محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
ایک اور وبا
انسان آگاہ (informed) رہنا چاہتا تاکہ وہ اپنا فائدے کی سوچے اور عمل کرے۔ لیکن انسانی ذہن محدود ہے اور محدود انفارمیشن (معلومات) ہی وہ برداشت کر سکتا ہے۔ حد سے زیادہ انفارمیشن انسانی ذہن پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، جس کی وجہ کر انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم جاتی ہے۔
آج کل لاک ڈاؤن، سوشل ڈسٹینسنگ، قرنطینہ وغیرہ کی وجہ کر جہاں سوشل لائف متاثر ہوئی ہے وہیں معلومات کی بہتات (Too much information) نے انسانی اذہان کو بھی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔
انفارمیشن کی زیادتی کبھی اچھی نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ “Too much information is always bad”
اس لئے اسلام انسان کو غیر ضروری باتوں کی جستجوں کرنے سے منع کرتا ہے اور صرف فائدہ مند انفارمیشن پر ہی اکتفا کرنا سکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے فرماتے ہیں:
’’بہت گمان کرنے سے بچو‘‘ ۔ ۔ ۔ ’’ تجسس نہ کرو‘‘
اور وعید بھی فرمایا:
’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے ‘‘۔(سورہ الإسراء : 36)
لہذا جس انفارمیشن کا فائدہ نہیں اس کے پیچھے پڑنا ایک مسلمان کا کام نہیں۔ اسی طرح ہر انفارمیشن کو آگے بڑھائا بھی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آدمی کے گناہگار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے، اسے آگے بیان کر دے‘‘۔ (سلسله احاديث صحيحه، حدیث نمبر: 383 ۔ سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 2025)
اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ کافی ہے کہ جو سنے اس کو بیان کرے“۔ (صحيح مسلم، حدیث نمبر: 7)
لیکن آج کے مسلمان اپنے نبی ﷺ کی باتوں کی کب پرواہ کرتے ہیں؟ اس لئے آج انفارمیشن کی بہتات ہے اور عمل کچھ بھی نہیں۔
آج جہاں ٹی وی پر ہر وقت ’’ کورونا ‘‘ کا رونا ہے وہیں سوشل میڈیا پر ’’ کورونا ‘‘ کی شیئرنگ ہے۔ کوئی کسی بڑے آدمی کے نام سے وائس میسیج شیئر کرتا ہے تو کوئی جھوٹ و سچ پر مبنی ویڈیوز اور تحاریر شیئر کرکے عوام کو خوف میں مبتلا کر رہا ہے۔ کوئی تحقیق و تصدیق کرنے والا نہیں۔ آج کا مسلمان یہ سوچنے اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ اس بارے میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کیا ہیں؟ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں؟ کیا نبی کریم ﷺ نے تحقیق و تصدیق کے بعد صرف مثبت انفارمیشن شیئر کرنے کی تعلیم نہیں دی اور جو ایسا نہیں کرتا اسے جھوٹا اور گناہگار نہیں بتایا ہے؟
لیکن آج کے مسلمان اپنے نبی ﷺ کی باتوں کی کب پرواہ کرتے ہیں؟ اور انفارمیشن شیئر کرتے وقت مثبت و منفی یا سچ و جھوٹ کے بارے میں کتنے لوگ سوچتے ہیں؟ آج ہر کسی کے ہاتھ میں انفارمیشن پھیلانے کی ڈیوائس (موبائل) ہے اور سب کو اظہارِ رائے کی آزادی (Freedom of Speech) ہے۔ لہذا ہر کوئی انفارمیشن شیئر کر رہا ہے اور ’’انفارمیشن آلودگی‘‘ (Information Pollution) پھیل رہا ہے۔ کوئی روکنے والا نہیں!
لہذا ’’کورونا وائرس کی وبا‘‘ سے زیادہ کورونا کے بارے میں ’’انفارمیشن کی وبا‘‘ پھیلی ہوئی ہے جو ہر انسان کی مینول اور مینٹل ڈیوائسز (موبائل اور ذہن) پر حملہ آور ہے جس کے اثرات ’’کورونا‘‘ سے کہیں زیادہ بُرے ہیں کیونکہ کورونا تو جسے پکڑتا ہے صرف اسے ہی مریض بناتا ہے جبکہ ’’انفارمیشن کی وبا‘‘ نے تو ہر انسان کے ذہن کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اور پوری بنی آدم کو ہی متعدد ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے جن میں چند درج ذیل ہیں:
- خوف کا غلبہ
- ہائی یا لو بلڈ پریشر
- ذہنی دباؤ اور ڈپریشن
- ذہنی و جسمانی کمزاری
- تھکاوٹ کا احساس اور کمزوری
- قوت مدافعت اور توانائی کا فقدان
- قوت فیصلہ اور کارکردگی میں کمی
- نیند کا نہ آنا اور ڈراؤنے خواب دیکنا
- لو موڈ، بد مزاجی اور کام میں دل نہ لگنا
- ہر وقت موبائل کی طرف دھیان کا جانا اور اسی میں لگے رہنا
- وغیرہ وغیرہ
لہذا ’’کورونا کا رونا‘‘ رونے والوں کو کچھ اس طرف بھی دھیان دینا چاہئے اور کورونا سے زیادہ مہلک ’’انفارمیشن کی وبا‘‘ سے بھی انسانیت کو بچانے کی سوچنا چاہئے کیونکہ جب ’’انفارمیشن کی وبا‘‘ سے انسان کی قوتِ مدافعت (Immune system) کمزور پڑے گی تو ’’کورونا وائرس‘‘ لوگوں کو زیادہ متاثر کرے گی اور زیادہ اموات موں گے۔
اسلام اعتدال کا درس دیتا ہے۔ اعتدال پر رہنا ہی فطرت ہے اور فطرت کی طرف لوٹنے میں ہی انسانیت کی بقا ہے۔
اگر یہی انفارمیشن مثبت ہو اور اعتدال کے ساتھ ہو تو اس میں کوئی بُرائی نہیں بلکہ انسانیت کا فائدہ ہے۔ لیکن انفارمیشن جب اعتدال سے بڑھ جائے تو چاہے مثبت ہی کیوں نہ ہو شور بن جاتا ہے اور شور مچاتا ہے۔ لہذا شور مچانے والوں کو روکنا ہوگا۔ حکومت کو ٹی وی پر ہر کس و ناکس کو ’انفارمیشن کی وبا ‘‘ پھیلانے سے روکنا ہوگا۔ حکومت کو ایک ’’انفارمیشن سیل‘‘ بنانی چاہئے جو اس معاملے میں یا آئندہ Disaster Management کے کسی بھی معاملے میں اعتدال کے ساتھ صرف مثبت انفارمیشن عوام تک پہنچانے کا کام کرے تاکہ لوگ ذہنی و جسمانی مریض نہ بنیں بلکہ انفارمیشن سے فائدہ اٹھائیں۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر عام لوگوں کو بھی اللہ سے ڈرتے ہوئے ایک اچھے مسلمان ہونے کا ثبوت دینا چاہئے اور پوری تحقیق و تصدیق کے بعد صرف مثبت اور فائدہ مند مواد ہی شیئر کرنی چاہئے۔ لائیک لینے یا نمبر بنانے کیلئے بغیر تحقیق شدہ غیر ضروری مواد شیئر کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
یاد رکھئے، فرمانِ باری تعالی ہے: ’’وہ منہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہے ‘‘ ( سورہ ق : 18)
پس اگر ہر مسلمان یہ یقین کر لے کہ اس کے ہر قول و فعل کو لکھنے والا ایک نگہبان ہر وقت تیار رہتا ہے تو وہ کوئی بھی کوئی بھی انفارمیشن بغیر تحقیق و تصدیق کے شیئرکرکے جھوٹا نہ بنے اور اپنا اعمال نامہ گناہوں سے نہ بھرے۔
اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو ہدایت دے۔ ہمیں مثبت سوچنے اور مثبت انفارمیشن ہی شیئر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ شیئر کیجئے تاکہ یہ ہمارے حکمران تک پہنچ جائے اور وہ ایک انفارمیشن سیل قائم کرلیں جسکی تجویز اس تحریر میں پیش کی گئی ہے۔
تحریر: محمد اجمل خان
آج کل لاک ڈاؤن، سوشل ڈسٹینسنگ، قرنطینہ وغیرہ کی وجہ کر جہاں سوشل لائف متاثر ہوئی ہے وہیں معلومات کی بہتات (Too much information) نے انسانی اذہان کو بھی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔
انفارمیشن کی زیادتی کبھی اچھی نہیں ہوتی ۔ ۔ ۔ “Too much information is always bad”
اس لئے اسلام انسان کو غیر ضروری باتوں کی جستجوں کرنے سے منع کرتا ہے اور صرف فائدہ مند انفارمیشن پر ہی اکتفا کرنا سکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں سے فرماتے ہیں:
’’بہت گمان کرنے سے بچو‘‘ ۔ ۔ ۔ ’’ تجسس نہ کرو‘‘
اور وعید بھی فرمایا:
’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے ‘‘۔(سورہ الإسراء : 36)
لہذا جس انفارمیشن کا فائدہ نہیں اس کے پیچھے پڑنا ایک مسلمان کا کام نہیں۔ اسی طرح ہر انفارمیشن کو آگے بڑھائا بھی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’آدمی کے گناہگار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے، اسے آگے بیان کر دے‘‘۔ (سلسله احاديث صحيحه، حدیث نمبر: 383 ۔ سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 2025)
اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ کافی ہے کہ جو سنے اس کو بیان کرے“۔ (صحيح مسلم، حدیث نمبر: 7)
لیکن آج کے مسلمان اپنے نبی ﷺ کی باتوں کی کب پرواہ کرتے ہیں؟ اس لئے آج انفارمیشن کی بہتات ہے اور عمل کچھ بھی نہیں۔
آج جہاں ٹی وی پر ہر وقت ’’ کورونا ‘‘ کا رونا ہے وہیں سوشل میڈیا پر ’’ کورونا ‘‘ کی شیئرنگ ہے۔ کوئی کسی بڑے آدمی کے نام سے وائس میسیج شیئر کرتا ہے تو کوئی جھوٹ و سچ پر مبنی ویڈیوز اور تحاریر شیئر کرکے عوام کو خوف میں مبتلا کر رہا ہے۔ کوئی تحقیق و تصدیق کرنے والا نہیں۔ آج کا مسلمان یہ سوچنے اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ اس بارے میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کیا ہیں؟ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں؟ کیا نبی کریم ﷺ نے تحقیق و تصدیق کے بعد صرف مثبت انفارمیشن شیئر کرنے کی تعلیم نہیں دی اور جو ایسا نہیں کرتا اسے جھوٹا اور گناہگار نہیں بتایا ہے؟
لیکن آج کے مسلمان اپنے نبی ﷺ کی باتوں کی کب پرواہ کرتے ہیں؟ اور انفارمیشن شیئر کرتے وقت مثبت و منفی یا سچ و جھوٹ کے بارے میں کتنے لوگ سوچتے ہیں؟ آج ہر کسی کے ہاتھ میں انفارمیشن پھیلانے کی ڈیوائس (موبائل) ہے اور سب کو اظہارِ رائے کی آزادی (Freedom of Speech) ہے۔ لہذا ہر کوئی انفارمیشن شیئر کر رہا ہے اور ’’انفارمیشن آلودگی‘‘ (Information Pollution) پھیل رہا ہے۔ کوئی روکنے والا نہیں!
لہذا ’’کورونا وائرس کی وبا‘‘ سے زیادہ کورونا کے بارے میں ’’انفارمیشن کی وبا‘‘ پھیلی ہوئی ہے جو ہر انسان کی مینول اور مینٹل ڈیوائسز (موبائل اور ذہن) پر حملہ آور ہے جس کے اثرات ’’کورونا‘‘ سے کہیں زیادہ بُرے ہیں کیونکہ کورونا تو جسے پکڑتا ہے صرف اسے ہی مریض بناتا ہے جبکہ ’’انفارمیشن کی وبا‘‘ نے تو ہر انسان کے ذہن کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اور پوری بنی آدم کو ہی متعدد ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے جن میں چند درج ذیل ہیں:
- خوف کا غلبہ
- ہائی یا لو بلڈ پریشر
- ذہنی دباؤ اور ڈپریشن
- ذہنی و جسمانی کمزاری
- تھکاوٹ کا احساس اور کمزوری
- قوت مدافعت اور توانائی کا فقدان
- قوت فیصلہ اور کارکردگی میں کمی
- نیند کا نہ آنا اور ڈراؤنے خواب دیکنا
- لو موڈ، بد مزاجی اور کام میں دل نہ لگنا
- ہر وقت موبائل کی طرف دھیان کا جانا اور اسی میں لگے رہنا
- وغیرہ وغیرہ
لہذا ’’کورونا کا رونا‘‘ رونے والوں کو کچھ اس طرف بھی دھیان دینا چاہئے اور کورونا سے زیادہ مہلک ’’انفارمیشن کی وبا‘‘ سے بھی انسانیت کو بچانے کی سوچنا چاہئے کیونکہ جب ’’انفارمیشن کی وبا‘‘ سے انسان کی قوتِ مدافعت (Immune system) کمزور پڑے گی تو ’’کورونا وائرس‘‘ لوگوں کو زیادہ متاثر کرے گی اور زیادہ اموات موں گے۔
اسلام اعتدال کا درس دیتا ہے۔ اعتدال پر رہنا ہی فطرت ہے اور فطرت کی طرف لوٹنے میں ہی انسانیت کی بقا ہے۔
اگر یہی انفارمیشن مثبت ہو اور اعتدال کے ساتھ ہو تو اس میں کوئی بُرائی نہیں بلکہ انسانیت کا فائدہ ہے۔ لیکن انفارمیشن جب اعتدال سے بڑھ جائے تو چاہے مثبت ہی کیوں نہ ہو شور بن جاتا ہے اور شور مچاتا ہے۔ لہذا شور مچانے والوں کو روکنا ہوگا۔ حکومت کو ٹی وی پر ہر کس و ناکس کو ’انفارمیشن کی وبا ‘‘ پھیلانے سے روکنا ہوگا۔ حکومت کو ایک ’’انفارمیشن سیل‘‘ بنانی چاہئے جو اس معاملے میں یا آئندہ Disaster Management کے کسی بھی معاملے میں اعتدال کے ساتھ صرف مثبت انفارمیشن عوام تک پہنچانے کا کام کرے تاکہ لوگ ذہنی و جسمانی مریض نہ بنیں بلکہ انفارمیشن سے فائدہ اٹھائیں۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر عام لوگوں کو بھی اللہ سے ڈرتے ہوئے ایک اچھے مسلمان ہونے کا ثبوت دینا چاہئے اور پوری تحقیق و تصدیق کے بعد صرف مثبت اور فائدہ مند مواد ہی شیئر کرنی چاہئے۔ لائیک لینے یا نمبر بنانے کیلئے بغیر تحقیق شدہ غیر ضروری مواد شیئر کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
یاد رکھئے، فرمانِ باری تعالی ہے: ’’وہ منہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہے ‘‘ ( سورہ ق : 18)
پس اگر ہر مسلمان یہ یقین کر لے کہ اس کے ہر قول و فعل کو لکھنے والا ایک نگہبان ہر وقت تیار رہتا ہے تو وہ کوئی بھی کوئی بھی انفارمیشن بغیر تحقیق و تصدیق کے شیئرکرکے جھوٹا نہ بنے اور اپنا اعمال نامہ گناہوں سے نہ بھرے۔
اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو ہدایت دے۔ ہمیں مثبت سوچنے اور مثبت انفارمیشن ہی شیئر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ شیئر کیجئے تاکہ یہ ہمارے حکمران تک پہنچ جائے اور وہ ایک انفارمیشن سیل قائم کرلیں جسکی تجویز اس تحریر میں پیش کی گئی ہے۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