ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ آنکھ کھولتے ہی بچے نے رونا شروع کر دیا۔ عجیب بات ہے نا بچہ دنیا میں روتے ہوئے آتا ہے اور ہم سب ہنستے ہوئے اسکا استقبال کرتے ہیں۔ اسی استقبال کے لیے ایک باپ ہسپتال میں اپنے بچے کے لیے بے چینی سے چکر کاٹتا رہا۔ بچے نے دنیا میں آنکھ کھولی۔ رونے کی آواز سے باپ کے قدم تیزی سے نرس کے پاس جانے کے لیے اٹھنے لگے۔ انکھیں جلال سے جلنے لگی اور ٹوٹتے ہوئے الفاظ میں اُس نے نرس سے پوچھا۔۔۔ نرس نے معمول کے مطابق شائستگی اختیار کرتے ہوئے کہا۔ آج اللہ کی ذات آپ سے بے حد خوش ہوئی اور رحمت نازل کی۔ باپ نے آہ بھری او ر و ا پس صوفے پر بیھٹے ہوئے کہا، یہ رحمت آج سے میرے لیے زحمت بن گئی۔
جو سینہ تان کر میں اس زمین پر چلنا چاپتا تھا آج سے اُسی سینے پر نگا ئیں گھوپ کر زندگی گزارنی پڑیگی ۔ ہائے افسوس صد افسوس کس قدر جاہلانہ سوچ کا حامل فرد ہے، ایک بیٹی کی پیدائش کو اپنی مردانگی کے لیے للکا ر سجمھ رہا تھا۔ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جنس کا تعین رب کی ذات کرتی ہے، عورت تو صرف ایک ذریعہ ہے۔ اس کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ تو پھر مرد کیوں غیرت کی پگڑی لیے پھرتا ہے۔ لڑکی کی پیدائش پر کیوں عورت کو طعنہ دیا جاتا ہے؟ جب کہ اسی بطن سے لڑکے بھی پیدا ہوتے رہے ہیں ۔مردانہ معاشرہ عورت سے جینے کا حق چھینتا جا رہا ہے کہیں غیرت کے نام پر قتل تو کہیں لڑکی کی پیدائش پر عورت کو دھمکی۔ تو کہیں پسند کی شادی کرنے پر عورت کو گولی کا نشانہ بنایا گیا۔
ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں نہ تو مسلمانوں کی شرائط کا پتہ ہے اور نہ ہی اسلامی قوانین کا۔ جہاں اسلام ایک طرف لڑکی کی پیدائش کی خوشخبری دیتا ہے۔ وہیں دوسری طرف اسلام پسند کی شادی کی اجازت بھی دیتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ مرد اپنی بہن، بیٹی کو پسند کی اجازت نہیں دے پاتا ۔۔۔کیونکہ اس کی غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ وجہ یہ نام نہاد غیرت مند معاشرہ ہے جہاں عورت اگر اپنی پسند کا اظہار کر دیتی ہے تو وہ بے غیرت ہو جاتی ہے۔ مگر مرد جب اپنی پسند کا اظہار کرتا ہے تو یہی معاشرہ بول اٹھتا ہے کہ کیا کریں ہمارے لڑکے کی یہ پسند تھی ہم تو اس کو ٹھکرا نہیں سکتے، یہ تضاد آخر کیوں ہے جبکہ زندگی تو دونوں نے گزارنی ہے۔
ذرا سوچئے کہ لڑکے نے لڑکی پسند کی اوراُسے حاصل کرنے چل نکلا۔ گویا لڑکی نہ ہو کوئی کھلونا ہو کہ بچے نے ضد کی اور پوری کی۔ تو پھر کیونکر عورت کے منہ کھولنے پر منہ بند کر دیا جاتا ہے؟ کیوں اس سے فطری حق چھینا جاتا ہے؟ کیوں اس کو شریک حیات پسند کرنے پر مار دیا جاتا ہے؟ کیوں خواہش کا اظہار پر اسکی پیدائش کو منحوس کہا جاتاہے ؟ آخر تبدیلی کب آئے گی کہ عورت کو شغل نہیں بلکہ مشعل راہ، رفیق حیات اور ایک انسان سمجھا جائے گا؟۔ اسلام جب پسند ناپسند کا اختیار دیتاہے تو نام نہاد غیرت کیوں جاگتی ہے؟ کیوں مردانگی بھڑک اٹھتی ہے؟ نکاح کرنے سے معاشرہ بہت سی برائیوں سے بچ جاتا ہے۔ لیکن اس معاشرے میں جب نکاح کا پیغام پہنچایا جائے تو ہزاروں سوال کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اخر ایسا کیا ہوا، کب ،کیسے، کہاں ملے کہاں دیکھا، کیا ہوا، کیوں ہوا، غرض سوالات کی اِس قدر بوچھاڑ کر ڈالتے ہیں کہ حیوانات کا غلبہ ہونے لگتا ہے ۔
ایک شعبہ میں ایک صاحب ایک باعزت پیشے سے منسلک تھے۔ خاصے لمبے عرصے سے ایک محترمہ سے کافی اچھے مراسم استوار کر چکے تھے۔ یہ کوئی انوکھی یا حیران کن بات نہیں ہے۔ مگر جب ان صاحب سے کہا گیا کہ آپ اس محترمہ کو اپنے نکاح میں کیوں نہیں لے لیتے؟ جواب ملا کہ محترمہ اگر خود گھر میں بات کریں تو بد چلنی کا طعنہ ملے گا، میں اگر پیغام نکاح پہنچاؤں تو اسے بے غیرتی کا طعنہ ملے گا اور اگرمیں خود کچھ نہ کروں تو مجھے بے وفائی کا طعنہ ملے گا۔ کروں تو کروں کیا۔ معاشرے نے جینا بے حد مشکل کر دیا ہے۔ کھلی فضا میں بھی گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ انسان جب پریشان ہوتا ہے تو اللہ تعالی آسانی کی راہ ضرور دیکھا دیتا ہے۔ لہذا اس صاحب کو بھی راہ مل گئی۔ کسی نے درمیانہ راستہ نکال کر اس لو میرج کو ارینج میرج میں تبدیل کروا دیا۔۔۔ بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تھوڑی سی عقل اور ہوش سے کام لیا جائے تو دو بندوں کی پسند دو خاندانوں کی پسند بن جاتی ہے اور عزت کا جنازہ بھی نکلنے سے بچ جاتا ہے۔
عبدالقیوم صحافی
جو سینہ تان کر میں اس زمین پر چلنا چاپتا تھا آج سے اُسی سینے پر نگا ئیں گھوپ کر زندگی گزارنی پڑیگی ۔ ہائے افسوس صد افسوس کس قدر جاہلانہ سوچ کا حامل فرد ہے، ایک بیٹی کی پیدائش کو اپنی مردانگی کے لیے للکا ر سجمھ رہا تھا۔ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جنس کا تعین رب کی ذات کرتی ہے، عورت تو صرف ایک ذریعہ ہے۔ اس کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ تو پھر مرد کیوں غیرت کی پگڑی لیے پھرتا ہے۔ لڑکی کی پیدائش پر کیوں عورت کو طعنہ دیا جاتا ہے؟ جب کہ اسی بطن سے لڑکے بھی پیدا ہوتے رہے ہیں ۔مردانہ معاشرہ عورت سے جینے کا حق چھینتا جا رہا ہے کہیں غیرت کے نام پر قتل تو کہیں لڑکی کی پیدائش پر عورت کو دھمکی۔ تو کہیں پسند کی شادی کرنے پر عورت کو گولی کا نشانہ بنایا گیا۔
ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں نہ تو مسلمانوں کی شرائط کا پتہ ہے اور نہ ہی اسلامی قوانین کا۔ جہاں اسلام ایک طرف لڑکی کی پیدائش کی خوشخبری دیتا ہے۔ وہیں دوسری طرف اسلام پسند کی شادی کی اجازت بھی دیتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ مرد اپنی بہن، بیٹی کو پسند کی اجازت نہیں دے پاتا ۔۔۔کیونکہ اس کی غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ وجہ یہ نام نہاد غیرت مند معاشرہ ہے جہاں عورت اگر اپنی پسند کا اظہار کر دیتی ہے تو وہ بے غیرت ہو جاتی ہے۔ مگر مرد جب اپنی پسند کا اظہار کرتا ہے تو یہی معاشرہ بول اٹھتا ہے کہ کیا کریں ہمارے لڑکے کی یہ پسند تھی ہم تو اس کو ٹھکرا نہیں سکتے، یہ تضاد آخر کیوں ہے جبکہ زندگی تو دونوں نے گزارنی ہے۔
ذرا سوچئے کہ لڑکے نے لڑکی پسند کی اوراُسے حاصل کرنے چل نکلا۔ گویا لڑکی نہ ہو کوئی کھلونا ہو کہ بچے نے ضد کی اور پوری کی۔ تو پھر کیونکر عورت کے منہ کھولنے پر منہ بند کر دیا جاتا ہے؟ کیوں اس سے فطری حق چھینا جاتا ہے؟ کیوں اس کو شریک حیات پسند کرنے پر مار دیا جاتا ہے؟ کیوں خواہش کا اظہار پر اسکی پیدائش کو منحوس کہا جاتاہے ؟ آخر تبدیلی کب آئے گی کہ عورت کو شغل نہیں بلکہ مشعل راہ، رفیق حیات اور ایک انسان سمجھا جائے گا؟۔ اسلام جب پسند ناپسند کا اختیار دیتاہے تو نام نہاد غیرت کیوں جاگتی ہے؟ کیوں مردانگی بھڑک اٹھتی ہے؟ نکاح کرنے سے معاشرہ بہت سی برائیوں سے بچ جاتا ہے۔ لیکن اس معاشرے میں جب نکاح کا پیغام پہنچایا جائے تو ہزاروں سوال کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اخر ایسا کیا ہوا، کب ،کیسے، کہاں ملے کہاں دیکھا، کیا ہوا، کیوں ہوا، غرض سوالات کی اِس قدر بوچھاڑ کر ڈالتے ہیں کہ حیوانات کا غلبہ ہونے لگتا ہے ۔
ایک شعبہ میں ایک صاحب ایک باعزت پیشے سے منسلک تھے۔ خاصے لمبے عرصے سے ایک محترمہ سے کافی اچھے مراسم استوار کر چکے تھے۔ یہ کوئی انوکھی یا حیران کن بات نہیں ہے۔ مگر جب ان صاحب سے کہا گیا کہ آپ اس محترمہ کو اپنے نکاح میں کیوں نہیں لے لیتے؟ جواب ملا کہ محترمہ اگر خود گھر میں بات کریں تو بد چلنی کا طعنہ ملے گا، میں اگر پیغام نکاح پہنچاؤں تو اسے بے غیرتی کا طعنہ ملے گا اور اگرمیں خود کچھ نہ کروں تو مجھے بے وفائی کا طعنہ ملے گا۔ کروں تو کروں کیا۔ معاشرے نے جینا بے حد مشکل کر دیا ہے۔ کھلی فضا میں بھی گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ انسان جب پریشان ہوتا ہے تو اللہ تعالی آسانی کی راہ ضرور دیکھا دیتا ہے۔ لہذا اس صاحب کو بھی راہ مل گئی۔ کسی نے درمیانہ راستہ نکال کر اس لو میرج کو ارینج میرج میں تبدیل کروا دیا۔۔۔ بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تھوڑی سی عقل اور ہوش سے کام لیا جائے تو دو بندوں کی پسند دو خاندانوں کی پسند بن جاتی ہے اور عزت کا جنازہ بھی نکلنے سے بچ جاتا ہے۔
عبدالقیوم صحافی