"اسرائیلی فوجی فلسطینیوں عورتوں کی عزتیں پامال کریں"
اسرائیلی دانشور نے انٹرویو میں فلسطینیوں کو سبق سکھانے کا واحد راستہ عزتوں کی پامالی بتایا
اسرائیلی دانشور نے انٹرویو میں فلسطینیوں کو سبق سکھانے کا واحد راستہ عزتوں کی پامالی بتایا
فلسطینیوں کو گھروں تک محدود کرنے کے لئے ان کی خواتین کی عزتیں لوٹنے کا مطالبہ کرنے والا اسرائیلی اسکالر مردخائی قادر
مقبوضہ بیت المقدس۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ
اسرائیل جس کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اقوام متحدہ میں آنے والی قرار داد کو امریکا نے ویٹو کر دیا ہے اور مغربی ممالک نے اسرائیل کے خلاف ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ہے، کے دانشوروں اور اساتذہ نے فلسطینی عوام کو سبق سکھانے کے لیے صرف بمباری کو ناکافی قرار دیتے ہوئے اسرائیلی فوج کو فلسطینیوں کی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ جبری زیادتی کا حربہ تجویز کیا ہے۔
اسرائیلی یونیورسٹی بار ایلان میں عربی کے صیہونی استاد مردخائی قادر نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ عرب ثقافت کو سامنے رکھتے ہوئے اسرائیل کے پاس فلسطینیوں سے نمٹنے کے لیے چند آپشنز رہ جاتی ہیں۔
ان میں سے سے ایک یہ ہے کہ فلسطینی خواتین کے ساتھ اسرائیلی فوجی جبری زنا کا ارتکاب کریں۔ عبرانی زبان میں دیے گئے انٹرویو کا انگریزی میں ترجمہ ہونے کے بعد اس صیہونی کے خیالات زیادہ لوگوں کے سامنے آ سکے ہیں۔
اس صیہونیت کے چہرے کو بے نقاب کرنے والے انٹرویو کو اسرائیل میں بائیں بازو کے نظریات رکھنے والی ایک ویب سائٹ نے بھی رپورٹ کیا ہے۔
اسرائیلی یونیورسٹی کے صیہونی استاد کا کہنا ہے" ایسے دہشت گرد جو اغوا اور قتل میں ملوث ہوں ان سے نمٹنےکا ایک ہی طریقہ باقی رہ گیا ہے کہ ان کی بہنوں، مائوں اور بیٹیوں کو پکڑ پکڑ کر زیادتی کانشانہ بنایا جائے۔"
انٹرویو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا'' ہاں یہ درست کہ اس سے برا پیغام جائے گا لیکن فلسطینیوں کے لیے اسی میں سبق ہو سکتا ہے۔" اس صیہونی استاد نے مزید کہا" میں یہ بات فلسطینیوں کے ساتھ نمٹنے کے طریقوں کے حوالے سے بتا رہا ہوں، یہ نہیں کہہ رہا ہم ایسا کرسکیں گے یا نہیں۔"
صیہونی یونیورسٹی کے استاد کا کہنا تھا: ''یہی ایک راستہ ہے جس سے فلسطینیوں کو روکا جا سکتا ہے اور فلسطینی نوجوانوں کو واپس گھروں میں بیٹھنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے کہ یہ ان کی بہنوں کی عزت کا معاملہ ہو گا۔''
مردخائی کا مزید کہنا تھا کہ مشرق وسطی کا یہ کلچر میں نے نہیں بنایا ہے یہ اس مسئلے کا حل ہے جو میں تجویز کر رہا ہوں۔ لیکن دلچسپ بات ہے اس بارے میں کسی مغربی ملک نے ابھی تک منفی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے نہ ہی خواتین کے حقوق کے لیے پریشان رہنے والی این جی اوز نے آواز اٹھائی ہے۔
البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد امریکا نے انسانی حقوق کی پامالیوں پر اسرائیل کے خلاف قرارداد ویٹو کی ہے اور مغرب نے لاتعلقی برتتے ہوئے ووٹ استعمال نہیں کیا ہے۔
تصویر حذف از انتظامیہ
Last edited by a moderator: