حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
لندن میں ڈاکٹر شاہد قریشی ہمارے ایک ایسے ہی نیک نام اور پرلے درجے کے شریف مگر باخبر صحافی دوست ہیں برطانوی میڈیا کے متعدد ٹی وی پروگرامز کے علاوہ الجزیرہ میں زیر بحث حساس نوعیت کے موضوعات پر تجزیہ نگار بھی ہیں اگلے روز ان کا فون آیا تو ان کی گفتگو میں ناامیدی کی جھلک واضح تھی۔ وجہ ناامیدی جاننا چاہی تو ان کی آواز بھرا گئی، کہنے لگے وطن عزیز کی بیورو کریسی جو ظلم مجھ پر کر رہی ہے کیا اس ظلم کو تم بے نقاب نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر قریشی بتا رہے تھے کہ لاہور میں اپنے بھائی کے بہیمانہ قتل کے بعد جوہر ٹائون میں واقع اپنے مکان کو کرایہ پر دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سلسلہ میں اسی محلے میں ہمارے ایک ہمسائے ایڈیشنل جج صفدر بھٹی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مکان ان کے ایک قریبی رشتہ دار کو دیا جائے۔ ہمسائیگی کا خیال رکھتے ہوئے میرے بھائی نے کرایہ نامہ کے تحت مکان اس جج کے رشتہ دار کو دے دیا۔ چند ماہ بعد مکان سے بجلی میٹر چوری کر لیا گیا، رپورٹ کروائی اور پھر وہاں 9 نمبر کا میٹر لگا دیا گیا۔ ہمیں یہ ہرگز معلوم نہ تھا کہ یہ ایڈیشنل سیشن جج مبینہ طور پر ایک کرپٹ جج ہے جو قبضہ گروپوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ بنیادی طور پر میرے مکان پر دھوکہ دہی سے قبضہ کرنا اس جج کا مقصد تھا، اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے اب اس نے پولیس کے ذریعے دھمکیاں دینے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ ملزمان کو مقدمہ سماعت کے دوران حاضر بھی نہیں ہونے دے رہا اس لئے میں نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست نمبر E4354 دائر کر دی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شفقت چوہان، مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر سینیٹر ظفر علی شاہ، پاکستان کے برطانیہ میں سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن، یو کے پاکستان لائرز ایسوسی ایشن کے صدر اور پاکستان جرنلسٹ ایسوسی ایشن یو کے کے قانونی مشیر کے علاوہ معروف اینکر مبشر لقمان بھی میرے خلاف ہونے والے ظلم کی آواز بلند کر چکے ہیں۔ مجھے انصاف کی توقع ہے مگر دکھ اس بات کا ہے یہ صفدر بھٹی نامی ایڈیشنل سیشن جج کیا اتنا ہی بااثر ہو چکا ہے جس کے خلاف خادم اعلیٰ پنجاب اور گورنر پنجاب کے احکامات بھی بے بس نظر آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر قریشی تو ایک صحافی ہیں جنہوں نے اپنے دوست احباب اور اعلیٰ عدالتوں تک رسائی حاصل کر لی، اندازہ کیجئے عوام کے اُس طبقے کا جس کے پاس نہ تو کالم نگار دوست، نہ اینکرز، نہ ہائی کمشنر اور نہ ہی ہائی کورٹ تک درخواست دینے کی سکت ہے۔ چودھری قربان ایسا ہی ایک برطانوی پاکستانی ہے جس نے 52 برس تک لندن میں محنت مزدوری کرنے کے بعد ملتان شہر میں اپنا گھر بنایا مگر ایک حکومتی رکن اسمبلی کی اشیرباد سے ایک منظم قبضہ گروپ نے اس پر یہ کہہ کر قبضہ کر لیا کہ جو کرنا ہے کر لو یہ ہمارا مکان ہے۔ ڈاکٹر اختر ملک اسی شہر کی ایک سماجی اور ممتاز سیاسی شخصیت ہیں انہوں نے چودھری قربان کی آنکھوں سے گرے آنسو جب دیکھے تو میدان عمل میں آ گئے۔ مقامی ایم این اے کو اس بزرگ کی پیرانہ سالی کا واسطہ دیا، عدالت کے اس بزرگ کے حق میں دئیے فیصلے کی دستاویز دکھائیں، پُلس کے بھاری بھرکم توندوں والے تھانیداروں کی پُھرتیوں اور دھمکیوں کا جائزہ لیا اور یوں قبضہ گروپ کو اس فیصلے پر قائل کر لیا کہ وہ اس بزرگ کا کوٹھی نما مکان خالی کر دیں۔ معاملہ رفتہ رفتہ رواں دواں ہے مگر سیلوٹ کرتے ہیں ڈاکٹر اختر ملک کو جو واقعی چودھری قربان کیلئے مسیحا کم نہیں۔ کاش ڈاکٹر قریشی کو بھی کوئی ایسا ڈاکٹر اختر ملک مل جائے۔