کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
برما
برما میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر دو سال پہلے کا ایک معلوماتی کالم پیش ھے۔
کالم: لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم
21 جون 2013
قدیم سلطنت برما کا جدید نام میانمار ہے۔ یہ ملک علاقے کے لحاظ سے جنوب مشرقی ایشیا کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ بحر ہند کے شمال مشرقی کونے میں واقع دنیا کی اس سب سے کشادہ خلیج کو کہتے ہیں۔ جس کے دلربا مشرقی کنارے کی 1930 کلومیٹر لمبی اور دو سو کلومیٹر گہری ساحلی پٹی برما کیلئے بحر ہند میں تجارت اور بے پناہ سمندری حیات سے مستفید ہونے کے مواقع میسر کرتی ہے۔ برما کی تاریخ کئی ہزار سال پرانی ہے۔ اس ملک میں تیل گیس کے ذخیرے اور قیمتی پتھر بہتات سے ہیں۔
برما کیساتھ 1824 سے 1885 تک تین جنگیں لڑنے کے بعد انگریزوں نے یکم جنوری 1886 کو برما پر قبضہ کر لیا جس کے بعد ہندوستانی سپاہی، سول ملازمین، دستکار اور تاجر پیشہ لوگ ہندوستان سے برما آنا شروع ہو گئے جن میں تقریباً نصف آبادی ہندوستانی مسلمانوں کی تھی۔ انگریزوں نے برما کے سب سے بڑے ساحلی شہر رنگون کو اس ملک کا دارلحکومت بنا دیا۔ برما کے عوام نے، جو زیادہ تر بدھسٹ ہیں، انگریزوں کی لگاتار مزاہمت کی لیکن آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
دوسری جنگ عظیم کی ابتدا میں 1942 میں پہلے جاپان نے برما کو روند ڈالا اسکے بعد جولائی1945 میں انگریزوں نے جوابی کارروائی کر کے برما کو دوبارہ فتح کر لیا جس میں ایک لاکھ پچاس ہزار جاپانی ہلاک ہوئے۔ انگریزوں کے تسلط سے جان چھڑانے کیلئے برمی لگاتار قربانیاں دیتے رہے اور آخر کار 4 جنوری 1948 کو برما ایک آزاد ریاست بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا لیکن بد قسمتی سے اس ملک میں 2 مارچ 1962 سے لیکر آج تک فوجی حکومت ہے۔
آج کے برما میں موجود تقریباً 24 لاکھ مسلمانوں میں سے زیادہ تر ہندوستان ، بنگلہ دیش اور چین سے آئے ہیں۔ کچھ مسلمان مشرقی وسطیٰ سے آکر بھی برما میں رہائش پذیر ہوئے۔ لیکن سب سے پہلا مسلمان جو 1050AD میں برما میں داخل ہوا اس کا نام Byat Wi تھا جسکے بھائی کے دو بیٹوں کو اس لئے قتل کر دیا گیا کہ وہ مذہب اسلام کیخلاف برما کے بادشاہ کے احکامات ماننے سے انکاری تھے۔ یہاں سے برما میں مسلمانوں کا قتال شروع ہوا۔
اسکے بعد جب مغل بادشاہ شاہجہان کے دوسرے بڑے بیٹے شجاع نے اپنے بھائی سے ڈر کر سترویں صدی عیسوی میں برما کے شہر Arakan کا رخ کیا تو وہاں کے بادشاہ Sand Thudama نے تقریباً تمام مسلمانوں کو تہ تیغ کر ڈالا لیکن شاہ شجاع بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ دراصل ہندوستانیوں اور مسلمانوں کیخلاف برمی حقارت کی اصل ابتدا انگریز دور میں ہی پہلی جنگ عظیم کے بعد ہوئی۔ 1921 میں برما میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 5لاکھ تھی۔ بدھسٹ برمی کی مسلمانوں کیخلاف موجودہ حقارت کا پس منظر کچھ یوں ہے۔
۱) برمی سمجھتے ہیں کہ مغلیہ دور میں ہندوستان میں بسنے والے بدھ مت مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ اس وقت کے مسلمان حکمرانوں نے اچھا سلوک نہیں کیا ۔
۲) بھارتی مسلمان برما میں جائیدادوں اور ملازمتوں پر قابض ہو کر برمیوں کا حق مار ہے ہیں۔
۳) پیشہ ورانہ تعصب کی وجہ سے برمی بدھسٹ مسلمانوں کیخلاف ہیں۔
۴) 1930 کے معاشی بحران نے برما میں لوگوں کی مالی حالت دگرگوں کی تو زبردست خونی Anti Indian بلوے ہوئے۔
۵) 1938 کے مسلم کش فسادات میں بھی متعصب برمی بدھسٹ کا نعرہ تھا ©
"برما صرف برمی لوگوں کیلئے ہے "
۶) 1962 میں جب فوجی ڈکٹیٹر جنرل Ne Win نے حکومت سنبھالی تو مسلمانوں کو فوج سے نکال دیا گیا جس سے مزید نفرتوں نے جنم لیا۔
۷) انڈونیشیا میں جب مسلمانوں کے انتہا پسند گروپوں نے کارروائیاں کیں تو اس کا خمیازہ بھی برما میں مسلم اقلیت کو بھگتنا پڑا ۔
۸) افغانستان میں طالبان حکومت کے دوران جب بامیان میں بدھا کی عبادت گاہ اور بتوں کو توڑا گیا تو برمی بدھ مت کے مانکس نے برما میں Han Tha مسجد تباہ کرنے کا حکم دیا جسے زمین بوس کر دیا گیا۔ اسکے بعد مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں میں جھگڑے نے شدت اختیار کر لی اسکے بعد
1997 میں مسلمانوں کی جانوں، مساجد، کاروباری مراکز اور جائیدادوں پر حملے شروع ہو گئے۔
ان میں 5 مارچ 2013 کو ایک برمی بدھسٹ مانک Shin Thabita مارا گیا جس سے مسلم کش فسادات نے زور پکڑا تو برمی مسلمانوں نے بھاگ کر بنگلہ دیش میں پناہ لی اسکے علاوہ آج بھی ایک لاکھ دس ہزار برمی مسلمان مہاجرین برما۔ تھائی لینڈ سرحد پر 9 کیمپوں میں بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ہیومن رائٹ واچ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برمی حکومت ، بدھ مانکس، سیاست دان اور بیوروکریسی ایک خاص منصوبے کے تحت برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کے جرم میں شریک ہے۔ پچھلے ہفتے وسطی میانمار میں تقریباً 400 بدھسٹ کا مسلمان آبادی پر حملہ اسی مزموم سازش کا حصہ تھا۔ شمال مشرقی برما کے شہر Lashio میں بھی یہی کچھ ہوا۔ مسجدیں شہید کی گئیں، قرآن کریم نذر آتش کئے گئے اور مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔
قارئین ابھی ہمیں سوچنا یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر پاکستان کا موقف کیا ہونا چاہئیے۔ ایک مکتبہ فکر تو یہ کہتا ہے کہ ہمیں صرف اپنے گھر کی فکر ہونی چاہیے۔ انسانیت کیخلاف بین الاقوامی سطح پر کسی بھی ظلم و ستم میں پیش پیش رہنا ہمارے ملکی مفاد میں نہیں۔
دوسرا مکتبہ فکر ہماری توجہ قائد اعظم محمد علی جناح کے فروری 1948میں اس خطاب کیطرف مبذول کرواتا ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مندرجہ ذیل نقاط پر زور دیا تھا۔
۱) دنیا کے تمام ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا اور کسی بھی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہ رکھنا۔
۲) ملکی اور بین الاقوامی سیاسی تعلقات میں دیانتداری اور انصاف پسندی کے اصولوں پر قائم رہنا۔
۳) بین لاقوامی امن کو قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنا۔
۴) دنیا کے (Opressed or Suppressed People) یعنی مظلوم عوام کیلئے اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں مالی اور اخلاقی امداد فراہم کرنا۔
ہمارے آئین کا آرٹیکل 40 بھی اسلامی اتحاد، ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے عوام کے مشترکہ مفادات کی حمائت اور سارے بین الاقوامی جھگڑوں کے پر امن طریقے سے حل کرنے کی بات کرتا ہے۔
