محمد طالب حسین
رکن
- شمولیت
- فروری 06، 2013
- پیغامات
- 156
- ری ایکشن اسکور
- 93
- پوائنٹ
- 85
بریلویت۔
تاریخ و بانی۔
بریلویت پاکستان میں پائے جانے والے احناف کے مختلف مکاتب فکر میں سے ایک مکتب فکر ہے۔
بریلوی حضرات جن عقائد کےحامل ہیں ، ان کی تاسیس و تنظیم کا کام بریلوی مکتب فکر کے پیرو کاروں کے مجدد جناب احمد رضا بریلوی نے انجام دیا۔
بریلویت کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے۔ ﴿ ملاحظہ ہو دائرة المعارف الاسلامیہ اردو جلد 4 صفحہ 485 مطبوعہ جامعہ پنجاب 1969 ء﴾
جناب احمد رضا ہندو ستان کے صوبے اتر پردیش ﴿ یو-پی ﴾ میں واقع بریلی شہر میں پیدا ہوئے۔ ﴿ دائرة المعارف جلد 4 صفحہ 487 ، اعلی حضرت بریلوی مصنفہ بستوی صفحہ 25 ایضا حیات اعلی حضرت از ظفر الدین بہادی رضوی مطبوعہ کراچی﴾
بریلوی حضرات کے علاوہ احناف کے دوسرے گروہوں میں دیو بندی اور توحیدی قابل ذکر ہیں۔
بریلویت کے موسس و بانی راہنما علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نقی علی اور دادا رضا علی کا شمار احناف کے مشہور علماء میں ہوتا ہے۔ ﴿ تذکرہ علمائے ہند صفحہ 64 ﴾
ان کی پیدائش 14 جون 1865 ء میں ہوئی ۔﴿ حیات اعلی حضرت جلد ا صفحہ 1 ﴾
ان کا نام محمد رکھا گیا ۔ والدہ نے ان کا نام امن میاں رکھا ۔ والد نے احمد میاں اور دادا نے احمد رضا۔ ﴿اعلی حضرت از بستوی صفحہ 25 ﴾
لیکن جناب احمد رضا ان اسماء میں سے کسی پر بھی مطمن نہ ہوئے اور اپنا نام عبدالمصطفی رکھ لیا۔ اور خط و کتابت میں اسی نام کا استعما ل کثرت سے کرتے رہے۔ ﴿ ملاحظہ ہو ،، من ہوا حمد رضا ،، از شجاعت قادری صفحہ 15 ﴾
جناب احمد رضا کا رنگ نہایت سیاہ تھا ۔ ان کے مخالفین انہیں اکثر چہرے کی سیاہی کا طعنہ دیا کرتے تھے۔ ان کے خلاف لکھی جانے والی ایک کتاب کا نام ہی ،، الطین الازب علی الاسود الکاذب ،، یعنی کالے جھوٹے کے چہرے پر چپک جانے والی مٹی رکھا گیا۔﴿ اس کتاب کے مصنف مولانا مرتضی حسن دیوبندی مرحوم ہیں ﴾
اس بات کا اعتراف ان کے بھتیجے نے بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
ابتدائی عمر میں آپ کا رنگ گہرا گندمی تھا ۔ لیکن مسلسل محنت ہائے شاقہ نے آپ کی رنگت کی آب و تاب ختم کر دی تھی۔ ﴿ اعلی حضرت از بستوی صفحہ 60 ﴾
جناب احمد رضا نحیف و نزار تھے ۔ ﴿ حیات اعلی حضرت مصنفہ ظفر الدین بہادی جلد 1 صفحہ 35 ﴾
درد گردہ اور دوسری کمزور کر دینے والی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ ﴿ ملاحظہ ہو مضمون حسنین رضا درج شدہ اعلی حضرت بریلوی صفحہ 20 ﴾
کمر درد کا شکار رہتے ۔ ﴿ بستوی صفحہ 28 ﴾
اسی طرح سر درد اور بخار کی شکایت بھی عموما رہتی ۔ ﴿ ملفوظات اعلی حضرت صفحہ 64 ﴾
ان کی دائیں آنکھ میں نقص تھا ۔ اس میں تکلیف رہتی اور وہ پانی اتر آنے سے بے نور ہوگئی تھی۔ طویل مدت تک اس کا علاج کراتے رہے مگر وہ ٹھیک نہ ہو سکی ۔
﴿ ملفوظات صفحہ 20،21 ﴾
ایک مرتبہ ان کے سامنے کھانا رکھا گیا۔ انہوں نے سالن کھا لیا مگر چپاتیوں کو ہاتھ بھی نہ لگایا ۔ ان کی بیوی نےکہا کہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے نظر ہی نہیں آئیں ۔ حالانکہ وہ سالن کے ساتھ ہی رکھی ہوئی تھیں۔
﴿ انوار رضا صفحہ 360 ﴾
جناب بریلوی نسیان میں مبتلا تھے۔ ان کی یاد داشت کمزور تھی ۔ ایک دفعہ عینک اونچی کر کے ماتھے پر رکھ لی گفتگو کے بعد تلاش کرنے لگے عینک نہ ملی اور بھول گئے کہ عینک ان کے ماتھے پر ہے ۔ کافی دیر پریشان رہے اچانک ان کا ہاتھ ماتھے پر لگا تو عینک ناک پر آکر رک گئی ۔ تب پتہ چلا کہ عینک تو ماتھے پر تھی۔
﴿ حیات اعلی حضرت صفحہ 64 ﴾
بریلوی مکتب فکر کے اعلی حضرت کی وفات 25 صفر 1340 ھ ، بمطابق 1961 ء
68 برس کی عمر میں ہوئی ۔
بریلویت۔
احمد رضا نہایت فحش اور غلیظ زبان استعمال کرتے تھے۔
ایک دفعہ وہ طاعون میں مبتلا ہوئے اور خون کی قے کی۔﴿ حیات اعلی حضرت صفحہ 22 ﴾
بہت تیز مزاج تھے ۔ ﴿ انوار رضا صفحہ 358 ﴾
بہت جلد غصے میں آجاتے ۔ زبان کے مسلے میں بہت غیر محتاط اور لعن طعن کرنے والے تھے ۔ فحش کلمات کا کثرت سے استعمال کرتے ۔ بعض اوقات اس مسلے میں حد سے تجاوز کر جاتے اور ایسے کلمات کہتے کہ ان کا صدور صاحب علم و فض سے تو درکنار کسی عام آدمی کے بھی لائق نہ ہوتا ۔
ان کے ایک معتقد بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ آپ مخالفین کے حق میں سخت تند مزاج واقع ہوئے تھے اور اس سلسلے میں شرعی احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھتے تھے۔ ﴿ مقدمہ مقالات رضا از کو کب صفحہ 30 مطبوعہ لاہور ﴾
یہی وجہ تھی کہ لوگ ان سے متنفر ہونا شروع ہوگئے ۔ بہت سے ان کے مخلص دوست بھی ان کی اس عادت کے باعث ان سے دور ہوتے چلے گئے ۔ ان میں سے مولوی محمد یسین بھی ہیں جو مدرسہ اشاعتہ العلوم کے مدیر تھے اور جنہیں جناب احمد رضا اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے وہ بھی ان سے علیحدہ ہو گئے۔
﴿ حیات اعلی حضرت صفحہ 211 ﴾
اس پر مستزادیہ کہ مدرسہ مصباھ التہذیب جو ان کے والد نے بنوایا تھا وہ ن کی ترش روی سخت مزاجی بذات لسانی اور مسلمانوں کی تکفیر کی وجہ سے ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا اور اس کے منتظمین ان سے کنارہ کشی اختیار کر وہابیوں سے جا ملے ۔ اور حالت یہ ہو گئی تھی کہ بریلویت کے مرکز میں احمد رضا صاحب کی حمایت میں کوئی مدرسہ باقی نہ رہا۔ باوجود یہ کہ بریلویوں کے اعلی حضرت وہاں اپنی تمام تر سر گرمیوں سمیت موجود تھے۔
﴿ حیات اعلی حضرت صفحہ 211 ﴾
احمد رضا بریلوی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں ۔
کفر پارٹی وہابیہ کا بزرگ ابلیس لعین ۔۔۔۔ خبیثو تم کافر ٹھہر چکے ہو۔ ابلیس کے مسخرے دجال کے گدھے ۔۔۔ ارے منافقو ۔۔۔ وہابیہ کی پوچ ذلیل عمارت قارون کی طرح تحت لثری پہنچی نجدیت کے کوے سسکتے وہابیت کے بوم بلکتے اور مذبوح گستاخ بھڑکتے ۔ ﴿ خالص الاعتقاد صفحہ 2تا 20 ﴾
شاہ اسمعیل شہید کے متعلق فرماتے ہیں۔
سرکش طاغی شیطان لعین بندہ داغی ﴿ الامن و العلی صفحہ 112 ﴾
فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں۔
غیر مقلدین و دیو بند یہ جہنم کے کتے ہیں ۔ رافضیوں ﴿ شیعہ ﴾ کو ان سے بدتر کہنا رافضیوں پر ظلم ور ان کی شان خباثت میں تنقیص ہے۔ ﴿ فتاوی رضویہ جلد 6 صفحہ 90 ﴾
سبحان لسبوح میں ارشاد کرتے ہیں۔
جو شاہ اسمعیل اور نذیر حسین و غیرہ کا معتقد ہو ابلیس کا بندہ جہنم کا کندہ ہے۔ غیر مقلدین سب بے دین پکے شیاطین پورے ملاعین ہیں۔ ﴿ سبحان السبوح صفحہ 134 ﴾
بریلویت
احمد رضا کی ذہانت و فراست۔
جہاں تک بریلوی حضرات کا تعلق ہے تو وہ دوسرے باطل فرقوں کی مانند اپنے امام و قائد کے فضائل و مناقب بیان کرتے وقت بہت سی جھوٹی حکایات اور خود ساختہ کہانیوں کا سہارا لیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ بریلوی حضرات اس بات کا بلکل خیال نہیں کرتے کہ جھوٹ کسی کی قدر و منزلت میں اضافے کی بجائے اس کی تذلیل اور استہزا ء کا باعث ہوتا ہے۔
چنانچہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ۔
آپ کی ذہانت و فراست کا یہ عالم تھا کہ چار برس کی مختصر سی عمر میں جس میں عموما دوسرے بچے اپنے وجود سے بھی بے خبر ہوتے ہیں قرآن مجید ناظرہ ختم کر لیا۔
آپ کی رسم بسم اللہ خوانی کے وقت ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے لوگوں کو دریائے حیرت و استعجاب میں ڈال دیا۔ حضور کے استاد محترم نےآپ کو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھانے کے بعد الف، با، تا، ثا، پڑھاتے جب لام الف ﴿ لا﴾ کی نوبت آئی تو آپ نے خاموشی اختیار فرمالی۔ استاد نے دوبارہ کہا کہ کہو میاں لام الف ۔ حضور نے فرمایا کہ یہ دونوں تو پڑھ چکے پھر دوبارہ کیوں ؟
اس وقت آپ کے جد امجد مولانا رضاعلی خان صاحب قدس سرہ لعزیز نے فرمایا بیٹا استاد کا کہا مانو۔
حضور نے ان کی طرف نظر کی۔ جد امجد نے اپنی فراست ایمانی سے سمجھ لیا کہ بچے کو شبہ ہے کہ یہ حروف مفردہ کا بیان ہے۔ اب اس میں ایک لفظ مرکب کیوں آیا؟
اگرچہ بچے کی عمر کے اعتبار سے اس راز کو منکشف کرنا مناسب نہ تھا مگر حضرت جد امجد نے خیال فرمایا کہ یہ بچہ آگے چل کر آفتاب علم و حکمت بن کر افق عالم پر تجلی ریز ہونے ولا ہے ابھی سے اسرار ونکات کے پردے اس کی نگاہ و دل پر سے ہٹا دیئے جائیں ۔ چنانچہ فرمایا۔ بیٹا تمہار خیال بجا و درست ہے لیکن پہلے جو حرف الف پڑھ چکے ہو وہ دراصل ہمزہ ہے اور یہ الف ہے۔ لیکن الف ہمیشہ ساکن ہوتا ہے اور ساکن کے ساتھ چونکہ ابتداءنا ممکن ہے اس لیے ایک حرف یعنی لام اول میں لا کر اس کی ادائیگی مقصود ہے۔ حضور نے اس کے جواب میں کہا تو کوئی بھی حرف ملا دینا کافی تھا لام ہی کی کیا خصوصیت ہے ؟ با، تا دال اور سین بھی شروع میں لاسکتے تھے۔
جد امجد علیہ الرحمہ نے انہتائی جوش محبت میں آپ کو گلے لیا اور دل سے بہت سی دعائیں دیں ۔ پھر فرمایا کہ لام اور الف میں صورتاً خاص مناسبت ہے ۔ اور ظاہر اً لکھنے میں بھی دونوں کی صورت ایک ہی ہے ۔لا یا لا اور سیرة اس وجہ سے کہ لام کا قلب الف ہے اور الف کا قلب لام ۔
﴿ البریلوی از بستوی صفحہ 26،27 ۔ انوار رضا صفحہ 355 ﴾
اس بےمعنی عبارت کو ملاحظہ فرمایئے ۔ اندازہ لگائیں کہ بریلوی حضرات چار برس کی عمر میں اپنے اعلی حضرت کی ذہانت و فراست بیان کرنے میں کسی قسم کے علم کلام کا سہارا لے رہے ہیں اور لغو قسم کے قواعد و ضوابط کو بنیاد بنا کر ان کے ذریعے سے اپنے امام کی علمیت ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خود اہل زبان عرب میں سے تو کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس لا یعنی قاعدے کو پہچان سکے اور اس کی وضاحت کر سکے ۔ لیکن ان عجمیوں نے الف اور لام کے درمیان صورت و سیرت کے لحاظ سے مناسبت کو پہچان کر اس کی وضاحت کر دی۔
بریلوی قوم اپنے امام کو انبیاء ورسل سے تشبیہ ہی نہیں بلکہ ان پر افضیلت دینا چاہتی ہے۔
اور یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ ان کے امام و قائد کو کسی کی طرف سے تعلیم دینے کی ضرورت نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا سینہ علوم و معارف کا مرکز و مہبط بن چکا تھا اور تمام علوم انہیں وہبی طور پر عطا کیے جا چکے تھے ۔ اس امر کی وضاحت نسیم بستوی کی اس نص سے بھی ہو جاتی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں۔
عالم الغیب نے آپ کا مبارک سینہ علوم و معارف کا گنجینہ اور ذہن و دماغ و قلب و روح کو ایمان و یقین کے مقدس فکر و شعور اور پاکیزہ احساس و تخیل سے لبریز فرمادیا تھا۔ لیکن چونکہ ہر انسان کا عالم اسباب سے بھی کسی نہ کسی نہج سے رابطہ استوار ہوتا ہے اس لیے بظاہر اعلی حضرت رضی اللہ عنہ ﴿ معاذ اللہ ﴾ کو بھی عالم اسباب کی راہوں پر چلنا پڑا۔﴿ انوار رضا صفحہ 355 بستوی صفحہ 27 ﴾
یعنی ظاہر طور پر تو جناب احمد رضا صاحب نے اپنے اساتذہ سے اکتساب علم کیامگر حقیقی طور پر وہ ان کی تعلیم کے محتاج نہ تھے کیونکہ ان کا معلم و مربی خود رب کریم تھا۔ جناب بریلوی خود اپنے متعلق لکھتے ہیں ۔
درد سر اور بخار وہ مبارک امراض ہیں جو انبیاء علیہم السلام کو ہوتے ہیں۔ ﴿ انوار رضا صفحہ 26 ﴾
آگے چل کر لکھتے ہیں الحمد اللہ
مجھے اکثر حرارت اور درد سر رہتا ہے۔
﴿ ا ملفوظات جلد 1 صفحہ 64 ﴾
جناب احمد رضا تاثر یہ دینا چاہتے ہیں کہ ان کی جسمانی کیفیت انبیاء کرام سے مشابہت رکھتی ہے ۔ اپنی تقدیس ثابت کرنے کے لیے ایک جگہ فرماتے ہیں۔
میری تاریخ ولادت ابجدی حساب سے قرآن کریم کی اس آیت سے نکلتی ہے جس میں ارشاد ہے۔
یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی روحانی تائید فرمادی ہے۔
﴿ حیات اعلی حضرت از بہاری ص 1 ﴾
نیز ان کے بارے میں ان کے پیرو کاروں نے لکھا ہے۔
آپ کے استاد محترم کسی آیہ کریمہ میں باربار زبر بتارہے تھے اور آپ زیر پڑھتے تھے۔ یہ کیفیت دیکھ کر حضور کے جد امجد رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا اور کلام مجید منگوا کر دیکھا تو اس میں کاتب کی غلطی سے اعراب غلط لکھا گیا تھا ۔ یعنی جو زیر حضور سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمتہ کی زبان حق ترجمان سے نکلتا ہے وہی صحیح اور درست تھا ۔ پھر جد امجد نے آپ سے فرمایا کہ مولوی صاحب جس طرح بتاتے تھے اس طرح کیوں نہیں پڑھتے تھے ؟ عرض کی کہ میں ارادہ کرتا تھا کہ جس طرح بتاتے ہیں اسی کے مطابق پڑھوں مگر زبان پر قابو نہ پاتا تھا ۔
﴿ بستوی صفحہ 28 ، ایضا حیات اعلی حضرت صفحہ 22 ﴾
نتیجہ یہ نکلا کہ اعلی حضرت صاحب کو بچپن سے ہی عصمت عن الخطا ء کا مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ بریلوی حضرات نہ صرف یہ کہ مختلف واقعات بیان کر کے اس قسم کا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ بلکہ وہ اپنے امام و بانی کے متعلق صراحتاً اس عقیدے کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ چنانچہ عبدالحکیم قادری صاحب لکھتے ہیں۔
اعلی حضرت کی قلم و زبان ہر قسم کی لغزش سے محفوظ تھی ۔ اور باوجود یکہ ہر عالم کی کو ئی نہ کوئی لغزش ہوتی ہے مگر اعلی حضرت نے ایک نقطے کی غلطی بھی نہیں کی۔﴿ یاد اعلی حضرت از عبدالحکیم شرف قادری صفحہ 32 ﴾
بریلویت۔
ایک صاحب لکھتے ہیں۔
اعلی حضرت نے اپنی زبان مبارک سے کبھی غیر شرعی لفظ ادا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر قسم کی لغزش سے محفوظ رکھا۔
﴿ مقدمہ الفتاوی ٰ الرضویہ جلد 2 صفحہ 5 از محمد اصغر علوی ﴾
نیز یہ کہ اعلی حضرت بچپن سے ہی غلطیوں سے مبرا تھے ۔ صراط مستقیم کی اتباع آپ کے اندر ودیعت کر دی گئی تھی۔ ﴿ انوار رضا صفحہ 223 ﴾
انوار رضا میں ایک صاحب بڑے برملا انداز میں تحریر فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کی قلم اور زبان کو غلطیوں سے پاک کر دیا تھا۔
﴿ انوار رضا صفحہ 271 ﴾
مزید کہا جاتا ہے۔
اعلی حضرت غوث اعظم کے ہاتھ میں اس طرح تھے جیسے کاتب کے ہاتھ میں قلم اور غوث اعظم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس طرح تھاے جیسے کاتب کےہاتھ میں قلم ۔ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے سوا کچھ ارشاد نہ فرماتے تھے۔﴿ انوار رضا صفحہ 270 ﴾
ایک بریلوی شاعر اپنے اعلی حضرت کے متعلق ارشاد فرماتا ہیں۔
ہے حق کی رضا احمد کی رضا
احمد کی رضا مرضی رضا
یعنی احمد رضا بریلوی﴿باغ فردوس مصنفہ ایوب رضوی صفحہ 7 ﴾
ان کے ایک اور پیرو کار لکھتے ہیں۔
اعلی حضرت کا وجود اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھا۔
﴿ انوار رضا صفحہ 100 ﴾
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا ایک گستاخ اپنے امام و راہنما کے بارے میں کہتا ہے۔
اعلی حضرت کی زیارت نے صحابہ کرام کی زیارت کا شوق کم کر دیا ہے۔
﴿ وصایا شریف صفحہ 24 ﴾
مبالغہ آرائی کرتے وقت عموما عقل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک بریلوی مصنف اس کا مصداق بنتے ہوئے لکھتے ہیں کہہ۔
ساڑھے تین سال کی عمر شریف کے زمانے میں ایک دن اپنی مسجد کے سامنے جلوہ افروز تھے کہ ایک صاحب اہل عرب کےلباس میں تشریف لائے اور آپ سے عربی زبان میں گفتگوفرمائی ۔
آپ نے ﴿ ساڑھے تین برس کی عمر میں ﴾ فصیح عربی میں ان سے کلام کیا اور اس کے بعد ان کی صورت دیکھنے میں نہیں آئی۔
﴿ حیات اعلی حضرت ازبہاری صفحہ 22 ﴾
ایک روز استاد صاحب نے فرمایا ۔ احمد میاں تم آدمی ہو کہ جن ؟ مجھے پڑھاتے ہوئے دیر لگتی ہے لیکن تمہیں یاد کرتے دیر نہیں لگتی ۔
10 برس کی عمر میں ان کے والد جو انہیں پڑھاتے بھی تھے ایک روز کہنے لگے تم مجھ سے پڑھتے نہیں بلکہ پڑھاتے ہو۔ ﴿ مقدمہ فتاوی رضویہ جلد 2 صفحہ 6 ﴾
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کا استاد مرزا غلام قادر بیگ مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا۔ ﴿ بستوی صفحہ 32 ﴾
جناب بستوی صاحب کم سنی میں اپنے امام کے علم و فضل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
14 برس کی عمر میں آ پ سندو دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے ۔ اسی دن رضا عت کے ایک مسئلے کا جواب لکھ کر والد ماجد صاحب قبلہ کی خدمت عالی میں پیش کیا ۔ جواب بلکل درست ﴿ صحیح ﴾ تھا ۔
آپ کے والد ماجد نے آپ کے جواب سےآپ کی ذہانت و فراست کا اندازہ لگا لیا اور اس دن سے فتوی نویسی کاکام آپ کے سپرد کر دیا۔
اس سے پہلے آٹھ سال کی عمر مبارک میں آپ نے ایک مسئلہ وراثت کا جواب تحریر فرمایا۔
واقعہ یہ ہوا کی والد ماجد باہر گاوں میں تشریف فرما تھے۔
کہیں سے سوال آیا آپ نے اس کا جواب لکھا اور والد صاحب کی واپسی پر ان کو دکھایا ۔ جسے دیکھ کر ارشاد ہوا معلوم ہوتا ہے ی مسئلہ امن میاں ﴿ اعلی حضرت ﴾ نے لکھا ہے ۔ ان کو ابھی نہ لکھنا چاہئے ۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ہمیں اس جیسا مسئلہ کوئی بڑا لکھ کر دکھائے تو جانیں۔
﴿ اعلی حضرت بریلوی صفحہ 32 ﴾
اس نص سے ثابت ہوتا ہے کہ اعلی حضرت صاحب نےآٹھ برس کی عمر میں فتوی نویسی کا آغاز کر دیا تھا ۔ مگر خود اعلی حضرت فرماتے ہیں ۔
سب سے پہلا فتوی میں نے 1286 ھ میں لکھا تھا جب میری عمر 13 برس تھی۔ اور اسی تاریخ کو مجھ پر نماز اور دوسرے احکام فرض ہوئے تھے۔
﴿ من ہوا حمد رضا از قادری صفحہ 17 ﴿ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں نماز دس برس کی عمر میں فرض ہے اور جناب احمد رضا پر نماز13 برس کی عمر می فرض ہوئی ﴾
اس سے بھی زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ بریلوی حضرات کا یہ دعوی ہے کہ جناب احمد رضا بریلوی صاحب نے 14 برس کی عمر میں ہی تعلیم مکمل کر کے سند فراغت حاصل کر لی تھی۔ ﴿ ملاحظہ ہو حیات اعلی حضرت از بہار صفحہ 33 ۔ انوار رضا صفحہ 357 ﴾
مگر کئی مقامات پر خود ہی اس کی تردید بھی کر جاتے ہیں ۔ چنانچہ حیات اعلی حضرت کے مصنف ظفرالدین بہاری لکھتے ہیں۔
اعلی حضرت نے مولانا عبدالحق خیر آبادی سے منطقی علوم سیکھنا چاہے لیکن وہ انہیں پڑھانے پر راضی نہ ہوئے ۔ اس کی وجہ یہ بیان کی کہ احمد رضا مخالفین کے خلاف نہایت سخت زبان استعمال کرنے کے عادی ہیں۔
﴿ بہاری صفحہ 33 انوار رضا صفحہ 357 ﴾
بستوی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ان کی عمر 20 برس تھی ۔﴿ نسیم بستوی صفحہ 35 ﴾
اسی طرح بریلوی صاحب کے ایک معتقد لکھتے ہیں۔
اعلی حضرت نے سید آل رسول شاہ کے سامنے 1294 ھ میں شرف تلمذ طے کیا اور ان سے حدیث اور دوسرے علوم میں سند اجازت لی۔
﴿ انوار رضا صفحہ 356 ﴾
ظفر بہاری صاحب کہتے ہیں ۔
آپ نے سید آل رسول شاہ کے بیٹے ابو الحسین احمد سے 1296 ھ میں بعض علوم حاصل کیے۔﴿ حیات اعلی حضرت صفحہ 34،35 ﴾
بہر حال ایک طرف تو بریلوی حضرات یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ احمد رضا 13 برس یا 14 برس کی عمر میں ہی تمام علوم سے فارغ ہو چکے تھے دوسری طرف بے خیالی میں اس کی تکذیب بھی کر رہے ہیں۔ اب کسے نہیں معلوم کہ 1272 ھ یعنی احمد رضا صاحب کی تاریخ پیدائش اور 1296 ھ میں بھی بعض علوم حاصل کیے ہوں تو 14 برس کی عمر میں سند فراغت کے حصول کا کیا معنی ہے ؟
مگر بہت دیر پہلے کسی نے کہہ دیا تھا ،، لاذاکرة لکذاب،، یعنی ،، دروغ گورا حافظہ نباشد۔ ﴿ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا﴾
بریلویت
خاندان
جناب احمد رضا کے خاندان کے متعلق صرف اتنا ہی معلوم ہو سکا ہے کہ ان کے والد اور دادا کاشمار احناف کے علماء میں ہوتا ہے۔
البتہ جناب بریلوی صاحب کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ ان کا تعلق شیعہ خاندان سے تھا ۔ انہوں نے ساری عمر تقیہ کیے رکھا اور اپنی اصلیت ظاہر نہ ہونے دی تاکہ وہ اہل سنت کے درمیان شیعہ عقائد کو رواج دے سکیں۔
ان کے مخالفین اس کے ثبوت ک لیے جن دلائل کا ذکر کرتے ہیں ان میں سے چند ایک یہاں بیان کیے جاتے ہیں۔
1۔ جناب احمد رضا کے آباو اجداد کے نام شیعہ اسماء سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ ان کا شجرہ نسب ہے۔
احمد رضا بن نقی علی بن رضا علی بن کا ظم علی۔ ﴿حیات اعلی حضرت صفحہ 2 ﴾
2۔ بریلویوں کے اعلی حضرت نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف نازیبا کلمات کہے ہیں۔ عقیدہ اہلسنت سے وا بستہ کوئی شخص ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ اپنے ایک قصیدے میں لکھا۔
تنگ و چست ان کا لباس اور وہ جو بن کا ابھار
مسکی جاتی ہے قبا سر سے کمر تک لے کر
یہ پھٹا پڑھتا ہے جوبن مرے دل کی صورت
کہ ہوئے جاتے ہیں جامہ سے بروں سینہ و بر
﴿ نعوذ باللہ ﴾
﴿ حدائق بخشش جلد 3 صفحہ 23 ﴾
3۔ انہوں نے مسلمانوں میں شعیہ مذہب سے ماخوذ عقائد کی نشرو اشاعت میں بھر پور کردار ادا کیا۔﴿ فتاوی بریلویہ صفحہ 14 ﴾
کوئی ظاہری شیعہ اپنے اس مقصد میں اتنا کامیاب نہ ہوتا جتنی کامیابی احمد رضا صاحب کو اس سلسلے میں تقیہ کے لبادے میں حاصل ہوئی ۔ انہون نے اپنے تشیع پر پردہ ڈالنے کےلیے چند ایسے رسالے بھی تحیریر کیے جن میں بظاہر شیعہ مذہب کی مخالفت اور اہل سنت کی تائید پائی جاتی ہے۔ شیعہ تقیہ کا یہی مفہوم ہےجس کا تقاضا انہوں نے کماحقہ ادا کیا۔
4۔ جناب احمد رضا صاحب نے اپنی تصنیفات میں ایسی روایات کا ذکر کثرت سے کیا ہے جو خالصتاً شیعی روایات ہیں اور ان کا عقیدہ اہل سنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔مثلاً
1۔ ان علیا قسیم النار۔
2۔ ان فاطمة سمیت بفاطمة لا ن اللہ فطمھا و ذریتھا من النار۔
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ قیامت کے روز جہنم تقسیم کریں گے۔ ﴿ الامن والعلی مصنفہ احمد رضا بریلوی صفحہ 58 ﴾
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نام فاطمہ اس لیے رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کی اولاد کو جہنم سے آزاد کر دیا ہے۔﴿ ختم نبوت از احمد رضا صفحہ 98 ﴾
3۔ شعیہ کے اماموں کو تقدیس کا درجہ دینے کے لیے انہوں نے یہ عقیدہ وضع کیا ہےکہ اغواث ﴿ جمع غوث ، یعنی مخلوقات کی فریاد رسی کرنے والے ﴾ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوتے ہوئے حسن عسکری تک پہنچتے ہیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے وہی ترتیب ملحوظ رکھی جو شیعہ کے اماموں کی ہے۔ ﴿ ملفوظات صفحہ 115 ﴾
4۔ احمد رضا نے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مشکل کشا قرار دیا اور کہا۔
جو شخص مشہور دعائے سیفی ﴿ جو شیعہ عقیدے کی عکاسی کرتی ہے۔﴾ پڑھے اس کی مشکل حل ہو جاتی ہے۔
دعائے سیفی درج ذیل ہے۔
ناد علیا مظھر العجائب
تجدہ عونا لک فی النوائب
کل ھم و غم سینجلی
بولا یتک یا علی یا علی۔
یعنی حضرت علی کو پکارو جن سے عجائبات کا ظہور ہوتا ہے۔ تم انہیں مدد گا ر پاو گے ۔ اے علی آپ کی ولایت کے طفیل تمام پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں۔ ﴿ الامن والعلی صفحہ 12،13 ﴾
5۔ اسی طرح انہوں نے پنجتن پاک کی اصطلاح کو عام کیا اور اس شعر کو رواج دیا۔
لی حمسة اطفی بھا حرالوباء الحاطمة
المصطفیٰ المرتضیٰ و ابناھما و الفاطمة
یعنی پانچ ہستیاں ایسی ہیں جو اپنی برکت سے میری امراض کو دور کرتی ہیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، علی رضی اللہ عنہ ، حسن ، حسین ، فاطمہ رضی اللہ عنہا۔﴿ فتاوی رضویہ جلد 6 صفحہ 187 ﴾
6۔ انہوں نے شیعہ عقیدے کی عکاسی کرنے ولی اصطلاح ،، جفر،، کی تائید کرتے ہوئے اپنی کتاب خالص الاعتقاد میں لکھاہے۔
جفر چمڑے کی ایک ایسی کتاب ہے جو امام جعفر صادق نے اہل بیت کےلیے لکھی ۔ اس میں تمام ضرورت کی اشیا ء درج کردی ہیں ۔ اس طرح اس میں قیامت تک
رونما ہونے والے تمام واقعات بھی درج ہیں۔ ﴿ خالص الاعتقاد از احمد رضا صفحہ 48 ﴾
7۔ اسی طرح شیعہ اصطلاح الجامتعہ کا بھی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
الجامعتہ ایک اسیا صحیفہ ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تمام واقعات عالم کو حروف کی ترتیب کےساتھ لکھ دیا ہے۔ آپ کی اولاد میں سے تمام ائمہ امور و واقعات سے باخبر تھے۔ ﴿ خالص الاعتقاد از احمد رضا صفحہ 48 ﴾
جناب بریلوی نے ایک اور شیعہ روایت کو اپنے رسائل میں ذکر کیا ہےکہ امام رضا رضا ﴿ شیعہ کے آٹھویں امام ﴾ سے کہا گیا کہ کوئی ایسی دعاء سکھلا ئیں جو ہم اہل بیت کی قبروں کی زیارت کےوقت پڑھا کریں تو انہون نے جواب دیا کہ قبر کےقریب جا کر چالیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر کہو اسلام علیکم یا اہل البیت ۔ اے اہل بیت میں اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے آپ کو خدکے حضور سفارشی بنا کر پیش کرتا ہوں اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے برات کا اظہارکرتا ہوں۔﴿ حیاة الموات درج شدہ فتاوی رضویہ از احمد رضا بریلوی جلد 4 صفحہ 299 ﴾
یعنی شیعہ کے اماموں کو مسلمانوں کے نزدیک مقدس اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ اہل سنت سے افضل قرار دینے کے لیے انہوں نے اس طرح کی روایات عام کیں۔ حالانکہ اہل تشیع کے اماموں کی ترتریب اور اس طرح کے عقائد کا عقیدہ اہل سنت سے کوئی ناطہ نہیں ہے۔
8۔ جناب احمد رضا شیعہ تعزیہ کو اہل سنت میں مقبول بنانے کے لیے اپنی ایک کتاب میں رقمطراز ہیں۔
تبرک کے لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقبرے کا نمونہ بنا کر گھر کے اندر رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ﴿ رسالہ بدر الانور صفحہ 57 ﴾
اس طرح کی لاتعدا د روایات اور مسائل کاذکر ان کی کتب میں پایا جاتا ہے۔
جناب احمد رضا نے شیعہ کے اماموں پر مبنی سلسلہ کو بھی رواج دیا۔
﴿دیکھیں انوار رضا صفحہ 27 ﴾
بریلویت ۔
عادات اور طرز گفتگو۔
بریلوی اعلیٰ حضرت پان کثرت سے استعمال کرتے تھے حتی کہ رمضان المبارک میں وہ افطار کے بعد صرف پان پر کتفا کرتے ۔﴿ انوار رضا صفحہ 256 ﴾
اسی طرح حقہ بھی پیتے تھے دوسری کھانے پینے کی اشیاء پر حقہ کو ترجیح دیتے ۔ ہمارے ہاں دیہاتیوں اور بازاری قسم کے لوگوں کی طرح آنے جانے والے مہمانوں کی تواضح بھی حقے سے کرتے ۔﴿ حیات اعلیٰ حضرت صفحہ 67 ﴾
مزے کی بات ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا۔
میں حقہ پیتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھتا تاکہ شیطان بھی میرے ساتھ شریک ہوجائے۔﴿ ملفوظات﴾
لوگوں کے پاوں چومنے کی عادت بھی تھی۔ ان کے ایک معتقد راوی ہیں کہ۔ آپ حضرت اشرفی میاں کے پاوں کو بوسہ دیا کرتے تھے۔ ﴿ اذکار حبیب رضا طبع مجلس رضا لاہور صفحہ 24 ﴾
جب کوئی صاحب حج کر کے واپس آتے تو ایک روایت کے مطابق فوراً اس کے پاوں چوم لیتے۔ ﴿ انوار رضا صفحہ 306 ﴾
