• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک کروڑ سے زیادہ بچے ’غلامی کی حالت میں‘

شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
ایک تازہ رپورٹ کے مطابق یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عالمی سطح پر ایک کروڑ سے زیادہ بچے گھریلوں ملازموں کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
مزدوروں کی بین الاقوامی تنظیم آئی ایل او کا کہنا ہے کہ ان میں سے بہت سے بچے خطرناک حالات میں کام کر رہے ہیں جو بعض اوقات غلامی کے زمرے میں آتا ہے۔
رپورٹ میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیاگیا ہے کہ یہ بچے جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہو سکتے ہیں۔
یہ رپورٹ بچہ مزدوری کے خلاف عالمی دن کے موقعے سے جاری کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ بیشتر مزدور بچوں کی عمر 14 سال سے کم ہے اور ان میں اکہتر فیصد لڑکیاں ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان میں سے بیشتر کو تعلیم تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ بچے گھروں میں کام کرتے ہیں اس لیے ان پر ضوابط طے کرنا مشکل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے: 'بچہ کام کرتا ہے لیکن انہیں ملازم خیال نہیں کیا جاتا۔ ہرچند کہ بچہ گھریلو ماحول میں رہتا ہے لیکن اس کے ساتھ گھر کے افراد جیسا سلوک نہیں ہوتا۔'
آئی ایل او کی کنسٹینس تھامس نے کہا: 'اس کے لیے ہمیں مضبوط قانونی فریم ورک کی ضرورت ہے تاکہ واضح طور پر ان کی نشاندہی کی جاسکے اور گھریلو کام میں بچہ مزدوری کو روکا اور ختم کیا جا سکے اور ان نو عمر لوگوں کو کام کے اچھے حالات میسر کرائے جاسکیں جب وہ قانونی طور پر کام کرنے کے اہل ہوں۔'
رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ گھریلو کام ملازمت کا اہم ذریعہ ہے بطور خاص خواتین کے لیے۔
کنسٹینس تھامس کا کہنا ہے کہ 'بہت سی معیشتوں میں ہر عمر کے گھریلو ملازم اہم کردار ادا کررہے ہیں۔'
ربط
 
شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
عالمی سطح پر بنائی جانے والی اس رپورٹ میں گو کہ بے حد خامیاں بھی بعید از قیاس نہیں تاہم مجھے اس رپورٹ کو دیکھ کر اپنے جاننے والوں کے گھروں میں بطور ملازم رہنے والے درجنوں ایسے بچے یاد آ گئے جنہیں میں جانتا ہوں۔ جن کا قصور غربت ہے۔ جو اترن انہیں پہننے کے لیے دی جاتی ہے وہ اس قابل نہیں ہوتی کی انہیں موسمی حالات سےمحفوظ رکھ سکے۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ ایسے بچے عام طور پر گھر کا سودا سلف لانے یا چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیلنے وغیرہ کی مد میں رکھے جاتے ہیں لیکن بلا تفریق ہر کام ان ہی بچوں سے کروایا جاتا ہے۔ ایک این جی او کی جانب سے کچھ سال قبل کیا جانے والا ایک سروے کافی ہوشربا حقائق لیے ہوئے تھا جسے بعد ازاں قومی اخبارات نے ناگزیر وجوہات کی بنا پر شائع کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اس این جی او نے اپنی ماہانہ رپورٹ میں اسے شائع کیا تھا۔ یہ سروے ایسے ملازم بچوں کے جنسی استحصال کے متعلق تھا۔ اس طرح کے درجنوں سروے کسی نہ کسی عالمی دن پر ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں لیکن وقتی طور پر اداسی تاسف یا چند لفظ لکھ دینے کے علاوہ ہم میں اتنی اخلاقیات ہر گز نہیں ہے کہ اپنے کسی ایسے جاننے والے کو جو کہ نوعمر گھریلو ملازم رکھتا ہے یہ ہی سمجھا سکیں کہ اس بچے کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ سال رواں میں وسطی پنجاب کے ایک چھوٹے شہر میں یتیم بچوں کو چند مخیر دوستوں کی مدد سےسکول یونیفارم دلوانے کی مہم شروع کی اس دوران ان یتیم بچوں سے ملاقات کا بھی اتفاق ہوا۔ ان 45 بچوں میں سے 37 بچے ایسے تھے جو سکول ٹائم کے بعد کسی نہ کسی گھر یا شاپ پر ملازمت کر رہے تھے۔ ہر بچے کی کہانی ایسی تھی کہ انٹرویو کے بعد میں اور باقی دوست کافی دیر تک خاموشی کے زیر اثر رہتے کہ اپنی کیفیت کے اظہار کو الفاظ نہیں ملتے تھے۔ بس یہی سوچ آتی تھی کہ ہم ان نبی صلی اللہ علیہ و آل وسلم کے امتی ہیں جن کی ناموس کی خاطر تو ہم اربوں روپئے کا نقصان کر دیتے ہیں لیکن ان کے احکامات کے مطابق غریب و یتیم بچوں کی کفالت کا ذمہ نہیں لیتے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہم لاکھ کوششوں کے باوجود ان بچوں کو مکمل یونیفارم بھی مہیا نہیں کر پائے تاہم اس سچائی کو ضرور پا لیا کہ ہمارے پاس پزا کھانے کے اخراجات تو موجود ہیں لیکن کسی غریب بچے کو یونیفارم کی شرٹ یا پینٹ دلوانے کیلئے ایک روپیہ بھی موجود نہیں۔
 
Top