ایک وقت تھا جب لوگ اسے قتل کرنے کے منصوبے بناتے تھے۔ اب اس کی درازی عمر کی دعائیں مانگتے ہیں، اس سے مل کر خوشی اور مسرت میں ڈوب جاتے ہیں۔
ابھی گذشتہ دنوں جب وہ حج کی روانگی کے لیے یہاں پہنچا تو مجھے اس کا وہ زمانہ یاد آرہا تھا جب وہ سراپا آزار تھا۔ ہر وقت خدا کے بندوں کے سر پر سوار، ان کی مجبوریوں، محرومیوں سے فائدہ اٹھانے پر تیار۔ جب بھی کوئی ضرورت مند اس کے در پر جاتا اپنی مراد پاتا لیکن اس کی من پسند شرائط پر۔ ایسی شرائط جو سراسر اس کے مفاد میں ہوتیں۔ ایک مرتبہ جو اس کے شکنجے میں پھنس جاتا ہمیشہ کے لیے قید ہوجاتا۔
ایسا قید کہ وہ رہائی کے لیے جتنی بھی تگ و دو کرتا، اتنا ہی دلدل میں دھنستا چلا جاتا۔ زندگی کی آخری ہچکی تک وہ ان کا خون چوستا اور پھر بھی سیراب نہ ہوتا۔ پشت در پشت منتقل ہوجانے والے زہر کا تریاق کیا ہوسکتا ہے؟ نہ جانے وہ کیسا انسان تھا؟ میں اسے انسان غلط کہہ گیا ہوں۔ وہ تو ایسا درندہ تھا جو مجبوروں کی ہڈیوں کا گودا تک نچوڑ لیتا، لیکن اس کی بھوک تھی کہ بڑھتی ہی رہتی، وہ کبھی شکم سیر نہیں ہوتا۔
اس کا دوسرا رخ دنیا دیکھتی کہ وہ اﷲ کے گھر میں اذان ہوتے ہی داخل ہوجاتا۔ اہتمام سے وضو کرتا اور صف اول میں عین امام کے پیچھے ہاتھ باندھ کر خدا کی حمد و ثنا کرتا۔ اس کے ہاتھ میں خوب صورت تسبیح ہوتی جو ہمیشہ گردش میں رہتی، اس وقت بھی جب وہ گفت گو کرتا۔ اس سے اگر آپ پہلی مرتبہ ملتے تو اس کی پارسائی کی قسم کھاتے۔ عجیب تضاد تھا اس میں۔ وہ ہمیشہ حالت جنگ میں رہتا اور جنگ بھی کس سے؟
رب کائنات سے جنگ۔ الامان الحفیظ۔ رب کائنات سے بھی کوئی جنگ کرسکا ہے؟ لیکن وہ تو ہمیشہ برسر پیکار رہتا۔ اور اسے گمان تھا کہ یہ تو کاروبار ہے۔ دھوکے کی دنیا کا فریب خوردہ آدمی یہ سمجھتا کہ سب یہی کررہے ہیں۔ کیا بڑے بڑے بینک بھی یہ نہیں کررہے اور ہر ایک ان سے لین دین کرتا ہے۔ اگر میں یہی کام کرتا ہوں تو غلط کیسے ہوگیا؟ بس یہی دلیل اسے اندھیرے میں رکھتی اور وہ خدا کی مجبور مخلوق کی گردنوں میں اپنے خونی دانت پیوست کیے انھیں بھنبھوڑتا رہتا۔
وہ سود پر لوگوں کو رقوم دیتا اور پھر ایک رجسٹر بغل میں دبائے ان سے وصولیاں کرتا پھرتا۔ دوران گفتگو اذان کی آواز اس کی سماعت سے ٹکراتی تو وہ فوراً اپنا رجسٹر بند کرتا اور پھر یوں کہتا،’’ابھی نماز کا وقت ہے۔ میں نماز ادا کرلوں پھر حساب کتاب شروع کرتا ہوں۔‘‘
وہ کہتا:
’’اور سن لو! میں اپنی ایک ایک پائی وصول کرنا بہت خوب جانتا ہوں۔ تم مجھ سے بھاگ نہیں سکتے۔ تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔‘‘
اگر کوئی کہتا کہ ہم تمہاری پوری رقم ادا کرنے کو تیار ہیں تو وہ انھیں بہت خلوص سے مشورہ دیتا:
’’دیکھو بھائی: میں تم سے اپنی اصل رقم نہیں مانگ رہا۔ اپنی جان ہلکان نہ کرو۔ میں تو تم سے اپنی رقم کا نفع مانگ رہا ہوں۔ بس وہ دیتے جائو۔ اگر کچھ اور رقم درکار ہے تو وہ بھی حاضر ہے۔ میں تو تمہارے فائدے کی بات کرتا ہوں۔‘‘
اور مخاطب اس کی سحر انگیز گفت گو کا اسیر ہوجاتا اور پھر سے گاڑی چلنے لگتی۔
میری اس کی ملاقات بھی ایک تنازع کے موقع پر ہوئی جب ہمارے محلے کے دو کاروباری افراد میرے گھر پر تشریف لائے اور اس سے کچھ مہلت دلانے کی گزارش کی۔ میرا کہنا تھا کہ میں تو اسے نہیں جانتا پھر آخر اس تنازع میں کیوں پڑوں؟ تم نے آخر کیوں سود پر رقم لی؟ مایوسی ان کے چہروں پر تاریکی بن کر پھیل رہی تھی کہ وہ بولے
’’ٹھیک ہے لطیف بھائی! آپ اگر اس مسئلے میں نہیں آرہے تو ہم اسے قتل کردیتے ہیں۔ یہی ایک راستہ بچا ہے اس سے جان چھڑانے کا‘‘
اس سے پہلے کہ وہ جانے کے لیے کھڑے ہوتے، میں آمادہ ہوگیا۔ عشاء کے بعد اس سے ملاقات ہوئی۔ خالص کاروباری لہجے کا دو ٹوک آدمی، اس کا ایک ہی مطالبہ تھا، میری رقم ادا کرو، چاہے اپنا سب کچھ بیچ ڈالو اور میں خود یہ سب کچھ خریدنے کو تیار بھی ہوں۔‘‘ معاملے کے ایک فریق کچھ تلخ ہوئے تو اس کی آواز گونجی، ’’دیکھو! میں لاکھوں روپے لوگوں کو دیتا ہوں تو انھیں وصول کرنا بھی جانتا ہوں۔ کیا تمہیں اپنی اور اپنے بچوں کی جان عزیز نہیں ہے۔‘‘ اور پھر وہ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا:
’’بس تم ایک مرتبہ انکار کردو اور پھر دیکھو میں کیا کرتا ہوں۔ تمہیں تو اپنے بچے بھی فروخت کرکے میری رقم ادا کرنی ہوگی۔‘‘ اس کے اندر کا سفاک آدمی برہنہ ہوکر سامنے آگیا تھا اور رعونت غصہ بن کر اس کے چہرے سے پھوٹ رہی تھی۔ نفرت کا الائو اس کے وجود میں ابل رہا تھا۔ پھر کچھ دوستوں نے اسے ٹھنڈا کیا اور کچھ مہلت طلب کی۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک ماہ کی مہلت کیا کم ہوتی ہے؟ دوسرے فریق نے التجا کی کہ کاروباری حالت خراب ہوگئی ہے۔ ہم 70 ہزار روپے ماہانہ سود کی مد میں تمہیں کیسے ادا کریں؟ ہم خود چاہتے ہیں کہ تم سے جان چھڑالیں۔ اس کی پھر سے آواز گونجی۔
’’میں ذمے دار نہیں ہوں حالات کا، تم جانو اور حالات جانیں۔ مجھے تو اپنی رقم سے غرض ہے۔ میں کچھ سننا نہیں چاہتا‘‘
بالآخر وہ کچھ مہلت دینے پر آمادہ ہوگیا اور یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا
’’اگر یہ لوگ درمیان میں نہ آتے تو آج میں تم سے اپنی رقم وصول کرکے دکھاتا۔‘‘
یہ تھی ہماری اس سے پہلی ملاقات۔ معاملات کچھ درست ہوگئے تھے۔ تقریباً ایک سال تک اس سے ملاقات ہوتی رہی، وہ ہر ہفتے آتا اور پھر کچھ دوستی ہوگئی۔ وہ صرف سود کی مد میں بیس سے بائیس لاکھ روپے کی رقم وصول کرتا اور اسے کاروبار بناتا۔ اس کے رجسٹر میں سیکڑوں مجبور لوگوں کے نام اور پتے درج تھے۔ مزدور، تاجر، بیوائیں اور ضرورت مند لوگ۔ کسی نے اپنی بچی کی شادی بیاہ کے لیے رقم لی تھی، کوئی بیماری کی وجہ سے مقروض ہوگیا تھا اور کسی نے کاروبار کی وسعت کے لیے رقم لی تھی، لیکن وہ اب ہمارے کہنے پر کچھ رعایت دینے لگا تھا۔ وہ اکثر کہتا اگر تمہاری دوستی کا پاس نہ ہوتا تو پھر دیکھتے۔
وہ لوگوں سے کہتا اب انھیں دوست کہہ دیا ہے اب میری جان بھی ان کے لیے حاضر ہے۔ ایک دن ہم سب بیٹھے گپ شپ کررہے تھے کہ وہ آگیا۔ وہ آندھی کی طرح آتا اور بجلی کی طرح گرجتا۔ ہمارے دوست نے اس کے لیے چائے منگوائی۔ گرم اور کڑک چائے۔ ابھی اس نے کپ اٹھایا ہی تھا کہ گرم چائے سے بھرا ہوا کپ اس پر الٹ گیا۔
’’اوہو اتنا گرم چائے ہمارے اوپر گرگیا۔ یار ابھی ہم کیا کرے؟‘‘ ہمارے دوست نے جگ کے پانی سے اس کے کپڑے اور ہاتھ دھلوائے اور پھر مذاق میں کہا
’’خان تم اتنی سی گرم چائے برداشت نہیں کرسکتا اور کام کرتا ہے آگ والا، سودی کام تو خود کو آگ میں ڈالنا ہے اور دوزخ تو اس سے بہت گرم ہے۔‘‘
ہم نے دیکھا کہ وہ خلاف معمول خاموش ہوگیا اور پھر کچھ دیر بعد اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’یار! آج ہم جاتا ہے پھر ملے گا۔‘‘ پھر ایک ماہ گزر گیا۔ اس کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ وہ اپنی رقم لینے بھی نہیں آیا۔ آج تک تو ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہ وقت کا پابند تھا پھر آخر کیا وجہ تھی کہ وہ نہیں آیا تھا۔ کسی دل جلے نے کہا یار کہیں اس کا ایکسیڈنٹ نہ ہوگیا ہو۔ دوسرے کی آہ آواز بن کر گونجی: دعا کرو مر ہی گیا ہو۔ جان ہی چھوٹ جائے۔
اس دن میری طبیعت خراب تھی اور میں معمول سے پہلے ہی گھر پہنچ گیا تھا۔ رات کے دس بج رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ باہر نکل کر دیکھا تو وہ کھڑا تھا۔ ارے خان تم کہاں غائب ہوگیا تھا؟
چھوڑو یار ہم غرق ہوگیا تھا۔
لیکن کہاں غرق ہوگیا تھا؟
بس سارا زندگی غرق ہوگیا۔ تم اپنا دوست کو بلائو ہم اس سے بات کرے گا۔ کون سا دوست؟
وہی جو بولتا تھا جہنم میں بہت آگ ہے والا۔
اچھا، تم ادھر بیٹھو، ہم اسے دیکھتا ہے۔ کچھ دیر بعد وہ ہم میں موجود تھا۔ عام سا انسان۔ مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والا۔ دوستوں میں کچھ دیر کے لیے قہقہے بکھیرنے والا۔ ان کے دکھوں میں رنجیدہ اور خوشی میں ناچنے والا۔ وہ کوئی دانش ور، ناصح، مبلغ یا معلم نہیں ہے۔ بس عام سا مزدور جو ہمیشہ عسرت میں رہتا ہے، لیکن شکوہ شکایات زبان پر نہیں لاتا۔ اس سے مل کر خوشی ہوتی ہے، اسے دیکھ کر مسرت، نام و نمود سے بے نیازمیں اس منظر کو کبھی نہیں بھول سکتا جب خان صاحب اس سے گلے مل کر بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہے تھے اور وہ پریشان ہوکر میری طرف دیکھ رہا تھا۔
خان صاحب کچھ نہیں سن رہے تھے۔ آنسوئوں کی بارش ہو رہی تھی اور ہچکیاں سماں باندھ رہی تھیں۔ خاصی دیر کے بعد خان صاحب گویا ہوئے۔
’’یارا تم لوگ میرے ساتھ ایک ایک آدمی کے پاس جائے گا۔ ہم سب سے معافی مانگے گا۔ ہم نے بہت ظلم کردیا ہے۔‘‘
پھر اس کے کہنے پر ہم نے اس کے قرض داروں کو ایک جگہ جمع کیا۔ سب پریشان تھے کہ آخر معاملہ کیا ہے اور پھر دوسرا منظر میرے سامنے تھا۔ خان صاحب سب لوگوں کے سامنے بچوں کی طرح التجا کررہے تھے۔
’’دیکھو بھائیو: ہم بہت ذلیل انسان ہے، ہم نے آپ لوگوں کو بہت دکھ دیا، گالی دیا، دھمکی دیا، تنگ کیا اور تم لوگ کا بددعا لیا۔ ابھی ہم کوئی اچھا آدمی نہیں ہے۔ ہم سود خور ہے اور یہ بھائی نے بولا، سود خور کا جگہ دوزخ ہے، بس ہم نے بہت سوچا اور پھر فیصلہ کیا کہ ہم یہ آگ والا کام نہیں کرے گا۔ آج سے ہم یہ رجسٹر پھاڑ رہا ہے۔ ہم نے آپ سب لوگ کو معاف کردیا، ابھی آپ سب بھائی میرے کو دل سے معاف کردو۔ بس اس لیے ہم نے آپ کو تکلیف دیا ہے۔ اگر کسی بھائی کا کچھ پیسا ہمارے ذمے آگیا ہے وہ ہم ابھی اس کو دے گا۔ موت کا کوئی بھروسا نہیں ہے۔ پتا نہیں کب ہم مرجاوے۔ اور بھائی لوگ! تم لوگ گواہ ہوجائو ہم نے آج سے توبہ کرلیا اور ہمارے واسطے دعا کرو۔‘‘
خان صاحب کی سادہ سی تقریر ختم ہوئی تو لوگوں کے چہرے کِھل اٹھے۔ خان صاحب سب سے بغل گیر ہورہے تھے۔ عجیب سماں بندھ گیا تھا اور پھر رات گئے وہ محفل ختم ہوگئی۔
دو دن بعد خان صاحب نے بتایا کہ وہ اب کراچی میں نہیں رہیں گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ’’ہم کو ان سب لوگ کو دیکھ کر شرم آتا ہے۔ بس کسی اور شہر میں کوئی چھوٹا موٹا کام کرے گا۔ اﷲ روزی دے گا۔‘‘
اور پھر ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے خیبر پختون خوا کے ایک شہر میں چھوٹا سا جنرل اسٹور کھول لیا۔ اﷲ نے برکت دی اور اب وہ اﷲ کا دوست ہے۔
کراچی ایئرپورٹ پر جہاز حجاز مقدس جانے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ وہ مجھ سے بغل گیر ہوا تو میرے دوست کی آواز گونجی:
’’خان صاحب! اب تم جنت کی طرف جارہا ہے۔ ہمارے کو ادھر نہیں بھولنا‘‘
اور خان صاحب کی آنکھیں برسنے لگیں۔‘‘
’’تم لوگ کو ہم کبھی نہیں بھول سکتا‘‘
اور پھر وہ رخصت ہوگئے۔ میرا وہ دوست جس کے ایک جملے نے اس کی کایا پلٹ دی تھی، خاموشی سے سر جھکائے کھڑا رہا اور پھر بولا،’’چلو یار مزدوری کرنے بھی جانا ہے۔‘‘
اور کیا آپ وہ رقم سننا چاہتے ہیں جو اس نے لوگوں کو معاف کردی؟
تو سنیے، وہ رقم تھی 65 لاکھ روپے۔ جی ہاں اتنی خطیر رقم۔
آئیے اس کی استقامت کے لیے ہاتھ اٹھائیے۔
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں