محدث میڈیا
رکن
- شمولیت
- مارچ 02، 2023
- پیغامات
- 864
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 69
مردوں کے لیے باجماعت نماز کے حکم کے بارے میں علما ء کرام کی رائے مختلف ہے:
پہلی رائے: باجماعت نماز ادا کرنا فرض عین ہے، یہ عبد اللہ بن مسعود، ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم، احمد ، ابن حزم، ابن تیمیہ رحمہم اللہ کا قول ہے۔
دلیل:
ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِذَا كُنْتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ (النساء: 102)
’’اور جب تو ان میں موجود ہو، پس ان کے لیے نماز کھڑی کرے تو لازم ہے کہ ان میں سے ایک جماعت تیرے ساتھ کھڑی ہو اور وہ اپنے ہتھیار پکڑے رکھیں۔‘‘
جب اللہ تعالی نے خوف کی حالت میں باجماعت نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے تو امن کی حالت میں باجماعت ادا کرنا زیادہ ضروری ہے۔
- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک نابینا آدمی حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کےرسولﷺ! میرے پاس کوئی لانے والا نہیں جو (ہاتھ سے پکڑ کر) مجھے مسجد میں لے آئے۔ اس نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھ لے۔ آپﷺ نے اسے اجازت دے دی، جب وہ واپس ہوا تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا:
هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَجِبْ
’’کیا تم نماز کا بلاوا (اذان) سنتے ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تو اس پر لبیک کہو۔‘‘ (صحيح مسلم: 653)
دوسری رائے: باجماعت نماز ادا کرنا فرض عین نہیں ہے، یہ امام ابو حنیفہ،امام مالک اورامام شافعی کا قول ہے([1])
دلیل:
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَعْظَمَ النَّاسِ أَجْرًا فِي الصَّلَاةِ أَبْعَدُهُمْ إِلَيْهَا مَمْشًى، فَأَبْعَدُهُمْ، وَالَّذِي يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْإِمَامِ أَعْظَمَ أَجْرًا مِنَ الَّذِي يُصَلِّيَهَا ثُمَّ يَنَامُ» وَفِي رِوَايَةِ أَبِي كُرَيْبٍ: «حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْإِمَامِ فِي جَمَاعَةٍ
’’نماز میں سب سے زیادہ ثواب اس کا ہے جو اس کے لیے زیادہ دور سے چل کر آتا ہے۔ پھر (اس کے بعد) جو ان میں سے سب سے زیادہ دور سے چل کر آتا ہے۔ اور جو آدمی نماز کا انتظار کرتا ہے تاکہ اسے امام کے ساتھ ادا کرے، اجر میں اس سے بہت بڑھ کر ہے جو نماز پڑھتا ہے، پھر سو جاتا ہے۔’’ ابو کریب کی روایت میں ہے: ’’یہاں تک کہ وہ اسے امام کے ساتھ جماعت میں ادا کرے۔‘‘ (صحیح مسلم: 662)
مندرجہ بالا حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اکیلا نماز پڑھنے والا اور باجماعت نماز ادا کرنے والے دونوں کو اجر ملے گا۔
یزید بن اسود عامری ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک رہا۔ میں نے آپ کے ساتھ مسجد خیف میں فجر پڑھی، جب آپ نے نماز پوری کر لی اور ہماری طرف مڑے تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے آخر میں (سب سے پیچھے) دو آدمی ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ آپ نے فرمایا: ’’انہیں میرے پاس لاؤ‘‘، وہ لائے گئے، ان کے مونڈھے ڈر سے پھڑک رہے تھے۔ آپ نے پوچھا: ’’تم دونوں نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہم نے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لی تھی۔ آپ نے فرمایا:
فَلَا تَفْعَلَا إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا ثُمَّ أَتَيْتُمَا مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَصَلِّيَا مَعَهُمْ فَإِنَّهَا لَكُمَا نَافِلَةٌ
’’ایسا نہ کیا کرو، جب تم اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو پھر مسجد آؤ جس میں جماعت ہو رہی ہو تو لوگوں کے ساتھ بھی پڑھ لو۱؎ یہ تمہارے لیے نفل ہو جائے گی‘‘۔ (سنن ترمذی: 219)
راجح:
پہلا قول زیادہ قوی ہے ۔ واللہ اعلم
پہلی رائے: باجماعت نماز ادا کرنا فرض عین ہے، یہ عبد اللہ بن مسعود، ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم، احمد ، ابن حزم، ابن تیمیہ رحمہم اللہ کا قول ہے۔
دلیل:
ارشاد باری تعالی ہے:
وَإِذَا كُنْتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ (النساء: 102)
’’اور جب تو ان میں موجود ہو، پس ان کے لیے نماز کھڑی کرے تو لازم ہے کہ ان میں سے ایک جماعت تیرے ساتھ کھڑی ہو اور وہ اپنے ہتھیار پکڑے رکھیں۔‘‘
جب اللہ تعالی نے خوف کی حالت میں باجماعت نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے تو امن کی حالت میں باجماعت ادا کرنا زیادہ ضروری ہے۔
- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں ایک نابینا آدمی حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کےرسولﷺ! میرے پاس کوئی لانے والا نہیں جو (ہاتھ سے پکڑ کر) مجھے مسجد میں لے آئے۔ اس نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ اپنے گھر میں نماز پڑھ لے۔ آپﷺ نے اسے اجازت دے دی، جب وہ واپس ہوا تو آپ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا:
هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَجِبْ
’’کیا تم نماز کا بلاوا (اذان) سنتے ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’تو اس پر لبیک کہو۔‘‘ (صحيح مسلم: 653)
دوسری رائے: باجماعت نماز ادا کرنا فرض عین نہیں ہے، یہ امام ابو حنیفہ،امام مالک اورامام شافعی کا قول ہے([1])
دلیل:
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَعْظَمَ النَّاسِ أَجْرًا فِي الصَّلَاةِ أَبْعَدُهُمْ إِلَيْهَا مَمْشًى، فَأَبْعَدُهُمْ، وَالَّذِي يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْإِمَامِ أَعْظَمَ أَجْرًا مِنَ الَّذِي يُصَلِّيَهَا ثُمَّ يَنَامُ» وَفِي رِوَايَةِ أَبِي كُرَيْبٍ: «حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْإِمَامِ فِي جَمَاعَةٍ
’’نماز میں سب سے زیادہ ثواب اس کا ہے جو اس کے لیے زیادہ دور سے چل کر آتا ہے۔ پھر (اس کے بعد) جو ان میں سے سب سے زیادہ دور سے چل کر آتا ہے۔ اور جو آدمی نماز کا انتظار کرتا ہے تاکہ اسے امام کے ساتھ ادا کرے، اجر میں اس سے بہت بڑھ کر ہے جو نماز پڑھتا ہے، پھر سو جاتا ہے۔’’ ابو کریب کی روایت میں ہے: ’’یہاں تک کہ وہ اسے امام کے ساتھ جماعت میں ادا کرے۔‘‘ (صحیح مسلم: 662)
مندرجہ بالا حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اکیلا نماز پڑھنے والا اور باجماعت نماز ادا کرنے والے دونوں کو اجر ملے گا۔
یزید بن اسود عامری ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک رہا۔ میں نے آپ کے ساتھ مسجد خیف میں فجر پڑھی، جب آپ نے نماز پوری کر لی اور ہماری طرف مڑے تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے آخر میں (سب سے پیچھے) دو آدمی ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ آپ نے فرمایا: ’’انہیں میرے پاس لاؤ‘‘، وہ لائے گئے، ان کے مونڈھے ڈر سے پھڑک رہے تھے۔ آپ نے پوچھا: ’’تم دونوں نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہم نے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لی تھی۔ آپ نے فرمایا:
فَلَا تَفْعَلَا إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا ثُمَّ أَتَيْتُمَا مَسْجِدَ جَمَاعَةٍ فَصَلِّيَا مَعَهُمْ فَإِنَّهَا لَكُمَا نَافِلَةٌ
’’ایسا نہ کیا کرو، جب تم اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو پھر مسجد آؤ جس میں جماعت ہو رہی ہو تو لوگوں کے ساتھ بھی پڑھ لو۱؎ یہ تمہارے لیے نفل ہو جائے گی‘‘۔ (سنن ترمذی: 219)
راجح:
پہلا قول زیادہ قوی ہے ۔ واللہ اعلم
([1]) امام ابوحنیفہ ، مالک اور شافعی رحمہم اللہ کا آپس میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا با جماعت نماز ادا کرنا سنت ہےیا سنت مؤکدہ یا فرض کفایہ۔