محمد طالب حسین
رکن
- شمولیت
- فروری 06، 2013
- پیغامات
- 156
- ری ایکشن اسکور
- 93
- پوائنٹ
- 85
بارش کب ہوگی:
مقلد مولوی جمیل الرحمن سیوہاروی مفتی دارالعلوم دیوبند ضلع بجنور کے ایک جلسہ کاذکر کیا ہے کہ جس میں مقلد
مولوی حسین احمد بھی شریک تھے جلسہ کے وقت موسم ابر آلود ہوگیا اگلا قصہ خود ان کی زبانی سنئے فرماتے ہیں کہ
اس دوران میں جامع الروایات ( یعنی واقعہ نگار ) کوجلسہ گاہ میں ایک برہنہ سر مجذوبانہ ہیت کےغیر متعارف
شخص نے علیحدہ لے جا کر ان الفاظ میں ہدایت کی کہ مولوی حسین احمد سے کہہ دو کہ اس علاقے کاصاحب
خدمت میں ہوں اگر بارش ہٹوانا چاہتے ہو تو یہ کام میرے توسط سے ہوگا راقم الحروف اسی وقت خیمے میں
پہنچا جس پر حضرت والا نےآہٹ پاکر وجہ معلوم فرمائی اور اس پیغام کو سن کر ایک عجیب پرجلال انداز میں
بستر استراحت ہی پر سے ارشاد فرمایا جائیےکہہ دیجئے بارش نہیں ہوگئی ۔ ( شیخ الاسلام نمبر ص 147 )
مقلد مولوی عبدالرشید صاحب رانی ساگری دیوبندی کی صاحبزادی ثامنہ صاحبہ اپنے والد کا واقعہ روایت کرتی ہیں کہ جب ہمارا گھر بننے لگا تو والد صاحب قبلہ کی ہدایت کے مطابق سب سے پہلے پائخانہ میں ہاتھ لگا وہ زمانہ برسات کا تھا لیکن بارش نہیں ہو رہی تھی دھان کی روپنی ہوچکی تھی۔
کسان سخت پریشان تھے میں نے والد صاحب سے درخواست کی کہ بارش کےلئے دعا فرما دیجئے فرمایا بارش
کیسے ہوگی اپنا پائخانہ جو بن رہا ہے خراب ہو جائے گا میں نے پوچھا کب تک پائخانہ بن جائے گا؟
بولے دیوار مکمل ہوگئی ہے رات کو چھت کی ڈھلائی ہوجائے گی میں خاموش ہوگئی دو دن بعد خوب زور
دار بارش شروع ہوگئی والد صاحب گھر پر ہی تھے میں نے پوچھا بارش ہونے لگی اب تو پائخانہ میں نقصان
ہوگا فرمانے لگے نہیں بیٹی اب فائدہ ہوگا میں نے پوچھا تو کیا پائخانہ ہی کے لئے بارش رکی ہوئی تھی ؟
والد صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا صرف مسکراتے رہے اس وقت والدصاحب تندرست تھے ۔
( اخبار نقیب کا مصلح امت نمبر ص 4 )
دارالعلوم دیوبند میں ایک مقلد مولوی محمد یسین تھے وہ گنگوہ میں مقلد مولوی رشید احمد کےہاں حاضر ہوئے
پھر رخصت کی اجازت لینے کےلئے خلوت گاہ میں گئے تو گنگوہی صاحب نے راستہ میں دیگر مشکلات کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اب نہ جاو راستہ میں بارش میں بھیگ جاو گے اگلا واقعہ ان ہی کی زبانی ملاحظہ کیجئے
میں نے عرض کیا حضرت ابھی تو بارش کا کوئی بھی سامان نہیں اور مجھے بوجہ ملازمت آج ہی وطن پہنچنا
ضروری ہے میرے اصرار پر حضرت نے اجازت دے دی اور میں گنگوہ سے باہر نکلا دو تین کوس چلا ہوں
گا کہ دفعۃ ابر نمودار ہوا اور چار طرف گھٹا چھا گئی اس زور کی بارش ہوئی کہ پاوں اٹھانا اور ایک قدم چلنا مشکل پڑھ گیا۔ ( تذکرۃ الرشید 222 ج 2 )
