کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
برسلز میں دھماکے؟
روزنامہ پاکستان: 24 مارچ 2016کالم: لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان
برسلز بلجیم کا دارالحکومت اور یورپ کا ایک بڑا شہر ہے بلکہ سارے یورپ کا علامتی دارالحکومت بھی کہلاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ناٹو کا ہیڈکوارٹر بھی یہیں ہے اور یورپی یونین کے تمام کلیدی دفاتر اور ہیڈکوارٹرز بھی اسی شہر میں ہیں۔ بلجیم کا محل وقوع بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
مشرق میں جرمنی، مغرب میں برطانیہ، شمال میں ہالینڈ اور جنوب میں فرانس ہے۔ اپنی لوکیشن کے اعتبار سے یہ ملک مختلف اقوام اورنسلوں کا گڑھ ہے۔ دنیا بھر کے لوگ یہاں پائے جاتے ہیں اور دنیا بھر کی زبانیں یہاں بولی جاتی ہیں۔ ویسے جرمن، فرانسیسی اور ولندیزی زبانیں یہاں کی سرکاری زبانیں کہلاتی ہیں۔ البتہ یہ کوئی بہت بڑا ملک نہیں، رقبہ صرف 12000مربع میل ہے اور آبادی ایک کروڑ 12 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ (یعنی لاہور شہر کی آبادی سے صرف دس لاکھ زیادہ) برسلز کے علاوہ اینٹورپ (Antwerp) اور ایپرس (Ypress) دو ایسے شہر ہیں جو گزشتہ صدی کی دونوں عالمی جنگوں کے طالب علموں کے لئے ہر گز نئے نہیں۔ ایپرس (Ypress) میں تو ایک ایک دن میں لاکھوں فوجی مارے گئے۔ قدم قدم پر جرمنوں اور فرانسیسی سپاہیوں اور افسروں کے درجنوں قبرستان ہیں جن کو دیکھنے کے لئے ہر سال دنیا بھر کے سیاح یہاں آتے ہیں۔۔۔ شائد عبرت حاصل کرنے کے لئے جو کبھی نہیں کی جاتی!
اس برسلز میں پرسوں (منگل وار) تین دھماکے ہوئے۔ دو برسلز انٹرنیشنل ائر پورٹ پر اور ایک اس کے قریب ہی ایک زمین دوز ریلوے (Sub Way) سٹیشن پر۔ کہا جا رہا ہے کہ ان دھماکوں میں 37 لوگ ہلاک ہوئے اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ ہوائی اڈے کے دھماکوں میں 15 اور زمین دوز ریلوے کی ٹرین میں ایک دھماکے میں 22 مسافر مارے گئے۔ ائرپورٹ پر ایک بم اور بھی پایا گیا جسے بم ڈسپوزل سکواڈ نے ناکارہ بنا دیا وگرنہ ہلاک شدگان کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا تھا۔
ان دھماکوں کی ذمہ داری داعش (ISIS) نے قبول کی ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا پچھلے برس نومبر میں پیرس میں دھماکے ہوئے تھے جس میں 130 آدمی مارے گئے تھے۔ ان دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ ایک مسلمان کو قرار دیا گیا تھا جس کا نام صالح عبدالسلام تھا۔ چار ماہ کی تگ و دو کے بعد پولیس نے آخر عبدالسلام کو چار روز پہلے گرفتار کرلیا تھا۔ اس نے انکشاف کیا تھا کہ وہ برسلز پر حملے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ اس اطلاع پر سارے بلجیم میں بالعموم اور برسلز میں بالخصوص سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی تھی۔ ویسے بھی جس شہر میں ناٹو اور یورپی یونین کے ہیڈکوارٹرہوں اس کی حفاظت اور سیکیورٹی دن رات ’’ہائی الرٹ‘‘ ہی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس کے باوجود کوئی دہشت گرد یہاں دھماکے کر دیتا ہے تو آپ کس کو قصور وار ٹھہرائیں گے۔۔۔؟
پاکستان ایک عشرے سے خودکش دھماکوں اور حملوں کے آزار میں مبتلا رہا ہے۔ اب کچھ دنوں سے کچھ چین آیا ہے وگرنہ ہر روز نئے سے نیا دھماکہ ہوتا تھا۔ پاکستان میں ان دھماکوں کو نگاہ میں رکھ کر اگر پیرس اور برسلز کے دھماکوں کا موازنہ کریں تو موخر الذکر ’’ہمارے مقابلے‘‘ میں بہت بونے نظر آئیں گے۔ جانی نقصانات کے حجم کو بھی اگر مدنظر رکھا جائے تو جو نقصانات پاکستان میں ہوئے اور جو نقصانات عرب دنیا میں ہوئے ان کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ نے اپنے ایک ٹریڈ سنٹر پر حملے کے جواب میں تین اسلامی ملکوں کو خاک و خون میں نہلا دیا۔
اگر داعش نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے تو اس کے کرتا دھرتا لوگوں سے پوچھیں کہ اس نے یورپ کے دل (برسلز) پر یہ ’’ظلم‘‘ کیوں ڈھایا ہے۔
میں کل مغربی میڈیا پر ان حملوں کی تفاصیل دیکھ رہا تھا۔ صدر اوباما اور وزیراعظم کیمرون نے کہا کہ یہ حادثہ بہت خوفناک ہے اور ہم سے اس سلسلے میں جو ’’بن‘‘ پڑا، وہ کریں گے۔
بلجیم کے وزیراعظم چارلس مائیکل کا بیان ناقابل فہم تھا۔ انہوں نے کہا : ’’جن حملوں کی توقع کی جا رہی تھی، وہ ہو گئے‘‘۔۔۔
فرانس کے صدر ہالینڈے نے کہا: ’’کچھ بھی ہو جائے ہماری وحدت نہیں بکھرنی چاہیے‘‘۔
اور ترکی کے طیب اردگان نے کہا: ’’دہشت گردی، حصولِ آزادی کی جدوجہد نہیں کہی جا سکتی‘‘۔
یہ جدید طرز کے خودکش حملے خاص طور پر 21 ویں صدی کی سوغات ہیں۔ اس موضوع پر درجنوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں کہ اس طرز کے حملوں کا اصل خالق کون تھا۔ لیکن اگر کسی ایک ملک، قوم یا فرقے کی نشان دہی مقصود ہو کہ جس نے سب سے پہلے عصر حاضر کا یہ جدید خودکش کلچر متعارف کروایا تو اس کا جواب دینا آسان نہیں ہوگا۔۔۔
مثلاً انہی برسلز کے حملوں کو لے لیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ پیرس پر حملوں اور ان کے ماسٹر مائند عبدالسلام کی گرفتاری کا نتیجہ ہیں۔ اگر ایسا ہے تو چار ماہ پیچھے جا کر پیرس پر حملوں کی وجہ معلوم کرنی ہو گی اور جب اس وجہ کی وجہ کو پرکھا جائے گا تو معلوم ہوگا کہ یہ حملے مذہبی وجوہات کی دین تھے (اور ہیں)۔
بہت سے تجزیہ نگار ان حملوں کی وجوہ کو مذہب سے نہیں، سیاست سے جوڑیں گے (اور جوڑ رہے ہیں) لیکن داعش کی طرف سے جو یہ بیان آیا ہے کہ وہی ان حملوں کی خالق اور ذمہ دار ہے تو پوچھا جا سکتا ہے کہ داعش کا خالق کون تھا؟ ۔۔۔ کیا اس ’’جدید ترین اور تازہ ترین ابتلاء‘‘ کی شروعات امریکہ نے نہیں کیں؟۔۔۔
اور اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ داعش کو تخلیق کرنے کی وجوہات سیاسی تھیں یا مذہبی تو کسی کو بھی اس بات میں کوئی شک نہیں ہو گا کہ یہ وجوہات سیاسی نہیں تھیں۔
داعش کو تخلیق کرنے، اس کو عسکری ٹریننگ دینے، اس کو گولہ بارود اور ہتھیار سپلائی کرنے اور فنڈنگ کے پیچھے کون تھا؟۔۔۔
سارا یورپ اور سارا امریکہ آج ہرخودکش حملے کے پیچھے اسلامی عسکریت پسندوں کا ہاتھ دیکھتا ہے اور اس استدلال کی اصابت کا منکر کوئی بھی یورپی ملک نہیں۔
لیکن پھر ایک بہت بڑا سوال اٹھے گا کہ یہ ’’اسلامی عسکریت پسند‘‘ کیوں تخلیق ہوئے؟
اور اتنے بڑے پیمانے پر کیسے تخلیق ہوئے کہ سارا امریکہ اور سارا یورپ ان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں عاجز آیا معلوم ہوتا ہے۔
بلجیم کا وزیراعظم برملا کہہ رہا ہے کہ ہمیں معلوم تھا کہ یہ حملے ہونے والے ہیں اور برسلز پر ہونے والے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کہ برسلز کوئی بہت بڑا اور وسیع و عریض شہر نہیں۔۔۔
اور اس کے باوجود کہ ناٹو کا ہیڈ کوارٹر وہاں ہے جس کی سیکیورٹی پر دنیا بھر کی عسکری قوت کی کریم مامور ہے ۔۔۔
اور اس کے باوجود کہ یورپی یونین کے دفاتر/ ہیڈ کوارٹر بھی وہاں ہیں جن کی سلامتی کے لئے ساڑھے چھ چھ فٹ کے گارڈز صبح و شام و شب جدید اسلحہ سے لیس ہو کر پہرہ دیتے ہیں۔۔۔
اور اس کے باوجود کہ امریکہ اور یورپ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں 24 گھنٹے چوکس رہ کر شہر کی ایک ایک گلی اور ایک ایک کوچے کی سروے لینس کرتی رہتی ہیں اور دنیا کا جدید ترین سیکیورٹی نظام ان لوگوں کی دسترس میں ہے ۔۔۔
تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ان حملہ آوروں نے خودکش جیکٹس بھی تیار کیں یا کروائیں، دھماکہ خیز مواد بھی اکٹھا کیا، شہر کے سب سے زیادہ پر ہجوم مراکز (ایئر پورٹ اور سب وے سٹیشن) کی ریکی بھی کی، شہر کی آبادی میں سہولت کاروں اور مدد گاروں کا خوابیدہ/ بیدار نیٹ ورک بھی قائم کیا اور دنیا پر واضح کر دیا کہ انسانی دماغ سے زیادہ خطرناک دوسرا کوئی اسلحہ نہیں، زیادہ پیچیدہ اور Precise کوئی کمپیوٹر نہیں اور زیادہ مہلک کوئی دوسرا عضوِ بدن نہیں!
