"اللہ اور اس کی کائنات کے بارے میں میرا ایک سیدھا سوال یہ ہے کہ اس نے مجھے میری اجازت کے بغیر پیدا کیا، اور پھر میرے ہاتھ میں ایک کتاب تھما دی گئی، 'قرآن'۔ پھر مجھے حکم دیا گیا کہ اس کی پیروی کرو، اور اگر میں اس کو ماننے سے انکار کروں تو میں جہنم میں جلایا جاوں گا۔ مجھے بناتے سمے اس نے مجھے انسانی جسم کا سب سے پیچیدہ عضو دیا، 'دماغ'، مجھے اسے استعمال کرنے کی صلاحیت دی گئی، اور یہ میرے تمام اعمال جو میں کرتا ہوں انہیں قابو کیے ہوئے ہے۔ اس کے دیے ہوئے دماغ کو استعمال کرتے ہوئے، اسی کا کلام مجھے بے معنی لگتا ہے۔ قرآن میں موجود ایک ایک چیز نہایت خلاف منطق لگتی ہے۔ اب اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، برائے مہربانی انصاف کے ساتھ جواب دیجیے گا۔ بحیثیت انسان سوچیں نا کہ بحیثیت مسلم"
دہریے نے اپنے اعتراض کی بنیاد اس بات کو بنایا کہ اللہ تعالی نے اسے اس کی اجازت کے بغیر پیدا کیا۔ یہ اعتراض اسی صورت بنتا ہے جبکہ دہریہ یہ بات مانتا ہو کہ اللہ تعالی خالق ہیں کیونکہ اگر وہ اللہ تعالی کو خالق ہی نہیں مانتا، وہ یہ نہیں مانتا کہ رب سبحانہ وتعالی نے اسے پیدا کیا ہے تو یہ اعتراض کیسے درست ہو گا کہ اللہ تعالی نے اسے اس کی مرضی کے بغیر پیدا کر دیا ہے۔ جب اللہ نے اسے پیدا کیا ہے تو تبھی یہ اعتراض پیدا ہوا کہ پیدا تو کیا ہے لیکن پیدا کرنے سے پہلے پوچھا نہیں ہے۔ جب اللہ کو خلق مان لیا تو اب یہ اعتراض درست نہیں رہا کہ پیدا کرنے سے پہلے اجازت کیوں نہیں لی۔ اللہ نے ساتھ ہی دہریے کو عقل اسی لیے دی تھی کہ اسے معلوم ہو کہ اس کا یہ اعتراض لغو ہے کہ اسے پیدا کرنے سے پہلے اس سے پوچھا کیوں نہیں تھا۔ کیا مصنف کو اپنی تصنیف اور آرٹسٹ کو اپنی تصویر اور سائنسدان کو اپنی ایجاد کے حقوق حاصل نہیں ہوتے؟ کیا کسی تصنیف، تصویر یا ایجاد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مصنف، مصور یا موجد سے اس بارے سوال کرے کہ تم نے مجھے کیوں تخلیق کیا ہے؟ جب دہریے نے اپنے اعتراض میں اللہ کو خالق مان لیا تو اپنے آپ کو اس کی ٘مخلوق مان لیا۔ جب پنے آپ کو اس کی مخلوق مان لیا تو مخلوق کو خالق پر اعتراض کا کیا حق ہے؟ وہ خالق کی چیز ہے، خالق کو اپنی مخلوق کے مکمل حقوق یعنی rights حاصل ہیں۔ ان حقوق میں ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تخلیق کو جب چاہے، جیسے چاہے، بنائے، سنوارے یا پیدا کرے یا جلائے یا مارے یا جو مرضی کرے کیونکہ وہ اس کی ہے۔ جب اس کی چیز ہے تو اس سے یہ سوال نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنی اس چیز کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ جب دہریہ اللہ کی مخلوق ہے یعنی آسان الفاظ اللہ کی تخلیق ہے یا اس کی چیز ہے تو اس سے اس بارے کوئی ایسا سوال کرنا بے وقوفی کی انتہا ہے۔
دوسرے اعتراض بھی اسی صورت درست ہے جبکہ دہریہ یہ بات مانے کہ اللہ نے اسے دماغ دیا ہے۔ جب دہریہ اللہ کے وجود کا ہی انکاری ہو تو یہ اعتراض کیسے درست آئے گا کہ اللہ نے اسے پیدا کیا ہے یا اسے دماغ دیا ہے۔ یعنی جو ذات موجود ہی نہ ہو تو وہ کیسے پیدا کر سکتی ہے یا جو ذات موجود ہی نہ ہو تو وہ کیسے دماغ دے سکتی ہے یا جس ذات نے دماغ ہی نہ دیا ہو تو اس پر یہ اعتراض کیسے وارد ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنا کلام سمجھنے کے لیے جو دماغ دیا ہے وہ دماغ اس کلام کی نفی کر رہا ہے۔ اللہ تو دہریہ یہ دعوی کرے کہ یہ اس کا دماغ اللہ نے نہیں دیا ہے تو یہ اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ جو دماغ اللہ نے نہیں دیا ہے تو اس نے اس کے کلام کو کیا سمجھنا ہے؟ جبکہ دہریہ اس بات کا اقرار کر رہا ہے کہ یہ دماغ خالق و مالک نے دیا اور تبھی اس کا اعتراض درست قرار پاتا ہے۔ اسی طرح دہریے کا یہ اعتراض اسی صورت درست قرار پاتا ہے جبکہ وہ کلام اللہ کو اللہ کا کلام مانے کیونکہ اگر وہ اسے اللہ کا کلام نہیں مانتا ہے تو یہ اعتراض درست نہیں ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے دماغ کا ایک ایسے کلام سے ٹکراو ہے جو اس کے نزدیک خدائی کلام نہیں ہے۔ جب اس نے کلام اللہ کو اللہ کا کلام مان لیا اور اپنے دماغ کو بھی اللہ کا دیا ہوا دماغ مان لیا تو اب اس کا اعتراض لغو قرار پاتا ہے کیونکہ مخلوق یعنی دماغ میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ اپنے خالق کے کلام کا انکار کرے۔ یا دوسرے الفاظ جو کلام یعنی کلمہ کن اس مخلوق کے وجود کا سبب ہے وہ مخلوق اپنے وجود کے اس سبب سے ہی انکار کر دے تو یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ اس مخلوق یعنی دماغ کا اپنے وجود سے انکار کرنا ہے۔
یہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اس دنیا میں سب سے بے وقوف اور کم عقل دہریہ ہوتا ہے کہ جس کی دلیل ایسے تناقضات کا پلندہ ہوتی ہے کہ وہ از خود اپنا رد کے کافی و شافی ہوتی ہے اور اسے کسی خارجی رد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان لوگوں ایک اعتراض مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ویلڈ ہو سکتا ہے اور اس کے جواب کے بارے سوچنا بھی چاہیے، اگرچہ یہ اس اعتراض کو آج تک نہیں پہنچ پائے ہیں اور وہ اعتراض یہ ہے کہ اللہ نے انہیں اتنا بے وقوف یا عقل میں یتیم کیوں بنایا ہے کہ بے چارے اعتراض بھی نہیں کر سکتے ؟