مقلد مولوی جمیل الرحمن سیوہاروی مفتی دارالعلوم دیوبند ضلع بجنور کے ایک جلسہ کاذکر کیا ہے کہ جس میں مقلد
مولوی حسین احمد بھی شریک تھے جلسہ کے وقت موسم ابر آلود ہوگیا اگلا قصہ خود ان کی زبانی سنئے فرماتے ہیں کہ
اس دوران میں جامع الروایات ( یعنی واقعہ نگار ) کوجلسہ گاہ میں ایک برہنہ سر مجذوبانہ ہیت کےغیر متعارف
شخص نے علیحدہ لے جا کر ان الفاظ میں ہدایت کی کہ مولوی حسین احمد سے کہہ دو کہ اس علاقے کاصاحب
خدمت میں ہوں اگر بارش ہٹوانا چاہتے ہو تو یہ کام میرے توسط سے ہوگا راقم الحروف اسی وقت خیمے میں
پہنچا جس پر حضرت والا نےآہٹ پاکر وجہ معلوم فرمائی اور اس پیغام کو سن کر ایک عجیب پرجلال انداز میں
بستر استراحت ہی پر سے ارشاد فرمایا جائیےکہہ دیجئے بارش نہیں ہوگئی ۔ ( شیخ الاسلام نمبر ص 147 )
مقلد مولوی عبدالرشید صاحب رانی ساگری دیوبندی کی صاحبزادی ثامنہ صاحبہ اپنے والد کا واقعہ روایت کرتی ہیں کہ جب ہمارا گھر بننے لگا تو والد صاحب قبلہ کی ہدایت کے مطابق سب سے پہلے پائخانہ میں ہاتھ لگا وہ زمانہ برسات کا تھا لیکن بارش نہیں ہو رہی تھی دھان کی روپنی ہوچکی تھی۔
کسان سخت پریشان تھے میں نے والد صاحب سے درخواست کی کہ بارش کےلئے دعا فرما دیجئے فرمایا بارش
کیسے ہوگی اپنا پائخانہ جو بن رہا ہے خراب ہو جائے گا میں نے پوچھا کب تک پائخانہ بن جائے گا؟
بولے دیوار مکمل ہوگئی ہے رات کو چھت کی ڈھلائی ہوجائے گی میں خاموش ہوگئی دو دن بعد خوب زور
دار بارش شروع ہوگئی والد صاحب گھر پر ہی تھے میں نے پوچھا بارش ہونے لگی اب تو پائخانہ میں نقصان
ہوگا فرمانے لگے نہیں بیٹی اب فائدہ ہوگا میں نے پوچھا تو کیا پائخانہ ہی کے لئے بارش رکی ہوئی تھی ؟
والد صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا صرف مسکراتے رہے اس وقت والدصاحب تندرست تھے ۔
( اخبار نقیب کا مصلح امت نمبر ص 4 )
دارالعلوم دیوبند میں ایک مقلد مولوی محمد یسین تھے وہ گنگوہ میں مقلد مولوی رشید احمد کےہاں حاضر ہوئے
پھر رخصت کی اجازت لینے کےلئے خلوت گاہ میں گئے تو گنگوہی صاحب نے راستہ میں دیگر مشکلات کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اب نہ جاو راستہ میں بارش میں بھیگ جاو گے اگلا واقعہ ان ہی کی زبانی ملاحظہ کیجئے
میں نے عرض کیا حضرت ابھی تو بارش کا کوئی بھی سامان نہیں اور مجھے بوجہ ملازمت آج ہی وطن پہنچنا
ضروری ہے میرے اصرار پر حضرت نے اجازت دے دی اور میں گنگوہ سے باہر نکلا دو تین کوس چلا ہوں
گا کہ دفعۃ ابر نمودار ہوا اور چار طرف گھٹا چھا گئی اس زور کی بارش ہوئی کہ پاوں اٹھانا اور ایک قدم چلنا مشکل پڑھ گیا۔ ( تذکرۃ الرشید 222 ج 2 )