• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مظلومہ مطلقہ کا گھر دوبارہ کیسے بسا ؟

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
ایک مظلومہ مطلقہ کا گھر دوبارہ کیسے بسا ؟
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

سوشل میڈیا نے فاصلہ کم دیا، پیغام رسانی نہایت آسان تر کردیا، روابط کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کردیا۔ آج ایک جگہ تنہائی میں بیٹھا شخص دنیا کے کونے کونے تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے ، جس سے چاہے لمحوں میں رابطہ کرسکتا ہے اور اس تک اپنی بات برق جیسی تیز رفتاری کے ساتھ پہنچا سکتا ہے ۔ یہ سوشل میڈیا کی حیرت انگیز قوت وطاقت ہے ۔ اس سے ساری دنیا فائدہ اٹھارہی ہے ، سیاست داں سے لیکر عام آدمی تک اپنے اپنے مقاصد کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کررہا ہے ۔ یہ کمال ہی تو ہے کہ ایک مظلوم جس کی کوئی سننے والا نہیں تھا، خصوصا مظلوم جب مسکین ولاچار ہو تو اس کی آواز صدا بصحراءثابت ہوتی مگر آج سوشل میڈیا نے مظلوموں کی آواز دور دور تک پہنچائی حتی کہ اب اس کی گونج سیاسی ایوانوں سے لیکر عوامی حلقوں میں سنائی دی جاتی ہے۔ایک ایسی ہی مظلومہ کی دکھ بھری ایک داستان آپ کو سنانے لگا ہوں جس کا اجڑا گھر بسنے میں تین سال لگ گیا۔ کہانی ہے پاکستان کی ایک دکھیاری سمیرا رحمن کی جس کا نکاح 24/ مئی 2015 کو ہوا اور تقریبا پانچ ماہ بعد عدالت کے ذریعہ شوہر کی طرف سے طلاق کا ایک نوٹس ملا جس پہ 15/10/2015 کی تاریخ مرقوم ہے اور اس میں لکھا ہے کہ آئے دن جھگڑا کی وجہ سے من مقر اس فیصلے پر مجبور ہے کہ اپنی بیوی کو شریعت محمدی کے مطابق طلاق ثلاثہ دیتا ہے ۔
طلاق کے بعد بہت کم لوگ ہوں گے جو پچھتاتے نہ ہوں ، اکثریت افسوس کرتی ہے مگر جس کے یہاں امام متعین کی اندھی تقلید ہو اور کسی نے اپنی بیوی کو طلاق ثلاثہ دے دیا ہوں اس کے یہاں پچھتانے اور افسوس کرنے کے علاوہ نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔اسی سبب سماج پر طلاق ثلاثہ کے بھیانک نتائج واثرات مرتب ہیں ، طلاق ثلاثہ کا قہر میں نے اپنے ایک مضمون میں بیان کیا ، اس داستان خونچکاں کو پڑھنے والا میرے بلاگ میں قہر والا مضمون ضرور پڑھے ۔
یہاں پر مجھے ہندوقوم کی قدیم تہذیب ستی یاد آتی ہے جس تہذیب میں مظلوم بیوہ کوشوہر کے آگ میں زبردستی جھونک دی جاتی ہے ، بیوہ تکلیف در تکلیف پر روتی، بلبلاتی، چیختی اورچلاتی ہے اور تہذیب کے علمبردار اس چیخ کو عورت کی رسم اورآگ میں پھینکنے کو دین ومذہب سمجھتے ہیں ۔ ٹھیک اسی کیفیت میں مطلقہ ثلاثہ پہ حلالہ کا جبر ہوتا ہے ، عورت چیختی ہے ، مدد کی گہار لگاتی ہے مگر تقلید کے علمبردار حلالہ کرکے ہی دم لیتے ہیں اور تقلیدپر کسی طرح آنچ نہیں آنےدیتے ہیں بلکہ ایسے ہی جبر سے تو تقلید کو قوت وحفاظت نصیب ہوتی ہے ۔ واہ رے ستی کے علمبردار اور حلالہ کے ٹھیکیداروچوکیدار۔
میری اس کہانی میں شوہر کو اپنے کئے پر افسوس ہوتا ہے اوروہ اپنی بیوی کے پاس لوٹ کر آنا چاہتا ہے ۔ بیوی حد درجہ اپنے شوہر سے محبت کرتی ہے اوروہ بھی پھر سے اپنا گھر بسانا چاہتی ہے ۔شوہر نامدار حنفی علماء سے فتوی پوچھتے رہے ، ان کی طرف سے جواب آتا رہاکہ اب اس بیوی کی طرف لوٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ، ہاں ایک حیلہ اختیار کروحلالہ کا تو پھر واپس بیوی کے پاس جاسکتے ہو۔ واقعی حلالہ ایک حیلہ ہے جس سے عورت کی عزت وناموس تارتار کیا جاتا ہے ۔ غیرت مند مرد اور غیرت مند عورت کبھی اس حیلے سے عزت نیلام نہیں کرتے ۔ انہیں غیرت مندوں میں سے اس کہانی کا مرد اور اس کہانی کی عورت بھی ہے۔شوہراپنے مسلک کے علماء سے فتوی پوچھتے پوچھتے طلاق پہ تین سال کا لمبا عرصہ گزر گیامگر گھر بسنے کا کسی نے راستہ نہیں بتلایا۔
ادھر مظلومہ مطلقہ کی داستان بڑی دلخراش ہے ، اس کے پاس ایک شادی شدہ بہن ہے ، کینسر کی مریض والدہ ہے ، بچپن میں والد فوت ہوگیا، گھر میں نہ بھائی اور نہ کوئی مرد۔ خالو ہیں جو کبھی پریشانی میں دیکھ سن لیتے آجاتے ہیں ۔جب اس عورت کو طلاق ہوئی تو میکے چلی آئی ، اس لڑکی کی ماں نے شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کرلی تھی ، جب طلاق کے بعد جوان بیٹی گھر آئی تو اس مرد کو جلن ہونے لگا، اپنی بیوی کو بے عزت کرنے لگااور اسے گھر سے نکالنے کی دھمکی دی ، ماں آخر کار ماں ہوتی ہے وہ جوان بیٹی کو بھلا گھر سے کیسے بھگائے گی اور وہ مظلوم بیٹی ابھی سہارے کے قابل ہے نہ کہ مزید اس پہ ظلم کرنے کے ۔افسوس کہ معاشرے میں طلاق کے بعد عورت گھرکا بوجھ اور سماج کا طنز وتمسخر بن کر رہ جاتی ہے ۔ گھر سے لیکر باہرتک تکلیف دہ باتوں سے مطلقہ کا دل چیرا جاتا ہے ، عورت ہی ہے کہ اس قدر کانٹوں بھرے لمحوں میں بھی صبر کا پہاڑ بن جاتی ہے ،مردوں سے ایسا صبر محال ہے ۔
بہرکیف! لڑکی کی ماں نے اپنے دوسرے شوہر کودوٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ میرے ساتھ رہنا ہو تو رہو ورنہ میرے پاس سے چلے جاؤ،میری بیٹی کہیں نہیں جائے گی ، یہیں میرے ساتھ رہے گی۔ شوہر کب اپنی بے عزتی برداشت کر سکتا ہے وہ بھی کمزور صنف یعنی عورت سے ۔ شدید غصے کا اظہار کرتا ہے،آدھی رات میں بیوی کو مارتا ہے اور بیوی ایک غمگسار ماں بن کر دکھیاری بیٹی کے لئے غم غلط کرنے کا سامان مہیا کرتی ہے ۔ بزدل مرد نے بیوی کو مارا، بیٹی کی طرف چھری لیکر دوڑا،اسے بھی مارا، بہت ہی لعن طعن کیا اورسارے رشتے توڑکر گھر سے ہمیشہ کے لئے نکل گیا۔قربان جائیں ماں کی ممتا پہ، ایک ماں نے مظلوم بیٹی کا سہارا بننے کے لئے اپنا گھر اجاڑ لیا۔اللہ نے ماں کے دل میں رحم کا جذبہ کس قدر موجزن کیا ہے؟سبحان اللہ
دوسرے شوہر کے جانے کے بعد ماں نے بیٹی کو سہارا دیا، بیٹی اپنا گھر بسانے کے لئے دن رات اللہ سے دعائیں کرتی رہی،اللہ سے نیک آدمی سے ملاقات کی دعا کرتی جس کے ذریعہ اس کا معاملہ درست ہوجائے ۔ وہ دیر تک ماں پہ بوجھ نہیں بننا چاہتی اور سماج کے طعنےسے بھی کافی خوف زدہ ہوچلی تھی ، باپ کے چلے جانے کا طعنہ ، ماں کی طرح دوسری شادی کرے گی اس بات کا طعنہ۔ لڑکی کہتی ہے کہ وقت اتنا سنگین تھا اگر والدہ نہ ہوتی تو میری بہن بھی شایدمیرا سہار انہ بن پاتی۔
وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ تین سال گزرگئے ۔ اتفاق سے لڑکی کی ہمنام سہیلی کے ذریعہ اسے میرا واٹس ایپ نمبر ملا،اس نے طلاق نامہ بھیجا اور اپنا مسئلہ بیان کیا اور مجھ سے اس کا حل پوچھا ۔ میں نے بڑی وضاحت کے ساتھ آڈیو میں صرف ایک طلاق واقع ہونے کا ذکر کیا اور بتلایا کہ وہ اپنے سابق شوہر سے نکاح کرکے دوبارہ اس کے پاس جاسکتی ہے ۔میری بات پہ بہت ہی اطمینان ہواجیسےاندھیرے کے مسافرکوشمع مل گئی ہو۔ جب اپنےسابق شوہر سے ملنے کی امید جاگی تو والدہ سے بات کی جس کے دل میں بھی یہ خیال گھر کرگیا تھا کہ میری بیٹی دوبارہ اپنا گھر نہیں بسا سکتی ہے ۔ لڑکی نے اپنی ماں کومیرا آڈیو میسج سنایا تو انہوں نے مجھ سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی ، میں نے ایک وقت طے کیا اور اس وقت لڑکی کی ماں نے واٹس ایپ کال پہ مجھ سے رابطہ کیا۔ آواز میں مدد کی آہ سنائی دے رہی تھی ، گوکہ مجبور ماں پنجابی زبان میں اپنی داستان سنارہی تھی اور میں سمجھنے سے قاصر تھا مگر میری باتیں پوری سمجھ رہی تھی، میری باتوں پہ ان کا دل مطمئن ہوگیااور اب ماں کو بھی اپنی بیٹی کا گھر بسنے کی امید نظرآئی ۔فرط محبت میں بولی بیٹا اگر کچھ لکھ کر دیتے تو کسی کو دکھا سکتی ، میری بات کون مانے گا۔ میں نے بھی اسی وقت اپنے دعوہ سنٹرکے لیٹرہیڈ پہ فتوی تیار کیا اور واٹس ایپ پر بھیج دیا۔اب بچے تھے سابق شوہر جو تین سال سے علمائے احناف کے فتوؤں تلے دبے تھے، اس بوجھ سے اوپر اٹھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ۔ لڑکی سے ہوئی میری بات اس نے پوری سنی اور فتوی پر بھی غوروخوض کیا۔ اب شوہر نے بھی مجھ سے بات کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ایک دن بعدظہر کی اذان کے وقت مجھ سے رابطہ کیا اس نے سے تین سوالات مجھ سے کئے۔
اس نے کہا کہ میں حنفی ہوں اورتین سال سےاس مسئلے کا حل اپنے علماء سے پوچھ رہاہوں سبھی نے کہا کہ اب اس بیوی کے پاس ہم نہیں جاسکتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ میں نے کہا کہ اس کی ایک ہی وجہ ہے وہ ہے ان علماء کا حنفی ہونا ، اگر وہ حنفیت سے باہر آکر کتاب وسنت کی روشنی میں فتوی دیں تو پھر ان کا بھی وہی فتوی ہوگا جو میں نے دیا ہے اور آپ پاکستان میں کسی بھی اہل حدیث عالم کے پاس جائیں وہ قرآن وحدیث کی روشنی میں وہی جواب دیں گے جو میں نے دیا ہے ۔
اس نے دوسرا سوال کیا کہ اگر میں نے اپنی بیوی سے دوبارہ نکاح کرلیا تو آخرت میں کوئی پکڑ تو نہیں ہوگی ؟ میں نے کہا کہ اگر قرآن وحدیث پر عمل کرنے سے آخرت میں پکڑ ہوگی تو ان سارے علماء کی پکڑ ہوگی جو ایسا فتوی دیتے ہیں ، خود میری بھی پکڑ ہوگی ۔ اگر آپ کی پکڑ ہوئی تو میں آخرت میں آپ کے ساتھ ہوں گا۔
تیسری سوال یہ تھا کہ اگر میں ایک مسئلے میں آپ کے مطابق عمل کرتا ہو ں تو کیا حنفیت پر کوئی فرق پڑے گا یا میرے اوپر کوئی پابندی ہوگی ؟ میں نے جواب دیا کہ میں نے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کی بات کی طرف بلایا ہے ، اللہ اور اس کے رسول کی بات پر عمل کرنے والا اللہ کے نزدیک بہترین انسان ہے ۔ ہاں آپ کو علمائے احناف یا حنفی عوام کی طرف سے طعنہ سننا پڑ سکتا ہے ، آپ پر ظلم بھی ہوسکتا ہے ۔ آپ لوگوں سے یہ کہیں کہ جس طرح امام ابوحنیفہ ؒ کے شاگرد امام محمد ؒ نے اپنے استاد کے سیکڑوں مسائل کو نہیں مانا ہے اور اپنے استاد کے خلاف فتوی دیا ہے ،میں بھی اسی طرح احناف کی ایک بات پہ مطمئن نہیں ہوں اور اس مسئلے میں قرآن وحدیث کی پیروی کرتا ہوں ۔
اتنی باتیں ہوئیں اور وہ بھی مطمئن ہوتے محسوس ہوئے ۔ یہ ساری باتیں لڑکی کے خالو کو بھی معلوم ہوئیں ، ان کو بھی اس معاملے میں حل نکلتا نظر آیا۔ آخر کار 11/مارچ 2019 کولڑکی کے خالواس کے شوہر کے ساتھ اس کے گھر جمع ہوئے ، سبھی کا دل اس بات پہ مطمئن ہوچکا ہے کہ یہ ایک طلاق ہوئی ہے ، خالو نے بھی کچھ جگہوں سے بذات خود اس بات کی تصدیق کی بلکہ شوہر نے صاف دل ہوکر کہا کہ مجھے تو اطمینان ہوچکا ہے اسی لئے تمہارے گھر آیا ہوں ۔اس بیٹھک میں طے پاگیا کہ 21/ 22 مارچ کو دوبارہ نکاح ہوجائے گا اور لڑکی اپریل میں اپنا گھر بسانے سسرال چلی جائے گی ۔ ان شاء اللہ
ادھر رات یہ فیصلہ ہوا ، رات بھر لڑکی کے گھر خوشی سے کسی کو نیند نہیں آئی ، لڑکی سویرا ہونے کا انتظار کررہی تھی کہ سب سے پہلے وہ مجھے اس کی خوشخبری سنائے ، صبح جب میں فجر کی نماز کے بعد واٹس ایپ کھولتا ہوں تو اس کی خوشخبری سن کر آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل پڑتے ہیں ۔ اس نے دعاؤں کے ساتھ بیٹھک کی بہت ساری مزید باتیں بیاں کی ، یہ بھی کہی کہ میرے گھر بسنے کا سب سے پہلا کریڈٹ آپ کو جاتا ہے اس لئے اپنوں میں سب سے پہلے آپ کو خبر دے رہی ہوں ، اب اس بہن کو خبر دیتی ہوں جس نے آپ کا نمبر دےکر مجھ پر نہ بھولنے والا احسان کیا ہے ۔
اس طرح اللہ کی توفیق سے ایک مظلومہ مطلقہ کا گھرجو تین برس سے سونا پڑارہا ، اب وہ آباد اوربسنے جارہا ہے ۔الحمد للہ ثم الحمد للہ
اللہ سے دعا ہے کہ بغیرکسی رکاوٹ کے جلد سے جلد اسلامی بہن کا گھر آباد کردے، میاں بیوی میں زندگی بھر محبت قائم رکھے، انہیں دین پر استقامت نصیب فرمائے، گھر کی ساری مشکلات دور فرمائے ، دنیا میں جہاں بھی ایسی مظلوم بہن ہے اس کی غیبی مدد فرمائے ، اس کی والدہ کو صحت وتندرستی دے اور ہم سب کو صراط مستقیم پر گامزن رکھے ۔ آمین
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
آخر کار اللہ کی توفیق سے طلاق یافتہ بہن کا گھر بس گیا (آخری قسط)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی شمالی طائف (مسرہ)​
پہلی قسط میں ذکر کیا گیا تھا کہ 11/ مارچ 2019 کو لڑکی کے گھر میں اس کی شادی کے سلسلے میں بیٹھک ہوئی تھی جس میں یہ بات طے ہوگئی تھی کہ لڑکی کی شادی واپس اسی لڑکے سے ہوگی ۔ لڑکا اس بیٹھک میں موجود تھا اور شادی کے فیصلے پر راضی تھا بلکہ صراحت کے ساتھ اس سے بیان لیا گیا کہ اگر آپ کے من میں کوئی بات ہو تو ابھی بتلادو ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے جب اس مسئلے پہ اطمینان ہوگیا ہے تبھی آج آپ لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوں ۔
اس بیٹھک کے بعد شادی کے چرچے لڑکی کے رشتہ داروں میں ہونے لگے ، دور ونزدیک تک باتیں پھیل گئیں، جو دوبارہ نکاح نہیں چاہتے تھے وہ رشتہ دار ایک دوسرے کو اکسانے لگے اورلڑکی اور اس کی ماں کو بہکانے کا کام کرنے لگے۔ لڑکی کی مامی کا بھائی عامر ان دنوں سعودی عرب سے عمرہ کرکے لوٹا تھا، اس کے کان بھرے گئے ،اس نے لڑکی کو بہکانے کے لئے فون کیا ، بہکانے والی طرح طرح کی باتیں کی مثلا یہ شادی حرام ہے، اس سے جو بچے پیدا ہوں گے وہ حرام کے ہوں گے، تم اپنی آخرت خراب کر رہی ہو، اس سے بہن بھائی اور دوسرے رشتہ داروں کی ناک کٹ جائے گی ۔ قسم قسم کے بہکاوے بلکہ اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے سنا ہے تم کو کسی سعودی والے نے فتوی دیا ہے ۔ ارے پتہ نہیں وہ عالم ہے یا کوئی شیعہ یا سنی ؟
بہت دیر تک بہکاتا رہا، پھر آخر میں مشورہ دیا کہ ایسا کرو پنڈی چلی جاؤ، وہاں رواتہ میں ایک بڑے مفتی صاحب ہیں ، بڑے پہنچے ہوئے ہیں ، ان کو سعودی کا فتوی بھی دکھانااور وہ جو فتوی مہرلگاکر دیں اس کے مطابق عمل کرنا ۔ اس کے بعد سماج کو تمہارے بارے میں باتیں کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ان باتوں سے لڑکی ذہنی طورپر پریشان ضرور ہوئی مگر اس کے چند جملوں نے عامر کی بولتی بند کردی۔ لڑکی نے کہا تین سالوں جب میں مشکلات میں گھڑی تھی اس وقت تمہیں میری یاد نہیں آئی ، آج جب میں نے اپنی زندگی کا خودفیصلہ کرلیا اور الحمدللہ مجھے اپنی آخرت کی فکر ہے ، اپنے فیصلے پر اعتماد ہے تب تمہیں میری یاد آئی ۔ میں نے جہاں سے فتوی لیا ہے وہ پاک سرزمین پہ بیٹھے نیک لوگ ہیں، الحمدللہ وہاں دن ورات اللہ کی رحمت برستی ہے ، انہوں نے مجھے قرآن وحدیث کا حوالہ دے کر اس مسئلے کا حل بتلایا ہے ، مجھے ان کے فتوے پہ اعتماد ہے مگرتمہارے مفتی پر نہیں کیونکہ تین سال تمہارے مفتیوں کے چکر کاٹے اور پتہ چلا کہ یہ لوگ ایسے نازک وقت میں محض اپنی ہوس پوری کرتے ہیں۔
پھر لڑکی نے مجھ سے سارا واقعہ بیان کیا، میں نے اسے کہا یقینا ابھی برساتی میڈک کی طرح اپنے اپنے بلوں سے غمگساری کے بڑے بڑے دعویدار نکلیں گے، ان سے اپنا دامن بچانا ہے ۔ کسی سے اس موضوع پہ بات نہیں کرنی ہے ۔ میں نے کہا کہ آپ کی امی کینسر کی مریض ہیں، ہرتین ماہ پہ ان کے علاج کے لئے پچاس ہزار روپئے چاہئے ، جب کوئی آپ سے طلاق اورشادی پہ بات کرے تو ان سے کہیں میرے پاس طلاق ونکاح کا مسئلہ نہیں ہے ، میرا پاس جو مسئلہ ہے وہ والدہ کے علاج کا ہے ، اگر اس کام میں میری مدد کرسکتے ہیں تو مدد کردیں اور جہاں تک مشورہ کا تعلق ہے تو جب مجھے اس کی ضرورت پڑے گی اور آپ سے پوچھا جائے گا تب ہی مشورہ دیں گے ۔
میں نے پہلے کہا تھا کہ لڑکی کو بہن بھائی نہیں ہے ، یہ میری عدم معلومات تھی ، اس کو بہن بھائی بھی ہیں جو اپنی اپنی زندگی اپنے اپنے طریقے سے علاحدہ بسر کررہے ہیں بلکہ بہن اور بہنوئی نے طلاق کے وقت سے لیکر اب تک سوائے تکلیف وبدنامی کے اور کچھ نہیں دیا۔عامر کو اکسانے والی بھی یہی بہن تھی ۔تین سال کی المناک صورت حال لوگوں سے بیان کئے جانے کے قابل نہیں ہے۔جاتے جاتے سوتیلے باپ نے رہی سہی عزت بھی نیلام کردی تھی۔ گلی گلی لڑکی کی عزت اچھالتے گیا ، طرح طرح کے الزامات لوگوں میں عام کرتے گیا۔ ایسے حالات میں لڑکی نےعدت کے دوران بیمار ماں او ر گھر چلانے کی خاطر نوکری جوائن کرلی، مجبوری میں وہ نوکری بھی چھوڑنی پڑی بلکہ الزام کے خوف سے گھر سے قدم نکالنا دشوار ہوگیا۔ کئی ماہ بعد ایک دن وہ سبزی لینے باہر گئی تو سبزی والے نے کہا کہ میں نے سنا ہے تمہاری طلاق ہوگئی ہے ۔ اتنا سننا تھا گویا پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ۔ اس طرح گھٹ گھٹ کر جیتی رہی، ہر کوئی سوچ سکتا ہےکہ جس لڑکی کو طلاق ہوجائے ، طلاق کے نام سے اس پہ من مانی الزام تراشی کی جائے،اس حال میں کہ اسے دلاسہ دینے والا نہ باپ ہو اور نہ بھائی بہن ، اس کی کیفیت کیا ہوسکتی ہے؟
دن گزرتے رہے، تین سال گزر گئے، اتفاق سے مجھ سے رابطہ ہوا، سارا مسئلہ واضح کیا، فتوی لکھ کر میں نے بھیجا، شوہر کو فتوی بھیجا گیا ، لڑکی کی ماں کو سمجھایا گیا۔ سب متفق ہوگئے تو ایک دن گھر میں جمع ہوکر لڑکی کی دوبارہ اسی لڑکا سے شادی پہ سب کا اتفا ق ہوگیا۔ اس میٹنگ میں اکیس یا بائیس مارچ کو نکاح کرنے کا اندازہ لگایا گیا تھامگر لڑکے کی مصروفیت اور کچھ دیگر مسائل کی وجہ سے ان دنوں جمع ہونا میسر نہیں ہوا۔ بالآخر 25/ مارچ 2019 بروز سوموارلڑکا ، لڑکی کے خالو اور کئی کچھ افراد جمع ہوئےاور دن کے بارہ بچے عقد ثانی ہوگیا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ دوبارہ نکاح اسی مولوی نے پڑھا جس نے پہلا نکاح پڑھا یا تھا، ان کے سامنے میرا فتوی پیش کیا گیا، انہوں نے کہا کہ الحمدللہ یہ فتوی وہاں سے آیا ہے جہا ں کی بات کاٹی ہی نہیں جاسکتی ۔ انہوں نے لڑکا سے بھی مزید تفتیش کی کہ تم نے کورٹ سے کتنی بار طلاق کا نوٹس بھیجا نے تو اس نے کہا کہ میں نے ایک بار نوٹس بھیجا ہے ۔ اس پہ مولوی صاحب نے کہا کہ خواہ مخواہ تم نے تین سال گنوادئے ، پہلے ہی تم دونوں میاں بیوی اکٹھا ہوسکتے تھے۔
اس مولوی کے نکاح پڑھانے سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پیچھے باتیں کرنے والوں کو وہ جواب دے سکیں گے یا بہت سے لوگ یہ سوچ کر بھی باتیں نہیں بنائیں گے کہ فلاں مولوی نے نکاح پڑھا یا ہے تو صحیح ہی ہوگا۔
بہرکیف! میں نے اس بہن کی آنکھوں میں آنسو تو نہیں دیکھا مگر آواز میں انتہائی کرب واضطراب محسوس کیا، مجھے لگا اسے میری مدد کی ضرورت ہے، میں نے ہرممکن طور پر اس کے مسئلے کو سلجھانے کے لئے کوشش کی ، اس کام کی وجہ سے مجھے کچھ نقصان بھی اٹھانا پڑامگرکچھ نقصان کے بدلے کسی کو بڑا فائدہ ہوتا ہو تو مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے ۔ اللہ سب کی سنتا اور سب کی مدد کرتا ہے ۔ بہن کی دعا اور کوشش قبول ہوئی اور اس کا گھر آباد ہوگیا۔ اس طرح طلاق ثلاثہ کے نام پہ نہ جانے کتنے گھر برباد ہوں گے ،انہیں بھی اسی طرح آباد کرنے کی ضرورت ہے ۔
اولاد کی خوشی باپ سے کہیں زیادہ ماں کو ہوتی ہے، آخر وہ اپنی کوکھ میں پالتی ہے ، شدت الم کے ساتھ جنم دیتی ہے اور دوسال تک سینے سے چمٹائے خوراک کا انتظام کرتی رہتی ہے۔اس بہن نے لوگوں سے اولاد کی درخواست کی ہے، میں اس کے توسط سے آپ سب سے اس کی سلامتی اور اولاد کے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوں ۔
 
Top