کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
باقی اننچاس کیوں نہیں؟
دنیا میں کوئی ملک دعوی نہیں کر سکتا کہ اس کی سرحدیں پوری طرح اس کے کنٹرول میں ہیں اور مکھی تک بلا اجازت آر پار نہیں ہو سکتی۔ حکومتیں بارڈر کنٹرول، سرحدی محافظوں، سراغرساں اداروں اور جدید نگرانی آلات پر مسلسل اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ آرپار جانے والوں کا ٹریک ریکارڈ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس کام میں دوست ممالک اور اداروں سے بھی مدد حاصل کی جاتی ہے۔
سارا کشٹ اس لیے اٹھایا جاتا ہے کہ ریاست ناپسندیدہ خارجی عناصر، اسلحے، منشیات ، انسانی اسمگلنگ اور دہشت گردوں وغیرہ کی آمد و رفت سے محفوظ رہے اور سرحدوں سے باہر کہیں بھی جو بھی گند اچھل رہا ہے اس کے چھینٹے ریاست اور اس کے ماحول پر نہ پڑیں۔ تاکہ ریاست کا اندرونی نظم و نسق اور شہری سلامت رہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا کی چھٹی بڑی گنجان ریاست پاکستان کے پاس عزت و وقار کے ساتھ پرامن زندگی کے لیے جوہری ہتھیاروں سے لیس مسلح افواج سمیت کم از کم چھبیس ایسے تربیت یافتہ عسکری و نیم عسکری اور سراغرساں ادارے ہیں جن کے معیار تک پہنچنے کی کئی ممالک صرف تمنا کرسکتے ہیں۔ ان اداروں کی مجموعی افرادی قوت لگ بھگ ڈیڑھ ملین نفوس ہے۔
تو پھر اتنے طاقتور اور باصلاحیت ملک کا کم از کم تیس فیصد علاقہ ریاستی رٹ سے بالکل یا جزوی آزاد کیوں ہے۔ افغانستان سمیت اندازً درجن بھر ممالک کے لگ بھگ ڈھائی ملین شہری برسوں سے مکمل، نامکمل و جعلی رہائشی و سفری دستاویزات یا ان کے بغیر اندرونِ ملک جہاں چاہے کیسے رہ رہے ہیں۔ ان میں تقریباً آٹھ ہزار ایسے غیرملکی جنگجو بھی شامل ہیں جو مقامی مسلح گروہوں کے ہمراہ ریاست کے اندر ریاست ہیں حالانکہ اپنی اپنی حکومتوں کو دہشت گردی و انتہا پسندی کے تعلق سے مطلوب ہیں۔ یہ کیسے اور کہاں جائیں گے ؟
جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ سب چھتیس برس پرانے افغان جنگی بحران کے عطا کردہ تحائف ہیں۔ ٹھیک ہے سن اسی کے عشرے میں ان غیرملکی مہمانوں کو افغان جہاد میں تیزی لانے کے لیے امریکہ، خلیجی ممالک اور پاکستان کے مشترکہ اسٹریٹیجک مفادات کے ایندھن کے طور پر یہاں لایا گیا مگر جنہیں تین عشرے پہلے لایا گیا ان میں سے تو اکثر کی عمر اب تک ساٹھ برس ہوچکی ہوگی۔ تو پھر آج کے نوجوان غیر ملکی جنگجو کس کے کھاتے میں ڈالے جائیں۔ انہیں کب اور کیوں لایا گیا یا آنے دیا گیا؟ اور اگر شدت پسندانہ جنگجوئیت افغان مسئلے کا ہی شاخسانہ ہے تو افغانستان کی سرحد تو پاکستان سمیت چھ ممالک سے لگتی ہے۔ اکیلا پاکستان ہی اس شاخسانے کے اثرات پچھلے چھتیس برس سے کیوں بھوگ رہا ہے۔ ازبکستان ، تاجکستان ، ترکمانستان ، چین اور ایران میں عالمی و علاقائی جہاد کے مسلح حامیوں کے اعلانیہ یا خفیہ ٹھکانے کیوں نہیں پنپ سکے؟ تحریکِ طالبان افغانستان و پاکستان ہی کیوں ہے۔ افغانستان کے باقی پانچ ہمسائیوں میں کیوں نہیں؟
میں شکر گذار ہوں گا اگر کوئی یہ تفصیلات بھی فراہم کر دے کہ گذشتہ تیس برس کے دوران کتنے داخلی و خارجی گروہ ریاستی اجازت سے یا بلا اجازت انڈونیشیا تا مراکش کتنے مسلمان ممالک کو پاکستان اور افغانستان جیسی عسکری اکیڈمی بنانے میں کامیاب ہو سکے ہیں؟
آخر اس وقت یمن، عراق، شام، صومالیہ، مالی، نائجیریا، افغانستان اور پاکستان ہی کیوں مقامی اور بین الاقوامی مجاہدوں کے لیے شہد کا چھتہ ہیں؟ باقی اننچاس مسلمان ممالک کیوں ان فیوض و برکات سے محروم ہیں؟
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ارے بھئی یمن، عراق، شام، صومالیہ، مالی، نائجیریا اور افغانستان وغیرہ کے پاس نہ تو ویسی مضبوط و معیاری فوج ہے اور نہ ہی ماہر سراغرساں ادارے جو ریاست کو داخلی یا خارجی میدانِ جنگ بننے سے روک سکیں۔
تو پھر پاکستان کیوں بین الاقوامی، علاقائی اور مقامی جہاد کی پرکشش لیبارٹری ہے؟
اس کے پاس تو یمن، عراق، شام، صومالیہ، مالی اور افغانستان کے برعکس مضبوط، آزمودہ، پیشہ ورانہ عسکری و نیم عسکری ڈھانچہ بھی ہے اور ایسے ایسے انٹیلی جینس ادارے بھی کہ جن کا دعوی ہے کہ وہ اڑتی چڑیا کے پر گننے سے پہلے اس کی نیت کے رنگ تک گن لیتے ہیں۔
ان اداروں کو متعدد مغربی و مشرقی طاقتوں کا اعلانیہ و غیر اعلانیہ دوطرفہ اسٹریٹیجک و مادی تعاون بھی برسوں سے میسر ہے۔ پھر بھی پاکستان پچھلے پھچلے دس برس سے بالخصوص مذہبی، نسلی و لسانی و ادارتی دہشت گردی کا بیک وقت سب سے بڑا شکار اور گڑھ کیوں بتایا جاتا ہے ؟
میری نانی کہتی تھیں "سوتے کو تو جگا لوں پر جاگتے کو کیسے جگاؤں"
ایک گجراتی محاورہ ہے کہ "ان دیکھا چور تو سب ہی پکڑ لیں، سامنے کا کون پکڑے"
ایک چینی کہاوت ہے کہ "ڈاک ۔۔۔ خیر چھوڑیں کیا فائدہ اس سب بکواس کا۔'
وسعت اللہ خان: اتوار 27 اپريل 2014