اصل میں اقامتی ادارے غیر فطری اور غیر اسلامی ہوتے ہیں۔ خواہ یہ صرف لڑکوں کے ہوں یا صرف لڑکیوں کے۔ ان اداروں میں بچے اپنے ماں باپ کے فطری دفاعی حصار سے بہت دور، ان کی نظروں سے بھی دور ہوتے ہیں۔ ماں باپ اپنے بچوں اور بچیوں کے دینی تعلیم یا دنیوی کیریئر کی خاطر انہیں اپنے آپ سے برسوں کے لئے دور کرکے ایسے ”جزیرے“ میں بھیج دیتے ہیں، جہاں ان پر اچھا بُرا جو بھی ہو، وہ اول تو اس کی شکایت نہیں کرسکتے۔ اور اگر کوئی بچہ ایسی شکایت کرے بھی تو ادارے کے سخت منتظمین والدین کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ پڑھائی اور یہاں کے سخت ڈسپلن سے بھاگنے کے خواہشمند بچے ہی اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ جنسی استحصال کا شکار ایسا بچہ مجبور ہوجاتا ہے۔ اور جب یہ سینئر کے درجہ پر فائز ہوتا ہے تو پھر یہ دوسرے جونیئر بچوں کا استحصال کرنے لگتا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ اس قسم کے اقامتی تعلیمی اداروں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیا پڑھانے کے لئے صبح نو بجے سے لے کر زیادہ سے زیادہ شام پانچ بجے تک کا وقت کم ہوتا ہے؟ پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر دنیوی تعلیمی اداروں کے اوقات صبح آٹھ نو بجے سے دو تین بجے دوپہر تک ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بچے واپس اپنے ماں باپ کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں ان کی دیگر فطری نشو نما ہوتی ہے۔ ہاسٹل میں پلنے والے بچے بالعموم اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے وہ ذہنی قربت ہی نہیں رکھ پاتے جو عام بچوں کا خاصہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے اکثر دینی مدارس (بچوں کے بھی اور بچیوں کے بھی) اقامتی ادارے ہوتے ہیں۔ اور اکثر مدارس میں رہائش و خوراک سمیت مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ (والدین کو ایک لالچ یہ بھی ہوتا ہے) جبکہ ان مدارس کے جملہ اخراجات زکوٰۃ خیرات اور صدقات سے پوری کی جاتی ہیں۔
اگر دینی مدارس بھی عام دنیوی تعلیمی اداروں کی طرح غیر اقامتی ہوں تو ان کے اخراجات بھی کم ہوجائیں گے۔ مالی کرپشن کا امکان بھی کم رہے گا اور متذکرہ بالا جنسی استحصال کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے۔ واضح رہے کہ چندوں پر مبنی آمدن میں کرپشن کے وسیع مواقع ہوتے ہیں۔ ساری سہولیات (بشمول مدرسہ کی رہائش، گاڑی، اور اچھی تنخواہ وغیرہ وغیرہ) مرکزی منتظمین کے حصہ میں آتے ہیں اور عام تدریسی و غیر تدریسی عملہ کو برائے نام مشاہرہ ملتا ہے۔ ابھی کراچی سائٹ کے ایک بڑے دینی تعلیمی ادارے میں مالیاتی کرپشن کا ایک بہت بڑا اسکینڈل منظر عام پر آیا ہے، جس کے مرکزی ملزمان (مدرسہ کے اساتذہ) دبئی تک فرار ہوئے اور وہاں کاروبار کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستانی میڈیا دینی مدارس کے اس طرح کے مبینہ کرپشن کو رپورٹ کرنے کے معاملہ میں خاصا محتاط کردار ادا کررہا ہے۔ حالات اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں، جتنا کہ میڈیا کے ذریعہ ”نظر“ آتا ہے۔
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں