• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کی تعریف اور مدلول میں اختلاف

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
تمہید:
فیس بک پر ایک بھائی کی ایک پوسٹ دیکھی جو بدعت کی تعریف میں اختلاف پر تھی جس میں انہوں نے کہا ہوا تھا کہ یہ سلفی حضرات جس چیز کو دوسروں کے لئے بدعت سمجھتے ہیں اسی طرح کے کام خود کر رہے ہوتے ہیں اس پوسٹ میں چونکہ ایک بہت اہم نقطہ اٹھایا گیا تھا تو سوچا کہ اپنی رائے بھی اس پر لکھ دوں اور باقی اہل علم بھائیوں سے مزید اصلاح بھی کروا لوں پس تمام بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس کو درست بھی کر دیں اور اپنی طرف سے بھی دلائل اس سلسلے میں بتا دیں جزاکم اللہ خیرا

پوسٹ کے الفاظ:
جو حضرات بدعت کی تعریف یہ فرماتے ہیں کہ "جو کام اللہ کے رسول ﷺ نے نہیں کیا، صحابہ نے نہیں کیا (بعض اس میں یہ قید بھی لگادیتے ہیں کہ 'اسے کرنا ممکن بھی تھا') وہ محدثات الامور میں سے ہیں" آخر انکے نزدیک دوران تروایح ترجمہ و تفسیر جیسے امور بعینہہ اسی تعریف کی رو سے بدعت کیوں نہیں ٹھرتے؟ کیا یہ ترجمہ و تفسیر "ثواب کی نیت" سے نہیں کیا جاتا؟ کیا یہ عین وہی تعریف نہیں جسکی رو سے ایک مخصوص مکتب فکر (بریلویت) سے منسوب بہت سے اعمال کو بدعات شمار کیا جاتا ہے؟ مجھے تو چند سلفی حضرات کا یہ فتوی انکی اپنی داخلی پوزیشن کے اعتبار سے خاصا ہم آہنگ معلوم ہوتا ہے۔
نوٹ: پوسٹ کا مقصد افہام و تفہیم کے انداز میں اس موضوع پر گفتگو کرنا ہے، کہ یا تو درج بالا تعریف غلط ہے اور یا جو اس تعریف کو درست مانتے ہیں مگر اس عمل کو بدعت نہیں مانتے وہ تضاد کا شکار ہیں اور یا پھر اس تعریف کو درست مانتے ہوئے اس عمل کی کوئی منطقی توجیہہ کی جانی چاہئے، مگر اس صورت میں پھر اس عمل کا ان اعمال سے فرق واضح کیا جانا چاہئے جنہیں اس تعریف کی رو سے بدعت کہا جاتا ہے۔ بندے کی رائے میں بدعت کی یہ تعریف ہی غلط ہے۔

پوسٹ کا لنک
یہ پوسٹ زاہد مغل بھائی کی ہے جنکو میں زیادہ نہیں جانتا بس فیس بک پر انکی پوسٹ کبھی کبھار دیکھتا ہوں جن میں کچھ اچھی ہوتی ہیں تو لائک کر دیتا ہوں اور کچھ درست معلوم نہیں ہوتیں تو وہاں کمنٹ دے دیتا ہوں پس یہاں کمنٹ دینے سے پہلے سوچا کہ اس پر پہلے اپنی رائے دے دوں اور پھر اہل علم بھائیوں سے اسکی اصلاح کروا لوں اور مزیدرائے بھی لے لوں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
میرے خیال میں بدعت کی درست تعریف کرنے والے ہمارے اسلاف میں بھی الفاظ کا اختلاف رہا ہے جس سے لگتا ہے کہ انکے نزدیک بدعت کے مدلول میں ہی شاید اختلاف ہے مگر ایسا نہیں کیونکہ جس چیز کا وہ اپنے دور میں بدعت کہ کر رد کر رہے ہوتے ہیں ان کی مثالوں کو دیکھنے سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ انکا مطمع نظر ایک ہی ہے البتہ اپنے دور میں مخالفین کے ذہن کے حساب سے انہوں نے تعریف ایسی تعریف بیان کی ہوتی ہے جس سے بدعت کا مخالف کے ذہن سے قلع قمع کیا جا سکے پس اسی وجہ سے تعریف کے الفاظ فرق کر جاتے ہیں کیونکہ مخالفین جس جس طرح کے اعتراضات سامنے لاتے تھے تو اسی کو سامنے رکھتے ہوئے وہ بدعت کی تعریف کرتے تھے

