• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بادشاہ سلمان ایک ثالث اور مذہبی قیادت کے قریب

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
بادشاہ سلمان ایک ثالث اور مذہبی قیادت کے قریب

24 جنوری 2015

بادشاہ سلمان سعودی عرب کی سخت گیر مذہبی قیادت کے زیادہ قریب تصور کیے جاتے ہیں۔

سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ کے انتقال کے بعد ان کے سوتیلے بھائی سلمان ابن عبدالعزیز ال سعود نئے بادشاہ بن گئے ہیں۔

بادشاہ سلمان 31 دسمبر 1935 کو پیدا ہوئے۔
1955 سے 1960 تک ریاض کے گورنر رہے،
دوبارہ 1963 سے 2011 تک ریاض کے ہی گورنر رہے۔

2011 میں اپنے بھائی کے انتقال کے بعد وزیر دفاع بن گئے۔ بادشاہ سلمان کے عرب دنیا کے ایک بڑے میڈیا گروپ میں اہم حصہ دار ہیں۔

بادشاہ بننے سے پہلے سلمان صوبہ ریاض کے 48 سال تک گورنر رہے اور 2011 میں وزیر دفاع بن گئے اور اس کے ایک سال بعد ہی ولی عہد بن گئے۔
سعودی بادشاہ سلمان اپنے پیشرو کی پالسیاں برقرار رکھیں گے

79 سالہ سلمان نے بادشاہ عبداللہ کی خراب صحت کے بعد سے ہی بادشاہ کی ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کر دی تھیں۔

بادشاہ سلمان شاہی خاندان کی ایک بااثر شخصیت ہیں اور وہ سعودی عرب کے بانی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے ان سات بیٹوں میں سے ہیں جنھیں ’سدیری سات‘ کہا جاتا تھا۔ انھیں یہ نام اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ سب ابن سعود کی سب سے زیادہ چہیتی اہلیہ حصہ السدیری کے بطن سے پیدا ہوئے۔

سال 1982 سے 2005 تک سعودی بادشاہ فہد کی موت کے بعد سے ولی عہد رہنے والے شہزادے سلطان اور نائف کے بعد سلمان ال سعود خاندان کی سب سے طاقتور شخیصت رہے ہیں۔

بادشاہ سلمان نے ریاض کے گورنر کے طور پر اس صحرائی شہر کو ایک گنجان آباد شہر میں تبدیل کیا جہاں اب بلند و بالا عمارتیں، یونیورسٹیاں اور مغربی ریستوران موجود ہیں۔

اپنے عہدے کی وجہ سے ان کی بین الاقوامی ساکھ میں اضافہ ہوا اور انھوں نے کئی اعلیٰ شخصیات اور وفود کی میزبانی کی، جس کی مدد سے انھیں ریاض میں بیرونی سرمایہ کاری لانے میں مدد ملی۔

وزیر دفاع کے طور پر ملکی فوج کے سربراہ تھے اور گذشتہ سال امریکہ کی قیادت میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔

وہ سعودی شاہی خاندان کے سینیئر ترین ارکان میں سے ایک تھے جنھوں نے کھلے عام اپنے کاروباری مفادات کا ذکر کیا۔

ان کے تین بیٹوں سعودی ریسرچ اینڈ مارکیٹنگ گروپ ’سی آر ایم جی‘ کے سربراہ ہیں اور یہ گروپ اخبارات، رسالوں کا مالک ہے۔ ان میں سے ایک اخبار الشرق الاوسط لندن سے شائع ہوتا ہے۔

بادشاہ سلمان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس گروپ میں حصہ دار نہیں ہیں۔

’سعودی عربیہ پولیٹکل افیئرز‘ کتاب کی مصنفہ کیرن ایلیئٹ ہاؤس نے بی بی سی کو بادشاہ سلمان کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’ان کی زیادہ شہرت ہے کہ ان کا جھکاؤ سعودی عرب کی مذہبی قیادت کی جانب زیادہ ہے۔‘

’آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ ان کی ہلکی سے خواہش ہو گی کہ سعودی عرب میں زیادہ مذہبی سختی کو موقع دیا جائے۔‘

