور ریجن آفس کے افسران اور ان کا عملہ اپنا کام نہایت خوش اسلوبی‘ خوش اخلاقی اور مستعدی سے سرانجام دے رہا ہے اور ان سے کسی کو شکایت نہیں۔ بات پالیسی‘ سسٹم اور طریق کار کی ہے جو حکمرانوں اور اداروں کے سربراہوں کا کام ہے۔ یہ شکایت بھی انہی سے ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن آج کل ماضی میں جاری کردہ ڈگریوں کی تصدیق وغیرہ میں مصروف ہے۔ ہر روز اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں جوان اور بوڑھے مرد اور خواتین اپنے یا اپنے بچوں کی ڈگریاں لے کر ڈیرہ غازی خان‘ ملتان‘ سیالکوٹ اور صوبے کے طول و عرض سے آ کر لاہور میں دھکے کھا رہے ہیں۔ ڈگری کی تصدیق کیلئے فیس مبلغ 2600 روپے ہے جسے ایچ ای سی کا بھتہ یا جگا ٹیکس بھی کہا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں کا لاہور میں رہنے کیلئے کوئی ٹھکانہ ہے، ان کی بچت تو ہوتی ہو گی مگر جو لوگ ہوٹلوں میں رہنے پر مجبور ہیں ان کے اخراجات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا کرایہ تو سب نے دینا ہے جو آج کل خاصا زیادہ ہے۔ میرے خیال میں ایک ڈگری کی تصدیق کا خرچہ لاہور سے باہر سے آنے والوں کیلئے کسی طرح بھی دس بارہ ہزار روپوں سے کم نہیں ہے۔ یہ غریب اور متوسط طبقے پر یقینا ایک ناجائز بوجھ ہے۔ میں حکمرانوں اور ایچ ای سی کے اعلیٰ افسران سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ کیا اس کام کو اس سے بہتر طریقے سے سرانجام دیا جا سکتا ہے؟
ہو سکتا ہے میں اپنی کم عقلی کے سبب غلط ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ مسئلہ جعلی ڈگریوں کی شناخت کا ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ اصلی ڈگریوں کا ریکارڈ کس کے پاس ہے؟ یقینا یہ ایچ ای سی کے پاس نہیں۔
جن طلباء و طالبات نے باقاعدہ کالجوں اور یونیورسٹوں میں تعلیم حاصل کی ہے ان کی طالبعلمی کا ریکارڈ ان کے متعلقہ کالجوں اور یونیورسٹوں کے شعبہ جات میں ہونا چاہئے اور ان اداروں میں ان کو حاصل شدہ ڈگریوں کا اندراج ہونا چاہئے کہ فلاں طالبعلم یا طالبہ نے اس کالج یا یونیورسٹی سے فلاں سال، فلاں سیشن میں ڈگری حاصل کی ہے۔ متعلقہ یونیورسٹی کے شعبہ امتحانات میں اس کا اصل ریکارڈ ہونا چاہئے اور یہیں سے اس کی باقاعدہ تصدیق ممکن ہے۔ طریق کار یہ ہونا چاہئے کہ جس کالج‘ یونیورسٹی یا ادارے کو یہ شک ہو کہ کسی مرد یا خاتون کی ڈگری مشکوک ہے وہ ڈگری کی فوٹوکاپی دیگر ریکارڈ کے ساتھ اس یونیورسٹی کو بھیجے جہاں سے ڈگری حاصل کی گئی ہے۔ وہ یونیورسٹی قانوناً اس بات کی پابند ہو کہ 15 یا اس سے بھی کم دنوں میں ڈگری کی تصدیق کر کے یا اس کے برعکس جواب متعلقہ ادارے کو بھیجے۔ اس طرح طلباءو طالبات یا نوکری کرنے والے مردوخواتین ایچ ای سی جیسے اداروں میں دھکے کھانے سے بچ سکتے ہیں۔ ایچ ای سی کو قائم کرنے کا مقصد کچھ اور تھا، ڈگریوں کی تصدیق نہیں۔ اگر اسے اس کا اصلی کام کرنے دیا جائے تو یہ ہم سب کیلئے بہتر ہو گا۔
اگر اصل مسئلہ جعلی ڈگریوں کی شناخت کا ہے تو اس کیلئے اسمبلیوں اور سینٹ کے ممبران سے رجوع کرنا چاہئے۔ ویسے تو اس سلسلے میں ایک صوبے کے سابق وزیراعلیٰ اپنا فیصلہ دے چکے ہیں کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو جعلی۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر شرفاء اور غریب عوام کو تنگ کرنے کی کیا ضرورت ہے، ایسے ہی معاملات کو چلنے دیا جائے۔ کیا غریب عوام کو ہمیشہ ”حالت جنگ“ میں رکھنا ضروری ہے اور ان کا کام صرف یہ ہے کہ صبح سے شام تک خون پسینہ ایک کریں، پھر بھی بچوں سمیت بھوکے سو جائیں، یا ان سب کو ساتھ لے کر کسی نہر میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لیں اور حکمرانوں کا یہ حق ہے کہ وہ سدا ”حالت بھنگ“ میں رہیں کیونکہ ان کیلئے نشہ ضروری ہے چاہے بھنگ کا ہو یا دولت اور عہدوں کے غرور کا۔ شاید ابھی محل گرانے اور تخت اچھالنے کا وقت نہیں آیا مگر لگتا ہے کہ یہ دن دور بھی نہیں ہے۔ شاید قدرت ہمیں مہلت دے رہی ہے کہ اس خوفناک وقت سے پہلے امن وامان، معاملہ فہمی اور افہام وتفہیم کے ذریعے ہم اپنے معاملات کو درست کر لیں اور معاشرہ بغیر کسی بڑی تباہی کے اپنے اندر سے ایک خوبصورت انقلاب لے آئے۔
اگر حکمران یہ بات سمجھ لیں تو یہ بہت ہی اچھی بات ہے ورنہ اس غریب ملک میں 15 سے 20 لاکھ روپے ماہانہ مراعات لینے والے منصفوں کو چاہیے کہ اپنے ضمیر کی آواز کو سنیں اور فوج جیسے ادارے کی مدد سے، جو آج بھی کافی حد تک اپنی پرانی روایات پر قائم ہے، پاکستان میں اس خوشگوار تبدیلی کی بنیاد ڈالیں تاکہ 20 کروڑ دکھ اور درد میں مبتلا غریب عوام اس خواب کی تعمیر دیکھ سکیں جس کیلئے انہوں نے قائداعظمؒ کی رہنمائی میں یہ ملک بنایا تھا، ورنہ پاکستان کے گلی کوچوں میں بہت جلد یہ صدائیں سنائی دینے لگیں گی جس طرح فیض مرحوم نے کہا تھا:
اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تاج اچھالے جائیں گے جب تخت گرائے جائیں گے
جب تاج اچھالے جائیں گے جب تخت گرائے جائیں گے
ح
Last edited by a moderator: