lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
سلام بھائی
جب میں نے آپ کی بھیجی ہوئی حدیث پیش کی تو مجھے یہ جواب دیا گیا
جس کتاب سے تم نے روایت بیان کی وہی مصنف اس کو نہیں مانتا تو تم کیسے ثابت کرتے ہو؟
اسی رکانہ والی روایت کے مطابق امام نووی بیان کرتے ہیں کہ
" یہ روایت ضعیف ہے اور مجھولیوں کی روایت ہے اور رکانہ کے متعلق البتہ والی روایت ہی صحیح ہے اور البتہ میں ایک اور تین دونوں احتمال ہیں۔
( نووی ، شرح مسلم، صفحہ 926)
امام نووی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ کی روایت بیان کرنے کے بعد یہاں تک فرماتے ہیں کہ
" امام شافعی، امام مالک، امام ابو حنیفہ اور امام احمد اور جمھور علماء کا موقف ہے کہ تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں اور صرف طاؤس اور بعض اہل ظاھر کا موقف ہے کہ ایک ہوتی ہے"
( نووی ، شرح مسلم، صفحہ 926)
مسند احمد کے حوالے سے بھی یہ روایت ضعیف ہے۔
علامہ خطابی کہتے ہیں کہ اس کی سند مجہول ہے اور حجت بننے کے قابل نہیں کیونکہ ابو داؤد نے روایت کی ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی،
علامہ خطابی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ امام احمد بن حنبل رح سے اس روایت کے سارے طریق ضعیف ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل، جلد 4 صفحہ 216)
حنبلی مسلک کے مشہور عالم ابن قدامہ رح نے بھی یہی فرمایا ہے کہ امام احمد سے حدیث رکانہ کے سارے طریق ضعیف ہیں۔
(مغنی ابن قدامہ، جلد 10 صفحہ 366)، (مسند احمد بن حنبل، جلد 4 صفحہ 216)
امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس روایت کو میں نہیں جانتا اور میں نے بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مضطرب ہے۔
(مسند احمد بن حنبل، جلد 4 صفحہ 217)
اس کے علاوہ اس کا راوی محمد بن اسحاق بھی ضعیف ہے۔ اس کے حالات بھی پڑھ لیں۔