میرے خیال میں بدعت کی درست تعریف کرنے والے ہمارے اسلاف میں بھی الفاظ کا اختلاف رہا ہے جس سے لگتا ہے کہ انکے نزدیک بدعت کے مدلول میں ہی شاید اختلاف ہے مگر ایسا نہیں کیونکہ جس چیز کا وہ اپنے دور میں بدعت کہ کر رد کر رہے ہوتے ہیں ان کی مثالوں کو دیکھنے سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ انکا مطمع نظر ایک ہی ہے البتہ اپنے دور میں مخالفین کے ذہن کے حساب سے انہوں نے تعریف ایسی تعریف بیان کی ہوتی ہے جس سے بدعت کا مخالف کے ذہن سے قلع قمع کیا جا سکے پس اسی وجہ سے تعریف کے الفاظ فرق کر جاتے ہیں کیونکہ مخالفین جس جس طرح کے اعتراضات سامنے لاتے تھے تو اسی کو سامنے رکھتے ہوئے وہ بدعت کی تعریف کرتے تھے
اس کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں اگرچہ ریاضی سمجھنے والوں کو یہ مثال سمجھ آئے گی کہ ریاضی کے پیپر میں آپ کو ایک سیٹ A دے دیا جاتا ہے اور آپ سے اسکا کمپلیمنٹ پوچھا جاتا ہے تو اس وقت جو یونیورسل سیٹ آپ کے سامنے رکھا گیا ہوتا ہے اسکے مطابق ہی آپ کمپلیمنٹ سیٹ لکھیں گے (یعنی اسکی تعریف کریں گے) پس اگر یونیورسل سیٹ کو تبدیل کر کے کسی دوسرے سے اسی سیٹ A کا کمپلیمنٹ پوچھا جائے تو اس وقت وہ دوسرا بندہ اور کمپلیمنٹ سیٹ لکھے گا حالانکہ کمپلیمنٹ سیٹ کا مطلب ہوتا ہے کہ ایسا سیٹ جو اس A کے علاوہ باقی ساری چیزوں پر مشتمل ہو اب جس کے سامنے باقی ساری چیزیں کم ہوں گی اسکا کمپلیمنٹ سیٹ کم ہو گا اور دوسرے کا زیادہ-
اسی طرح جب کسی کے سامنے قرآن و حدیث A سیٹ کی طرح ہو اور اسکے مخالف بدعات اے کمپلیمنٹ سیٹ ہو اور اس فقیہہ نے کمپلیمنٹ کی تعریف کرنی ہو تو جس جس طرح کا بدعت کو سپورٹ کرنے والے دلائل موجود ہوں انکو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ تعریف لکھے گا پس شروع میں چونکہ کمپلیمنٹ کی اتنی پیچیدگی نہیں تھی تو عمومی طور پر ہی کہ دیا جاتا تھا کہ جو کام اللہ کے رسول اور صحابہ نے نہیں کیا وہ بدعت ہے مگر بعد میں جب بدعت کے دفاع میں دلائل سامنے آئے تو حقیقی بدعت کو واضح کرنے کے لئے بدعت کی تعریف کو علماء نکھارتے رہے
شیخ عثیمین رحمہ اللہ کی بدعت کی تعریف:
اللہ کی عبادت اس طرح سے کی جائے جیسے اللہ نے مشروع نہیں کیا
میرے خیال میں اس تعریف کو سمجھنے کے لئے دو الفاظ کی وضاحت بہت ضروری ہے ایک عبادت اور دوسرا مشروع
تعریف میں لفظ عبادت کی وضاحت:
میرے خیال میں یہاں جو لفظ عبادت آیا ہے سب سے پہلے اسکا مفہوم کا تعین ضروری ہے جیسا کہ مفرد کا مفہوم جب مرکب کے مقابلے میں لیا جائے گا تو اور ہو گا اور جب مفرد کو جمع کے مقابلے میں لیا جائے گا تو اور ہو گا اسی طرح سنت کا مفہوم جب فقہا کے لحاظ سے دیکھا جائے گا تو اور ہو گا جب محدثین کے لحاظ سے دیکھا جائے گا تو اور ہو گا اور جب عقیدہ کے لحاظ سے دیکھا جائے گا تو اور ہو گا
اسی طرح عبادت کا مفہوم جب وما خلقت الجن والی آیت کے تحت لیا جائے گا تو ہمارا ہر عمل ہی عبادت ہو گا مگر جب فقہی لحاظ سے دیکھا جائے گا تو کہا جاتا ہے کہ فقہ اکبر میں عقائد آتے ہیں اور فقہ اصغر (جسکو آج صرف فقہ بولا جاتا ہے) میں عبادات اور معاملات آتے ہیں پس اس فقہ اصغر والی عبادت میں معاملات اور عقائد نہیں آتے یعنی اس عبادت میں اللہ کی خوشنودی کے لئے اسکے حکم کے مطابق معاملات اور عقائد سے ہٹ کر ایک خاص طریقے پر عمل کرنا ہوتا ہے اور اس میں دوسری بات یہ ہوتی ہے کہ یہ ثواب سمجھ کر کی جاتی ہے
اب یہ طے ہونے کے بعد میرے ذہن میں ایک سوال ہے کہ اگرچہ اللہ کا ہر حکم ماننا عبادت ہی ہے مگر جس عبادت کو بدعت کی تعریف کے وقت دیکھا جاتا ہے تو وہ یہ عمومی عبادت کا لفظ نہیں بلکہ اور بتائی گئی فقہ اصغر کا جزء والی عبادت ہے اس پر تمام اہل علم کی رائے درکار ہے کیونکہ ابھی اس پر مجھے مکمل شرح صدر نہیں
تعریف میں مشروع ہونے کی وضاحت:
ہر وہ عبادت مشروع ہے جسکو شریعت نے کرنے کا حکم فرض واجب یا مندوب وغیرہ کے طور پر دیا ہو اور بغیر مشروع عبادت بدعت ہے لیکن یہاں تھوڑی سی پیچیدگی ہے کہ مشروع خالی نفس عبادت ہی نہیں ہوتی بلکہ اسکا طریقہ اور وقت کا تعلق بھی مشروع ہونے یا نہ ہونے سے ہے اسی تناظر میں ہم مشروع عبادات کی مزید قسمیں کرتے ہیں
1- ایسی مشروع عبادت جس میں واضح طریقہ اور وقت بھی بتایا ہوتا ہے مثلا فرض نماز
2-ایسی مشروع عبادات جس میں طریقہ یا وقت میں سے کوئی ایک چیز بتائی ہوتی ہے مثلا (نفل نماز)
3-بعض دفعہ مشروع عبادت کی دونوں چیزیں یعنی طریقہ اور وقت ہمارے اوپر چھوڑا گیا ہوتا ہے مثلا اللہ کا ذکر کرنا یا دعا مانگنا وغیرہ
اب اس تقسیم کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں ان شاءاللہ اپنی رائے سے اوپر تعریف کے مطابق مشروع لفظ کی وضاحت کرتا ہوں اہل علم اصلاح کر دیں جزاکم اللہ خیرا
1۔جب نفس عبادت ہی شریعت میں نہ پائی جاتی ہو تو وہ عبادت غیر مشروع ہو گی اور بدعت کہلائے گی چاہے اسکا وقت اور طریقہ جو بھی ہو مثلا دھمال وغیرہ
2- جب نفس عبادت مشروع ہو اور ساتھ طریقہ اور وقت بھی بتا دیا گیا ہے تو وہ طریقہ اور وقت بھی مشروع ہو گیا پس اس عبادت میں اس طریقہ یا وقت کے خلاف نہیں کیا جا سکتا ورنہ وہ اوپر شیخ عثیمین رحمہ اللہ کی تعریف کے مطابق بدعت ہو گی مثلا فرض نماز کا طریقہ اور وقت دونوں مشروع ہیں پس اسکے خلاف کرنا بدعت ہو گا
3-جس مشروع عبادت کا طریقہ تو بتا دیا گیا ہے مگر وقت نہیں بتایا گیا تو وہ طریقہ مشروع ہو گیا مگر وقت مشروع نہیں بلکہ اختیار دیا گیا ہے پس ایسی صورت میں مشروع طریقے کے خلاف کرنا تو بدعت ہو گا لیکن ساتھ ساتھ اگر وقت کو فکس کر دیا گیا تو سمجھو کہ وقت کو بھی مشروع بنانے کی کوشش کی گئی جو شریعت نے نہیں کیا پس وہ بھی بدعت ہو گا کیونکہ اس میں شریعت نے جب کوئی قید نہیں رکھی تو قید کرنا بھی شریعت بنانا ہے مثلا عمومی نوافل کا طریقہ تو مشروع ہے مگر وقت مشروع نہیں یعنی کسی بھی وقت پڑھی جا سکتی ہے البتہ کچھ خاص راتوں کے نوافل کا معاملہ اور تہجد کا معاملہ اور ہے جس میں وقت بھی شریعت نے ہی مشروع کیا ہوا ہے
4-جس مشروع عبادت کا طریقہ اور وقت دونوں ہی نہیں بتائے گئے البتہ وہ نفس عبادت مشروع ہے یعنی اس کے کرنے کا حکم ملتا ہے تو پھر اسکا مطلب ہے کہ وہ عبادت تو مشروع ہے مگر اسکا وقت اور طریقہ مشروع نہیں بلکہ اس میں اختیار دیا گیا ہے پس اگر کوئی اس کے طریقہ یا وقت کو فکس کر دیتا ہے تو سمجھو کہ اس نے اس طریقہ یا وقت کو مشروع کر دیا پس ایسا کرنا بھی نئی ایجاد یعنی بدعت ہو گی مثلا مسنون اذکار کے علاوہ عمومی اذکار وغیرہ- اسی میں عمومی درود پڑھنا بھی آ جاتا ہے جو بذات خود تو درود پڑھنا مشروع عبادت ہی ہے مگر اسکا طریقہ اور وقت غیر مشروع ہے پس کوئی مسلمان کسی بھی وقت اس کو پڑھ سکتا ہے البتہ اگر وہ وقت یا طریقہ فکس کر دیتا ہے کہ ہر اذان سے پہلے لازمی پڑھنا ہے تو یہ بدعت ہو گا
غیر مشروع طریقہ یا وقت کو مشروع کرنے کا مفہوم:
یہاں ایک اور اہم بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ کسی نے ایک مشروع عبادت میں غیر مشروع طریقہ یا وقت کو مشروع کر دیا ہے مثلا جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ کوئی کسی بھی وقت درود پڑھنا جائز ہے مگر اگر کوئی اذان سے پہلے فکس کر دے تو وہ بدعت میں آئے گا اس پر کہا جاتا ہے کہ ہم اسکو فکس تو نہیں کر رہے کیونکہ کسی دوسرے کو لازمی پڑھنے کا نہیں کہتے پس اگر کوئی خؤد ہی اپنی مرضی سے پڑھنا چاہے تو اس میں کیا حرج ہے کیونکہ اہل حدیث حضرات بھی تو درس دینے کا وقت ہر تراویح کے بعد فکس کر دیتے ہیں یا تراویح کے بعد اسکا ترجمہ بتاتے ہیں وغیرہ جسکو تراویح کے بعد فکس کرنا شریعت سے ثابت نہیں ہے یہی سوال بھائی زاہد مغل صاحب نے کیا ہے
اس کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی انسان کسی خاص وقت کو متعین کرتا ہے تو اسکے پیچھے کوئی نہ کوئی نیت ہوتی ہے اور وہی نیت ہی اسکے بارے بتاتی ہے کہ وہی وقت فکس کیوں کیا جا رہا ہے پس بغیر کسی وجہ کے غیر ارادی طور پر تو یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی ایک وقت ہمیشہ کے لئے فکس کر لے مثلا اگر کوئی ہر اذان سے پہلے درود پڑھنا چاہتا ہے تو اسکے پیچھے کوئی وجہ لازمی ہو گی اور اگر کوئی تراویح کے فورا بعد درس دینا چاہتا ہے تو اسکے پیچھے بھی کوئی وجہ ہو گی اس وجہ کے ہونے کا انکار کوئی مائی کا لال نہیں کر سکتا
اب بدعت ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ اس وجہ پر ہو گا اب اگر وہ وجہ زیادہ ثواب کا حصول ہو تو درست نہیں ہو گا البتہ دوسری وجوہات درست ہو سکتی ہیں اس وجہ کو سمجھنے کے لئے میں ایک دو اسی قسم کی عبادت کی مثالیں لکھتا ہوں اور ان میں وقت فکس کرنے کی وجوہات بتاتا ہوں تاکہ سب کچھ واضح ہو جائے کہ کون سی وجہ سے ایسا کرنا درست ہے اور کون سی وجہ سے غلط ہے
1۔قرآن پڑھنا مشروع ہے اب کوئی شام کے وقت ہی فکس کر لے اور وجہ اپنی فرصت بتائے تو یہ فکس کرنا بدعت نہیں ہو گا کیونکہ فکس کرنے کا مقصد زیادہ ثواب کا حصول نہیں
2۔تراویح کے بعد درس دینا اسکی وجہ یہ ہو کہ اس وقت موقع ہے لوگوں کو دعوت دینے کا- کیونکہ رمضان میں ویسے بھی لوگ دین کی طرف مائل ہوتے ہیں اور تازہ قرآن سنا ہوتا ہے تو اسکی تفسیر بھی سن لیں تو یہ وجہ معقول ہے البتہ اگر کوئی یہی کام زیادہ ثواب کی نیت سے کرتا ہے کہ باقی وقت کی بجائے اس وقت زیادہ ثواب ہو گا تو درست نہیں ہو گا بلکہ بدعت ہو گی
پس جو بھائی نے اوپر پوسٹ میں بات کی تھی انکا کچھ جواب دے دیا ہے اگر مزید کسی کو اعتراض ہو تو بتا دیں جزاکم اللہ خیرا