تاریخ و بانی۔
بریلویت پاکستان میں پائے جانے والے احناف کے مختلف مکاتب فکر میں سے ایک مکتب فکر ہے۔
بریلوی حضرات جن عقائد کےحامل ہیں ، ان کی تاسیس و تنظیم کا کام بریلوی مکتب فکر کے پیرو کاروں کے مجدد جناب احمد رضا بریلوی نے انجام دیا۔
بریلویت کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے۔ ﴿ ملاحظہ ہو دائرة المعارف الاسلامیہ اردو جلد 4 صفحہ 485 مطبوعہ جامعہ پنجاب 1969 ء﴾
جناب احمد رضا ہندو ستان کے صوبے اتر پردیش ﴿ یو-پی ﴾ میں واقع بریلی شہر میں پیدا ہوئے۔ ﴿ دائرة المعارف جلد 4 صفحہ 487 ، اعلی حضرت بریلوی مصنفہ بستوی صفحہ 25 ایضا حیات اعلی حضرت از ظفر الدین بہادی رضوی مطبوعہ کراچی﴾
بریلوی حضرات کے علاوہ احناف کے دوسرے گروہوں میں دیو بندی اور توحیدی قابل ذکر ہیں۔
بریلویت کے موسس و بانی راہنما علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نقی علی اور دادا رضا علی کا شمار احناف کے مشہور علماء میں ہوتا ہے۔ ﴿ تذکرہ علمائے ہند صفحہ 64 ﴾
ان کی پیدائش 14 جون 1865 ء میں ہوئی ۔﴿ حیات اعلی حضرت جلد ا صفحہ 1 ﴾
ان کا نام محمد رکھا گیا ۔ والدہ نے ان کا نام امن میاں رکھا ۔ والد نے احمد میاں اور دادا نے احمد رضا۔ ﴿اعلی حضرت از بستوی صفحہ 25 ﴾
لیکن جناب احمد رضا ان اسماء میں سے کسی پر بھی مطمن نہ ہوئے اور اپنا نام عبدالمصطفی رکھ لیا۔ اور خط و کتابت میں اسی نام کا استعما ل کثرت سے کرتے رہے۔ ﴿ ملاحظہ ہو ،، من ہوا حمد رضا ،، از شجاعت قادری صفحہ 15 ﴾
جناب احمد رضا کا رنگ نہایت سیاہ تھا ۔ ان کے مخالفین انہیں اکثر چہرے کی سیاہی کا طعنہ دیا کرتے تھے۔ ان کے خلاف لکھی جانے والی ایک کتاب کا نام ہی ،، الطین الازب علی الاسود الکاذب ،، یعنی کالے جھوٹے کے چہرے پر چپک جانے والی مٹی رکھا گیا۔﴿ اس کتاب کے مصنف مولانا مرتضی حسن دیوبندی مرحوم ہیں ﴾
اس بات کا اعتراف ان کے بھتیجے نے بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
ابتدائی عمر میں آپ کا رنگ گہرا گندمی تھا ۔ لیکن مسلسل محنت ہائے شاقہ نے آپ کی رنگت کی آب و تاب ختم کر دی تھی۔ ﴿ اعلی حضرت از بستوی صفحہ 60 ﴾
جناب احمد رضا نحیف و نزار تھے ۔ ﴿ حیات اعلی حضرت مصنفہ ظفر الدین بہادی جلد 1 صفحہ 35 ﴾
درد گردہ اور دوسری کمزور کر دینے والی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ ﴿ ملاحظہ ہو مضمون حسنین رضا درج شدہ اعلی حضرت بریلوی صفحہ 20 ﴾
کمر درد کا شکار رہتے ۔ ﴿ بستوی صفحہ 28 ﴾
اسی طرح سر درد اور بخار کی شکایت بھی عموما رہتی ۔ ﴿ ملفوظات اعلی حضرت صفحہ 64 ﴾
ان کی دائیں آنکھ میں نقص تھا ۔ اس میں تکلیف رہتی اور وہ پانی اتر آنے سے بے نور ہوگئی تھی۔ طویل مدت تک اس کا علاج کراتے رہے مگر وہ ٹھیک نہ ہو سکی ۔
﴿ ملفوظات صفحہ 20،21 ﴾
ایک مرتبہ ان کے سامنے کھانا رکھا گیا۔ انہوں نے سالن کھا لیا مگر چپاتیوں کو ہاتھ بھی نہ لگایا ۔ ان کی بیوی نےکہا کہ کیا بات ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے نظر ہی نہیں آئیں ۔ حالانکہ وہ سالن کے ساتھ ہی رکھی ہوئی تھیں۔
﴿ انوار رضا صفحہ 360 ﴾
جناب بریلوی نسیان میں مبتلا تھے۔ ان کی یاد داشت کمزور تھی ۔ ایک دفعہ عینک اونچی کر کے ماتھے پر رکھ لی گفتگو کے بعد تلاش کرنے لگے عینک نہ ملی اور بھول گئے کہ عینک ان کے ماتھے پر ہے ۔ کافی دیر پریشان رہے اچانک ان کا ہاتھ ماتھے پر لگا تو عینک ناک پر آکر رک گئی ۔ تب پتہ چلا کہ عینک تو ماتھے پر تھی۔
﴿ حیات اعلی حضرت صفحہ 64 ﴾
بریلوی مکتب فکر کے اعلی حضرت کی وفات 25 صفر 1340 ھ ، بمطابق 1961 ء
68 برس کی عمر میں ہوئی ۔
بریلویت۔
احمد رضا نہایت فحش اور غلیظ زبان استعمال کرتے تھے۔
ایک دفعہ وہ طاعون میں مبتلا ہوئے اور خون کی قے کی۔﴿ حیات اعلی حضرت صفحہ 22 ﴾
بہت تیز مزاج تھے ۔ ﴿ انوار رضا صفحہ 358 ﴾
بہت جلد غصے میں آجاتے ۔ زبان کے مسلے میں بہت غیر محتاط اور لعن طعن کرنے والے تھے ۔ فحش کلمات کا کثرت سے استعمال کرتے ۔ بعض اوقات اس مسلے میں حد سے تجاوز کر جاتے اور ایسے کلمات کہتے کہ ان کا صدور صاحب علم و فض سے تو درکنار کسی عام آدمی کے بھی لائق نہ ہوتا ۔
ان کے ایک معتقد بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ آپ مخالفین کے حق میں سخت تند مزاج واقع ہوئے تھے اور اس سلسلے میں شرعی احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھتے تھے۔ ﴿ مقدمہ مقالات رضا از کو کب صفحہ 30 مطبوعہ لاہور ﴾
یہی وجہ تھی کہ لوگ ان سے متنفر ہونا شروع ہوگئے ۔ بہت سے ان کے مخلص دوست بھی ان کی اس عادت کے باعث ان سے دور ہوتے چلے گئے ۔ ان میں سے مولوی محمد یسین بھی ہیں جو مدرسہ اشاعتہ العلوم کے مدیر تھے اور جنہیں جناب احمد رضا اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے وہ بھی ان سے علیحدہ ہو گئے۔
﴿ حیات اعلی حضرت صفحہ 211 ﴾
اس پر مستزادیہ کہ مدرسہ مصباھ التہذیب جو ان کے والد نے بنوایا تھا وہ ن کی ترش روی سخت مزاجی بذات لسانی اور مسلمانوں کی تکفیر کی وجہ سے ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا اور اس کے منتظمین ان سے کنارہ کشی اختیار کر وہابیوں سے جا ملے ۔ اور حالت یہ ہو گئی تھی کہ بریلویت کے مرکز میں احمد رضا صاحب کی حمایت میں کوئی مدرسہ باقی نہ رہا۔ باوجود یہ کہ بریلویوں کے اعلی حضرت وہاں اپنی تمام تر سر گرمیوں سمیت موجود تھے۔
﴿ حیات اعلی حضرت صفحہ 211 ﴾
احمد رضا بریلوی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں ۔
کفر پارٹی وہابیہ کا بزرگ ابلیس لعین ۔۔۔۔ خبیثو تم کافر ٹھہر چکے ہو۔ ابلیس کے مسخرے دجال کے گدھے ۔۔۔ ارے منافقو ۔۔۔ وہابیہ کی پوچ ذلیل عمارت قارون کی طرح تحت لثری پہنچی نجدیت کے کوے سسکتے وہابیت کے بوم بلکتے اور مذبوح گستاخ بھڑکتے ۔ ﴿ خالص الاعتقاد صفحہ 2تا 20 ﴾
شاہ اسمعیل شہید کے متعلق فرماتے ہیں۔
سرکش طاغی شیطان لعین بندہ داغی ﴿ الامن و العلی صفحہ 112 ﴾
فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں۔
غیر مقلدین و دیو بند یہ جہنم کے کتے ہیں ۔ رافضیوں ﴿ شیعہ ﴾ کو ان سے بدتر کہنا رافضیوں پر ظلم ور ان کی شان خباثت میں تنقیص ہے۔ ﴿ فتاوی رضویہ جلد 6 صفحہ 90 ﴾
سبحان لسبوح میں ارشاد کرتے ہیں۔
جو شاہ اسمعیل اور نذیر حسین و غیرہ کا معتقد ہو ابلیس کا بندہ جہنم کا کندہ ہے۔ غیر مقلدین سب بے دین پکے شیاطین پورے ملاعین ہیں۔ ﴿ سبحان السبوح صفحہ 134 ﴾
بریلویت
احمد رضا کی ذہانت و فراست۔