اس کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں اگرچہ ریاضی سمجھنے والوں کو یہ مثال سمجھ آئے گی کہ ریاضی کے پیپر میں آپ کو ایک سیٹ A دے دیا جاتا ہے اور آپ سے اسکا کمپلیمنٹ پوچھا جاتا ہے تو اس وقت جو یونیورسل سیٹ آپ کے سامنے رکھا گیا ہوتا ہے اسکے مطابق ہی آپ کمپلیمنٹ سیٹ لکھیں گے (یعنی اسکی تعریف کریں گے) پس اگر یونیورسل سیٹ کو تبدیل کر کے کسی دوسرے سے اسی سیٹ A کا کمپلیمنٹ پوچھا جائے تو اس وقت وہ دوسرا بندہ اور کمپلیمنٹ سیٹ لکھے گا حالانکہ کمپلیمنٹ سیٹ کا مطلب ہوتا ہے کہ ایسا سیٹ جو اس A کے علاوہ باقی ساری چیزوں پر مشتمل ہو اب جس کے سامنے باقی ساری چیزیں کم ہوں گی اسکا کمپلیمنٹ سیٹ کم ہو گا اور دوسرے کا زیادہ-

اسی طرح جب کسی کے سامنے قرآن و حدیث A سیٹ کی طرح ہو اور اسکے مخالف بدعات اے کمپلیمنٹ سیٹ ہو اور اس فقیہہ نے کمپلیمنٹ کی تعریف کرنی ہو تو جس جس طرح کا بدعت کو سپورٹ کرنے والے دلائل موجود ہوں انکو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ تعریف لکھے گا پس شروع میں چونکہ کمپلیمنٹ کی اتنی پیچیدگی نہیں تھی تو عمومی طور پر ہی کہ دیا جاتا تھا کہ جو کام اللہ کے رسول اور صحابہ نے نہیں کیا وہ بدعت ہے مگر بعد میں جب بدعت کے دفاع میں دلائل سامنے آئے تو حقیقی بدعت کو واضح کرنے کے لئے بدعت کی تعریف کو علماء نکھارتے رہے

شیخ عثیمین رحمہ اللہ کی بدعت کی تعریف:
اللہ کی عبادت اس طرح سے کی جائے جیسے اللہ نے مشروع نہیں کیا

میرے خیال میں اس تعریف کو سمجھنے کے لئے دو الفاظ کی وضاحت بہت ضروری ہے ایک عبادت اور دوسرا مشروع

تعریف میں لفظ عبادت کی وضاحت:
میرے خیال میں یہاں جو لفظ عبادت آیا ہے سب سے پہلے اسکا مفہوم کا تعین ضروری ہے جیسا کہ مفرد کا مفہوم جب مرکب کے مقابلے میں لیا جائے گا تو اور ہو گا اور جب مفرد کو جمع کے مقابلے میں لیا جائے گا تو اور ہو گا اسی طرح سنت کا مفہوم جب فقہا کے لحاظ سے دیکھا جائے گا تو اور ہو گا جب محدثین کے لحاظ سے دیکھا جائے گا تو اور ہو گا اور جب عقیدہ کے لحاظ سے دیکھا جائے گا تو اور ہو گا

اسی طرح عبادت کا مفہوم جب وما خلقت الجن والی آیت کے تحت لیا جائے گا تو ہمارا ہر عمل ہی عبادت ہو گا مگر جب فقہی لحاظ سے دیکھا جائے گا تو کہا جاتا ہے کہ فقہ اکبر میں عقائد آتے ہیں اور فقہ اصغر (جسکو آج صرف فقہ بولا جاتا ہے) میں عبادات اور معاملات آتے ہیں پس اس فقہ اصغر والی عبادت میں معاملات اور عقائد نہیں آتے یعنی اس عبادت میں اللہ کی خوشنودی کے لئے اسکے حکم کے مطابق معاملات اور عقائد سے ہٹ کر ایک خاص طریقے پر عمل کرنا ہوتا ہے اور اس میں دوسری بات یہ ہوتی ہے کہ یہ ثواب سمجھ کر کی جاتی ہے
اب یہ طے ہونے کے بعد میرے ذہن میں ایک سوال ہے کہ اگرچہ اللہ کا ہر حکم ماننا عبادت ہی ہے مگر جس عبادت کو بدعت کی تعریف کے وقت دیکھا جاتا ہے تو وہ یہ عمومی عبادت کا لفظ نہیں بلکہ اور بتائی گئی فقہ اصغر کا جزء والی عبادت ہے اس پر تمام اہل علم کی رائے درکار ہے کیونکہ ابھی اس پر مجھے مکمل شرح صدر نہیں

تعریف میں مشروع ہونے کی وضاحت:
ہر وہ عبادت مشروع ہے جسکو شریعت نے کرنے کا حکم فرض واجب یا مندوب وغیرہ کے طور پر دیا ہو اور بغیر مشروع عبادت بدعت ہے لیکن یہاں تھوڑی سی پیچیدگی ہے کہ مشروع خالی نفس عبادت ہی نہیں ہوتی بلکہ اسکا طریقہ اور وقت کا تعلق بھی مشروع ہونے یا نہ ہونے سے ہے اسی تناظر میں ہم مشروع عبادات کی مزید قسمیں کرتے ہیں
1- ایسی مشروع عبادت جس میں واضح طریقہ اور وقت بھی بتایا ہوتا ہے مثلا فرض نماز
2-ایسی مشروع عبادات جس میں طریقہ یا وقت میں سے کوئی ایک چیز بتائی ہوتی ہے مثلا (نفل نماز)
3-بعض دفعہ مشروع عبادت کی دونوں چیزیں یعنی طریقہ اور وقت ہمارے اوپر چھوڑا گیا ہوتا ہے مثلا اللہ کا ذکر کرنا یا دعا مانگنا وغیرہ

اب اس تقسیم کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں ان شاءاللہ اپنی رائے سے اوپر تعریف کے مطابق مشروع لفظ کی وضاحت کرتا ہوں اہل علم اصلاح کر دیں جزاکم اللہ خیرا

1۔جب نفس عبادت ہی شریعت میں نہ پائی جاتی ہو تو وہ عبادت غیر مشروع ہو گی اور بدعت کہلائے گی چاہے اسکا وقت اور طریقہ جو بھی ہو مثلا دھمال وغیرہ

2- جب نفس عبادت مشروع ہو اور ساتھ طریقہ اور وقت بھی بتا دیا گیا ہے تو وہ طریقہ اور وقت بھی مشروع ہو گیا پس اس عبادت میں اس طریقہ یا وقت کے خلاف نہیں کیا جا سکتا ورنہ وہ اوپر شیخ عثیمین رحمہ اللہ کی تعریف کے مطابق بدعت ہو گی مثلا فرض نماز کا طریقہ اور وقت دونوں مشروع ہیں پس اسکے خلاف کرنا بدعت ہو گا

3-جس مشروع عبادت کا طریقہ تو بتا دیا گیا ہے مگر وقت نہیں بتایا گیا تو وہ طریقہ مشروع ہو گیا مگر وقت مشروع نہیں بلکہ اختیار دیا گیا ہے پس ایسی صورت میں مشروع طریقے کے خلاف کرنا تو بدعت ہو گا لیکن ساتھ ساتھ اگر وقت کو فکس کر دیا گیا تو سمجھو کہ وقت کو بھی مشروع بنانے کی کوشش کی گئی جو شریعت نے نہیں کیا پس وہ بھی بدعت ہو گا کیونکہ اس میں شریعت نے جب کوئی قید نہیں رکھی تو قید کرنا بھی شریعت بنانا ہے مثلا عمومی نوافل کا طریقہ تو مشروع ہے مگر وقت مشروع نہیں یعنی کسی بھی وقت پڑھی جا سکتی ہے البتہ کچھ خاص راتوں کے نوافل کا معاملہ اور تہجد کا معاملہ اور ہے جس میں وقت بھی شریعت نے ہی مشروع کیا ہوا ہے

4-جس مشروع عبادت کا طریقہ اور وقت دونوں ہی نہیں بتائے گئے البتہ وہ نفس عبادت مشروع ہے یعنی اس کے کرنے کا حکم ملتا ہے تو پھر اسکا مطلب ہے کہ وہ عبادت تو مشروع ہے مگر اسکا وقت اور طریقہ مشروع نہیں بلکہ اس میں اختیار دیا گیا ہے پس اگر کوئی اس کے طریقہ یا وقت کو فکس کر دیتا ہے تو سمجھو کہ اس نے اس طریقہ یا وقت کو مشروع کر دیا پس ایسا کرنا بھی نئی ایجاد یعنی بدعت ہو گی مثلا مسنون اذکار کے علاوہ عمومی اذکار وغیرہ- اسی میں عمومی درود پڑھنا بھی آ جاتا ہے جو بذات خود تو درود پڑھنا مشروع عبادت ہی ہے مگر اسکا طریقہ اور وقت غیر مشروع ہے پس کوئی مسلمان کسی بھی وقت اس کو پڑھ سکتا ہے البتہ اگر وہ وقت یا طریقہ فکس کر دیتا ہے کہ ہر اذان سے پہلے لازمی پڑھنا ہے تو یہ بدعت ہو گا

غیر مشروع طریقہ یا وقت کو مشروع کرنے کا مفہوم:
یہاں ایک اور اہم بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ کسی نے ایک مشروع عبادت میں غیر مشروع طریقہ یا وقت کو مشروع کر دیا ہے مثلا جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ کوئی کسی بھی وقت درود پڑھنا جائز ہے مگر اگر کوئی اذان سے پہلے فکس کر دے تو وہ بدعت میں آئے گا اس پر کہا جاتا ہے کہ ہم اسکو فکس تو نہیں کر رہے کیونکہ کسی دوسرے کو لازمی پڑھنے کا نہیں کہتے پس اگر کوئی خؤد ہی اپنی مرضی سے پڑھنا چاہے تو اس میں کیا حرج ہے کیونکہ اہل حدیث حضرات بھی تو درس دینے کا وقت ہر تراویح کے بعد فکس کر دیتے ہیں یا تراویح کے بعد اسکا ترجمہ بتاتے ہیں وغیرہ جسکو تراویح کے بعد فکس کرنا شریعت سے ثابت نہیں ہے یہی سوال بھائی زاہد مغل صاحب نے کیا ہے
اس کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی انسان کسی خاص وقت کو متعین کرتا ہے تو اسکے پیچھے کوئی نہ کوئی نیت ہوتی ہے اور وہی نیت ہی اسکے بارے بتاتی ہے کہ وہی وقت فکس کیوں کیا جا رہا ہے پس بغیر کسی وجہ کے غیر ارادی طور پر تو یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی ایک وقت ہمیشہ کے لئے فکس کر لے مثلا اگر کوئی ہر اذان سے پہلے درود پڑھنا چاہتا ہے تو اسکے پیچھے کوئی وجہ لازمی ہو گی اور اگر کوئی تراویح کے فورا بعد درس دینا چاہتا ہے تو اسکے پیچھے بھی کوئی وجہ ہو گی اس وجہ کے ہونے کا انکار کوئی مائی کا لال نہیں کر سکتا
اب بدعت ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ اس وجہ پر ہو گا اب اگر وہ وجہ زیادہ ثواب کا حصول ہو تو درست نہیں ہو گا البتہ دوسری وجوہات درست ہو سکتی ہیں اس وجہ کو سمجھنے کے لئے میں ایک دو اسی قسم کی عبادت کی مثالیں لکھتا ہوں اور ان میں وقت فکس کرنے کی وجوہات بتاتا ہوں تاکہ سب کچھ واضح ہو جائے کہ کون سی وجہ سے ایسا کرنا درست ہے اور کون سی وجہ سے غلط ہے
1۔قرآن پڑھنا مشروع ہے اب کوئی شام کے وقت ہی فکس کر لے اور وجہ اپنی فرصت بتائے تو یہ فکس کرنا بدعت نہیں ہو گا کیونکہ فکس کرنے کا مقصد زیادہ ثواب کا حصول نہیں
2۔تراویح کے بعد درس دینا اسکی وجہ یہ ہو کہ اس وقت موقع ہے لوگوں کو دعوت دینے کا- کیونکہ رمضان میں ویسے بھی لوگ دین کی طرف مائل ہوتے ہیں اور تازہ قرآن سنا ہوتا ہے تو اسکی تفسیر بھی سن لیں تو یہ وجہ معقول ہے البتہ اگر کوئی یہی کام زیادہ ثواب کی نیت سے کرتا ہے کہ باقی وقت کی بجائے اس وقت زیادہ ثواب ہو گا تو درست نہیں ہو گا بلکہ بدعت ہو گی

پس جو بھائی نے اوپر پوسٹ میں بات کی تھی انکا کچھ جواب دے دیا ہے اگر مزید کسی کو اعتراض ہو تو بتا دیں جزاکم اللہ خیرا
 

وقار احمد

مبتدی
شمولیت
جولائی 03، 2015
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
10
محترم بھائی صالح۔ ۔ ۔
صحابی عبدﷲ ابنِ مغفّل بسمﷲ بلجھر عندالصلاتہ کو ناصرف بدعت جانتے ھیں بالکہ جہنم تک لے جانے والا عمل گردانتے ھیں جبکہ چند اصحاب اسے لازمی سنّت مانتے ھیں۔ ۔ ۔ ؟

اس طرح کے اختلافات کو محض فروع ۔ راجح و مرجوح پر محمول کر کے نظر انداز کیونکر کیا جا سکتا ھے ؟
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
فقہ اکبر میں عقائد آتے ہیں
عقائد کو فقہ اکبر کیوں کہتے ہیں ِ؟
عقائد کی کتابوں میں فقی مسائل کیوں ہوتے ہیں؟ جبکہ علماء اصلاح فقہ کہتے ہیں احکام شرعیہ کا ایسا علم جو
تفصیلی دلائل سے حاصل ہو (الوجیز )
مزید فرماتے ہیں ہیں
احکام شرعیہ میں عملیہ کی شرط یہی ہے کہ ان کا تعلق مکلفین کے فعل کے ساتھ ہو ،جیسے نماز ۔خرید۔فروخت اور جرائم،غرضیکہ عبادات اور معاملات اس میں داخل ہونگے ۔البتہ عقیدے سے متعلق احکام کا تعلق نہ ہوگا۔(الوجیز )
 
Top