مجھے اسلام آباد کے پوش ایریے میں ایک کلر فل بینر نظر آیاجس پر’ یوتھ‘ اور’ کشمیر ‘کے الفاظ ساتھ ساتھ پڑھ کے میں بے اختیار گاڑی کو سڑک کی سائیڈ پر کھڑنے پر مجبور ہوگیا تاکہ تفصیل سے اس بینر کو پڑھ سکوں۔ اس بینر پر کشمیر کے لیئے کام کرنے والے کسی یوتھ فورم کی طرف سے اسلام آباد کے رہائشیوں کو ایک کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
کانفرنس اور فورم کا نام مجھے کافی دلچسپ لگا اور مجھے شوق پیدا ہوا کہ میں اس کے بارے میں مزید تفصیلات معلوم کروں، دیئے گئے نمبر پر رابطہ کیا تو ایک مہذب اور نرم لہجہ میرے کانوں میں پڑا اور بولنے والے نوجوان نے انتہائی شستہ اردو میں اپنا تعارف کروانے کے بعد مجھ سے میرا نام پوچھا، میں نے اپنا تعارف کروانے کے بعد اس نوجوان سے کانفرنس کی تفصیلات معلوم کیں اور فورم کے آفس کا ایڈریس معلوم کر کے آفس پرنچ گیا، وہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آفس ورک میں مصروف تھے،ایسے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جنہیں عرفِ عام میں’ ممی ڈیڈی یا برگر‘کہا جاتا ہے۔
فون پر بات کرنے والے نوجوان نے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور میرے سوال پر جب اپنے فورم کے ورک ایریاز پر روشنی ڈالی تو میں حیران رہ گیا اور سوچنے لگا کہ ان برگر بچوں کو کشمیرجیسے سنجیدہ موضوع میں ایسا کیا نظر آیا جو یہ یہاں کام کرنے چلے آئے؟میں دل کی بات زبان پر لایا تو مجھے بتایا گیا کہ ہم کشمیر کو ایک سنجیدہ اور روایتی طریقے سے پیش کر نے کی بجائے امن ومحبت کے ساتھ ایک دلچسپ اور مختلف زاویے سے پاکستان اور کشمیر کی یوتھ اور دنیا کے سامنے لا رہے ہیں کیوں کہ مسئلہ کشمیر کے پیچھے چلے جانے کی وجہ ہی یہی ہے کہ اسے بورنگ اورافسردہ تھیمز کے ساتھ پیش کیا جاتا رہا ہے، مجھے فورم کی تفصیلات پر مشتمل لٹریچر دیا گیا جو میں لے کر واپس آ گیا۔
گھر پہنچ کر میں یہ سوچتا رہا کہ ہمارے معاشرے میں ممی ڈیڈی اور برگر بچوں کے بارے میں کتنا غلط تاثر موجود ہے کہ وہ بس شغل میلہ اورسیر سپاٹا کرنا ہی جانتے ہیں، انہیں انگریزی بولنے اورفیشن کرنے کا کریز ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن وہاں معاملہ الٹ تھا،اتنی پُرجوش یوتھ میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی اور وہ بھی کشمیر جیسے مسئلے کو اجاگر کرنے کیلئے جو خطے کا سب سے اہم مسئلہ ہے،میرا دل یقین سے بھر گیا کہ ایسے نوجوان جس ملک میں ہوں اسے کوئی کسی بھی میدان میں پیچھے کیسے چھوڑ سکتا ہے؟ ایسے نوجوان کسی بھی ملک کا وہ سرمایہ ثابت ہو سکتے ہیں جسے کبھی زوال نہ ہو، بس انہیں مثبت انداز میں استعمال کر نے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس خطے کے سب سے اہم مسئلے میں نوجوانوں کی دلچسپی ایک انتہائی حوصلہ افزاء پہلو ہے، ان کا کام قابلِ ستائش ہے اور ہر نوجوان کو ان کا ساتھ دینا چاہیئے کیوں کہ اس خطے کی ترقی کا راز مسئلہ کشمیر کے حل میں مضمر ہے، ان نوجوانوں کومیرا مشورہ ہے کہ وہ ہندوستان، پاکستان اور آزاد و مقبوضہ کشمیر کی یوتھ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں اور مل کر اس مسئلے کے حل کے لیئے کام کریں کیونکہ ہم پرلے ہی چار جنگیں لڑ چکے ہیں اور اب خطہ مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا، مسئلہ کشمیر ایک ایٹمی جنگ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
مسئلہ کشمیر کا حل شملہ معاہدے سے ہو یا اقوام متحدہ میں پیش کردہ قرارداد سے ، دونوں ملکوں کو سنجیدگی اورصبر سے کام لینا ہوگا اور کسی نہ کسی معاملے میں لچک دکھانے کی ضرورت ضرور پیش آئے گی ، ہندوستان، پاکستان اور آزاد و مقبوضہ کشمیر کی یوتھ کو اس وقت آگے بڑھ کر اس طرح کی کانفرنسوں اور سیمینارز کا انعقاد کروانے کی ضرورت ہے جو دونوں حکومتوں کو امن واستحکام اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ابھارے اور ان پر مسئلے کے حل کیلئے دباؤ ڈالے تاکہ دونوں طرف سے سنجیدہ کوششوں کی شروعات ہو سکیں۔
موجودہ پاکستانی حکومت کے اقدامات قابلِ ستائش ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو بھی لائن آف کنٹرول پر فائرنگ بند کرہوئے مسئلے کو مذاکرات کی ٹیبل پر آنا ہوگا اور میری ناقص رائے میں یہی ایک حل ہے جو خطے کے معاملات کی بہتری کا بھی سبب بن سکتاہے ۔
تحریر محمد حسان