جہاں تک بریلوی حضرات کا تعلق ہے تو وہ دوسرے باطل فرقوں کی مانند اپنے امام و قائد کے فضائل و مناقب بیان کرتے وقت بہت سی جھوٹی حکایات اور خود ساختہ کہانیوں کا سہارا لیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ بریلوی حضرات اس بات کا بلکل خیال نہیں کرتے کہ جھوٹ کسی کی قدر و منزلت میں اضافے کی بجائے اس کی تذلیل اور استہزا ء کا باعث ہوتا ہے۔
چنانچہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ۔
آپ کی ذہانت و فراست کا یہ عالم تھا کہ چار برس کی مختصر سی عمر میں جس میں عموما دوسرے بچے اپنے وجود سے بھی بے خبر ہوتے ہیں قرآن مجید ناظرہ ختم کر لیا۔
آپ کی رسم بسم اللہ خوانی کے وقت ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے لوگوں کو دریائے حیرت و استعجاب میں ڈال دیا۔ حضور کے استاد محترم نےآپ کو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھانے کے بعد الف، با، تا، ثا، پڑھاتے جب لام الف ﴿ لا﴾ کی نوبت آئی تو آپ نے خاموشی اختیار فرمالی۔ استاد نے دوبارہ کہا کہ کہو میاں لام الف ۔ حضور نے فرمایا کہ یہ دونوں تو پڑھ چکے پھر دوبارہ کیوں ؟
اس وقت آپ کے جد امجد مولانا رضاعلی خان صاحب قدس سرہ لعزیز نے فرمایا بیٹا استاد کا کہا مانو۔
حضور نے ان کی طرف نظر کی۔ جد امجد نے اپنی فراست ایمانی سے سمجھ لیا کہ بچے کو شبہ ہے کہ یہ حروف مفردہ کا بیان ہے۔ اب اس میں ایک لفظ مرکب کیوں آیا؟
اگرچہ بچے کی عمر کے اعتبار سے اس راز کو منکشف کرنا مناسب نہ تھا مگر حضرت جد امجد نے خیال فرمایا کہ یہ بچہ آگے چل کر آفتاب علم و حکمت بن کر افق عالم پر تجلی ریز ہونے ولا ہے ابھی سے اسرار ونکات کے پردے اس کی نگاہ و دل پر سے ہٹا دیئے جائیں ۔ چنانچہ فرمایا۔ بیٹا تمہار خیال بجا و درست ہے لیکن پہلے جو حرف الف پڑھ چکے ہو وہ دراصل ہمزہ ہے اور یہ الف ہے۔ لیکن الف ہمیشہ ساکن ہوتا ہے اور ساکن کے ساتھ چونکہ ابتداءنا ممکن ہے اس لیے ایک حرف یعنی لام اول میں لا کر اس کی ادائیگی مقصود ہے۔ حضور نے اس کے جواب میں کہا تو کوئی بھی حرف ملا دینا کافی تھا لام ہی کی کیا خصوصیت ہے ؟ با، تا دال اور سین بھی شروع میں لاسکتے تھے۔
جد امجد علیہ الرحمہ نے انہتائی جوش محبت میں آپ کو گلے لیا اور دل سے بہت سی دعائیں دیں ۔ پھر فرمایا کہ لام اور الف میں صورتاً خاص مناسبت ہے ۔ اور ظاہر اً لکھنے میں بھی دونوں کی صورت ایک ہی ہے ۔لا یا لا اور سیرة اس وجہ سے کہ لام کا قلب الف ہے اور الف کا قلب لام ۔
﴿ البریلوی از بستوی صفحہ 26،27 ۔ انوار رضا صفحہ 355 ﴾
اس بےمعنی عبارت کو ملاحظہ فرمایئے ۔ اندازہ لگائیں کہ بریلوی حضرات چار برس کی عمر میں اپنے اعلی حضرت کی ذہانت و فراست بیان کرنے میں کسی قسم کے علم کلام کا سہارا لے رہے ہیں اور لغو قسم کے قواعد و ضوابط کو بنیاد بنا کر ان کے ذریعے سے اپنے امام کی علمیت ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خود اہل زبان عرب میں سے تو کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس لا یعنی قاعدے کو پہچان سکے اور اس کی وضاحت کر سکے ۔ لیکن ان عجمیوں نے الف اور لام کے درمیان صورت و سیرت کے لحاظ سے مناسبت کو پہچان کر اس کی وضاحت کر دی۔
بریلوی قوم اپنے امام کو انبیاء ورسل سے تشبیہ ہی نہیں بلکہ ان پر افضیلت دینا چاہتی ہے۔
اور یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ ان کے امام و قائد کو کسی کی طرف سے تعلیم دینے کی ضرورت نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا سینہ علوم و معارف کا مرکز و مہبط بن چکا تھا اور تمام علوم انہیں وہبی طور پر عطا کیے جا چکے تھے ۔ اس امر کی وضاحت نسیم بستوی کی اس نص سے بھی ہو جاتی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں۔
عالم الغیب نے آپ کا مبارک سینہ علوم و معارف کا گنجینہ اور ذہن و دماغ و قلب و روح کو ایمان و یقین کے مقدس فکر و شعور اور پاکیزہ احساس و تخیل سے لبریز فرمادیا تھا۔ لیکن چونکہ ہر انسان کا عالم اسباب سے بھی کسی نہ کسی نہج سے رابطہ استوار ہوتا ہے اس لیے بظاہر اعلی حضرت رضی اللہ عنہ ﴿ معاذ اللہ ﴾ کو بھی عالم اسباب کی راہوں پر چلنا پڑا۔﴿ انوار رضا صفحہ 355 بستوی صفحہ 27 ﴾
یعنی ظاہر طور پر تو جناب احمد رضا صاحب نے اپنے اساتذہ سے اکتساب علم کیامگر حقیقی طور پر وہ ان کی تعلیم کے محتاج نہ تھے کیونکہ ان کا معلم و مربی خود رب کریم تھا۔ جناب بریلوی خود اپنے متعلق لکھتے ہیں ۔
درد سر اور بخار وہ مبارک امراض ہیں جو انبیاء علیہم السلام کو ہوتے ہیں۔ ﴿ انوار رضا صفحہ 26 ﴾
آگے چل کر لکھتے ہیں الحمد اللہ
مجھے اکثر حرارت اور درد سر رہتا ہے۔
﴿ ا ملفوظات جلد 1 صفحہ 64 ﴾
جناب احمد رضا تاثر یہ دینا چاہتے ہیں کہ ان کی جسمانی کیفیت انبیاء کرام سے مشابہت رکھتی ہے ۔ اپنی تقدیس ثابت کرنے کے لیے ایک جگہ فرماتے ہیں۔
میری تاریخ ولادت ابجدی حساب سے قرآن کریم کی اس آیت سے نکلتی ہے جس میں ارشاد ہے۔
یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی روحانی تائید فرمادی ہے۔
﴿ حیات اعلی حضرت از بہاری ص 1 ﴾
نیز ان کے بارے میں ان کے پیرو کاروں نے لکھا ہے۔
آپ کے استاد محترم کسی آیہ کریمہ میں باربار زبر بتارہے تھے اور آپ زیر پڑھتے تھے۔ یہ کیفیت دیکھ کر حضور کے جد امجد رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا اور کلام مجید منگوا کر دیکھا تو اس میں کاتب کی غلطی سے اعراب غلط لکھا گیا تھا ۔ یعنی جو زیر حضور سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمتہ کی زبان حق ترجمان سے نکلتا ہے وہی صحیح اور درست تھا ۔ پھر جد امجد نے آپ سے فرمایا کہ مولوی صاحب جس طرح بتاتے تھے اس طرح کیوں نہیں پڑھتے تھے ؟ عرض کی کہ میں ارادہ کرتا تھا کہ جس طرح بتاتے ہیں اسی کے مطابق پڑھوں مگر زبان پر قابو نہ پاتا تھا ۔
﴿ بستوی صفحہ 28 ، ایضا حیات اعلی حضرت صفحہ 22 ﴾
نتیجہ یہ نکلا کہ اعلی حضرت صاحب کو بچپن سے ہی عصمت عن الخطا ء کا مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ بریلوی حضرات نہ صرف یہ کہ مختلف واقعات بیان کر کے اس قسم کا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ بلکہ وہ اپنے امام و بانی کے متعلق صراحتاً اس عقیدے کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ چنانچہ عبدالحکیم قادری صاحب لکھتے ہیں۔
اعلی حضرت کی قلم و زبان ہر قسم کی لغزش سے محفوظ تھی ۔ اور باوجود یکہ ہر عالم کی کو ئی نہ کوئی لغزش ہوتی ہے مگر اعلی حضرت نے ایک نقطے کی غلطی بھی نہیں کی۔﴿ یاد اعلی حضرت از عبدالحکیم شرف قادری صفحہ 32 ﴾
بریلویت۔
ایک صاحب لکھتے ہیں۔
اعلی حضرت نے اپنی زبان مبارک سے کبھی غیر شرعی لفظ ادا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر قسم کی لغزش سے محفوظ رکھا۔
﴿ مقدمہ الفتاوی ٰ الرضویہ جلد 2 صفحہ 5 از محمد اصغر علوی ﴾
نیز یہ کہ اعلی حضرت بچپن سے ہی غلطیوں سے مبرا تھے ۔ صراط مستقیم کی اتباع آپ کے اندر ودیعت کر دی گئی تھی۔ ﴿ انوار رضا صفحہ 223 ﴾
انوار رضا میں ایک صاحب بڑے برملا انداز میں تحریر فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کی قلم اور زبان کو غلطیوں سے پاک کر دیا تھا۔
﴿ انوار رضا صفحہ 271 ﴾
مزید کہا جاتا ہے۔
اعلی حضرت غوث اعظم کے ہاتھ میں اس طرح تھے جیسے کاتب کے ہاتھ میں قلم اور غوث اعظم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس طرح تھاے جیسے کاتب کےہاتھ میں قلم ۔ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے سوا کچھ ارشاد نہ فرماتے تھے۔﴿ انوار رضا صفحہ 270 ﴾
ایک بریلوی شاعر اپنے اعلی حضرت کے متعلق ارشاد فرماتا ہیں۔
ہے حق کی رضا احمد کی رضا
احمد کی رضا مرضی رضا
یعنی احمد رضا بریلوی﴿باغ فردوس مصنفہ ایوب رضوی صفحہ 7 ﴾
ان کے ایک اور پیرو کار لکھتے ہیں۔
اعلی حضرت کا وجود اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھا۔
﴿ انوار رضا صفحہ 100 ﴾
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا ایک گستاخ اپنے امام و راہنما کے بارے میں کہتا ہے۔
اعلی حضرت کی زیارت نے صحابہ کرام کی زیارت کا شوق کم کر دیا ہے۔
﴿ وصایا شریف صفحہ 24 ﴾
مبالغہ آرائی کرتے وقت عموما عقل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک بریلوی مصنف اس کا مصداق بنتے ہوئے لکھتے ہیں کہہ۔
ساڑھے تین سال کی عمر شریف کے زمانے میں ایک دن اپنی مسجد کے سامنے جلوہ افروز تھے کہ ایک صاحب اہل عرب کےلباس میں تشریف لائے اور آپ سے عربی زبان میں گفتگوفرمائی ۔
آپ نے ﴿ ساڑھے تین برس کی عمر میں ﴾ فصیح عربی میں ان سے کلام کیا اور اس کے بعد ان کی صورت دیکھنے میں نہیں آئی۔
﴿ حیات اعلی حضرت ازبہاری صفحہ 22 ﴾
ایک روز استاد صاحب نے فرمایا ۔ احمد میاں تم آدمی ہو کہ جن ؟ مجھے پڑھاتے ہوئے دیر لگتی ہے لیکن تمہیں یاد کرتے دیر نہیں لگتی ۔
10 برس کی عمر میں ان کے والد جو انہیں پڑھاتے بھی تھے ایک روز کہنے لگے تم مجھ سے پڑھتے نہیں بلکہ پڑھاتے ہو۔ ﴿ مقدمہ فتاوی رضویہ جلد 2 صفحہ 6 ﴾
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کا استاد مرزا غلام قادر بیگ مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا۔ ﴿ بستوی صفحہ 32 ﴾
جناب بستوی صاحب کم سنی میں اپنے امام کے علم و فضل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
14 برس کی عمر میں آ پ سندو دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے ۔ اسی دن رضا عت کے ایک مسئلے کا جواب لکھ کر والد ماجد صاحب قبلہ کی خدمت عالی میں پیش کیا ۔ جواب بلکل درست ﴿ صحیح ﴾ تھا ۔
آپ کے والد ماجد نے آپ کے جواب سےآپ کی ذہانت و فراست کا اندازہ لگا لیا اور اس دن سے فتوی نویسی کاکام آپ کے سپرد کر دیا۔
اس سے پہلے آٹھ سال کی عمر مبارک میں آپ نے ایک مسئلہ وراثت کا جواب تحریر فرمایا۔
واقعہ یہ ہوا کی والد ماجد باہر گاوں میں تشریف فرما تھے۔
کہیں سے سوال آیا آپ نے اس کا جواب لکھا اور والد صاحب کی واپسی پر ان کو دکھایا ۔ جسے دیکھ کر ارشاد ہوا معلوم ہوتا ہے ی مسئلہ امن میاں ﴿ اعلی حضرت ﴾ نے لکھا ہے ۔ ان کو ابھی نہ لکھنا چاہئے ۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ہمیں اس جیسا مسئلہ کوئی بڑا لکھ کر دکھائے تو جانیں۔
﴿ اعلی حضرت بریلوی صفحہ 32 ﴾
اس نص سے ثابت ہوتا ہے کہ اعلی حضرت صاحب نےآٹھ برس کی عمر میں فتوی نویسی کا آغاز کر دیا تھا ۔ مگر خود اعلی حضرت فرماتے ہیں ۔
سب سے پہلا فتوی میں نے 1286 ھ میں لکھا تھا جب میری عمر 13 برس تھی۔ اور اسی تاریخ کو مجھ پر نماز اور دوسرے احکام فرض ہوئے تھے۔
﴿ من ہوا حمد رضا از قادری صفحہ 17 ﴿ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں نماز دس برس کی عمر میں فرض ہے اور جناب احمد رضا پر نماز13 برس کی عمر می فرض ہوئی ﴾
اس سے بھی زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ بریلوی حضرات کا یہ دعوی ہے کہ جناب احمد رضا بریلوی صاحب نے 14 برس کی عمر میں ہی تعلیم مکمل کر کے سند فراغت حاصل کر لی تھی۔ ﴿ ملاحظہ ہو حیات اعلی حضرت از بہار صفحہ 33 ۔ انوار رضا صفحہ 357 ﴾
مگر کئی مقامات پر خود ہی اس کی تردید بھی کر جاتے ہیں ۔ چنانچہ حیات اعلی حضرت کے مصنف ظفرالدین بہاری لکھتے ہیں۔
اعلی حضرت نے مولانا عبدالحق خیر آبادی سے منطقی علوم سیکھنا چاہے لیکن وہ انہیں پڑھانے پر راضی نہ ہوئے ۔ اس کی وجہ یہ بیان کی کہ احمد رضا مخالفین کے خلاف نہایت سخت زبان استعمال کرنے کے عادی ہیں۔
﴿ بہاری صفحہ 33 انوار رضا صفحہ 357 ﴾
بستوی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ان کی عمر 20 برس تھی ۔﴿ نسیم بستوی صفحہ 35 ﴾
اسی طرح بریلوی صاحب کے ایک معتقد لکھتے ہیں۔
اعلی حضرت نے سید آل رسول شاہ کے سامنے 1294 ھ میں شرف تلمذ طے کیا اور ان سے حدیث اور دوسرے علوم میں سند اجازت لی۔
﴿ انوار رضا صفحہ 356 ﴾
ظفر بہاری صاحب کہتے ہیں ۔
آپ نے سید آل رسول شاہ کے بیٹے ابو الحسین احمد سے 1296 ھ میں بعض علوم حاصل کیے۔﴿ حیات اعلی حضرت صفحہ 34،35 ﴾
بہر حال ایک طرف تو بریلوی حضرات یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ احمد رضا 13 برس یا 14 برس کی عمر میں ہی تمام علوم سے فارغ ہو چکے تھے دوسری طرف بے خیالی میں اس کی تکذیب بھی کر رہے ہیں۔ اب کسے نہیں معلوم کہ 1272 ھ یعنی احمد رضا صاحب کی تاریخ پیدائش اور 1296 ھ میں بھی بعض علوم حاصل کیے ہوں تو 14 برس کی عمر میں سند فراغت کے حصول کا کیا معنی ہے ؟
مگر بہت دیر پہلے کسی نے کہہ دیا تھا ،، لاذاکرة لکذاب،، یعنی ،، دروغ گورا حافظہ نباشد۔ ﴿ جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا﴾
بریلویت
خاندان
جناب احمد رضا کے خاندان کے متعلق صرف اتنا ہی معلوم ہو سکا ہے کہ ان کے والد اور دادا کاشمار احناف کے علماء میں ہوتا ہے۔
البتہ جناب بریلوی صاحب کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ ان کا تعلق شیعہ خاندان سے تھا ۔ انہوں نے ساری عمر تقیہ کیے رکھا اور اپنی اصلیت ظاہر نہ ہونے دی تاکہ وہ اہل سنت کے درمیان شیعہ عقائد کو رواج دے سکیں۔
ان کے مخالفین اس کے ثبوت ک لیے جن دلائل کا ذکر کرتے ہیں ان میں سے چند ایک یہاں بیان کیے جاتے ہیں۔
1۔ جناب احمد رضا کے آباو اجداد کے نام شیعہ اسماء سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ ان کا شجرہ نسب ہے۔
احمد رضا بن نقی علی بن رضا علی بن کا ظم علی۔ ﴿حیات اعلی حضرت صفحہ 2 ﴾
2۔ بریلویوں کے اعلی حضرت نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف نازیبا کلمات کہے ہیں۔ عقیدہ اہلسنت سے وا بستہ کوئی شخص ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ اپنے ایک قصیدے میں لکھا۔
تنگ و چست ان کا لباس اور وہ جو بن کا ابھار
مسکی جاتی ہے قبا سر سے کمر تک لے کر
یہ پھٹا پڑھتا ہے جوبن مرے دل کی صورت
کہ ہوئے جاتے ہیں جامہ سے بروں سینہ و بر
﴿ نعوذ باللہ ﴾
﴿ حدائق بخشش جلد 3 صفحہ 23 ﴾
3۔ انہوں نے مسلمانوں میں شعیہ مذہب سے ماخوذ عقائد کی نشرو اشاعت میں بھر پور کردار ادا کیا۔﴿ فتاوی بریلویہ صفحہ 14 ﴾
کوئی ظاہری شیعہ اپنے اس مقصد میں اتنا کامیاب نہ ہوتا جتنی کامیابی احمد رضا صاحب کو اس سلسلے میں تقیہ کے لبادے میں حاصل ہوئی ۔ انہون نے اپنے تشیع پر پردہ ڈالنے کےلیے چند ایسے رسالے بھی تحیریر کیے جن میں بظاہر شیعہ مذہب کی مخالفت اور اہل سنت کی تائید پائی جاتی ہے۔ شیعہ تقیہ کا یہی مفہوم ہےجس کا تقاضا انہوں نے کماحقہ ادا کیا۔
4۔ جناب احمد رضا صاحب نے اپنی تصنیفات میں ایسی روایات کا ذکر کثرت سے کیا ہے جو خالصتاً شیعی روایات ہیں اور ان کا عقیدہ اہل سنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔مثلاً
1۔ ان علیا قسیم النار۔
2۔ ان فاطمة سمیت بفاطمة لا ن اللہ فطمھا و ذریتھا من النار۔
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ قیامت کے روز جہنم تقسیم کریں گے۔ ﴿ الامن والعلی مصنفہ احمد رضا بریلوی صفحہ 58 ﴾
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نام فاطمہ اس لیے رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کی اولاد کو جہنم سے آزاد کر دیا ہے۔﴿ ختم نبوت از احمد رضا صفحہ 98 ﴾
3۔ شعیہ کے اماموں کو تقدیس کا درجہ دینے کے لیے انہوں نے یہ عقیدہ وضع کیا ہےکہ اغواث ﴿ جمع غوث ، یعنی مخلوقات کی فریاد رسی کرنے والے ﴾ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوتے ہوئے حسن عسکری تک پہنچتے ہیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے وہی ترتیب ملحوظ رکھی جو شیعہ کے اماموں کی ہے۔ ﴿ ملفوظات صفحہ 115 ﴾
4۔ احمد رضا نے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مشکل کشا قرار دیا اور کہا۔
جو شخص مشہور دعائے سیفی ﴿ جو شیعہ عقیدے کی عکاسی کرتی ہے۔﴾ پڑھے اس کی مشکل حل ہو جاتی ہے۔
دعائے سیفی درج ذیل ہے۔
ناد علیا مظھر العجائب
تجدہ عونا لک فی النوائب
کل ھم و غم سینجلی
بولا یتک یا علی یا علی۔
یعنی حضرت علی کو پکارو جن سے عجائبات کا ظہور ہوتا ہے۔ تم انہیں مدد گا ر پاو گے ۔ اے علی آپ کی ولایت کے طفیل تمام پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں۔ ﴿ الامن والعلی صفحہ 12،13 ﴾
5۔ اسی طرح انہوں نے پنجتن پاک کی اصطلاح کو عام کیا اور اس شعر کو رواج دیا۔
لی حمسة اطفی بھا حرالوباء الحاطمة
المصطفیٰ المرتضیٰ و ابناھما و الفاطمة
یعنی پانچ ہستیاں ایسی ہیں جو اپنی برکت سے میری امراض کو دور کرتی ہیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، علی رضی اللہ عنہ ، حسن ، حسین ، فاطمہ رضی اللہ عنہا۔﴿ فتاوی رضویہ جلد 6 صفحہ 187 ﴾
6۔ انہوں نے شیعہ عقیدے کی عکاسی کرنے ولی اصطلاح ،، جفر،، کی تائید کرتے ہوئے اپنی کتاب خالص الاعتقاد میں لکھاہے۔
جفر چمڑے کی ایک ایسی کتاب ہے جو امام جعفر صادق نے اہل بیت کےلیے لکھی ۔ اس میں تمام ضرورت کی اشیا ء درج کردی ہیں ۔ اس طرح اس میں قیامت تک
رونما ہونے والے تمام واقعات بھی درج ہیں۔ ﴿ خالص الاعتقاد از احمد رضا صفحہ 48 ﴾
7۔ اسی طرح شیعہ اصطلاح الجامتعہ کا بھی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
الجامعتہ ایک اسیا صحیفہ ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تمام واقعات عالم کو حروف کی ترتیب کےساتھ لکھ دیا ہے۔ آپ کی اولاد میں سے تمام ائمہ امور و واقعات سے باخبر تھے۔ ﴿ خالص الاعتقاد از احمد رضا صفحہ 48 ﴾
جناب بریلوی نے ایک اور شیعہ روایت کو اپنے رسائل میں ذکر کیا ہےکہ امام رضا رضا ﴿ شیعہ کے آٹھویں امام ﴾ سے کہا گیا کہ کوئی ایسی دعاء سکھلا ئیں جو ہم اہل بیت کی قبروں کی زیارت کےوقت پڑھا کریں تو انہون نے جواب دیا کہ قبر کےقریب جا کر چالیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر کہو اسلام علیکم یا اہل البیت ۔ اے اہل بیت میں اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے آپ کو خدکے حضور سفارشی بنا کر پیش کرتا ہوں اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے برات کا اظہارکرتا ہوں۔﴿ حیاة الموات درج شدہ فتاوی رضویہ از احمد رضا بریلوی جلد 4 صفحہ 299 ﴾
یعنی شیعہ کے اماموں کو مسلمانوں کے نزدیک مقدس اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ اہل سنت سے افضل قرار دینے کے لیے انہوں نے اس طرح کی روایات عام کیں۔ حالانکہ اہل تشیع کے اماموں کی ترتریب اور اس طرح کے عقائد کا عقیدہ اہل سنت سے کوئی ناطہ نہیں ہے۔
8۔ جناب احمد رضا شیعہ تعزیہ کو اہل سنت میں مقبول بنانے کے لیے اپنی ایک کتاب میں رقمطراز ہیں۔
تبرک کے لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقبرے کا نمونہ بنا کر گھر کے اندر رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ﴿ رسالہ بدر الانور صفحہ 57 ﴾
اس طرح کی لاتعدا د روایات اور مسائل کاذکر ان کی کتب میں پایا جاتا ہے۔
جناب احمد رضا نے شیعہ کے اماموں پر مبنی سلسلہ کو بھی رواج دیا۔
﴿دیکھیں انوار رضا صفحہ 27 ﴾
بریلویت ۔
عادات اور طرز گفتگو۔
بریلوی اعلیٰ حضرت پان کثرت سے استعمال کرتے تھے حتی کہ رمضان المبارک میں وہ افطار کے بعد صرف پان پر کتفا کرتے ۔﴿ انوار رضا صفحہ 256 ﴾
اسی طرح حقہ بھی پیتے تھے دوسری کھانے پینے کی اشیاء پر حقہ کو ترجیح دیتے ۔ ہمارے ہاں دیہاتیوں اور بازاری قسم کے لوگوں کی طرح آنے جانے والے مہمانوں کی تواضح بھی حقے سے کرتے ۔﴿ حیات اعلیٰ حضرت صفحہ 67 ﴾
مزے کی بات ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا۔
میں حقہ پیتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھتا تاکہ شیطان بھی میرے ساتھ شریک ہوجائے۔﴿ ملفوظات﴾
لوگوں کے پاوں چومنے کی عادت بھی تھی۔ ان کے ایک معتقد راوی ہیں کہ۔ آپ حضرت اشرفی میاں کے پاوں کو بوسہ دیا کرتے تھے۔ ﴿ اذکار حبیب رضا طبع مجلس رضا لاہور صفحہ 24 ﴾
جب کوئی صاحب حج کر کے واپس آتے تو ایک روایت کے مطابق فوراً اس کے پاوں چوم لیتے۔ ﴿ انوار رضا صفحہ 306 ﴾