عامر عدنان
مشہور رکن
- شمولیت
- جون 22، 2015
- پیغامات
- 921
- ری ایکشن اسکور
- 264
- پوائنٹ
- 142
[ ایک ہی کتاب کو بار بار پڑھنا]
.............
️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
.....
کسی بھی کتاب کو جب پہلی بار پڑھنا ہی دل پر گراں گذرے تو انسان ایسے وقت میں ایک ہی کتاب کو بار بار کیسے پڑھے.
لیکن میں درجنوں ایسے علما سے واقف ہوں جو ایک ہی کتاب کو بار بار پڑھتے تھے، شاید اس لئے کہ ان کے نزدیک ایک ہی کتاب کو بار بار پڑھنا کئی نئی کتابوں کے مطالعہ سے بہتر تھا.
شاید عقاد کا قول ہے:"إن قراءة كتاب واحد ثلاث مرات أنفع من قراءة ثلاثة كتب في الموضوع نفسه".
1 - مولانا عبد الحئی لکھنوی "الفوائد البهية" میں لکھتے ہیں کہ سید شریف نے "شرح المطالع" سولہ مرتبہ پڑھی.
2-مؤرخ ابن خلّکان نے حکیم ابو نصر فارابی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ارسطو کی کتاب"النفس" کا ایک نسخہ کسی کے ہاتھ لگا جس پر حکیم ابونصر فارابی کے قلم سے لکھا ہوا تھا :"إني قرأت هذا الكتاب مائة مرة"-" کہ میں نے اس کتاب کو سو مرتبہ پڑھا ہے "[ابن خلکان ٢/٧٢].
3-بوعلی سینا کے متعلق ایک واقعہ مشہور ہے، اس کو شیخ نے خود بیان کیاہے کہ ایام طالب علمی میں جب میں نے کتاب "ما بعد الطبیعة" کو شروع کیا تو وہ مطلقاً میری سمجھ میں نہیں آئی اور نہ واضح فن کی کوئی غرض مفہوم ہوئی، انتہا ہے کہ چالیس مرتبہ میں نے اس کا مطالعہ کیا، عبارت تو بر زبان ہو گئی لیکن اب تک مدعا کچھ معلوم نہیں ہوسکا، اتفاقاً عصر کے وقت کتب فروشوں میں میرا گذر ہوا، وہ"فن ما بعد الطبیعة" فروخت کر رہا تھا، اس کے اصرار سے میں نے تین درہم سے خرید لیا، کتاب دیکھی تو ابو نصر فارابی کی نکلی، مطالعہ میں مصروف ہوا، کتاب پہلے سے یاد تھی چونکہ اس میں ان مطالب کی تشریح کامل تھی، اس لئے سب مشکلیں آسان ہوگئیں [عیون الانباء 2/4].
4-عمر خیام کا شوق مطالعہ اس درجہ تھا کہ ایک بار اصفہان میں ایک کتاب نظر سے گذری تو سات مرتبہ پے در پے اس کا مطالعہ کیا، پھر نیشاپور آکر اس کو زبانی لکھوادی. [العلم والعلما ص/76].
5-مزنی "صاحب امام شافعی" کہتے ہیں:"میں برابر پچاس سالوں سے امام شافعی کی مشہور کتاب"الرسالة" پڑھ رہا ہوں، جب بھی اس کا مطالعہ کیا ،نئی چیز معلوم ہوئی جس کا مجھے پہلے علم نہ تھا"
6-ابن عطیہ محاربی کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے "صحیح بخاری" سات سو(700)بار پڑھی ہے.
7-فقیہ یحی عمرانی خود اپنے متعلق کہتے ہیں کہ "المهذب" پر تعلیق چڑھانے سے پہلے میں نے اسے ازبر کیا، پھر اسے چالیس سے زائد مرتبہ پڑھا.
8-مشہور اہل حدیث ادیب عبد العزيز میمینی راجکوٹھی اپنے متعلق کہتے ہیں کہ میں نے یاقوت حموی کی"معجم الأدباء" کم از کم سات سے آٹھ مرتبہ پڑھی ہے.
9-ابراہیم بن حجاج ابناسی کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے "التوضيح" ستر(70)سے زائد اور"شرح ابن المصنف" تیس سے زائد بار پڑھی ہے.
10-ابن التبّان کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے "المدوّنة" کا مطالعہ ایک ہزار بار کیا ہے.
11-امام ابو بکر ابہری اپنے متعلق کہتے ہیں کہ میں نے "مختصر ابن عبد الحکم" پانچ سو (500)مرتبہ،"الأسدية" پچھتر(75)مرتبہ ،"مؤطا إمام مالك" پینتالیس (45)مرتبہ،"مختصر البرقي"ستر (70) مرتبہ اور" المبسوط" کا مطالعہ تیس(30)بار کیا ہے.
12-علامہ علی بن عبد الواحد جزائری کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے "کشاف" کو شروع سے آخر تک تیس بار پڑھی ہے.
13-ابن فرحون یعمری کہتے ہیں :"لازمت تفسير ابن عطية حتى كدته أحفظه" ٠
14-بہت سارے ایسے علما گذرے ہیں جنہوں نے کسی ایک کتاب کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنا لیا تھا، نتیجتاً لوگوں نے اسی کتاب کی طرف انہیں منسوب کر دیا، جیسے :
أ-"الكافيجي":
ان کا نام محی الدین ہے، لیکن ان کا لگاؤ"الكافية في النحو" سے بہت زیادہ تھا، لہذا لوگوں نے ان کو اسی کتاب کی طرف منسوب کر دیا.
ب-"الوجيزي" :
جمال الدین احمد بن محمد واسطی کو"وجیزی" کہا جاتا ہے، چونکہ ہمیشہ ان کے مطالعہ میں"الوجيز للغزالي" رہتی تھی.
ج-"منهاجي" :
علامہ زرکشی کو"منہاجی" کے لقب سے جانا جاتا ہے اس لئے کہ وہ "المنهاج للنووي" ہمیشہ پڑھتے رہتے تھے.
تفصیل کے لئے دیکھو [المشوق إلى القراءة لعلي العمران]
.............
️ابو تقی الدین ضیاء الحق سیف الدین
.....
کسی بھی کتاب کو جب پہلی بار پڑھنا ہی دل پر گراں گذرے تو انسان ایسے وقت میں ایک ہی کتاب کو بار بار کیسے پڑھے.
لیکن میں درجنوں ایسے علما سے واقف ہوں جو ایک ہی کتاب کو بار بار پڑھتے تھے، شاید اس لئے کہ ان کے نزدیک ایک ہی کتاب کو بار بار پڑھنا کئی نئی کتابوں کے مطالعہ سے بہتر تھا.
شاید عقاد کا قول ہے:"إن قراءة كتاب واحد ثلاث مرات أنفع من قراءة ثلاثة كتب في الموضوع نفسه".
1 - مولانا عبد الحئی لکھنوی "الفوائد البهية" میں لکھتے ہیں کہ سید شریف نے "شرح المطالع" سولہ مرتبہ پڑھی.
2-مؤرخ ابن خلّکان نے حکیم ابو نصر فارابی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ارسطو کی کتاب"النفس" کا ایک نسخہ کسی کے ہاتھ لگا جس پر حکیم ابونصر فارابی کے قلم سے لکھا ہوا تھا :"إني قرأت هذا الكتاب مائة مرة"-" کہ میں نے اس کتاب کو سو مرتبہ پڑھا ہے "[ابن خلکان ٢/٧٢].
3-بوعلی سینا کے متعلق ایک واقعہ مشہور ہے، اس کو شیخ نے خود بیان کیاہے کہ ایام طالب علمی میں جب میں نے کتاب "ما بعد الطبیعة" کو شروع کیا تو وہ مطلقاً میری سمجھ میں نہیں آئی اور نہ واضح فن کی کوئی غرض مفہوم ہوئی، انتہا ہے کہ چالیس مرتبہ میں نے اس کا مطالعہ کیا، عبارت تو بر زبان ہو گئی لیکن اب تک مدعا کچھ معلوم نہیں ہوسکا، اتفاقاً عصر کے وقت کتب فروشوں میں میرا گذر ہوا، وہ"فن ما بعد الطبیعة" فروخت کر رہا تھا، اس کے اصرار سے میں نے تین درہم سے خرید لیا، کتاب دیکھی تو ابو نصر فارابی کی نکلی، مطالعہ میں مصروف ہوا، کتاب پہلے سے یاد تھی چونکہ اس میں ان مطالب کی تشریح کامل تھی، اس لئے سب مشکلیں آسان ہوگئیں [عیون الانباء 2/4].
4-عمر خیام کا شوق مطالعہ اس درجہ تھا کہ ایک بار اصفہان میں ایک کتاب نظر سے گذری تو سات مرتبہ پے در پے اس کا مطالعہ کیا، پھر نیشاپور آکر اس کو زبانی لکھوادی. [العلم والعلما ص/76].
5-مزنی "صاحب امام شافعی" کہتے ہیں:"میں برابر پچاس سالوں سے امام شافعی کی مشہور کتاب"الرسالة" پڑھ رہا ہوں، جب بھی اس کا مطالعہ کیا ،نئی چیز معلوم ہوئی جس کا مجھے پہلے علم نہ تھا"
6-ابن عطیہ محاربی کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے "صحیح بخاری" سات سو(700)بار پڑھی ہے.
7-فقیہ یحی عمرانی خود اپنے متعلق کہتے ہیں کہ "المهذب" پر تعلیق چڑھانے سے پہلے میں نے اسے ازبر کیا، پھر اسے چالیس سے زائد مرتبہ پڑھا.
8-مشہور اہل حدیث ادیب عبد العزيز میمینی راجکوٹھی اپنے متعلق کہتے ہیں کہ میں نے یاقوت حموی کی"معجم الأدباء" کم از کم سات سے آٹھ مرتبہ پڑھی ہے.
9-ابراہیم بن حجاج ابناسی کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے "التوضيح" ستر(70)سے زائد اور"شرح ابن المصنف" تیس سے زائد بار پڑھی ہے.
10-ابن التبّان کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے "المدوّنة" کا مطالعہ ایک ہزار بار کیا ہے.
11-امام ابو بکر ابہری اپنے متعلق کہتے ہیں کہ میں نے "مختصر ابن عبد الحکم" پانچ سو (500)مرتبہ،"الأسدية" پچھتر(75)مرتبہ ،"مؤطا إمام مالك" پینتالیس (45)مرتبہ،"مختصر البرقي"ستر (70) مرتبہ اور" المبسوط" کا مطالعہ تیس(30)بار کیا ہے.
12-علامہ علی بن عبد الواحد جزائری کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے "کشاف" کو شروع سے آخر تک تیس بار پڑھی ہے.
13-ابن فرحون یعمری کہتے ہیں :"لازمت تفسير ابن عطية حتى كدته أحفظه" ٠
14-بہت سارے ایسے علما گذرے ہیں جنہوں نے کسی ایک کتاب کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنا لیا تھا، نتیجتاً لوگوں نے اسی کتاب کی طرف انہیں منسوب کر دیا، جیسے :
أ-"الكافيجي":
ان کا نام محی الدین ہے، لیکن ان کا لگاؤ"الكافية في النحو" سے بہت زیادہ تھا، لہذا لوگوں نے ان کو اسی کتاب کی طرف منسوب کر دیا.
ب-"الوجيزي" :
جمال الدین احمد بن محمد واسطی کو"وجیزی" کہا جاتا ہے، چونکہ ہمیشہ ان کے مطالعہ میں"الوجيز للغزالي" رہتی تھی.
ج-"منهاجي" :
علامہ زرکشی کو"منہاجی" کے لقب سے جانا جاتا ہے اس لئے کہ وہ "المنهاج للنووي" ہمیشہ پڑھتے رہتے تھے.
تفصیل کے لئے دیکھو [المشوق إلى القراءة لعلي العمران]