• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدکار

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اور ایک ہم ہیں کہ تکتے ہیں منہ زمانے کا
(رضا علی عابدی، روزنامہ جنگ)


میں جو کہتا ہوں کہ دنیا بڑی ظالم ہے، اپنے بچّوں کو بچا کر رکھو، تو یوں ہی تو نہیں کہتا۔ پھر میرا یہ کہنا بھی پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ کوئی بھی شخص مجرم ہو سکتا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ دیکھنے میں بھی مجرم ہو۔ان دنوں برطانیہ میں ٹیلی وژن کی دو بے حد مشہور شخصیتوں کے بھید کھلے ہیں تو عقل حیران ہے اور دل پریشان ہے اور ذہن کچھ سمجھنے سے قاصر ہے۔ شاید بہت سے پڑھنے والے ان ناموں سے واقف ہوں۔ان میں ایک بچوں کی نہایت مقبول شخصیت جمی سیویل ہے جو چوراسی سال کی عمر میں ابھی تین سال پہلے مرا ہے۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ لڑکے اور لڑکیاں اس کی پرستش کرتے تھے،ہر ایک کی تمنّا تھی کہ اس سے ملے اور آٹوگراف لے۔ خود اس کا بھی یہ عالم تھا کہ بچّوں میں گھرا بیٹھا رہتا تھا لیکن اس وقت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کم عمر لڑکیوں پر مجرمانہ حملے کرتا تھا اور ان کے ساتھ بدفعلی کر کے ان کے دل و دماغ پر زندگی بھر کے لئے بدنما داغ لگا جاتا تھا۔ وہ ٹی وی پر کوئی بیس سال تک ایک پروگرام پیش کرتا رہا جسے بچے بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ وہ اپنے سماجی کاموں کی وجہ سے بھی بہت مشہور تھا۔ وہ مریضوں کا جی بہلانے کے نام پر مختلف اسپتالوں میں جایا کرتا تھا پھر جب اس کے بھید کھلے تو پتہ چلا کہ وہ پانچ سال سے لے کر پچھتّر سال کی عمر تک مریضوں کی آبرو ریزی کیا کرتا تھا اور کبھی کبھی تو اس نے مردہ خانے میں جاکر لڑکیوں کی لاشوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ اس کی انگلیوں میں درجنوں بڑی بڑی انگوٹھیاں نظر آتی تھیں۔ پتہ چلا کہ ان میں مردہ مریضوں کی پتھر کی مصنوعی آنکھیں جڑی ہوئی تھیں۔ عجب بات یہ تھی کہ جب کبھی اس کا کوئی راز کھلتا، لوگ ماننے سے انکار کر دیتے۔ وزیراعظم مارگریٹ تھیچر اسے عظیم انسان سمجھتی تھیں اور مشیروں کی جانب سے شک ظاہر کئے جانے کے باوجود انہوں نے جمی سیویل کو نوّے میں سر کا خطاب دلوا کر چھوڑا۔ جب جمی مرگیا اور اس کے اندر چھپے ہوئے وحشی کے راز باہر آنے شروع ہوئے تو اس کے ظلم کا شکار بننے والے سیکڑوں لوگ سامنے آنے لگے۔ اب جو تفتیش شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ بڑے بڑے اور پھولے ہوئے بالوں، درجنوں انگوٹھیوں والا اور منہ میں موٹا سا سگار دبانے والا دنیا کا جی بہلانے والا جمی سیویل انسان نہیں بھوت تھا۔ تفتیش مکمل ہوئی تو ہر چند کہ وہ مرچکا تھا، اس کے سارے سرکاری اور شاہی اعزاز چھینے گئے، اس کی تمام املاک ضبط کر لی گئیں جو اس کی ہوس کا نشانہ بننے والوں میں تقسیم کی جائیں گی۔ لوگوں کا اصرار تھا کہ اس کی قبر کھول کر اور لاش نکال کر اس کے ساتھ مناسب سلوک کیا جائے لیکن اس کے لئے ہم تماش بینوں کا بھی جلاد صفت ہونا ضروری ہے۔

یہ تو ہوئی ایک داستان۔ دوسری داستان، جس کا ’ہیرو‘ خیر سے زندہ ہے ، اتنی ہی دل کو دہلانے والی ہے اور عقل کو دنگ کردیتی ہے۔ ہوا یہ کہ جمی سیویل کی درندگی کی تفتیش کے دوران اشارے ملے کہ اتنا ہی مقبول ، ہر دل عزیز ٹیلی وژن کا مشہور و معروف چوراسّی سالہ رالف ہیرس لڑکیوں اور بچّیوں کی عزت سے کھیلا کرتا تھا۔ پچھلے ہی ہفتے لندن کی ایک عدالت نے اسے مجرم قرار دیا ہے۔ اس پر عورتوں اور لڑکیوں پر، جن میں ایک صرف سات سال کی تھی، مجرمانہ حملے کرنے کے بارہ الزام تھے۔اس کا نشانہ بننے والی ایک لڑکی اس کی بیٹی کی بچپن کی دوست تھی۔وہ اس وقت تیرہ برس کی تھی اور یہ سلسلہ انیس برس کی عمر تک چلا۔ ایک اور لڑکی آٹوگراف جمع کیا کرتی تھی اور اس کی عمر آٹھ سے زیادہ نہیں تھی۔ جیوری نے کوئی فیصلہ کرنے کے لئے اڑتیس گھنٹے بحث کی۔ جج نے کہا کہ سزا جمعہ کو سنائی جائے گی۔

رالف ہیرس موسیقار اور مصور تھا ۔جس برس ملکہ اسّی سال کی ہوئی تھیں، رالف نے ان کی تصویر بنائی تھی۔ جب اس کے خلاف تفتیش شروع ہوئی تو برطانیہ اور آسٹریلیا میں کتنی ہی عورتیں آگے آئیں اور انہوں نے اپنی دکھ بھری داستانیں سنائیں۔ جب یہ معاملہ عدالت میں آیا تو اس نے سارے الزامات ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ ایک پولیس افسر کا کہنا تھا کہ یہ بہت بُرا ہوا کیونکہ اس کا جرم ثابت کرنے کے لئے تمام عورتوں کو سامنے آکر اپنے بیان دینے پڑے اور اس طرح ایک بار پھر اُسی اذیت سے گزرنا پڑا۔افسر نے کہا کہ اس نے کتنے ہی جرم کھلے عام کئے کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ وہ اتنا اہم ہے کہ وہ قانون سے بالاتر ہے۔ افسر نے کہا کہ امید ہے عدالت کے فیصلے کے بعدیہ قصہ تمام ہو جائے گا اور وہ خواتین بقیہ زندگی چین سے گزار سکیں گی۔ جس روز یہ تحریر پڑھی جا رہی ہوگی، رالف ہیرس کو سزا سنائی جا رہی ہوگی۔ جج کہہ چکا ہے کہ اسے جیل جانا ہوگا۔ یقین نہیں آتا، اتنا نامور، مقبول اور گھر گھر چاہا جانے والا شخص اب کئی برس قید خانے میں سڑے گا۔
اب کچھ اپنی بات۔کیوں نہ اُس میں جھانکیں جو ہماری طرف گریبان کہلاتا ہے۔ابھی کچھ روز ہوئے میں نے کہیں ایک خبر پڑھی جس کی سرخی تھی کہ پاکستان میں آبرو ریزی اور زنا بالجبر کے کسی مجرم کو آج تک سزا نہیں ملی۔ ذیلی سرخی میں لکھا تھا کہ عورتوں پر ہونے والے مجرمانہ حملوں کے خلاف کوئی موثر قانون ہی نہیں،لوگ آسانی سے چھوٹ جاتے ہیں۔ قانون سازوں نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ جو قانون موجود ہیں وہ کمزور اور ڈھیلے ڈھالے ہیں۔ یقین نہیں آتا۔ میری شروع ہی سے عادت رہی ہے کہ جرائم کی خبریں ضرور پڑھتا ہوں۔ خبریں تو وہی ہوتی ہیں باقی سب تو بیان بازی یا زورِ خطابت ہوتا ہے۔ ذہن پر زور ڈالتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ مجرمانہ حملوں کی خبریں تو بے شمار پڑھیں لیکن ان مجرموں کے قید خانوں میں دھکیل دیئے جانے کی کوئی خبر مجھے یاد نہیں۔ پیچھے دور تک لوٹا اور پچاس پچپن برس پیچھے تک نگاہ دوڑائی تو ایک عجب احساس ہوا۔ یہ کہ نہ صرف جرائم بڑھتے جا رہے ہیں بلکہ وہ سنگین تر ہوتے جارہے ہیں۔ لوگوں میں بے رحمی بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگ آسانی سے ظلم کرنے لگے ہیں اور ظلم کے منظر کو بآسانی دیکھ لیتے ہیں اور نہ پریشان ہوتے ہیں، نہ جی متلاتا ہے اور نہ غش کھاتے ہیں۔ اوپر سے غضب یہ کہ ایک نئی بلا ہم پر نازل ہوئی ہے اور وہ ہے موبائل ٹیلی فون میں لگا ہوا کیمرہ جو نہ صرف عام تصویریں بلکہ متحرک تصویریں بھی بناتا ہے جسے ہم ویڈیو بھی کہتے ہیں۔ لوگ شدید خوں ریزی، گلا کٹنا، زنا اور لوگوں کا مرنا، ڈوبنا، آگ میں جلنا، پھندا ڈال کر لٹکنا اور مشتعل افراد کے ہاتھوں بے رحمی سے ہلاک کیا جانا اس کیمرے میں اتار لیتے ہیں اور ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرتے ہیں تاکہ ساری دنیا دیکھے۔ یہ کیا ہوا ہے کہ انسان شقی القلب ہو گیا ہے۔ میں خود پہ حیران ہوں کہ میں نے یہ سارے منظردیکھے اور قے کرنے واش روم کی طرف نہیں دوڑا۔ اب میرے بچپن کے وہ دن مجھے ستارہے ہیں جب مجھ سمیت محلے کے سارے لڑکے بکرے کا گلا کٹنے کا منظر دیکھا کرتے تھے پھر اس کا تڑپنا اور جان نکلنا ،سارے بچّے بڑے اشتیاق سے دیکھا کرتے تھے۔

اب مجھے ایک خیال آتا ہے۔کمپیوٹر میں ایک بٹن ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے ’ڈیلیٹ‘ delete۔ وہ بٹن دباتے ہی اسکرین پر نظر آنے والا سب کچھ مٹ جاتا ہے، ہمیشہ کے لئے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اے کاش سائنسداں انسانی ذہن میں کوئی ایسا ہی بٹن لگا دیں ۔ وہ ہم پر بڑا احسان ہوگا کیونکہ اس کاسہ میں پہلے ہی ان گنت منظر محفوظ ہیں۔ اب یہ نئے نئے ہولناک منظر ہم سے نہیں دیکھے جاتے۔ کچھ ایسا ہوجائے کہ یہ مٹ جائیں تو شاید باقی زندگی چین سے کٹ جائے۔میرا زور لفظ زندگی پر نہیں، لفظ شاید پر ہے۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
سیلانی صاحب کا تبصرہ بہت ہی خوب ایک ایک لفظ بہترین ہے ۔ خوب جچے تلے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔
طالبات کے مدرسے میں بسنے والے اس بھیڑیے کو کڑی سے کڑی سزا ہونی چاہیے ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اس وقت دنیا بھر میں (بشمول مسلم ممالک) لڑکے اور لڑکیوں کے جتنے بھی اقامتی تعلیمی ادارے (دینی یا دنیوی) قائم ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان میں سے اکثر میں کم و بیش غیر اخلاقی سرگرمیاں ضرور پائی جاتی ہیں۔ لڑکیوں کا شاید ہی ایسا کوئی ادارہ ہو، جہاں انتطامی نوعیت کے مردوں کا عمل دخل نہ ہو۔ ان ”با اختیار“ مردوں کے لئے ایسے اداروں میں راجہ اندر بننا چنداں مشکل نہیں ہوتا۔ دوسری طرف لڑکیاں بھی ایک دوسرے کے ساتھ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوجایا کرتی ہیں۔ اس احقر نے ایک دینی ادارے کی ایک فارغ التحصیل طالبہ کی مطبوعہ ڈائری پڑھی تو یہ جان کر حیران رہ گیا ایسے دینی اداروں میں بھی لڑکیاں ایک دوسرے پر ”عاشق“ ہوجایا کرتی ہیں۔ اور عشق بھی لیلی-مجنوں والا کہ معشوق کے شربت دیدار سے دوری پر بھی عاشق کا رو رو کر برا حال ہوجائے ۔ استغفر اللہ۔ لڑکوں کے ہاسٹل کا تو اور بھی برا حال ہے۔ شاید ہی ایسا کوئی اقامتی ادارہ ہو جہاں جونئیر لڑکے، سینئرز طلباء یا اساتذہ کے جنسی استحصال کا شکار نہ ہوں۔ حتیٰ کہ پاک فوج جیسے ادارہ میں بھی ایسی شکایات عام ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ”باوقار ادارے“ اپنے ادارے کو بدنامی سے بچانے کے لئے ایسی خبروں کو ”عام“ نہیں ہونے دیتے۔ ان اداروں میں عشق و رقابت کے نتیجہ میں قتل تک ہوجایا کرتے ہیں۔ اور اب تو خیر سے اغیار کی دیکھی دیکھی خواتین کو بھی پاک فوج کے ہر شعبہ میں تیزی سے شامل کیا جارہا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
 
Last edited:

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اصل میں اقامتی ادارے غیر فطری اور غیر اسلامی ہوتے ہیں۔ خواہ یہ صرف لڑکوں کے ہوں یا صرف لڑکیوں کے۔ ان اداروں میں بچے اپنے ماں باپ کے فطری دفاعی حصار سے بہت دور، ان کی نظروں سے بھی دور ہوتے ہیں۔ ماں باپ اپنے بچوں اور بچیوں کے دینی تعلیم یا دنیوی کیریئر کی خاطر انہیں اپنے آپ سے برسوں کے لئے دور کرکے ایسے ”جزیرے“ میں بھیج دیتے ہیں، جہاں ان پر اچھا بُرا جو بھی ہو، وہ اول تو اس کی شکایت نہیں کرسکتے۔ اور اگر کوئی بچہ ایسی شکایت کرے بھی تو ادارے کے سخت منتظمین والدین کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ پڑھائی اور یہاں کے سخت ڈسپلن سے بھاگنے کے خواہشمند بچے ہی اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ جنسی استحصال کا شکار ایسا بچہ مجبور ہوجاتا ہے۔ اور جب یہ سینئر کے درجہ پر فائز ہوتا ہے تو پھر یہ دوسرے جونیئر بچوں کا استحصال کرنے لگتا ہے۔

میرا سوال یہ ہے کہ اس قسم کے اقامتی تعلیمی اداروں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیا پڑھانے کے لئے صبح نو بجے سے لے کر زیادہ سے زیادہ شام پانچ بجے تک کا وقت کم ہوتا ہے؟ پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر دنیوی تعلیمی اداروں کے اوقات صبح آٹھ نو بجے سے دو تین بجے دوپہر تک ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بچے واپس اپنے ماں باپ کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں ان کی دیگر فطری نشو نما ہوتی ہے۔ ہاسٹل میں پلنے والے بچے بالعموم اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے وہ ذہنی قربت ہی نہیں رکھ پاتے جو عام بچوں کا خاصہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے اکثر دینی مدارس (بچوں کے بھی اور بچیوں کے بھی) اقامتی ادارے ہوتے ہیں۔ اور اکثر مدارس میں رہائش و خوراک سمیت مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ (والدین کو ایک لالچ یہ بھی ہوتا ہے) جبکہ ان مدارس کے جملہ اخراجات زکوٰۃ خیرات اور صدقات سے پوری کی جاتی ہیں۔

اگر دینی مدارس بھی عام دنیوی تعلیمی اداروں کی طرح غیر اقامتی ہوں تو ان کے اخراجات بھی کم ہوجائیں گے۔ مالی کرپشن کا امکان بھی کم رہے گا اور متذکرہ بالا جنسی استحصال کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے۔ واضح رہے کہ چندوں پر مبنی آمدن میں کرپشن کے وسیع مواقع ہوتے ہیں۔ ساری سہولیات (بشمول مدرسہ کی رہائش، گاڑی، اور اچھی تنخواہ وغیرہ وغیرہ) مرکزی منتظمین کے حصہ میں آتے ہیں اور عام تدریسی و غیر تدریسی عملہ کو برائے نام مشاہرہ ملتا ہے۔ ابھی کراچی سائٹ کے ایک بڑے دینی تعلیمی ادارے میں مالیاتی کرپشن کا ایک بہت بڑا اسکینڈل منظر عام پر آیا ہے، جس کے مرکزی ملزمان (مدرسہ کے اساتذہ) دبئی تک فرار ہوئے اور وہاں کاروبار کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستانی میڈیا دینی مدارس کے اس طرح کے مبینہ کرپشن کو رپورٹ کرنے کے معاملہ میں خاصا محتاط کردار ادا کررہا ہے۔ حالات اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں، جتنا کہ میڈیا کے ذریعہ ”نظر“ آتا ہے۔
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں​
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
bad.kaar.gif

سبق: جامعہ سودہ للبنات، گلشن معمار کے مہتمم کاکہنا ہے کہ طالبات کے مدرسہ میں ہوسٹل کی سہولت ہونی ہی نہیں چاہئے۔ نوجوان طالبات کا کسی ہوسٹل والے مدرسہ میں طعام و قیام کی سہولت کے ساتھ دن رات نامحرم مرد اساتذہ اور مہتمم وغیرہ کی نگرانی (رحم و کرم) میں رہنا نہایت خطرناک ہے۔ انسان کو شیطان بنتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ یہ سراسر غیر اسلامی طرز عمل ہے۔ کیا یہ طرز عمل دودھ کی رکھوالی بلی کو دینے کے مترادف نہیں ہے۔ اللہ معاف کرے کہ ہم دین کے نام پر یہ کیا کر رہے ہیں۔ دینی مدارس اغیار و کفار کی آنکھوں میں ویسے ہی کھٹکتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دین اسلام کے یہ مراکز محفوظ و مامون رہ کر دین حق کی تعلیم و تدریس کا فریضہ اھسن طریقے سے انجام دیتے رہیں۔ کم از کم طالبات کے مدارس کے اوقات تو عام تعلیمی اداروں کی طرح صبح سے دوپہر تک، ہفتہ میں پانچ یا چھہ دن ہونے چاہئے۔ جب اس نظام الاوقات سے دنیا بھر کی تعلیم دی جاسکتی ہے تو دینی تعلیم کیوں نہیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
 
Top