اس لئے قائد اعظم کے فرمودات اور پاکستان کے آئین کی روشنی میں ہم برمی مسلمانوں پر ظلم وستم، ان کی نسل کشی، مساجد کی شہادت اور برما میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کی پر زور مذمت کرتے ہیں اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ اس انسانیت سوز کارروائیوں کو روکا جائے۔ ہم اقوام متحدہ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ برما کی حکومت کے اس نسل کشی میں برابر کی شرم ناک شرکت پر ان کی جواب طلبی کرے اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں یہ مسئلہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں اٹھائیں۔ پاکستان سمیت دنیا کی ہر مہذب قوم کو ایسے ظلم و ستم کیخلاف اس لئے آواز اٹھانی چاہیئے کیونکہ ایسی جارحیت کا نشانہ پاکستان سمیت کوئی بھی ملک بن سکتا ہے۔ بین الاقوامی برادری میں اپنے دوستوں کی تعداد بڑھا کر ہی ہم اپنی قومی سلامتی کیخلاف خطرات کو ٹال سکتے ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اٹھنے والے احتجاج کے اہم نقاط میں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم بدھ ازم کو دنیا کا ایک پرامن مذہب سمجھتے ہیں جو مذہب اسلام کی طرح انسانیت کیخلاف مظالم کا بالکل پر چار نہیں کرتا۔ پاکستانیوں سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ٹیکسلا اور قندھارا سے پھوٹنے والی بدھ مت کی قدیم تہذیبوں نے، ہمیشہ انسانی اقدارکا پرچم بلند کیا لیکن برما میں بدھ مانکس کی طرف سے مسلم کش بربریت کی سرپرستی اور برمی حکومت اور اسکی اپوزیشن لیڈر سوچی، اقوام متحدہ، مغربی طاقتوں، OIC اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی خاموشی ناقابل فہم ہے۔ دراصل امریکہ اور مغربی دنیا کے بد قسمتی سے دوہرے معیار ہیں۔ ان کیلئے صرف اور صرف اپنے معاشی مفادات ہی مقدم ہیں جن کے سامنے انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہمیں برمی مسلمانوں کو انصاف دلوانے کیلئے عالمی ضمیر کو ضرور جنجھوڑنا چاہئیے۔
ح
برما میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر دو سال پہلے کا ایک معلوماتی کالم پیش ھے۔
برما کے مسلم کش فسادات اور عالمی ضمیر
کالم: لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم
21 جون 2013
قدیم سلطنت برما کا جدید نام میانمار ہے۔ یہ ملک علاقے کے لحاظ سے جنوب مشرقی ایشیا کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ بحر ہند کے شمال مشرقی کونے میں واقع دنیا کی اس سب سے کشادہ خلیج کو کہتے ہیں۔ جس کے دلربا مشرقی کنارے کی 1930 کلومیٹر لمبی اور دو سو کلومیٹر گہری ساحلی پٹی برما کیلئے بحر ہند میں تجارت اور بے پناہ سمندری حیات سے مستفید ہونے کے مواقع میسر کرتی ہے۔ برما کی تاریخ کئی ہزار سال پرانی ہے۔ اس ملک میں تیل گیس کے ذخیرے اور قیمتی پتھر بہتات سے ہیں۔
برما کیساتھ 1824 سے 1885 تک تین جنگیں لڑنے کے بعد انگریزوں نے یکم جنوری 1886 کو برما پر قبضہ کر لیا جس کے بعد ہندوستانی سپاہی، سول ملازمین، دستکار اور تاجر پیشہ لوگ ہندوستان سے برما آنا شروع ہو گئے جن میں تقریباً نصف آبادی ہندوستانی مسلمانوں کی تھی۔ انگریزوں نے برما کے سب سے بڑے ساحلی شہر رنگون کو اس ملک کا دارلحکومت بنا دیا۔ برما کے عوام نے، جو زیادہ تر بدھسٹ ہیں، انگریزوں کی لگاتار مزاہمت کی لیکن آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
دوسری جنگ عظیم کی ابتدا میں 1942 میں پہلے جاپان نے برما کو روند ڈالا اسکے بعد جولائی1945 میں انگریزوں نے جوابی کارروائی کر کے برما کو دوبارہ فتح کر لیا جس میں ایک لاکھ پچاس ہزار جاپانی ہلاک ہوئے۔ انگریزوں کے تسلط سے جان چھڑانے کیلئے برمی لگاتار قربانیاں دیتے رہے اور آخر کار 4 جنوری 1948 کو برما ایک آزاد ریاست بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا لیکن بد قسمتی سے اس ملک میں 2 مارچ 1962 سے لیکر آج تک فوجی حکومت ہے۔
