• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک بچی اور تین دعویدار !!

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
سیدنا براءبن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعد کے مہینہ میں عمرہ کا ارادہ کیا تو مکہ والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کیا
یہاں تک کہ ان سے اس بات پر فیصلہ ہوا کہ آئندہ سال تین دن قیام کریں گے
جب صلح نامہ لکھنے لگے تو اس کے شروع میں لکھا کہ وہ صلح نامہ ہے
جو محمد اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)نے کیا ہے مکہ والوں نے کہا کہ ہم تو اس کا اقرار نہیں کرتے ہیں، اگر ہم جانتے کہ تم اللہ کے رسول ہو
تو ہم تم کو نہیں روکتے بلکہ تم تو محمد بن عبداللہ ہو
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور عبداللہ کا بیٹا ہوں (صلی اللہ علیہ وسلم) پھر سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا رسول اللہ کا لفظ مٹا دو انہوں نے کہا نہیں اللہ کی قسم میں کبھی نہیں اس کو مٹاؤں گا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کاغذ اپنے ہاتھ میں لیا اور لکھا
ھذا ما قاضی علیہ محمد بن عبداللہ ۔ ۔ ۔
''وہ مکہ میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ ان کے ہتھیار نیام میں ہوں گے اور اگر مکہ کا کوئی شخص ان کے ساتھ جانا چاہئے تو اس کو ساتھ لے کر نہیں جائیں گے اور اپنے ساتھیوں میں سے کوئی شخص مکہ جانے کے بعد اگر وہاں رہنا چاہئے گا تو اسے منع نہیں کریں گے''
جب دوسرے سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور مدت گزر گئی تو لوگ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اپنے ساتھی سے کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس چلے جائیں
اس لیے کہ مدت گزر چکی نبی صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے
تو سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی چچا چچا کہتی پیچھے ہوگئی
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے لے لیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا سے کہا کہ اپنے چچا کی بیٹی کو لے لو انہوں نے اس کو سوار کرلیا
تو اس کے متعلق سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سیدنا زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جھگڑنے لگے
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں اس لڑکی کا مستحق ہوں کہ وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور
سیدنا جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعویٰ کیا کہ وہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری زوجیت میں ہے (اس لیے میں زیادہ مستحق ہوں)
سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے (اپنے استحقاق کا دعویٰ کیا اور) کہا کہ میرے بھائی کی بیٹی ہے
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا خالہ بمنزلہ ماں کے ہے
اورسیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ میں تجھ سے ہوں اور تو مجھ سے اور
سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صورت سیرت میں مجھ سے زیادہ مشابہ ہو اور
سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے کہا تو ہمارا بھائی اور مولا ہے۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2586 صلح کا بیان : باب
کس طرح (صلح نامہ) لکھا جائے ھذا ما صالح فلاں بن فلاں و فلاں بن فلاں (یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر فلاں بن فلاں نے صلح کی اور اگرچہ اس کو قبیلہ یا نسب کی طرف منسوب نہ کرے۔
تشریح : سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے اس لیے اُن کی صاحبزادی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چچا کہ کر پکارا۔
سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے اس بچی کو اپنی بھتیجی اس لیے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنھما کا بھائی بنا دیا تھا۔
سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ مولانا سے خطاب فرمایا،مولٰی اس غلام کو کہتے ہیں جس کو مالک آزاد کر دے۔
آپ نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو آزاد کر کے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔
جب آپ نے یہ لڑکی ازروئےانصاف سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کو دلوائی تو اوروں کا دل خوش کرنے کے لیے یہ حدیث فرمائی۔
اس حدیث سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت نکلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،میں تیرا ہوں اور تومیراہے۔مطلب ہم تم دونوں ایک ہی دادا کی اولاد ہیں اور خون ملا ہوا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مٹانے اور
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نام لکھنےسےانکارعدول حکمی کے طور پر نہیں کیا،بلکہ قوت ایمانیہ کے جوش سے ان سے یہ نہیں ہوسکا کہ
آپ کی رسالت جو سراسر برحق اور صحیح تھی اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ بھی معلوم ہوگیا تھا
کہ آپ کا یہ حکم بطور وجوب کے نہیں ہے۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ ترجمہ میں صرف فلاں بن فلاں لکھنے پر اقتصار کیااور زیادہ نسب نامہ خاندان وغیرہ نہیں لکھوایا۔ روایت ہذا میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود لکھنے کا ذکر ہے یہ بطور معجزہ ہوگا، ورنہ درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی امی تھے اور لکھنےپڑھنے سے آپ کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھر اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علوم الاولین و الاخرین سے مالا مال فرمایا۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امی ہونے کا انکار کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ،امی ہونا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے (مولانا داؤد راز رحمہ اللہ )
 
Top