بخاری سید
رکن
- شمولیت
- مارچ 03، 2013
- پیغامات
- 255
- ری ایکشن اسکور
- 470
- پوائنٹ
- 77
لندن کے مشرقی علاقے وولچ میں بدھ کے روز ایک برطانوی فوجی کے قتل کے بعد برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے واقعات میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ فیتھ میٹرز نامی چیرٹی کی ہیلپ لائن کو ایک سوباسٹھ ایسے واقعات کی اطلاع ملی ہے جس میں مسلمانوں کےخلاف نفرت کا اظہار کیاگیا ہے۔ اس سے پہلے اس چیرٹی کو روزانہ اوسطاً چھ ایسے واقعات کی اطلاع ملتی تھی۔ برطانوی پولیس نے متعدد افراد کو سوشل میڈیا کی ویب سائٹوں پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد چھاپنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ برطانوی فوجی لی رگبی کو بدھ کے روز وولچ کی بارکوں کے نزدیک بہیمانہ انداز میں قتل کر دیا گیا تھا۔ فوجی کی ہلاکت کے بعد اٹھائیس سالہ مائیکل ادیبولاجو کو یہ کہتے ہوئے کیمرہ پر ریکارڈ کیا کہ اس نے افغانستان اور عراق میں برطانوی فوجیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کےقتل کا بدلہ لیا ہے۔ دوسری جانب لندن کے وول وچ میں قتل کے الزام میں گرفتار مائکل ادیبولاجو کے بچپن کے دوست نے کہا ہے کہ چھ ماہ قبل مائکل ادیبولاجو کو برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو نے نوکری کی پیشکش کی تھی۔ ادیبو لاجو کے عہدِ طفلی کے دوست ابو نصیبہ نے کہا کہ ان کے دوست نے سکیورٹی سروس کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔ واضح رہے کہ مائکل ادیبولاجو جنوب مشرقی لند میں قتل کیے جانے والے ڈرمر لی رگبی کے قتل کے دو ملزمین میں سے ایک ہیں۔ بہر حال اس معاملے کی خفیہ ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر وھائٹ ہال سے تصدیق نہ ہو سکی۔ انٹرویو کے بعد ابو نصیبہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ لندن کی مٹ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے 31 سالہ شخص کو لندن کے وقت کے مطابق جمعہ کی رات ساڑھے نو بجے دہشت گردی کے مبینہ واقعے میں گرفتار کیا ہے اور مشرقی لندن کے دو مکانوں کی تلاشی جا رہی ہے۔ یہ گرفتاریاں ڈرمر رگی کے قتل معاملے سے براہ راست منسلک نہیں ہے۔ واضح رہے کہ برطانوی فوجی ڈرمر کو بدھ کی سپہر وول وچ بیرک میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ابو نصیبہ نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ان کے خیال میں گزشتہ سال کینیا کے دورے کے دوران سکیورٹی فورسز کی حراست میں رہنے کے بعد سے ان میں ’تبدیلی‘ آئی تھی۔ ابو نصیبہ نے کہا کہ ’ان کے دوست ادیبولاجو نے کہا تھا کہ افریقی ملک کی جیل میں تفتیش کے دوران انہیں جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیاتھا۔‘ نصیبہ نے مزید کہا کہ ’اس کے بعد وہ الگ تھلگ رہنے لگا وہ کم گفتگو کرنے لگا اور وہ پرانا چہکنے والا شخص نہیں رہا۔‘ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں ادیبولاجو نے بتایا تھا کہ واپسی پر ایم آئی فائیو ان کے پیچھے پڑ گئي تھی اور ’اس کے دروازے پر دستک دیتی رہتی تھی۔‘ ابو نصیبہ نے کہا کہ ’بنیادی طور پر اسے حراساں کیا جا رہا تھا‘۔ اس نے مزید کہا کہ ادیبولاجو کے اس بارے میں یہ الفاظ تھے ’وہ میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں وہ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔‘
’شروع میں وہ کسی مخصوص شخص کے بارے میں پوچھتے کہ آیا وہ اسے جانتے ہیں کہ نہیں لیکن جب اس نے ان کے بارے میں اپنی لاعلمی ظاہر کی تو انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ ان کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔‘ ’انھوں نے واضح طور پر ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا تھا اور انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ان افراد کو نہیں جانتے ہیں۔‘ ایم آئی فائیو کے ہیڈ کوراٹر وھائٹ ہال نے بتایا کہ 28 سالہ ادیبولاجو بنیادی طور پر مشرقی لندن کے علاقے رومفورڈکے رہائشی ہیں اور ان کے ساتھی 22 سالہ مائکل ادیبووالے جنوب مشرقی لندن گرینچ کے رہنے والے ہیں اور وہ انھیں گزشتہ آٹھ برسوں سے جانتے ہیں۔ اس قتل کے معاملے میں دو خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا تھا جنھیں بعد میں رہا کر دیا گیا لیکن ایک 29 سالہ شخص کو ابھی بھی حراست میں رکھا گیا ہے۔
’شروع میں وہ کسی مخصوص شخص کے بارے میں پوچھتے کہ آیا وہ اسے جانتے ہیں کہ نہیں لیکن جب اس نے ان کے بارے میں اپنی لاعلمی ظاہر کی تو انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ ان کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔‘ ’انھوں نے واضح طور پر ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا تھا اور انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ان افراد کو نہیں جانتے ہیں۔‘ ایم آئی فائیو کے ہیڈ کوراٹر وھائٹ ہال نے بتایا کہ 28 سالہ ادیبولاجو بنیادی طور پر مشرقی لندن کے علاقے رومفورڈکے رہائشی ہیں اور ان کے ساتھی 22 سالہ مائکل ادیبووالے جنوب مشرقی لندن گرینچ کے رہنے والے ہیں اور وہ انھیں گزشتہ آٹھ برسوں سے جانتے ہیں۔ اس قتل کے معاملے میں دو خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا تھا جنھیں بعد میں رہا کر دیا گیا لیکن ایک 29 سالہ شخص کو ابھی بھی حراست میں رکھا گیا ہے۔