رانا اویس سلفی
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 387
- ری ایکشن اسکور
- 1,609
- پوائنٹ
- 109
بدعت کے خلاف اثار سلف صالحين
1۔ أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ أَخْبَرَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ قَالَ صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ ثُمَّ وَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّهَا مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَأَوْصِنَا فَقَالَ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ كَانَ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسَنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَالْمُحْدَثَاتِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ و قَالَ أَبُو عَاصِمٍ مَرَّةً وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
ترجمہ: حضرت عرباض بن ساریہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اس کے بعد آپ نے ہمیں ایک بلیغ وعظ کہا جس کے نتیجے میں لوگوں کی آنکھوں آنسوں جاری ہو گئے اور ان کے دل تڑپ اٹھے ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ یہ الوداعی وعظ محسوس ہو رہا ہے آپ ہمیں کوئی نصیحت کریں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور (حاکم وقت) کی اطاعت اور فرمانبرداری کی وصیت کرتا ہوں خواہ کوئی حبشی غلام ہو میرے بعد جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا تم پر لازم ہے کہ میری سنت اختیار کرو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت اختیار کرو اور اسے مضبوطی سے تھامے رکھو اور نت نئے پیدا ہونے والے امور سے اجتناب کرو کیونکہ ہر نئی پیدا ہونے والی چیزبدعت ہے ۔
ابو اصم نامی راوی نے ایک مرتبہ یہ الفاظ روایت کئے ہیں اور نئے پیدا ہونے والے امور سے بچتے رہنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے ۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 95 )
2۔ أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ كَانَ مَنْ مَضَى مِنْ عُلَمَائِنَا يَقُولُونَ الِاعْتِصَامُ بِالسُّنَّةِ نَجَاةٌ وَالْعِلْمُ يُقْبَضُ قَبْضًا سَرِيعًا فَنَعْشُ الْعِلْمِ ثَبَاتُ الدِّينِ وَالدُّنْيَا وَفِي ذَهَابِ الْعِلْمِ ذَهَابُ ذَلِكَ كُلِّهِ
ترجمہ: زہری بیان کرتے ہیں ہمارے جو علماء گزر چکے ہیں وہ کہا کرتے تھے سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہی نجات ہے اور علم کو بڑی تیزی سے قبض کر لیا جائے گا علم کو برقرار رکھنا دین اور دنیا کوثابت رکھنے کے مترادف ہے اور علم کی رخصتی میں ان سب (دین ودنیا کی نعمتوں) کی رخصتی ہے ۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 96)
3۔ أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو السَّيْبَانِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ قَالَ بَلَغَنِي أَنَّ أَوَّلَ الدِّينِ تَرْكًا السُّنَّةُ يَذْهَبُ الدِّينُ سُنَّةً سُنَّةً كَمَا يَذْهَبُ الْحَبْلُ قُوَّةً قُوَّةً
ترجمہ: عبداللہ بن دیلمی بیان کرتے ہیں مجھے یہ بات پتہ چلی ہے کہ دین میں سب سے زیادہ سنت کو ترک کرنا آئے گا ایک ایک سنت کر کے دین اس طرح رخصت ہوگا جیسے کوئی رسی ایک ایک دھاگہ کرکے ٹوٹ جاتی ہے ۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 97 )
4۔ أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ حَسَّانَ قَالَ مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَةً فِي دِينِهِمْ إِلَّا نَزَعَ اللَّهُ مِنْ سُنَّتِهِمْ مِثْلَهَا ثُمَّ لَا يُعِيدُهَا إِلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
ترجمہ: حسان بیان کرتے ہیں جو بھی قوم اپنے دین میں نئی بدعت ایجاد کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان میں سے اس بدعت جیسی سنت کو اٹھالیتا ہے اور پھر اسے دوبارہ ان لوگوں کے پاس قیامت تک نہیں لوٹاتا۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 98 )
5۔ أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ مَا ابْتَدَعَ رَجُلٌ بِدْعَةً إِلَّا اسْتَحَلَّ السَّيْفَ
