کسی دن کو فقط اس وجہ سے عبادت کے لئے مخصوص کر لینا کہ اس دن عبادت سے بہت ثواب ہوگا یا اللہ راضی و خوش ہوگا، یہ بذات خود غلط اصول ہے۔
بالکل صحیح! اللہ کو راضی کرنے اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پوری زندگی دی ہے، یہ نہیں کہ صرف چند روز کو خود ساختہ طور پر عبادت کے لیے مقرر کر کے دیگر دنوں میں اللہ کی نافرمانی کی جائے، اسی لیے کافر و مشرک جب جہنم میں چیخیں ماریں گے اور اللہ کو پکاریں گے کہ ہم کو واپس دنیا میں بھیج دے ہم گناہوں کی جگہ نیک اعمال کریں گے
وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَـٰلِحًا غَيْرَ ٱلَّذِى كُنَّا نَعْمَلُ۔۔۔سورۃ الفاطر
ترجمہ:اور وه لوگ اس میں چلائیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو نکال لے ہم اچھے کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے
تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَآءَكُمُ ٱلنَّذِيرُ۔۔۔سورۃ الفاطر
ترجمہ:(اللہ کہے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وه سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے واﻻ بھی پہنچا تھا
لہذا انہوں نے ساری زندگی ہی ضائع کر دی اور اب:
فَذُوقُوا۟ فَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِن نَّصِيرٍ ﴿٣٧﴾۔۔۔سورۃ الفاطر
ترجمہ:سو مزه چکھو کہ (ایسے) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں
دیکھا آپ نے اللہ نے ان کی پوری عمر کا ذکر کیا کہ ان لوگوں کو اتنی عمر دی گئی تھی جس میں یہ نصیحت حاصل کرتے، لیکن انہوں نے عمر ضائع کر دی۔
صرف وہ مسنون دن یا رات جس کا ثبوت احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہو، ان میں عبادت کا زیادہ کیا جانا اور زیادہ ثواب کے حصول کی امید رکھنا جائز ہے، جیسے ذوالحجہ کے پہلے دس دن اور رمضان میں لیلۃ القدر کی رات، اس کے علاوہ اپنی طرف سے جتنے بھی طریقے نکال دئیے جائیں، اللہ کے سامنے کوئی حیثیت و اوقات نہیں رکھتے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ٱلَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴿١٠٤﴾۔۔۔سورۃ الکھف
ترجمہ:وه ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہوگئیں اور وه اسی گمان میں رہے کہ وه بہت اچھے کام کر رہے ہیں
اللہ ہدایت عطا فرمائے آمین