ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 650
- ری ایکشن اسکور
- 197
- پوائنٹ
- 77
ایک بہت بڑا فتنہ انگیز لاوڈ سپیکر (منیر شاکر) خاموش ہوا۔ الحمد للہ
از قلم : مفتی اعظم حفظہ اللہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
منیر شاکر کا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ تراویح کو نہیں مانتا تھا میں خود بھی تراویح کو لازم نہیں مانتا اس رمضان بھی مستقل قیام نہیں کیا یے اگر کوئی گھر پر اکیلے بھی نہ پڑے تو بھی کوئی گناہ نہیں۔
اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ عذاب قبر کا منکر تھا عذاب قبر کی صورت اور مقام میں اختلافات دیگر علماء کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔
اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی نہیں کہ معراج جسمانی کا انکار کیا اس میں بھی امت میں اس سے پہلے بھی کچھ لوگ تفردات کے حامل رہے ہیں۔
یہ مسئلہ بھی نہیں کہ امام بخاری یا امام مسلم یا مفسرین کے امام جریر طبری کی توھین کرتا تھا، ان تینوں کی توھین سے کوئی اسلام سے خارج نہیں ہوتا ہے۔
یہ مسئلہ بھی نہیں تھا کہ بخاری یا مسلم کی چند احادیث کا انکار کرتا تھا کیونکہ کسی کتاب کی چند احادیث کا انکار یا ان پر جرح کی مثالیں بھی پہلے سے موجود رہی ہیں۔
مفتی منیر شاکر کا سب سے بڑا اور اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس نے ایک ایسے فتنے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی جس کے بعد قرآن ایک مذاق بن کر رہ جاتا اور پہلے سے ہی سخت مصیبتوں کی شکار امت میں ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوتا اور ملحدین و سیکولرازم کے حاملین کی دیرینہ خواہش پوری کرتے ہوئے ان کو نئے ہتھیار فراہم کرتا، یہ ایک ایسا فتنہ ہے جس کی کوشش طویل عرصے سے ہورہی ہے اور مختلف انداز سے ہورہی ہے جس کا بنیادی ہدف قرآن ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ مفتی منیر شاکر برضا و رغبت قرآن کی مخالفت کرنا چاہتے تھے لکن وہ نادانستہ اسی تحریک کےلئے استعمال ہورہے تھے جو ایک طویل عرصے سے قرآن کو ہدف بنانے کےلئے سرگرم ہے۔
کیسے ؟
ہر کتاب کی کسی بھی عبارت کے ایک سے زائد مطلب نکالے جاسکتے ہیں مثال کے طور پر اردو کے مشہور شاعر غالب کے دیوان کی کئی درجن شرحیں ہیں اور ہر شارح نے اس کے اشعار کا الگ مطلب نکالا ہے اسی طرح عیسائیوں کے متعدد فرقوں نے توریت و انجیل کی آیات کا الگ الگ مطلب نکال کر اس پر اپنے فرقے کی بنیاد رکھی ہے اسی لئے اللہ تعالی نے قرآن نازل کر کے اس کے ساتھ ایک نبی بیجھا اور اس کو حکمت دی تاکہ وہ قرآن پر عمل بھی کر کے دکھائے اس کی تشریح بھی کر کے دے تاکہ بعد میں ہر کوئی اس سے اپنی مرضی کا مطلب نکال کر اس امت کا وہ حال نہ کریں جو اس سے قبل کتاب والی امتوں کا ہوا ہے اس لئے قرآن کے محکمات جن میں ارکان اسلام اور ضروری دینی مسائل ہیں ان کے متعلق احادیث میں مکمل وضاحت کر دی گئی اور نبی صل اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے دکھا دیا پھر نبی کے عمل کو مسلمانوں نے محفوظ بھی کیا اس پر عمل پر اجماع بھی کیا اور اس کو کتابوں میں بھی محفوظ کر دیا، مثال کے طور پر قرآن میں بار بار صلوة قائم کرنے کا حکم ہے اب اس سے ہر کوئی اپنا مطلب نہ نکالے اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جیسے مجھے اس کو قائم کرتے دیکھتے ہو ویسے ہی قائم کرو " اور پھر نبی نے اس کو قائم کرکے بھی دکھایا اس کے ارکان بھی سکھائے اس کےلئے طہارت بھی سکھائی اس کے اوقات بھی سمجھا دئے اور یوں یہ عبادت مسلمانوں میں محفوظ اور متواتر ہوگئی اسی طرح رمضان، حج، جہاد، زکات اور دیگر ارکان کی مثال ہے۔
حدیث کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے ایک اور احتیاط بھی کی کہ قرآن کی تفسیر کےلئے اصول وضع کر دئے کہ قرآن کو پہلے تو خود قرآن سے سمجھا جائے گا پھر حدیث سے پھر صحابہ و آثار سے اس کے بعد جو بچ جائے اس کی تشریح کےلئے نہ صرف ناسخ منسوخ شان نزول عربیت اور دیگر چیزوں کا اہتمام کرنا ہوگا بلکہ قرآن کے اولین حاملین صحابہ و تابعین اور تبع تابعین کی مخالفت سے بھی بچنا ہوگا۔
حدیث اور تفسیر کے اصول سے قرآن میں ہر کسی کےلئے من مانی تحریف اور اپنی مرضی کے مطلب نکالنے کا دروازہ بند ہوگیا اور منکرین حدیث منیر شاکر اور اس جیسے اسی بند دروازے کو اکھاڑ کر پھینکنا چاہتے ہیں تاکہ پھر قرآن میں ہر ایرا غیرا نتھو خیرا داخل ہوکر اپنی من مانی تاویلات کر کے اس کتاب کو اپنی مرضی اہنی خواہشات کے تابع کر سکے۔
جب آپ حدیث کو اصول تفسیر کو اقوال صحابہ کو یکسر مسترد کردیں تو اب قرآن ایک کھلا میدان کی طرح بن گیا ہے جس میں ہر شخص اپنی عقل کے مطابق اپنی مرضی کا کوئی بھی مطلب نکال کر اسلام کا مکمل حلیہ ہی تبدیل کر سکتا ہے، اور پھر دین ایک مذاق بن کر رہ جائے گا اس کی بنیادیں منہدم ہوجائیں گی اور اس کے ستون گر جائیں گے۔
مثال کے طور پر قرآن میں صلوة قائم کرنے کا حکم ہے اس پر صحابہ سے آج تک مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس سے مخصوص انداز میں ادا کی جانے والی ۵ وقت کی عبادت مراد ہے لیکن پرویزیوں نے اس کا انکار کیا اور کہا کہ اس سے نظام قائم کرنا مراد ہے بعض نے کہا صبح و شام کی دعا مراد ہے وغیرہ
اسی اصول پر اب آپ دیگر ارکان اسلام کو رکھیں آپ کہتے ہو جہاد کافروں سے لڑنے کو کہتے ہیں میں کہتا ہوں نہیں یہ بیوی کے ساتھ مباشرت کو کہتے ہیں آپ کہتے ہو کیوں میں کہتا ہوں یہ تو جدوجہد ہے اور بیوی کے ساتھ مباشرت بھی جدوجہد ہے یہی مراد ہے!
آپ کہتے ہو توحید کا مطلب ایک اللہ کی عبادت ہے میں کہتا ہوں اس کا مطلب وحدت الوجود ہے آپ کہتے ہو ماں سے نکاح حرام ہے میں کہتا ہوں اس سے امہات المومنین مراد ہیں اپنی ماں سے نکاح حرام نہیں ہے!
اب آپ مجھ سے کیسے منواو گے ؟ آپ حدیث کا حوالہ دو گے میں کہوں گا یہ تو میں مانتا ہی نہیں ایرانیوں کی کتابیں ہیں بخاری ایرانی مسلم ایرانی نسائی ایرانی ابن ماجہ ایرانی ابو داود ایرانی میں اللہ کی کتاب کے مقابلے ان ایرانی کتب کو نہیں مانتا!
آپ کہتے ہو طبری ابن کثیر قرطبی بغوی میں ہے میں کہتا ہوں طبری تو شیعہ تھا ابن کثیر قرطبی بغوی سب شیعوں کی لکھی کتب ہیں آپ کہتے ہو فلاں محدث یا فلاں مفسر نے کہا مین کہتا ہوں وہ ایرانی ہے آپ جو بھی حوالہ دو گے میں قرآن لہرا کر کہوں گا میں صرف یہ ایک اللہ کی کتاب کو مانتا ہوں اور کسی کو نہیں مانتا!
اب اس سے کیا ہوگا دنیا میں ہر شخص ہر فرقہ ہر گروہ اپنی مرضی کا دین ایجاد کر لے گا نماز روزہ حج زکات جہاد ہر چیز کی شکل مسخ ہوجائے گی اور تمام اراکین منہدم ہوجائیں گے اور یہ ہو بھی چکا ہے اور اس کی واضح مثالیں موجود ہیں کہ قرآن کے گرد قائم احادیث اور تفاسیر کی دیوار منہدم کرنے کے بعد ان منکرین نے کیسے اس کتاب میں تحریفات کا آغاز کیا۔
ہندوستان میں انکار حدیث کے مشہور سرخیل غلام احمد پرویز نے حج کو عبادت ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کی طرز پر مسلمانوں کے عالمی اجتماع کا حکم ہے اور جو عید پر قربانیاں کی جاتی ہیں یہ اس اجتماع کے شرکاء کے کھانے کےلئے ہے اس لئے یہ قربانی صرف مکہ والوں پر لازم ہے کیونکہ اجلاس وہاں ہوتا ہے!
کراچی کے ایک منکر حدیث محمد شیخ نے کہا کہ بنی اسرائیل سے مسلمان مراد ہیں موسی کو توریت نہیں دی گئی تھی قرآن نوح کو بھی دیا گیا تھا اور ہمیشہ سے موجود ہے ہم اہل کتاب ہیں توریت قانون تھا کتاب نہیں تھی اور اس سے مراد قران ہے وغیرہ!
ساحل عدیم نے کہا کہ طوفان نوح کا پانی دوسری کہکشاں سے لایا گیا تھا ذوالقرنین لائٹ سپیڈ سے سفر کرتا ہوئے دنیا سے نکل گیا تھا بلیک ہول کے پاس گئے تھے وغیرہ!
منیر شاکر نے کہا کہ آدم سے مراد خلیہ اور پلازما ہے نہ کہ ابو البشر آدم، مسجد اقصی سے مراد مدینہ ہے، چیونٹی اور ہدہد سے سلیمان نے کوئی گفتگو نہیں کی!
سوچو یہ گل ان منکرین نے اس حال میں کھلائے ہیں جب ان کے ماننے والے نہ ہونے کے برابر ہیں یہ مسلمانوں سے خوفزدہ ہیں ان کو قتل کی دھمکیاں موصول ہوتی ہیں اب جب یہ حال ہے تو سوچو جب ان کے ماننے والے کثیر ہوں ان کی قوت ہو اور ان کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تب وہ قرآن کے ساتھ کیا کریں گے اور اس کو کیسے ایک مذاق بنا کر رکھ دیں گے۔
احادیث اور اصول تفسیر خاردار تاروں سے بنی ایسی حفاظتی دیواریں ہیں جس سے قرآن میں کوئی خبیث اپنی مرضی کی تاویلات کرنے کےلئے داخل نہیں ہوسکتا لیکن اگر اس کو ہٹا دیا جائے تو ہر کوئی قرآن کو اپنی مرضی کے تابع کرنے کےلئے آزاد ہوجائے گا کیونکہ کوئی بھی کسی سے یہ نہیں منوا سکے گا کہ اس آیت کا اصل مطلب کیا ہے۔
اور یہ اسلام دشمنوں کی صدیوں سے خواہش رہی ہے کہ کاش یہ دیواریں منہدم ہوجائیں تاکہ ہم قرآن کو ایسے متنازعہ کردیں کے اسلام بطور دین قائم ہی نہ رہیں اور منیر شاکر انہی دیواروں کو منہدم کرنے والی اس وقت سب سے زیادہ گونجنے والی آواز تھی، وہ کھلم کھلا اعلان کرتا تھا کہ میں حدیث کی کسی کتاب کو نہیں مانتا میں طبری کو یا کسی تفسیر کو نہیں مانتا اور یہ بات وہ روزانہ اور ہزاروں لوگوں کو بار بار سناتا تھا اور یہ اتنا بڑا فتنہ ہے اور اتنی خطرناک بات تھی کہ اگر اسلامی حکومت ہوتی تو اس کا ہاتھ پیر مخالف سمت سے کاٹ کر اس کو ہھانسی دے کر کئی دن تک اس کی لاش لٹکانے کو چھوڑ دیتی تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں۔
منصور حلاج نے صرف کہا "انا الحق" تو علماء و فقہاء نے کہا یہ تو اس امت میں عظیم فتنے کی بنیاد رکھ رہا ہے اور پھر ان کے فتوے پر اسلامی حکومت نے اس کو سولی چڑھا کر ہمیشہ کےلئے اس کا فتنہ پرور منہ بند کر دیا جبکہ منیر شاکر تو منصور سے کئی گناہ زیادہ سنگین اور خطرناک باتیں پھیلا رہا تھا، منصور کے قول کی تو تاویل بھی ہوسکتی تھی اس کی باتوں کو تو کوئی تاویل بھی ممکن نہیں کیونکہ کھلم کھلا فخریہ طور پر صریح لفظوں میں متواتر عبادات سنت نبی مسلمہ عقائد اور احادیث کا انکار کرتا تھا۔
اور حدیث کا انکار اصل میں قرآن کا انکار کرنے کا دروازہ ہے جب بھی احادیث پر وار کیا جاتا ہے تو اصل نظر قرآن پر وار کرنے کی ہوتی ہے اور اس کےلئے پہلے حدیث کو راستے سے ہٹانے کی کوشش ہوتی ہے اس لئے ملحدین ہمیشہ سب سے پہلا وار حدیث پر کرتے ہیں آپ کسی بھی ملحدین کے گروپ یا محفل میں چلے جائیں ان کا پسندیدہ موضوع احادیث کی توھین ہوتا ہے۔
انکار حدیث کے فتنے کے اس دروازے کو کسی صورت کھولنے نہیں دینا چاہئے اور نہ کھبی مسلمانوں نے اس کو کھولنے دیا ہے کیونکہ پھر ہر شہر میں کوئی منیر شاکر کوئی محمد شیخ کوئی غلام احمد پرویز کوئی ساحل عدیم یوٹیوب پر بیٹھ کر قرآن کو تماشہ بنا دے گا اور اس میں تحرف کا دروازہ کھول دے گا۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ اگر آپ عقیدے میں تذبذب کا شکار ہو بھی گئے ہو اور اپنی اوٹ پٹانگ تحقیقات کے نتیجے میں صحابہ تابعین سلف صالحین اور تمام امت سے بلکل ہٹ کر ایک نئے راستے پر چل بھی پڑے ہو تو اس کو اپنے آپ تک رکھو یا اپنے ان شاگردوں تک رکھو جو آپ کے قریب ہیں اور آپ کو مانتے ہیں خود چاہو تو فجر ۸ رکعات پڑھو ظہر ایک پڑھو عصر ۵ پڑھو! روزے دن کے بجائے رات کو رکھو، بخاری مسلم اور صحاح ستہ کو نہیں مانتے نہ مانو، تمام محدثین و مفسرین کو کافر سمجھتے ہو سمجھتے رہو آدم کی تخلیق کا انکار کر کے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو مان کر خود کو بندر کا جدید ورژن سمجھتے ہو لاکھ دفعہ سمجھو بلکہ اپنے آباء کی سنت کو زندہ کرنے کےلئے درختوں پر بھی چڑھ کر چھلانگیں لگاو، معراج کا انکار کرتے ہو کرتے رہو، ذکر کے اجر سے منکر ہو نہ کرو ذکر، ہدہد اور چیونٹی کو انسان مانتے ہو مانتے رہو!
لیکن آپ کو یہ اجازت کس نے دی ہے کہ اپنے ان نظریات کی مسلمانوں میں تبلیغ کرو اور ان کے ۱۴۰۰ سال سے متفق اور اجماعی مسائل کا مذاق اڑاو ان کے دین کے دوسرے بنیادی ماخذ یعنی احادیث کو سخت گستاخانہ انداز میں رد کرو اور اس کو ایرانی سازش بتاو مسلمانوں کے دینی مقدسات پر اپنی بے لگام زبان کو دراز کرو اور اس کا مذاق اڑاو اور پھر جب اس پر کوئی تنبیہ کرے تو طاغوت کے پاس بھاگ کر اس سے سیکورٹی بھی طلب کرو اور سیکورٹی نہ ملنے پر رونا دھونا شروع کرو، یہی بنیادی مسئلہ تھا کہ منیر شاکر نے اپنے تکبر اور ہٹ دھرمی سے اس امت کو انتہائی حقیر سمجھ کر اس کے مقدسات اور دین پر سر عام انتہائی گستاخانہ انداز میں طنز و تنقید اور استہزاء کا ایسا طوفان برپا کیا جس نے بلآخر اس کو اپنے منطقی انجام تک پہنچا دیا کیونکہ یہ بات یاد رکھو کہ مسلمان اس معاملے میں انتہائی خطرناک لوگ ہیں
وہ سب کچھ برداشت کر جاتے ہیں لیکن دینی مقدسات کی توھین پر کمپرومائز نہیں کرتے جب وہ فرانس میں چارلی ھیبڈو کو اور سویڈن میں سلوان مومیکا کو انجام سے دوچار کر سکتے ہیں تو پشاور میں بیٹھ کر تمھیں بہت احتیاط کرنی چاہئے تھی جو کہ تم نے اہنے تکبر کی وجہ سے نہیں کی اور اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
وما علینا الا البلاغ