کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
ایک گمشدہ طیارہ جس کے مسافر انسانی گوشت کھا کر زندہ رہے
بیونس آئرس (مانیٹرنگ ڈیسک) آج کل ملائیشین طیارے کی گمشدگی نے سب کو حیرت میں ڈال رکھا ہے اور ہر کوئی مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کر رہا ہے۔ کبھی کہہ دیا جاتا ہے کہ طیارے کو حادثہ پیش آ گیا ہے اور کبھی اسے ہائی جیکنگ کی کارروائی بتایا جاتا ہے۔
اگر جہاز محفوظ ہے اور مسافر زندہ ہیں تو کیا کسی نے سوچا ہے کہ اتنے دن مسافروں نے کیا کھایا ہو گا کیونکہ زندہ انسان کے لئے خوراک تو بہرحال ضروری ہے۔
آج ہم آپ کو ایک ایسے گمشدہ طیارے کے بارے میں بتاتے ہیں جس کے مسافروں کو دنیا نے مردہ قرار دے دیا تھا لیکن یہ مسافر تھے اور زندہ رہنے کے لئے اپنے مردہ دوستوں اور ساتھیوں کا گوشت کھانے پر مجبور ہوئے۔ جی ہاں یہ سچا واقعہ 1972ء میں پیش آیا تھا۔ جنوبی امریکہ کا ایک ملک یوراگوئے کے کالج کے لڑکے رگبی کا میچ کھیلنے اپنے رشتے داروں اور عزیزوں کے ساتھ ہمسایہ ملک چلی جا رہے تھے۔
13 اکتوبر 1972ء کی شام کو جہاز نے ارجنٹائن کے ایک مقامی ایئرپورٹ سے پرواز شروع کی، جہاز کی منزل چلی کا دارالحکومت سینڈی ایگو تھی اور اس میں 45 مسافر سوار تھے۔
جہاز کو ایک پہاڑی سلسلے "اینڈیز" کے اوپر سے گزرنا تھا یہ پہاڑی سلسلہ 30 ہزار فٹ تک بلند ہے لیکن موسم کی خرابی اور پائلٹ کی غلطی کے باعث جہاز ایک چٹان سے ٹکرانے کے بعد انتہائی برفانی چوٹی پر کریش کر گیا۔ شدید برفانی طوفان کے باعث پائلٹ کو چوٹی نظر نہ آئی تھی اور یہ حادثہ پیش آیا۔
خوش قسمتی سے پہاڑوں پر 15 فٹ سے زیادہ برف ہونے کے باعث جہاز کے پرخچے نہ اڑے اور جہاز پھسلتا ہوا چوٹی سے ٹکرانے کے بعد نیچے کی جانب آیا، جہاز میں بیٹھے زیادہ تر مسافر محفوظ رہے۔ کنٹرول ٹاور سے جہاز کا رابطہ منقطع ہو چکا تھا اور یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ جہاز کو حادثہ پیش آ چکا ہے لیکن جہاز کی جائے حادثہ کا کسی کو معلوم نہ تھا۔
جہاز کی تلاش شروع کی گئی اور آٹھ دس دن تک ریسکیو ٹیمیں جہاز کی تلاش کرتی رہیں لیکن شدید برفانی طوفان کے باعث یہ سمجھ لیا گیا کہ جہاز میں بیٹھے تمام مسافر مر چکے ہیں اور بالآخر جہاز کو گمشدہ کہہ کر تمام مسافروں کو مردہ قرار دے دیا گیا۔
دوسری جانب جہاز پر سوار مسافروں کے پاس کھانے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔ حادثے کے باعث 45 میں سے 16 افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ ہلاک شدہ افراد کو جہاز میں سے نکال کر باہر برف میں دفن کر دیا گیا۔
29 مسافر زندہ بچے تھے لیکن 5 کی حالت نازک تھی۔ بچ جانے والے مسافروں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ خوراک کا درپیش تھا، اس کے علاوہ جہاز کے باہر 15 سے 20 فٹ گہری برف تھی سب سے بڑھ کر 15 ہزار فٹ کی بلندی پر شدید برفانی طوفان تھا۔
جہاز میں صرف 10 سے 12 چاکلیٹس موجود تھیں اور کھانے والے 29 لوگ یہ 12 چاکلیٹس 8 دن تک کھائیں گئیں۔ ٹرانزسٹر کے ذریعے باقی مسافروں کو نویں دن علم ہوا کہ انہیں مردہ قرار دے دیا گیا ہے اور ریسکیو ٹیموں نے ان کی تلاش بند کر دی ہے۔ بھوک کی وجہ سے ان مسافروں کا برا حال تھا اور جب یہ علم ہوا کہ اب ان کی امداد کو کوئی نہ آئے گا تو تمام مسافر شدید پریشانی کا شکار ہو گئے۔ مزید 3 دن تک مسافروں نے انتظار کیا لیکن اب بھوک کے باعث ان کا برا حال تھا۔ آخر کار ان مسافروں نے فیصلہ کیا کہ جو لوگ مرچکے ہیں ان کا گوشت کھا لیا جائے۔ ان مسافروں نے ایک دوسرے سے یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر ان میں سے کوئی مرجائے گا تو باقی لوگ اس کا گوشت کھا سکتے ہیں۔
یہ مفلوک الحال مسافر شدید بے چارگی کے عالم میں 72 دن یعنی اڑھائی ماہ تک اس "برفانی جہنم" میں رہے۔ شدید برفانی طوفان، بھوک، کمزوری اور بیماریوں کے باعث 29 لوگوں میں سے صرف 16 لوگ زندہ بچے جبکہ 13 لوگ حادثے کے بعد ہلاک ہوئے۔
ان 16 لوگوں میں سے 2 بہادر نوجوانوں نے 20 ہزار فٹ سے زائد اونچا پہاڑ عام جوتوں اورکپڑوں میں عبور کیا اور نزدیک ترین قصبہ جو کہ 60 کلومیٹر دور تھا میں جاکر مدد حاصل کی اور یوں ان لوگوں کو 24 دسمبر 1972ء کو نئی زندگی ملی۔
یہ 16 لوگ آج بھی دنیا بھر میں بہت مشہور ہیں۔ دنیا بھر میں اس واقع کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی بقاء کی کہانی کہا جاتا ہے۔ آج بھی جب کوہ پیما اس پہاڑ پر جاتے ہیں اور یہ دیکھ کر کہ کس طرح دو نوجوانوں نے ان پہاڑوں کو عام لباس میں عبور کیا حیران ہوتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر انسان کی قوت ارادی مضبوط اور اللہ تعالیٰ کی مدد شامل ہو تو انسان سب کچھ کرسکتا ہے۔ ہمیں بھی دعا کرنی چاہیے کہ ملائیشین طیارہ میں سوار لوگ خیریت سے ہوں۔
18 مارچ 2014 (22:48)