سوال ہے کہ کسی نیک عمل وسیلہ کتنی دفعہ دیا جاسکتا ہے ۔ اور اگر اس وسیلے کی نتیجے میں دعا پوری ہوجائے تو کیا وہ نیک عمل ختم ہوجائے گا۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ؛
کسی نیک عمل سے جتنی بار کوئی اہم دعاء کرنی ہو توسل کرسکتا ہے ، کیونکہ یہ کوئی لین دین کا سودا تو ہے نہیں !
یعنی : توسل بالاعمال میں ۔۔
عوض ، معاوضہ کا معاملہ نہیں ہوتا ، بلکہ کسی نیک عمل کو محض قبولیت کے ۔۔
سبب ۔۔ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ،
کیونکہ عمل صالح تو محبت اور اطاعت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ، کسی وقتی ،دنیاوی مفاد کیلئے نہیں ہوتا ، اگر دنیاوی وقتی مفاد مقصود ہو تو ہوسکتا ہے وہ مفاد حاصل ہوجائے ، لیکن اللہ کی رضا ، اور اخروی فائدہ نہیں ملتا ،
قرآن مجید میں ارشاد ہے ؛
مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ (سورۃ ھود15)
یعنی : جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی آسائش کے طالب ہوتے ہیں ہم ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ انہیں یہیں چکا دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی (ھود ۱۵)
ان تین غار والوں کے واقعہ میں الفاظ یہ ہیں :
(( فَقَالُوا: إِنَّهُ لاَ يُنْجِيكُمْ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ إِلَّا أَنْ تَدْعُوا اللَّهَ بِصَالِحِ أَعْمَالِكُمْ،۔۔۔۔ )(صحیح البخاری )
جب غار کا منہ بند ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ اس غار سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ، سوائے اس کے کہ : تم اللہ سے کسي ايسے نیک عمل کا واسطہ دے کر دعا کرو جو تم نے کيا ہو ؛)
اب سب نے اپنا ایک ایک عمل توسل کے طور پر پیش کیا اور ساتھ کہا :
( اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ )
یعنی : اے اللہ اگر تو جانتا ہے کہ ميں نے صرف تيري رضا کے لئے ايسا کيا تو ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا ‘‘
مطلب واضح ہے کہ : انہوں یہ نیک اعمال کرتے وقت صرف اللہ کی رضا ، مقصود تھی ، کسی دنیوی مفاد کے پیش نظر یہ عمل نہیں کئے تھے اسی لئے وہ اسی تعلق باللہ کا محض حوالہ دے رہے ہیں ،
اس دنیا میں انسان کے پاس سب سے بڑی پونجی اور دولت ایمان ہے ، قرآن کریم میں خود اللہ عزوجل فرماتا ہے :
{إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ} (المؤمنون: 109)
دنیا میں ) میرے کچھ بندے ایسے تھے کہ
جو برابر یہی کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لائے ہیں تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما تو سب مہربانوں سے زیاده مہربان ہے۔ (109)
یہاں بھی اہل ایمان نے اپنے ایمان کو بخشش کے حصول کیلئے وسیلہ ۔۔سبب ۔۔ بنایا ہے ، نہ کہ معاوضہ مانگا ہے ،
کیونکہ ایمان لانے کے بعد کسی نے چالیس سال بڑے بڑے عمل کئے ، اور کسی کو بحالت ایمان چند گھڑیاں دنیا میں نصیب ہوئیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے یاد رہے :
اعمال کا توسل دعاء کی قبولیت کیلئے شرط نہیں ،
کیونکہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
(وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ {غافر: 60}
اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسری کرتے ہیں وه جلد ہی ذلیل ہوکر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔ (60)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