• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برلن میں ایک ہی عبادت خانے میں مسجد، چرچ اور سیناگوگ

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
برلن میں ایک ہی عبادت خانے میں مسجد، چرچ اور سیناگوگ

جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ایک نئی مذہبی پیش قدمی کے طور پر ایک چھت کے نیچے مسجد، چرچ اور سیناگوگ کی تعمیر کا منصوبہ

برلن کا خیال ہے کہ وہ مذہبی تاریخ رقم کرنے جا رہا ہے کیونکہ وہاں کے مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں نے ایک ایسا عبادت خانہ تعمیر کرنے پر اتفاق کیا ہے جس میں سب عبادت کر سکیں گے۔

اسے ’دی ہاؤس آف ون‘ یعنی بیت الوحدت کا نام دیاگیاہے کیونکہ ایک ہی چھت کے نیچے وہاں بیک وقت مسجد، گرجا اور سیناگوگ (یہودیوں کی عبادت گاہ) ہوں گے۔

اس کے لیے ایک فن تعمیر کا مقابلہ کرایا گیا تھا اور اس کے فاتح کا انتخاب ہو چکا ہے۔ اس فن تعمیر کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اینٹ کی عمارت ہوگی جس میں ایک مربع نما اونچا مرکزی ٹاور ہوگا اور اس سے ملحق صحن میں تینوں مذاہب کے لیے عبادت خانے ہوں گے۔

اس کی تعمیر کے لیے برلن کے قلب میں مشہور مقام پرٹیپلاٹز کو منتخب کیا گیا ہے۔

اس کی تعمیر میں شامل تین مذہبی رہنماؤں میں سے ایک ربی ٹوویا بن کورین کے مطابق یہ مقام اپنے آپ میں بہت ہی اہم ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہودیوں کے نقطۂ نظر سے ایک ایسے شہر میں جہاں یہودیوں کی کلفتوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اب اسی شہر میں تین وحدانی مذاہب کا ایک مرکز قائم ہو رہا ہے جنھوں نے یورپ کی تاريخ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‘

ولفریڈ کوہن کے منصوبے کو اس مثالی عبادت خانے کے لیے منتخب کیا گیا

کیا سب متحد ہوکر اسے جاری رکھ سکتے ہیں؟ اس کے جواب میں انھوں نے کہا: ’ہاں ہم کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ہر برادری میں ایسے لوگ ہیں جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اور یہی ہمارا مسئلہ ہے۔ لیکن آپ کو کہیں نہ کہیں شروعات تو کرنی ہے اور یہی ہم کر رہے ہیں۔‘

اس کی تعمیر میں شامل امام قادر سانسی نے کہا کہ ’بیت الوحدت دنیا کے لیے ایک ایسی علامت اور اشارہ جو یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کی بڑی اکثریت پرتشدد ہونے کے بجائے پرامن ہے۔‘

یہاں اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے پیروکار اتحاد کی علامت کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں

انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک ایسی جگہ ہوگي جہاں مختلف ثقافت کے لوگ ایک دوسرے سے سیکھ سکیں گے۔

ولفریڈ کوہن نے بتایا کہ اس عمارت میں تینوں عبادت خانوں کا سائز برابر ہوگا تاہم اس کا فن تعمیر اور انداز مختلف ہوگا۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہر ایک عبادت خانہ اس کی مذہبی ضرورتوں کے تحت ڈیزائن کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مسجد اور سیناگوگ کے لیے دو منزلہ عمارت ہے جبکہ چرچ کے لیے ایک ہی منزل ہے۔ اور چرچ میں ایک آرگن ہے جبکہ مسجد میں وضو خانہ ہے۔‘

انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ تینوں مذاہب کے عبادت خانوں کے طرز تعمیر کا مطالعہ کیا اور ان میں توقعات سے زیادہ یکسانیت پائیں۔


بیت الوحدت کا منصوبہ​

کوہن نے کہا ’دلچسپ بات یہ ہے کہ جب آپ ماضی میں بہت پہلے جائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ان کی طرز تعمیر میں بہت مماثلتیں ہیں اور وہ آج کی طرح مختلف نہیں ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مثال کے طور پر مسجد کے لیے مینار کا ہونا لازمی نہیں ہے۔ امکان تو ہے لیکن ضرورت نہیں ہے۔ اور چرچ کو ٹاور کی ضرورت نہیں ہے اور یہ ان مذاہب کے شروعاتی دنوں میں جھانکنے سے نظر آتا ہے جب ان کے طرز تعمیر میں بہت مماثلتیں ہوا کرتی تھیں۔‘

ماضی میں مختلف عقیدے کے لوگ ایک ہی عمارت کا استعمال کرتے تھے لیکن عام طور پر ان کے علیحدہ اوقات میں۔ سپین کی مساجدوں کو عیسائیوں کی فتح کے بعد کلیساؤں میں تبدیل کر دیا گیا تھا جبکہ ترکی میں گرجا گھروں کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔

برطانیہ میں ویلش کے گرجا گھر مساجد میں تبدیل ہوگئے جب وہاں کی آبادی میں تبدیلی آئی۔ ایسٹ اینڈ لندن کی برک لین مسجد 18ویں صدی میں ایک کلیسا کے طور پر شروع ہوئی تھی اور پھرسیناگوگ کے طور پر استعمال ہوئی لیکن اب یہ وہاں آنے والی مسلم آبادی کے لیے مسجد ہے۔

تاہم برلن میں ایک چھت کے نیچے تعمیر ہونے والی یہ عبادت گاہیں ان سب سے مختلف ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یہ علاقہ خرابہ تھا

یہ خیال مسیحی برادری کی جانب سے ارکان ثلاثہ کےتحت آیا۔

پیسٹر گریگور ہوہبرگ کا کہنا ہے کہ ’یہ نیا عبادت خانہ اسی مقام پر تعمیر کیا جائے گا جہاں برلن کا پہلا چرچ تھا جو 12ویں صدی عیسوی میں بنایا گیاتھا۔ واضح رہے کہ سینٹ پٹری کا چرچ دوسری جنگ عظیم میں بری طرح تباہ ہو گیا تھا اور جنگ کے بعد بھی وہ اسی تباہ شدہ ملبے کی حالت میں مشرقی جرمنی کے حکام کے زیر اثر رہا۔‘

چھ سال قبل ماہرین آثار قدیمہ نے ایک پرانے قبرستان سے اس کے باقیات تلاش کیے اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کے بارے میں کچھ کیا جانا چاہیے اور عبادت گاہ کو از سر نو بحال کیا جانا چاہیے۔ یہ پروجیکٹ وسیع تر ہوتا گیا اور ایک عقیدے سے اب تین عقیدے کی عبادت گاہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اب اس کے لیے فنڈ اکٹھے کیے جا رہے ہیں تاکہ معمار کا منصوبہ اینٹ اور گارے کا حقیقی روپ دھار سکے۔

سٹیفن ایوانز، برلن: اتوار 22 جون 2014
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
کسی ضرورت کے تحت غیر مسلم کا مسجد میں یا مسلمان کا کنیسہ وغیرہ میں عبادت کر لینا جائز ہو سکتا ہے

لیکن ایک ہی جگہ مستقل تین مذاہب کے عبادت خانے تعمیر کرنا میری رائے میں اس سے وحدت ادیان کے تصور کو فروغ ملتا ہے جو شریعت اسلامی کے بالکل خلاف ہے۔ دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔ یہ تو تین الگ ادیان ہیں۔ ایک ہی دین ومذہب کے مختلف فرقوں کا ایک ہی جگہ میں مستقل طور پر اپنی اپنی طرز پر اپنے اپنے وقت پر عبادت کرنا (جیسا کہ ماضی میں خانہ کعبہ میں چار مصلّے ہوتے تھے) بھی صحیح نہیں۔

ہر مذہب کی عبادت گاہ صرف عبادت گاہ ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک مکمل تبلیغی مرکز ہوتی ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

بیبرس

رکن
شمولیت
جون 24، 2014
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
69
پوائنٹ
43
یقینا یہ وحدت ادیان کو فروغ دینے کی ہی ایک نئی کوشش ہے۔
 
Top