سوال یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ داعش اگر اتنی ہی خطرناک تنظیم ہے تو کیا پاکستان بھی اس سے متاثر ہو سکتا ہے؟
پاک۔ افغان سرحد پر جو افغان صوبے واقع ہیں کیا ان میں داعش کے وہ عناصر پرورش نہیں پا رہے جو موقع ملتے ہی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں؟
کیا پاکستان آرمی جو چند دنوں میں شوال سے فارغ ہو رہی ہے اور وہاں کے خطرناک علاقوں کی آخری پاکٹیں تباہ کر رہی ہے اس کے لئے یہ داعش ایک نیا اور بڑا خطرہ بن کر سامنے نہیں آئے گی؟۔۔۔
ان سوالوں کا کوئی حتمی جواب ابھی نہیں دیا جا سکتا۔
یہ جواب اس لئے نہیں دیا جا سکتا کہ پاکستان آرمی تو ’’تن من‘‘ کی بازی لگا کر شوال کو ’’پاک‘‘ کر رہی ہے لیکن کیا حکومتی مشینری بھی ان علاقوں میں ’’دھن‘‘ کی بازی لگا رہی ہے تاکہ یہ علاقے دوبارہ دہشت گردی کا گڑھ (Safe Havens) نہ بن سکیں۔۔۔؟
یہ سوال حکومت سے پوچھنے کا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی ساری شقیں کیا ہوئیں؟
اگر کوئی اور ملک ہوتا تو جس خلوص اور ایثار سے پاک فوج نے شمالی وزیرستان اور فاٹا کے دوسرے علاقوں کو تخریب کاری کی وبا سے پاک کیا تھا، اسی خلوص اور ایثار سے بیک وقت ان تباہ شدہ علاقوں کی بحالی کو بھی باقی ملک کے سارے ترقیاتی منصوبوں پر ترجیح دیتا۔
چترال سے لے کر گوادر تک ملک کے مغربی اور جنوب مغربی حصوں کو جہالت، کم علمی، قدامت پرستی اور شدت پسندی کے نرغے سے نکال کر جدید دور کی تمام شہری سہولتوں سے مالا مال کر دیتا ۔ پھر ہم دیکھتے کہ کس داعش اور کس القاعدہ کی مجال تھی کہ ادھر کا رخ کرتا ؟
پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی نوجوانوں (لڑکے لڑکیوں) پر مشتمل ہے۔ یہ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں جس کو ہم نے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ ان نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ملک کی مسجدوں اور مدرسوں میں تعلیم پا رہی ہے۔ لیکن کیا ہم نے اس ’’تعداد‘‘ کو بعد از تکمیلِ تعلیم، کسی جگہ کھپانے کا کوئی بندوبست کیا ہے؟۔۔۔ کیا ان کے مقدر میں مساجد کی امامت ہی لکھی ہوئی ہے۔ اگر نہیں تو وہ ’’داعش‘‘ کے علاوہ اور کدھر جائیں؟۔۔۔
ہمارے سکولوں، کالجوں اور مدرسوں میں زیر تعلیم بچے اور بچیاں آج نہیں تو کل فارغ التحصیل ہو جائیں گی۔ ان کروڑوں طلباء و طالبات کو ہم بے روز گاری کے علاوہ اور کیا دے رہے ہیں؟
اگر کل کلاں یہ بے روز گار کسی داعش کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو نہ صرف ان کے روٹی، کپڑا اور مکان کا بندوبست کرتی ہے بلکہ مستقبل کے سبز باغ بھی دکھاتی ہے تو ہم ایسی داعش کو اپنے ہاں پھلنے پھولنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟۔۔۔
اور یہ ابتلا صرف پاکستان کا مسئلہ ہی نہیں، ایک گلوبل اہمیت و وسعت کا مسئلہ بھی ہے۔۔۔
آپ دیکھتے رہئے کہ اب ان حملوں کا سدباب جو امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک کریں گے وہ یہی ہوگا کہ داعش کے خلاف مسلح آپریشن کئے جائیں گے۔ لیکن انہی ’’آپریشنوں‘‘ نے تو پہلے داعش کو جنم دیا تھا۔۔۔
اگر بین الاقوامی برادری نے داعش کو مزید فروغ پانے سے روکنا ہے تو اسے مزاحمت کا نہیں مفاہمت کا طریقہ اور سلیقہ اختیار کرنا ہوگا!۔۔۔ اور یہ ایک الگ موضوع ہے!