فیاض ثاقب
مبتدی
- شمولیت
- ستمبر 30، 2016
- پیغامات
- 80
- ری ایکشن اسکور
- 10
- پوائنٹ
- 29
برانڈڈ لوگ اور انکی برانڈڈ سوچ
دنیا شخصیات کے بل بوتے پر نہیں بلکہ خاص سوچ اور نظریہ پر چلتی ہے۔
آپ منفی یا مثبت کردار والے خواہ جتنے مرضی انسان بااختیار کرکے کھلے چھوڑ دیں۔
انکے ذاتی کردار سے فقط چند دن کے لیئے چند لوگ ہی متاثر ہونگے۔
اسکی واضح مثال دنیا بھر کی فلم انڈسٹری اور پچھڑے ہوئے تیسری دنیا کے غریب و پسماندہ ملکوں کی سستی قیادت ہے۔
یہ لوگ محض چند سال اپنا اچھا یا برا کردار برقرار رکھ پاتے ہیں۔
پھر ایک دن قسمت کا لٹو گھومتا ہے اور بازی پلٹ جاتی ہے۔
کوئی اور نیا ابھرتا ہوا کاسمیٹک اور ڈرامیٹک چہرا کروڑوں دلوں پر راج کرنے کو تیار اور مستعد ہوتا ہے۔
لیکن اثرات کا دائرہ کار محدود اور رف سا ہی ہوتا ہے۔
جبکہ اگر کوئی عام سا آدمی, عام سے لوگوں کے بیچ, عام سی زندگی گزارتا ہوا, بہت عام سی باتوں کو ایک منظم سوچ بناکر اسے ایک نظریے ایک منہج کی شکل دے دے جسے عوام بخوشی تسلیم بھی کریں اور اپنی عام زندگی پر اسکااطلاق بھی کریں تو صاحبان وہ شخص بیشک مر کھپ جائے, لیکن اسکی دی ہوئی سوچ صدیوں تک دنیا میں راج کرتی ہے اور اس کا توڑ کوئی اٹکل پچو منفی یا مثبت کردار کی حامل شخصیات نہیں بلکہ اس سے بھی ٹھوس اور قابل قبول سوچ اور نظریہ ہوتا ہے۔
گذشتہ صدی منفی اور مثبت کرداروں کی بھرمار سے اٹی پڑی ہے۔
جتنے نام گننا چاہیں آپ گن سکتے ہیں لیکن لسٹ اتنی طویل اور فضول ہے کہ آپ میں اس میں اپنا قیمتی وقت برباد کرنے میں قطعی خوشی محسوس نہیں کریں گے۔
لیکن سوچ یا نظریہ کی بدولت کونسی شخصیات امر ہوئیں یا کن شخصیات کے حالات بدل نظریات اب تک پوری آب وتاب سے زندہ ہیں۔
ایسے لوگ بہت ہی محدود تعداد رکھتے ہیں۔
چند ایک مثالیں سمجھنی ہوں تو تاریخ پاکستان کی ہی بات کرلیتے ہیں۔
جیسے قائد آعظم محمد علی جناح اور انکا دو قومی نظریہ
علامہ اقبال اور انکا نظریہ خودی
اور اس طرح کی بہت سی شخصیات اور انکے روشن و تابندہ نظریات اب تک زندہ و جاوید ہیں۔
مطلب یہ لوگ بذات خود ایک نظریہ ایک سوچ ہیں۔
مطلب انکی سوچ ان کا نظریہ انکے نام کا برانڈ ہے۔
اور برانڈز کی ہماری زندگیوں میں کیا اہمیت اور کیا جگہ ہے یہ مجھے کم ازکم بتانے اور سمجھانے کی قطعی ضرورت نہیں آج کی برانڈ کانشس نسل کو۔
گزشتہ صدی تو بھری پڑی ہے دنیا کے کونے کونے میں برانڈڈ لوگوں اور انکی برانڈڈ سوچ و نظریہ سے۔
لیکن اکیسویں صدی کی بات کریں تو ہر جگہ بس منفی و مثبت کرداروں کی بھرمار ہے۔
نئی سوچ اور برانڈڈ نظریہ کے خالق چندے معدودے ہی ہیں بس۔
بلکل آٹے میں نمک کے برابر۔
میرا کنسرن اس وقت دنیا نہیں بلکہ فقط پاکستان ہے تو براہ راست پاکستان کی ہی بات کروں گا۔
یہاں گزشتہ صدی سے موجودہ صدی میں داخل ہونے والی ایک برانڈڈ شخصیت کا ذکر کروں گا جنہوں نے محنت اور لگن کے بل بوتے پر خود کو ایک برانڈ تسلیم کروایا اور انکی سوچ و فکر اب خود ایک برانڈ بن چکی ہے۔