ترجمہ: حضرت ابوقلابہ بیان کرتے ہیں جو شخص بدعت ایجاد کرتا ہے وہ (اپنے اوپر حملے کے لئے) تلوار کو حلال کر دیتا ہے۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 99 )
6۔ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَحُذَيْفَةَ أَنَّهُمَا كَانَا جَالِسَيْنِ فَجَاءَ رَجُلٌ فَسَأَلَهُمَا عَنْ شَيْءٍ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ لِحُذَيْفَةَ لِأَيِّ شَيْءٍ تَرَى يَسْأَلُونِي عَنْ هَذَا قَالَ يَعْلَمُونَهُ ثُمَّ يَتْرُكُونَهُ فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ ابْنُ مَسْعُودٍ فَقَالَ مَا سَأَلْتُمُونَا عَنْ شَيْءٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى نَعْلَمُهُ أَخْبَرْنَاكُمْ بِهِ أَوْ سُنَّةٍ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرْنَاكُمْ بِهِ وَلَا طَاقَةَ لَنَا بِمَا أَحْدَثْتُمْ
ترجمہ: حضرت ابن مسعود اور حضرت حذیفہ ایک جگہ تشریف فرما تھے ایک شخص آیا اس نے ان دونوں حضرات سے ایک چیز کے بارے میں سوال کیا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت حذیفہ سے کہا آپ کے خیال میں یہ لوگ کس وجہ سے مجھ سے یہ سوال کر رہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا : یہ لوگ علم بھی رکھتے ہیں اور پھر اسے ترک بھی کر دیتے ہیں ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس شخص کی طرف رخ کیا اور ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود کسی بھی چیز کے بارے میں تم ہم سے جو بھی سوال کرو گے ہمیں اس کا علم ہوگا تو ہم اس سے تمہیں آگاہ کردیں گے لیکن جو تم نے خود ایجاد کیا ہے اس کی ہمارے اندر طاقت نہیں ہے۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 101)
7۔ أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَةَ قَالَ مَا خَطَبَ عَبْدُ اللَّهِ خُطْبَةً بِالْكُوفَةِ إِلَّا شَهِدْتُهَا فَسَمِعْتُهُ يَوْمًا وَسُئِلَ عَنْ رَجُلٍ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثَمَانِيَةً وَأَشْبَاهِ ذَلِكَ قَالَ هُوَ كَمَا قَالَ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ كِتَابَهُ وَبَيَّنَ بَيَانَهُ فَمَنْ أَتَى الْأَمْرَ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ فَقَدْ بُيِّنَ لَهُ وَمَنْ خَالَفَ فَوَاللَّهِ مَا نُطِيقُ خِلَافَكُمْ
ترجمہ: حضرت نزال بن سبرہ بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ نے کوفہ میں جو بھی خطبہ دیا میں اس میں موجود رہا ایک دن میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا ان سے ایک شخص نے یہ سوال کیا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دے دی ہیں یا اتنی کوئی تعداد تھی ۔ جو بھی اس نے کہا خیر پھر حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل کی ہے اور اس نے اپنا بیان واضح کر دیا ہے۔ جو شخص اس حوالے سے کوئی معاملہ لے کر آئے گا وہ اس کے لیے بیان کردیا جائے گا۔ جو اس سے مختلف لے کر آئے گا تو اللہ کی قسم تمہارے مختلف معامالات کی ہمارے اندر طاقت نہیں ہے۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 102)
8۔ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنْ أَشْعَثَ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ أَنَّهُ كَانَ لَا يَقُولُ بِرَأْيِهِ إِلَّا شَيْئًا سَمِعَهُ
ترجمہ: ابن سیرین کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی رائے سے کوئی چیز بیان نہیں کرتے تھے صرف وہی چیز بیان کرتے تھے جس کے بارے میں انہوں نے کوئی حدیث یاصحابی کا قول سناہو۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 104)
9۔ حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ عَنْ أَبِي خَيْثَمَةَ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ سُئِلَ عَطَاءٌ عَنْ شَيْءٍ قَالَ لَا أَدْرِي قَالَ قِيلَ لَهُ أَلَا تَقُولُ فِيهَا بِرَأْيِكَ قَالَ إِنِّي أَسْتَحْيِي مِنْ اللَّهِ أَنْ يُدَانَ فِي الْأَرْضِ بِرَأْيِي
ترجمہ: عبدالعزیز بیان کرتے ہیں عطاء سے کوئی مسئلہ دریافت کیا گیا انہوں نے جواب دیا مجھے علم نہیں ہے ان سے کہا گیا ہے اس بارے میں اپنی رائے سے کوئی فتوی کیوں نہیں دیتے انہوں نے جواب دیا مجھے اللہ سے اس بات سے حیاء آتی ہے کہ دنیا میں میری رائے کی پیروی کی جائے۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 107)
10۔ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ أَخْبَرَنِي حَاتِمٌ هُوَ ابْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ عِيسَى عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ جَاءَهُ رَجُلٌ يَسْأَلُهُ عَنْ شَيْءٍ فَقَالَ كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَقُولُ فِيهِ كَذَا وَكَذَا قَالَ أَخْبِرْنِي أَنْتَ بِرَأْيِكَ فَقَالَ أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ هَذَا أَخْبَرْتُهُ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَيَسْأَلُنِي عَنْ رَأْيِي وَدِينِي عِنْدِي آثَرُ مِنْ ذَلِكَ وَاللَّهِ لَأَنْ أَتَعَنَّى بِعَنِيَّةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُخْبِرَكَ بِرَأْيِي
ترجمہ: شعبی بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ ایک شخص آیا جس نے ان سے کوئی سوال کیا تو شعبی نے جواب دیا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس بارے میں یہ فرماتے ہیں وہ شخص بولا مجھے اس بارے میں اپنی رائے بیان کریں۔ شعبی بولے کیا آپ لوگوں کو اس شخص پر حیرت نہیں ہو رہی میں اس شخص کے سامنے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی رائے بیان کر رہا ہوں مجھ سے میری رائے پوچھتا ہے جبکہ میرا دین میرے نزدیک اس سے کم تر حثییت رکھتا ہے اللہ کی قسم میرے نزدیک گانا گالینا اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں تمہیں اپنی رائے کے مطابق کوئی بات بتاؤں۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 108)
11۔ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبَانَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ هُوَ ابْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ عِيسَى عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالْمُقَايَسَةَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ أَخَذْتُمْ بِالْمُقَايَسَةِ لَتُحِلُّنَّ الْحَرَامَ وَلَتُحَرِّمُنَّ الْحَلَالَ وَلَكِنْ مَا بَلَغَكُمْ عَنْ مَنْ حَفِظَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْمَلُوا بِهِ
ترجمہ: شعبی بیان کرتے ہیں کہ قیاس کرنے سے بچو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر تم قیاس پر عمل کرنا شروع کردو گے تو حرام کو حلال ٹھہراؤ گے اور حلال کو حرام قرار دوگے۔ بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے جو احکام تم تک پہنچے ہیں ان پر عمل کرو۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 109)
12۔ أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَارِحَةَ ثَمَانِيًا قَالَ بِكَلَامٍ وَاحِدٍ قَالَ بِكَلَامٍ وَاحِدٍ قَالَ فَيُرِيدُونَ أَنْ يُبِينُوا مِنْكَ امْرَأَتَكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ مِائَةَ طَلْقَةٍ قَالَ بِكَلَامٍ وَاحِدٍ قَالَ بِكَلَامٍ وَاحِدٍ قَالَ فَيُرِيدُونَ أَنْ يُبِينُوا مِنْكَ امْرَأَتَكَ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ مَنْ طَلَّقَ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ فَقَدْ بَيَّنَ اللَّهُ الطَّلَاقَ وَمَنْ لَبَّسَ عَلَى نَفْسِهِ وَكَّلْنَا بِهِ لَبْسَهُ وَاللَّهِ لَا تُلَبِّسُونَ عَلَى أَنْفُسِكُمْ وَنَتَحَمَّلُهُ نَحْنُ هُوَ كَمَا تَقُولُونَ
ترجمہ: عکرمہ بیان کرتے ہیں ایک شخص حضرت عبداللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس نے گذشہ دن اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دی ہیں حضرت عبداللہ نے دریافت کیا کہ ایک ہی جملے کے ذریعے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک ہی جملے کے ذریعے ۔ حضرت عبداللہ بولے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہاری بیوی سے الگ کر دیں اس نے جواب دیا ہاں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور بولا اس نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں۔ حضرت عبداللہ نے جواب دیا اسی جملے کے ذریعے اس نے جواب دیا ہاں حضرت عبداللہ بولے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہاری بیوی سے الگ کردیں اس نے جواب دیا ہاں۔ اسی جملے کے ذریعے۔ حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا جو شخص اس طرح طلاق دے جیسے اللہ نے حکم دیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے طلاق کا حکم واضح کر دیا ہے اور جو شخص اپنے حوالے سے غلط فہمی کا شکار ہو ہم اسے اس غلطی کے سپرد کرتے ہیں اللہ کی قسم یہ نہیں ہوسکتا تم اپنی ذات کے حوالے سے ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کرو اور ہم اپنے اوپر بوجھ ڈال کر وہی کہیں جو تم چاہتے ہو۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 110)
13۔ أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَاضِرٍ الْأَزْدِيِّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ أَوْصِنِي فَقَالَ نَعَمْ عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالِاسْتِقَامَةِ اتَّبِعْ وَلَا تَبْتَدِعْ
ترجمہ: عثمان بن حاضر ازدی بیان کرتے ہیں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی مجھے کوئی نصیحت کریں جواب دیا، ہاں تم اللہ کے خوف کو اپنے اوپر لازم کرلو۔ استقامت کو لازم کرو۔ حدیث کی پیروی کرو بدعت کی پیروی نہ کرو۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 139)
14۔ أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّهُ عَلَى الطَّرِيقِ مَا كَانَ عَلَى الْأَثَرِ
ترجمہ: ابن سیرین بیان کرتے ہیں پہلے زمانے کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ جب تک وہ سنت کی پیروی کرتے رہیں گے وہ صحیح راستے پر گامزن رہیں گے۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 140)
15۔ أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ وَقَبْضُهُ أَنْ يَذْهَبَ أَهْلُهُ أَلَا وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَطُّعَ وَالتَّعَمُّقَ وَالْبِدَعَ وَعَلَيْكُمْ بِالْعَتِيقِ
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں علم کے قبض ہوجانے سے پہلے علم حاصل کرلو اس کا قبض ہوجانا یہ ہے کہ اہل علم رخصت ہوجائیں اور خبردار۔ مبالغہ آمیز باتیں کرنے سے بچو اور بال کی کھال نکالنے والوں سے اور بدعت لانے والوں سے بچو اور اپنے اوپر سنت کو لازم کرلو۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 142)
16۔ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَأَبُو النُّعْمَانِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ عَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ وَقَبْضُهُ أَنْ يُذْهَبَ بِأَصْحَابِهِ عَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي مَتَى يُفْتَقَرُ إِلَيْهِ أَوْ يُفْتَقَرُ إِلَى مَا عِنْدَهُ إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ أَقْوَامًا يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ يَدْعُونَكُمْ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَقَدْ نَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ فَعَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّبَدُّعَ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَطُّعَ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّعَمُّقَ وَعَلَيْكُمْ بِالْعَتِيقِ
ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ علم کے رخصت ہوجانے سے پہلے علم کو اپنے اوپر لازم کرلو اس کا قبض ہوجانا یہ ہے کہ اس کے ماہرین رخصت ہوجائیں تو علم کو لازم کرلو کیونکہ تم میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں جانتا کہ اسے کب اس کی ضرورت پیش آجائے یا کسی اور کو اس کے پاس موجود علم کی ضرورت پیش آجائے تم عنقریب ایسے لوگوں کو پاؤ گے جو یہ گمان رکھتے ہوں گے کہ وہ تمہیں اللہ کی کتاب کی طرف دعوت دے رہے ہیں حالانکہ وہ اس کتاب کو اپنی پشت کے پیچھے پھینک چکے ہوں گے اس لیے تم علم کو لازمی طور پر اختیار کرو اور بدعت کرنے سے بچو اور مبالغہ آمیزی اختیار کرنے سے بچو اور بال کی کھال نکالنے سے بچو اور سنت کو اپنے اوپر لازم کرلو۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 143)
17۔ أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ صَبِيغٌ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَجَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ مُتَشَابِهِ الْقُرْآنِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ عُمَرُ وَقَدْ أَعَدَّ لَهُ عَرَاجِينَ النَّخْلِ فَقَالَ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ صَبِيغٌ فَأَخَذَ عُمَرُ عُرْجُونًا مِنْ تِلْكَ الْعَرَاجِينِ فَضَرَبَهُ وَقَالَ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ فَجَعَلَ لَهُ ضَرْبًا حَتَّى دَمِيَ رَأْسُهُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ حَسْبُكَ قَدْ ذَهَبَ الَّذِي كُنْتُ أَجِدُ فِي رَأْسِي
ترجمہ: حضرت سلیمان بن یسار بیان کرتے ہیں ایک شخص جس کا نام صبیغ تھا وہ مدینہ آیا اور قرآن کے متشابہات کے بارے میں سوال کرنے لگا حضرت عمر نے اس کی طرف ایک شخص کو بھیجا اور اس شخص کے لیے کچھ کھجور کی شاخوں کی سوٹیاں تیار کرلیں حضرت عمر نے دریافت کیا تم کون ہو؟ اس نے جواب دیا میں اللہ کا بندہ صبیغ ہوں۔ حضرت عمر نے ان سوٹیوں میں سے ایک سوٹی پکڑی اور اسے مار کر کہا میں اللہ بندہ عمر ہوں حضرت عمر لگا تار اسے مارتے رہے یہاں تک کہ اس کے سر میں سے خون نکلنے لگا وہ بولا اے امیرالمومنین اتنا ہی کافی ہے کیونکہ میرے دماغ میں جوفتور موجود تھا وہ چلا گیا ۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 144)
18۔ أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَيَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ الْقَاسِمِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَيْتُمْ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ فَاحْذَرُوهُمْ
ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت تلاوت کی وہی وہ ذات ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس میں سے بعض آیات محکم ہیں یہی کتاب کی بنیاد ہے اور بعض دیگر متشابہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو قرآن کے متاشابہات کی پیروی کرتے ہوں تو ان سے بچو۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 145)
19۔ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا حَفْصٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ قَالَ سُئِلَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ شَيْءٍ فَقَالَ إِنِّي لَأَكْرَهُ أَنْ أُحِلَّ لَكَ شَيْئًا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ أَوْ أُحَرِّمَ مَا أَحَلَّهُ اللَّهُ لَكَ
ترجمہ: شقیق بیان کرتے ہیں حضرت عبداللہ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ میں تمہارے لیے کسی ایسی چیز کو حلال قرار دوں جسے اللہ نے تمہارے لیے حرام قرار دیا ہو یا میں کسی ایسی چیز کو حرام قرار دوں جو اللہ نے حلال قرار دی ہے۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 146)
20۔ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ الْفَزَارِيِّ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ لَأَنْ أَرُدَّهُ بِعِيِّهِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَكَلَّفَ لَهُ مَا لَا أَعْلَمُ
ترجمہ: حمید بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کسی سوال کا جواب دینے سے عاجز ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے سوال کو واپس کرنا میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں جس چیز کا علم نہیں رکھتا اس کے بارے میں اپنی طرف سے ایجاد کرکے کوئی جواب دوں۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 147)
21۔ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ أَخْبَرَنِي ابْنُ عَجْلَانَ عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ صَبِيغًا الْعِرَاقِيَّ جَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ الْقُرْآنِ فِي أَجْنَادِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى قَدِمَ مِصْرَ فَبَعَثَ بِهِ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَلَمَّا أَتَاهُ الرَّسُولُ بِالْكِتَابِ فَقَرَأَهُ فَقَالَ أَيْنَ الرَّجُلُ قَالَ فِي الرَّحْلِ قَالَ عُمَرُ أَبْصِرْ أَيَكُونُ ذَهَبَ فَتُصِيبَكَ مِنْهُ الْعُقُوبَةُ الْمُوجِعَةُ فَأَتَاهُ بِهِ فَقَالَ عُمَرُ تَسْأَلُ مُحْدَثَةً وَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى رَطَائِبَ مِنْ جَرِيدٍ فَضَرَبَهُ بِهَا حَتَّى تَرَكَ ظَهْرَهُ دَبِرَةً ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ ثُمَّ عَادَ لَهُ ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ فَدَعَا بِهِ لِيَعُودَ لَهُ قَالَ فَقَالَ صَبِيغٌ إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ قَتْلِي فَاقْتُلْنِي قَتْلًا جَمِيلًا وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تُدَاوِيَنِي فَقَدْ وَاللَّهِ بَرَأْتُ فَأَذِنَ لَهُ إِلَى أَرْضِهِ وَكَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ أَنْ لَا يُجَالِسَهُ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى الرَّجُلِ فَكَتَبَ أَبُو مُوسَى إِلَى عُمَرَ أَنْ قَدْ حَسُنَتْ تَوْبَتُهُ فَكَتَبَ عُمَرُ أَنْ ائْذَنْ لِلنَّاسِ بِمُجَالَسَتِهِ
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام نافع بیان کرتے ہیں صبیغ عراقی نامی ایک شخص مسلمانوں کے ایک لشکر میں قرآن سے متعلق بعض سوال کیا کرتا تھا وہ مصر آیا تو حضرت عمرو بن عاص نے اسے حضرت عمر کے پاس بھیج دیا جب قاصد حضرت عمرو بن عاص کا خط لے کر آیا اور حضرت عمر نے اسے پڑھ لیا تو دریافت کیا یہ شخص کہاں ہے قاصد نے جواب دیا پڑاؤ میں ہے حضرت عمر نے ارشاد فرمایا اس کا خیال رکھنا وہ چلا نہ جائے ورنہ میں تمہیں سخت سزادوں گا پھر اس شخص کو حضرت عمر کے پاس لایا گیا حضرت عمر نے دریافت کیا تم نئے قسم کے سوالات کرتے ہو پھر حضرت عمر نے لکڑی کی سوٹیاں منگوائی اور ان کے ذریعے اس کی پٹائی کرکے اس کی پشت کو زخمی کردیا پھر اسے چھوڑ دیا جب وہ ٹھیک ہوگیا تو دوبارہ اسے اسی طرح مارا پھر اسے چھوڑ دیا اور وہ دوبارہ ٹھیک ہوا پھر اسے بلایا تاکہ دوبارہ اسے ماریں تو صبیغ نامی اس شخص نے کہا اگر آپ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تواچھے طریقے سے قتل کریں اور اگر آپ میرا علاج کرنا چاہتے ہیں تو اللہ کی قسم میں اب ٹھیک ہوگیا ہوں حضرت عمر نے اسے اجازت دی کہ وہ اپنے علاقے میں واپس چلاجائے حضرت عمر نے حضرت موسی اشعری کو خط میں لکھا کہ کوئی بھی مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھے۔ یہ بات اس شخص کے لیے بڑی پریشانی کا باعث بنی پھر حضرت ابوموسی نے حضرت عمر کو خط میں لکھا کہ اس شخص نے اچھی طرح توبہ کرلی ہے تو حضرت عمر نے جواب دیا اب تم لوگوں کو اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت دے سکتے ہو۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 148)
22۔ أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ قَالَ سَمِعْتُ عَامِرًا يَقُولُ اسْتَفْتَى رَجُلٌ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ فَقَالَ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ مَا تَقُولُ فِي كَذَا وَكَذَا قَالَ يَا بُنَيَّ أَكَانَ الَّذِي سَأَلْتَنِي عَنْهُ قَالَ لَا قَالَ أَمَّا لَا فَأَجِّلْنِي حَتَّى يَكُونَ فَنُعَالِجَ أَنْفُسَنَا حَتَّى نُخْبِرَكَ
ترجمہ: عامر بیان کرتے ہیں ایک شخص نے حضرت ابی بن کعب سے کوئی فتوی دریافت کیا اور کہا اے ابومنذر آپ فلاں مسئلے کے بارے میں کیا کہتے ہیں انہوں نے جواب دیا اے میرے بیٹے تم نے جس چیز کے بارے میں مجھ سے سوال کیا ہے وہ واقع ہوچکی ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں تو حضرت ابی بن کعب نے فرمایا اگر نہیں ہوئی تو پھر رہنے دومجھے مہلت دو جب تک وہ رونما نہ ہوجائے ہم اپنے نفس کا علاج کرتے ہیں یہاں تک کہ ہم تمہیں اس کے بارے میں بتادیں گے۔
(سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 149)