آج کے برما میں موجود تقریباً 24 لاکھ مسلمانوں میں سے زیادہ تر ہندوستان ، بنگلہ دیش اور چین سے آئے ہیں۔ کچھ مسلمان مشرقی وسطیٰ سے آکر بھی برما میں رہائش پذیر ہوئے۔ لیکن سب سے پہلا مسلمان جو 1050AD میں برما میں داخل ہوا اس کا نام Byat Wi تھا جسکے بھائی کے دو بیٹوں کو اس لئے قتل کر دیا گیا کہ وہ مذہب اسلام کیخلاف برما کے بادشاہ کے احکامات ماننے سے انکاری تھے۔ یہاں سے برما میں مسلمانوں کا قتال شروع ہوا۔
اسکے بعد جب مغل بادشاہ شاہجہان کے دوسرے بڑے بیٹے شجاع نے اپنے بھائی سے ڈر کر سترویں صدی عیسوی میں برما کے شہر Arakan کا رخ کیا تو وہاں کے بادشاہ Sand Thudama نے تقریباً تمام مسلمانوں کو تہ تیغ کر ڈالا لیکن شاہ شجاع بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ دراصل ہندوستانیوں اور مسلمانوں کیخلاف برمی حقارت کی اصل ابتدا انگریز دور میں ہی پہلی جنگ عظیم کے بعد ہوئی۔ 1921 میں برما میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 5لاکھ تھی۔ بدھسٹ برمی کی مسلمانوں کیخلاف موجودہ حقارت کا پس منظر کچھ یوں ہے۔
۱) برمی سمجھتے ہیں کہ مغلیہ دور میں ہندوستان میں بسنے والے بدھ مت مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ اس وقت کے مسلمان حکمرانوں نے اچھا سلوک نہیں کیا ۔
۲) بھارتی مسلمان برما میں جائیدادوں اور ملازمتوں پر قابض ہو کر برمیوں کا حق مار ہے ہیں۔
۳) پیشہ ورانہ تعصب کی وجہ سے برمی بدھسٹ مسلمانوں کیخلاف ہیں۔
۴) 1930 کے معاشی بحران نے برما میں لوگوں کی مالی حالت دگرگوں کی تو زبردست خونی Anti Indian بلوے ہوئے۔
۵) 1938 کے مسلم کش فسادات میں بھی متعصب برمی بدھسٹ کا نعرہ تھا ©
"برما صرف برمی لوگوں کیلئے ہے "
۶) 1962 میں جب فوجی ڈکٹیٹر جنرل Ne Win نے حکومت سنبھالی تو مسلمانوں کو فوج سے نکال دیا گیا جس سے مزید نفرتوں نے جنم لیا۔
۷) انڈونیشیا میں جب مسلمانوں کے انتہا پسند گروپوں نے کارروائیاں کیں تو اس کا خمیازہ بھی برما میں مسلم اقلیت کو بھگتنا پڑا ۔
۸) افغانستان میں طالبان حکومت کے دوران جب بامیان میں بدھا کی عبادت گاہ اور بتوں کو توڑا گیا تو برمی بدھ مت کے مانکس نے برما میں Han Tha مسجد تباہ کرنے کا حکم دیا جسے زمین بوس کر دیا گیا۔ اسکے بعد مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں میں جھگڑے نے شدت اختیار کر لی اسکے بعد
1997 میں مسلمانوں کی جانوں، مساجد، کاروباری مراکز اور جائیدادوں پر حملے شروع ہو گئے۔
ان میں 5 مارچ 2013 کو ایک برمی بدھسٹ مانک Shin Thabita مارا گیا جس سے مسلم کش فسادات نے زور پکڑا تو برمی مسلمانوں نے بھاگ کر بنگلہ دیش میں پناہ لی اسکے علاوہ آج بھی ایک لاکھ دس ہزار برمی مسلمان مہاجرین برما۔ تھائی لینڈ سرحد پر 9 کیمپوں میں بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ہیومن رائٹ واچ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برمی حکومت ، بدھ مانکس، سیاست دان اور بیوروکریسی ایک خاص منصوبے کے تحت برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کے جرم میں شریک ہے۔ پچھلے ہفتے وسطی میانمار میں تقریباً 400 بدھسٹ کا مسلمان آبادی پر حملہ اسی مزموم سازش کا حصہ تھا۔ شمال مشرقی برما کے شہر Lashio میں بھی یہی کچھ ہوا۔ مسجدیں شہید کی گئیں، قرآن کریم نذر آتش کئے گئے اور مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔
قارئین ابھی ہمیں سوچنا یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر پاکستان کا موقف کیا ہونا چاہئیے۔ ایک مکتبہ فکر تو یہ کہتا ہے کہ ہمیں صرف اپنے گھر کی فکر ہونی چاہیے۔ انسانیت کیخلاف بین الاقوامی سطح پر کسی بھی ظلم و ستم میں پیش پیش رہنا ہمارے ملکی مفاد میں نہیں۔
دوسرا مکتبہ فکر ہماری توجہ قائد اعظم محمد علی جناح کے فروری 1948میں اس خطاب کیطرف مبذول کرواتا ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مندرجہ ذیل نقاط پر زور دیا تھا۔
۱) دنیا کے تمام ممالک کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا اور کسی بھی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہ رکھنا۔
۲) ملکی اور بین الاقوامی سیاسی تعلقات میں دیانتداری اور انصاف پسندی کے اصولوں پر قائم رہنا۔
۳) بین لاقوامی امن کو قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنا۔
۴) دنیا کے (Opressed or Suppressed People) یعنی مظلوم عوام کیلئے اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں مالی اور اخلاقی امداد فراہم کرنا۔
ہمارے آئین کا آرٹیکل 40 بھی اسلامی اتحاد، ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے عوام کے مشترکہ مفادات کی حمائت اور سارے بین الاقوامی جھگڑوں کے پر امن طریقے سے حل کرنے کی بات کرتا ہے۔
اس لئے قائد اعظم کے فرمودات اور پاکستان کے آئین کی روشنی میں ہم برمی مسلمانوں پر ظلم وستم، ان کی نسل کشی، مساجد کی شہادت اور برما میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کی پر زور مذمت کرتے ہیں اور بین الاقوامی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ اس انسانیت سوز کارروائیوں کو روکا جائے۔ ہم اقوام متحدہ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ برما کی حکومت کے اس نسل کشی میں برابر کی شرم ناک شرکت پر ان کی جواب طلبی کرے اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں یہ مسئلہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں اٹھائیں۔ پاکستان سمیت دنیا کی ہر مہذب قوم کو ایسے ظلم و ستم کیخلاف اس لئے آواز اٹھانی چاہیئے کیونکہ ایسی جارحیت کا نشانہ پاکستان سمیت کوئی بھی ملک بن سکتا ہے۔ بین الاقوامی برادری میں اپنے دوستوں کی تعداد بڑھا کر ہی ہم اپنی قومی سلامتی کیخلاف خطرات کو ٹال سکتے ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اٹھنے والے احتجاج کے اہم نقاط میں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم بدھ ازم کو دنیا کا ایک پرامن مذہب سمجھتے ہیں جو مذہب اسلام کی طرح انسانیت کیخلاف مظالم کا بالکل پر چار نہیں کرتا۔ پاکستانیوں سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ٹیکسلا اور قندھارا سے پھوٹنے والی بدھ مت کی قدیم تہذیبوں نے، ہمیشہ انسانی اقدارکا پرچم بلند کیا لیکن برما میں بدھ مانکس کی طرف سے مسلم کش بربریت کی سرپرستی اور برمی حکومت اور اسکی اپوزیشن لیڈر سوچی، اقوام متحدہ، مغربی طاقتوں، OIC اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی خاموشی ناقابل فہم ہے۔ دراصل امریکہ اور مغربی دنیا کے بد قسمتی سے دوہرے معیار ہیں۔ ان کیلئے صرف اور صرف اپنے معاشی مفادات ہی مقدم ہیں جن کے سامنے انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں۔ ہمیں برمی مسلمانوں کو انصاف دلوانے کیلئے عالمی ضمیر کو ضرور جنجھوڑنا چاہئیے۔
ح