انکی سوچ اور نظریہ کوئی نیا نہیں بلکہ چودہ سو سالہ اسلامی تعلیمات وتاریخ اور ستر سالہ پاکستانی تاریخ کا نچوڑ اور دونوں کا مجموعی تسلسل ہے۔
ان کا اٹل موقف اور عمل شدید ہی اس صدی کا برانڈڈ نظریہ ہے۔
جی بلکل حافظ محمد سعید صاحب ایک انسان کا نام نہیں بلکہ ایک وسیع تر سوچ اور نظریہ کا نام ہے۔
حافظ صاحب کی ذات ضرور فانی ہے لیکن ان کا نظریہ لافانی ہے۔
کیونکہ ان کا نظریہ تھیوری نہیں بلکہ پریکٹیکل اسلام اور نظریہ پاکستان ہے موجودہ حلات میں۔
حافظ صاحب کسی بھی وجہ سے اگر ہم میں نہ رہے تب بھی ان کی سوچ اور ان کا نظریہ ایک برانڈ کی طرح ہماری زندگیوں میں موجود رہے گا۔
حافظ صاحب کی سوچ اور نظریہ انہیں امر کردے گا۔
اسلیئے پھونکو سے یہ روشن چراغ بجھانا ناممکن ہے۔
ایک سیاسی نعرہ ہے کہ
"تم کتنے فلانے ماروگے ہر گھر سے فلانا نکلے گا۔"
یہ محض ایک سیاسی اور باطل نعرہ ہے۔
لیکن حافظ صاحب کے معاملے میں یہ ایک اٹل اور حقیقی نعرہ ہے کہ
"تم کتنے سعید ماروگے ہر گھر سے سعید نکلے گا۔"
ایسا اس لیئے ہوگا کہ حافظ محمد سعید ایک انسان کا نام نہیں بلکہ ایک برانڈڈ سوچ اور برانڈڈ نظریہ کا نام ہے۔
اور یہ سچ ہے کہ لوگ مر جاتے ہیں لیکن انکی سوچ اور نظریہ کبھی نہیں مرتا۔
اور یہ سچ بہت ہی لطیف اور تسلی بخش ہے کہ حافظ محمد سعید کی بدولت انکی برانڈڈ سوچ اور برانڈڈ نظریہ میرے دل و دماغ پر نقش ہے۔
اسی ناطے میں یہ کہنے اور کہلوانے میں سو فیصد حق بجانب ہوں کہ
"ہاں میں بھی حافظ محمد سعید ہوں" <3
#آزادیات
#بلال #شوکت #آزاد
دنیا شخصیات کے بل بوتے پر نہیں بلکہ خاص سوچ اور نظریہ پر چلتی ہے۔
آپ منفی یا مثبت کردار والے خواہ جتنے مرضی انسان بااختیار کرکے کھلے چھوڑ دیں۔
انکے ذاتی کردار سے فقط چند دن کے لیئے چند لوگ ہی متاثر ہونگے۔
اسکی واضح مثال دنیا بھر کی فلم انڈسٹری اور پچھڑے ہوئے تیسری دنیا کے غریب و پسماندہ ملکوں کی سستی قیادت ہے۔
یہ لوگ محض چند سال اپنا اچھا یا برا کردار برقرار رکھ پاتے ہیں۔
پھر ایک دن قسمت کا لٹو گھومتا ہے اور بازی پلٹ جاتی ہے۔
کوئی اور نیا ابھرتا ہوا کاسمیٹک اور ڈرامیٹک چہرا کروڑوں دلوں پر راج کرنے کو تیار اور مستعد ہوتا ہے۔
لیکن اثرات کا دائرہ کار محدود اور رف سا ہی ہوتا ہے۔
جبکہ اگر کوئی عام سا آدمی, عام سے لوگوں کے بیچ, عام سی زندگی گزارتا ہوا, بہت عام سی باتوں کو ایک منظم سوچ بناکر اسے ایک نظریے ایک منہج کی شکل دے دے جسے عوام بخوشی تسلیم بھی کریں اور اپنی عام زندگی پر اسکااطلاق بھی کریں تو صاحبان وہ شخص بیشک مر کھپ جائے, لیکن اسکی دی ہوئی سوچ صدیوں تک دنیا میں راج کرتی ہے اور اس کا توڑ کوئی اٹکل پچو منفی یا مثبت کردار کی حامل شخصیات نہیں بلکہ اس سے بھی ٹھوس اور قابل قبول سوچ اور نظریہ ہوتا ہے۔
گذشتہ صدی منفی اور مثبت کرداروں کی بھرمار سے اٹی پڑی ہے۔
جتنے نام گننا چاہیں آپ گن سکتے ہیں لیکن لسٹ اتنی طویل اور فضول ہے کہ آپ میں اس میں اپنا قیمتی وقت برباد کرنے میں قطعی خوشی محسوس نہیں کریں گے۔
لیکن سوچ یا نظریہ کی بدولت کونسی شخصیات امر ہوئیں یا کن شخصیات کے حالات بدل نظریات اب تک پوری آب وتاب سے زندہ ہیں۔
ایسے لوگ بہت ہی محدود تعداد رکھتے ہیں۔
چند ایک مثالیں سمجھنی ہوں تو تاریخ پاکستان کی ہی بات کرلیتے ہیں۔
جیسے قائد آعظم محمد علی جناح اور انکا دو قومی نظریہ
علامہ اقبال اور انکا نظریہ خودی
اور اس طرح کی بہت سی شخصیات اور انکے روشن و تابندہ نظریات اب تک زندہ و جاوید ہیں۔
مطلب یہ لوگ بذات خود ایک نظریہ ایک سوچ ہیں۔
مطلب انکی سوچ ان کا نظریہ انکے نام کا برانڈ ہے۔
اور برانڈز کی ہماری زندگیوں میں کیا اہمیت اور کیا جگہ ہے یہ مجھے کم ازکم بتانے اور سمجھانے کی قطعی ضرورت نہیں آج کی برانڈ کانشس نسل کو۔
گزشتہ صدی تو بھری پڑی ہے دنیا کے کونے کونے میں برانڈڈ لوگوں اور انکی برانڈڈ سوچ و نظریہ سے۔
لیکن اکیسویں صدی کی بات کریں تو ہر جگہ بس منفی و مثبت کرداروں کی بھرمار ہے۔
نئی سوچ اور برانڈڈ نظریہ کے خالق چندے معدودے ہی ہیں بس۔
بلکل آٹے میں نمک کے برابر۔
میرا کنسرن اس وقت دنیا نہیں بلکہ فقط پاکستان ہے تو براہ راست پاکستان کی ہی بات کروں گا۔
یہاں گزشتہ صدی سے موجودہ صدی میں داخل ہونے والی ایک برانڈڈ شخصیت کا ذکر کروں گا جنہوں نے محنت اور لگن کے بل بوتے پر خود کو ایک برانڈ تسلیم کروایا اور انکی سوچ و فکر اب خود ایک برانڈ بن چکی ہے۔
انکی سوچ اور نظریہ کوئی نیا نہیں بلکہ چودہ سو سالہ اسلامی تعلیمات وتاریخ اور ستر سالہ پاکستانی تاریخ کا نچوڑ اور دونوں کا مجموعی تسلسل ہے۔
ان کا اٹل موقف اور عمل شدید ہی اس صدی کا برانڈڈ نظریہ ہے۔
جی بلکل حافظ محمد سعید صاحب ایک انسان کا نام نہیں بلکہ ایک وسیع تر سوچ اور نظریہ کا نام ہے۔
حافظ صاحب کی ذات ضرور فانی ہے لیکن ان کا نظریہ لافانی ہے۔
کیونکہ ان کا نظریہ تھیوری نہیں بلکہ پریکٹیکل اسلام اور نظریہ پاکستان ہے موجودہ حلات میں۔
حافظ صاحب کسی بھی وجہ سے اگر ہم میں نہ رہے تب بھی ان کی سوچ اور ان کا نظریہ ایک برانڈ کی طرح ہماری زندگیوں میں موجود رہے گا۔
حافظ صاحب کی سوچ اور نظریہ انہیں امر کردے گا۔
اسلیئے پھونکو سے یہ روشن چراغ بجھانا ناممکن ہے۔
ایک سیاسی نعرہ ہے کہ
"تم کتنے فلانے ماروگے ہر گھر سے فلانا نکلے گا۔"
یہ محض ایک سیاسی اور باطل نعرہ ہے۔
لیکن حافظ صاحب کے معاملے میں یہ ایک اٹل اور حقیقی نعرہ ہے کہ
"تم کتنے سعید ماروگے ہر گھر سے سعید نکلے گا۔"
ایسا اس لیئے ہوگا کہ حافظ محمد سعید ایک انسان کا نام نہیں بلکہ ایک برانڈڈ سوچ اور برانڈڈ نظریہ کا نام ہے۔
اور یہ سچ ہے کہ لوگ مر جاتے ہیں لیکن انکی سوچ اور نظریہ کبھی نہیں مرتا۔
اور یہ سچ بہت ہی لطیف اور تسلی بخش ہے کہ حافظ محمد سعید کی بدولت انکی برانڈڈ سوچ اور برانڈڈ نظریہ میرے دل و دماغ پر نقش ہے۔
اسی ناطے میں یہ کہنے اور کہلوانے میں سو فیصد حق بجانب ہوں کہ
"ہاں میں بھی حافظ محمد سعید ہوں" <3
#آزادیات
#بلال #شوکت #آزاد