حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
طاہر القادری کا حکومتی پالیسیوں کیخلاف 11 مئی کو ملک گیر احتجاج کا اعلان !
اسے کہتے ہیں "باسی کڑھی میں اُبال" جو وقفے وقفے سے طاہر القادری کی ہانڈی میں عرصہ دراز سے آتا رہتا ہے اور پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ ویسے حیرت کی بات ہے کہ اس وقت ملک کی حالت پر سب سے زیادہ تکلیف ان رہنماﺅں کو ہو رہی ہے جو خود عرصہ دراز سے عوام سے کٹ کر ترقی یافتہ آرام دہ ممالک کی شہریت اختیار کر کے اپنی دنیا الگ سجائے بیٹھے ہیں اگر انہیں واقعی عوام سے اتنی محبت ہے تو پھر ہزاروں میل دور بیٹھے جلنے کڑھنے کی بجائے واپس وطن آ کر یہاں کے مجبور و مقہور مسائل میں پسے اور دبے ہوئے عوام کے ساتھ کیوں زندگی بسر نہیں کرتے، ان مسائل سے انکو نکالنے کیلئے ان کی رہنمائی اور قیادت کیوں نہیں کرتے، صرف ٹیلی فونک بھاشن یا ویڈیو لنک درشن دے کر مطمئن کیوں ہو جاتے ہیں۔ بقول شاعر ....
کبھی تو آؤ کبھی تو بیٹھو کبھی تو دیکھو کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم غریبوں کا حال کیوں بے حال سا ہے
اب دیکھتے ہیں 11 مئی کو جس میں ہنوز ایک ماہ کا عرصہ حائل ہے طاہر القادری کونسا لاﺅ لشکر لیکر اپنے بم پروف ائر کنڈیشن کنٹینر میں کونسا معرکہ سر کریں گے۔ پاکستان کے عوام تو عرصہ ہُوا کسی ایسے قائد کی تلاش میں ہیں جو قائداعظم کی پیروی کرتے ہوئے انہیں گورے اور کالے ہر قسم کے لٹیروں سے نجات دلائے مگر افسوس ہر بار سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنا کر طرح طرح کے شعبدہ باز حکمرانی کے مزے لوٹتے ہیں، ملکی خزانہ خالی کر کے اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور عوام کو اسی طرح مسائل کے گرداب میں چھوڑ جاتے ہیں۔اس لئے اب عوام کو بھی چاہئے کہ "اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے" والے علامہ اقبال کے فلسفہ کو پہچان کر اس پر عمل کرتے ہوئے اپنے ملک کو ان لٹیروں سے بچانے کیلئے اور سچ تو یہ ہے اپنے نحیف و نزار وجود کو ان مُردار خور گِدھوں سے بچانے کیلئے حرکت میں لائیں ، میدان میں آ کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
اسے کہتے ہیں "باسی کڑھی میں اُبال" جو وقفے وقفے سے طاہر القادری کی ہانڈی میں عرصہ دراز سے آتا رہتا ہے اور پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ ویسے حیرت کی بات ہے کہ اس وقت ملک کی حالت پر سب سے زیادہ تکلیف ان رہنماﺅں کو ہو رہی ہے جو خود عرصہ دراز سے عوام سے کٹ کر ترقی یافتہ آرام دہ ممالک کی شہریت اختیار کر کے اپنی دنیا الگ سجائے بیٹھے ہیں اگر انہیں واقعی عوام سے اتنی محبت ہے تو پھر ہزاروں میل دور بیٹھے جلنے کڑھنے کی بجائے واپس وطن آ کر یہاں کے مجبور و مقہور مسائل میں پسے اور دبے ہوئے عوام کے ساتھ کیوں زندگی بسر نہیں کرتے، ان مسائل سے انکو نکالنے کیلئے ان کی رہنمائی اور قیادت کیوں نہیں کرتے، صرف ٹیلی فونک بھاشن یا ویڈیو لنک درشن دے کر مطمئن کیوں ہو جاتے ہیں۔ بقول شاعر ....
کبھی تو آؤ کبھی تو بیٹھو کبھی تو دیکھو کبھی تو پوچھو
تمہاری بستی میں ہم غریبوں کا حال کیوں بے حال سا ہے
اب دیکھتے ہیں 11 مئی کو جس میں ہنوز ایک ماہ کا عرصہ حائل ہے طاہر القادری کونسا لاﺅ لشکر لیکر اپنے بم پروف ائر کنڈیشن کنٹینر میں کونسا معرکہ سر کریں گے۔ پاکستان کے عوام تو عرصہ ہُوا کسی ایسے قائد کی تلاش میں ہیں جو قائداعظم کی پیروی کرتے ہوئے انہیں گورے اور کالے ہر قسم کے لٹیروں سے نجات دلائے مگر افسوس ہر بار سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنا کر طرح طرح کے شعبدہ باز حکمرانی کے مزے لوٹتے ہیں، ملکی خزانہ خالی کر کے اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور عوام کو اسی طرح مسائل کے گرداب میں چھوڑ جاتے ہیں۔اس لئے اب عوام کو بھی چاہئے کہ "اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے" والے علامہ اقبال کے فلسفہ کو پہچان کر اس پر عمل کرتے ہوئے اپنے ملک کو ان لٹیروں سے بچانے کیلئے اور سچ تو یہ ہے اپنے نحیف و نزار وجود کو ان مُردار خور گِدھوں سے بچانے کیلئے حرکت میں لائیں ، میدان میں آ کر اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