بعض دیگر مبصرین بادشاہ سلمان کی ایک بڑے شاہی خاندان اور اس میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے دھڑوں کے درمیان بطور ثالث شہرت رکھنے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

اور یہ کردار مزید بھاری اس وقت ہو جاتا ہے جب سعودی بادشاہت کی دوسری نسل کو اہم سیاسی ذمہ داریاں دینے کی بات ہوتی ہے جس میں سعودی بادشاہت کے بانی عبدالعزیز کے بیٹوں سے اقتدار ان کے پوتوں کو منتقل ہوتا ہے۔

بادشاہ سلمان کا شاہی خاندان کے اندر السدیری دھڑا کبھی سات سگے بھائیوں کا ایک متحد گروپ ہوتا تھا اور اب اس گروپ میں بھی اندرونی دشمنیاں پیدا ہو چکی ہیں کیونکہ ان سات بھائیوں کے بیٹوں نے اپنے اپنے طاقتور مرکز بنا لیے ہیں۔

بادشاہ سلمان کی صحت کے بارے میں بھی خدشات پائے جاتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انھیں ایک بار فالج ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ان کے بائیں بازو کو حرکت کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ بادشاہ سلمان حالیہ اجلاسوں میں کافی چست نظر آئے اور کافی باخبر تھے لیکن ان کی عمر کی وجہ سے ان کی صحت کے بارے میں خدشات موجود رہیں گے۔

شاہ سلمان نے اقتدار سنبھالتے ہی سعودی عرب کے وزیر داخلہ پرنس محمد بن نائف کو نائب ولی عہد اور اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ملک کا نیا وزیر دفاع مقرر کیا ہے۔

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سعودی صحافی کا نئے سعودی فرماںروا کے بارے میں انتہائی دلچسپ انکشاف​

26 جنوری 2015

ریاض (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب کے نئے فرمانروا شاہ سلمان کے بارے میں اب تک آپ بہت کچھ جان چکے ہوں گے مگر شائد آپ کو یہ معلوم نہیں کہ کوئی جو بھی کر لے اور جتنی بھی کوشش کر لے ان کے مضبوط اعصاب اور ٹھنڈے دماغ پر اثرانداز نہیں ہو سکتا اور یہ بات مشہور ہے کہ جو انہیں مشتعل کر سکے وہ جو چاہے انعام حاصل کر لے۔ نیوز ویب سائٹ ”سعودی گزٹ“ کے مطابق شاہ سلمان کے دفتر میں طویل مدت تک کام کرنے والے شاعر اور صحافی الحمیدی بن حمد کہتے ہیں کہ ریاض شہر کی 50 سالہ گورنری کے دوران سعودی عرب کے طول و عرض سے لوگ اپنی شکایات اور مسائل لے کر شاہ سلمان کے پاس آتے۔

ان کے محل میں صحافیوں، سرکاری افسران، تاجروں اور عام لوگوں کو آنے کی اجازت تھی اور خصوصاً پیر کے روز ہر طرح کے لوگ ان کے پاس آتے۔ یہ لوگ اپنی شکایات کے دوران اکثر جذباتی ہو جاتے اور بعض اوقات کچھ لوگ غیر مناسب طرز عمل بھی اختیار کرتے مگر شاہ سلمان کے ماتھے پر کبھی بل نہ آتا۔ وہ نہایت خندہ پیشانی سے شکایات سنتے اور فوری انصاف کیلئے حکم صادر کرتے۔ الحمیدی کہتے ہیں کہ جب ایک دن ایک سعودی شخص آداب کی سب حدیں پھلانگ گیا اور نہایت غیر مناسب انداز میں بات کی تو شاہ سلمان نے ناراضی کا اظہار کرنے کی بجائے اس کا ہاتھ پکڑا اور نہایت نرمی سے بولے ”براہم کرم تشریف رکھئے اور پرسکون ہو جائیے، آپ کے جو بھی حقوق ہیں آپ کو ملیں گے، میں باآسانی ناراض یا مشتعل نہیں ہوتا“۔ الحمیدی کہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کئی دفعہ پیش آئے اور یہی وجہ تھی کہ ریاض میں یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ اگر آپ شاہ سلمان کو مشتعل کر سکیں تو منہ مانگا انعام پائیں گے۔

ح
 
Top