• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک اہم ترین سوال

ماہا

مبتدی
شمولیت
مئی 18، 2011
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
233
پوائنٹ
0

اسلام علیکم
جناب محترم سوال ہے کہ اگر ایک عورت کا نکاح اس مرد سے دوبارہ ہوتا ہے جس کے نکاح میں وہ پہلے تھی لیکن پھر طلاق کی وجہ سے علیحدگی ہو گئی اور اس کا نکاح کسی اور سے ہو گیا تھا اب اس پہلے مرد کے نکاح میں اگر آتی ہے تو اس مرد کو کتنی طلاقوں کا حق حاصل ہے؟
اگر دو طلاق کا حق حاصل ہے تو کیوں؟ تین طلاق کا کیوں نہیں؟؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
شیخ صالح المنجد سے جب اس بارے سوال ہوا تو انہوں نے یوں جواب دیا:
سوال:ميرے ايك دوست نے اپنى بيوى كو تين طلاقيں دى ہيں ليكن پہلى طلاق رخصتى اور دخول سے قبل تھى، ليكن نكاح ہو چكا تھا، تو كيا يہاں تين طلاقيں شمار ہونگى يا كہ دخول سے پہلے والى طلاق شمار نہيں كى جائيگى، اور اسے واپس لانا كس طرح ممكن ہے ؟
الحمد للہ:
جب آدمى بيوى كو دخول اور رخصتى سے قبل ہى طلاق دے دے يا پھر دخول كے بعد طلاق دے اور عدت ميں رجوع نہ كرے، اور پھر دوبارہ اس سے نكاح كر لے اور اس عورت نے كسى اور شخص سے شادى نہ كى ہو تو وہ باقى مانندہ طلاق ميں ہى واپس آئيگى، اس ميں كوئى اختلاف نہيں، اس طرح اسے دو طلاقيں باقى ہونگى۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كا اجمالى بيان يہ ہے كہ جب اس كى بيوى بائن ہو جائے، اور پھر اس نے اسى عورت سے شادى كر لى تو اس كى تين حالتيں ہيں:
پہلى حالت:
وہ اسے تين طلاقيں دے دے، اور وہ عورت كسى دوسرے شخص سے شادى كرے اور وہ اسے چھوڑ دے پھر پہلا خاوند اس سے شادى كر لے تو بالاجماع يہ عورت تين طلاق ميں واپس آئيگى يعنى اسے تين طلاق دينے كا حق ہوگا، ابن منذر كا قول يہى ہے۔
دوسرى حالت:
اسے تين كى بجائے ايك يا دو طلاق دى ہوں، اور خاوند اپنى بيوى سے رجوع كر لے، يا پھر دوسرے خاوند سے قبل وہ دوبارہ نكاح كر لے تو جتنى طلاق باقى ہونگى اس ميں ہى وہ عورت واپس آئيگى، ہمارے علم كے مطابق اس ميں كوئى اختلاف نہيں۔
تيسرى حالت:
اسے تين سے كم يعنى ايك يا دو طلاق ہوئى ہوں، اور عورت كى عدت ختم ہو جائے، پھر اس نے كسى دوسرے شخص سے نكاح كر ليا ہو، اور پھر بعد ميں وہ عورت پہلے خاوند سے شادى كر لے تو امام احمد رحمہ اللہ سے اس مسئلہ ميں دو روايتيں ہيں:
پہلى روايت: وہ باقى مانندہ طلاق كے ساتھ ہى واپس ہو گى، اكابر صحابہ كرام عمر اور على اور ابى بن كعب اور معاذ اور عمران بن حصين اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہم كا يہى قول ہے۔اور زيد اور عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے يہى مروى ہے اور سعيد بن مسيب اور عبيدہ اور حسن، مالك، ثورى، ابن ابى ليلى، شافعى، اسحاق، ابو عبديہ، ابو ثور، محمد بن حسن، ابن منذر كا يہى قول ہے۔
اور امام احمد سے دوسرى روايت يہ ہے كہ: وہ تين طلاق پر ہى واپس آئيگى يعنى اسے پھر تين طلاق كا حق حاصل ہوگا ابن عمر، ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم اور عطاء، نخعى، شريح ابو حنيفہ اور ابو يوسف رحمہم اللہ كا قول يہى ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 389 )۔
اس بنا پر آپ كے دوست كى بيوى نے پہلى طلاق كے بعد نكاح نہيں كيا تھا تو عقد ثانى كے بعد اسے دو طلاق كا حق حاصل ہے۔
اور اگر وہ اسے دو طلاقيں دے دے تو وہ اس سے بائن كبرى ہو جائيگى، اور اس كے ليے اس سے نكاح كرنا حلال نہيں حتى كہ وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح رغبت كرے نہ كا نكاح حلالہ پھر وہ شخص اسے اپنى مرضى سے طلاق دے دے يا پھر فوت ہو جائے تو پہلا خاوند نكاح كر سكتا ہے۔

واللہ اعلم ۔
الاسلام سوال و جواب
 
Top