بریلویہ اور نصاریٰ --- نور من نور الله / نور سے نور --- نائسین کریڈ اور مسلک پرستوں کا عقیدہ نور نبوی صلی الله علیہ وسلم
انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا (Encyclopedia Britanica, 1997) ، انسائیکلوپیڈیا امریکانا (Encyclopedia Americana,1998) ، انسائیکلوپیڈیا انکارٹا (Encyclopedia Encarta, 1998) اور انسائیکلوپیڈیا گرولیئر(Encyclopedia Grolier, 1998) کے مطابق نصاریٰ کے اپنے پیغمبر عیسی علیہ السلام سے متعلق ...جو عقائد ہیں انہیں نائسین کریڈ (Nicene Creed) کا نام دیا گیا ہے جو اٹلی کے شہرنائسیا (Nicea) میں اُس وقت کے تمام عیسائی فرقوں کے رہنماؤں کی مجلس منعقدہ ۳۲۵ء میں متفقہ طور پر طے پائے -
اس نائسین کریڈ میں ان کا عقیدہ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
We believe in one God, the Father almighty, maker of all things visible and invisible; and in one Lord Jesus Christ, the Son of God, begotten from the Father, only-begotten, that is, from the substance of the Father, God from God, Light from Light, true God from true God, begotten not made, of one substance with the Father, through whom all things came into being, things in heaven and things on earth, Who because of us men and because of our salva-tion came down and became incarnate, becoming man, suffered and rose again on the third day, ascended to the heavens, and will come to judge the living and the dead; and in the Holy
Spirit
ترجمہ :
ہم ایک خدا پر ایمان لاتے ہیں جو باپ ہے اور قادر مطلق ہے ، تمام دیدہ و نادیدہ چیزوں کا خالق ہے ؛ اور ایک خداوند یسوع مسیح پر ایمان لاتے ہیں ، جو خدا کا بیٹا ہے ، خدا کا (جنا ہوا) اکلوتا یعنی باپ ہی کے جوہر سے ، خدا سے خدا ، نور سے نور ، عین خدا سے عین خدا ، جنا ہوا ، بنایا ہوا نہیں ، باپ ہی کے جوہر سے جس کے ذریعے سے آسمانوں اور زمین میں تمام چیزوں کو وجود ملا ، جو ہم انسانوں کے لیے اور ہماری نجات کے لیے بطور اوتار مجسم بشکل انسانی اترا ، اس نے تکلیف اٹھائی اور تیسرے دن جی اٹھا اور آسمان پر چڑھ گیا ، مُردوں اور زندوں کے فیصلے کے لیے پھر آئے گا ؛ اور ہم روح القدس پر بھی ایمان لاتے ہیں -
۴۵۱ء کی منعقدہ The Council of Chalcedon میں ان عقائد کی توثیق کرتے ہوئے ان میں مزید اضافہ کیا گیا کہ:
We believe in one God, the Father, the Almighty, maker of heaven and earth, of all that is, seen and unseen. We believe in one Lord, Jesus Christ, the only Son of God, eternally begotten of the Father, God from God, Light from Light, true God from true God, begotten, not made, of one Being with the Father. Through him all things were made. For us and for our salvation he came down from heaven: by the power of the Holy Spirit he became incarnate from the Virgin Mary, and was made man. For our sake he was crucified under Pontius Pilate; he suffered death and was buried. On the third day he rose again in accordance with the Scriptures; he ascended into heaven and is seated at the right hand of the Father. He will come again in glory to judge the living and the dead, and his kingdom will have no end. We believe in the Holy Spirit, the Lord, the giver of life, who proceeds from the Father and the Son. With the Father and the Son he is worshiped and glorified. He has spoken through the Prophets. We believe in one holy catholic and apostolic Church. We acknowledge one baptism for the forgive-ness of sins. We look for the resurrection of the dead, and the life of the world to come
ترجمہ :
ہم ایک خدا پر ایمان لاتے ہیں جو باپ ہے اور قادر مطلق ہے ، زمین اورآسمان کا خالق ہے ، اور ہر اس چیز کا بھی جو نظر آتی ہے اور جو نظر نہیں آتی - اور ہم ایک خداوند یسوع مسیح پر ایمان لاتے ہیں ، جو خدا کا اکلوتا بیٹا ہے ، باپ سے ابد الآباد سے جنا ہوا ، خدا سے خدا ، نور سے نور ، عین خدا سے عین خدا ، جنا ہوا ، بنایا ہوا نہیں ، باپ کے ساتھ ایک جنس - اسی سے تمام چیزیں پیدا کی گئیں - ہمارے لیے اور ہماری نجات کے لیے وہ آسمان سے نیچے آیا : روح القدس کے اختیار سے وہ کنواری مریم کے ذریعے مجسم بشکل انسا ن ہوا - ہمارے لیے پیلاطس (Pontius Pilat) کے دور میں اسے صلیب پر چڑھا یا گیا - وہ موت میں مبتلا ہوا اور دفنایا گیا - تیسرے دن مقدس کتاب کے مطابق وہ دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا - وہ آسمان پر چڑھ گیا اور باپ کے ساتھ دائیں ہاتھ تخت نشیں ہوا - زندوں اور مُردوں کی عدالت کے لیے وہ بڑی شان سے دوبارہ آئے گا اور اس کی بادشاہت کا خاتمہ نہ ہوگا - اور ہم روح القدس ، خداوند خدا ، زندگی دینے والے پر بھی ایمان لاتے ہیں جو باپ سے بیٹے تک آتا ہے اور جس کی باپ اور بیٹے کے ساتھ بندگی اور عبادت کی جاتی ہے اور جو رسولوں کے ذریعے سے کلام کرتا رہا - ہم صرف ایک مقدس کیتھولک اور رسولی چرچ پر ایمان لاتے ہیں - ہم گناہوں کی معافی کے لئے ایک بپتسمہ کو تسلیم کرتے ہیں - مُردوں کے دوبارہ جی اٹھنے اور اس دنیا کے بعد کی آنے والی زندگی کے ہم منتظر ہیں -
Bibliography: Athanasius, Saint, History of the Arians (1993); Gregg, Robert, ed., Arianism (1987); Gwatkin, H. M., Studies of Arianism, 2d ed. (1900); Kannengiesser, Charles, Arius and Athanasius: Two Alexandrian Theologians (1991); Newman, John Henry, The Arians of the Fourth Century (1833; repr. 1968); Sumruld, William, Augustine and the Arians (1994); Williams, Daniel, Ambrose of Milan and the End of the Arian-Nicene
Conflicts (1995) (c) 1997 Grolier, Inc
یہود و نصاریٰ نے شرک کی انتہا کردی کہ عزیر و عیسیٰ علیہما السلام کو اﷲ کا بیٹا گردانا:
اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اﷲ کے بیٹے ہیں ، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اﷲ کے بیٹے ہیں - یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں - پہلے کافر بھی اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے - یہ بھی ان ہی کی رِیس کرنے لگے ہیں - اﷲ انہیں غارت کرے - یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں - ( التوبہ:٣٠)
اﷲ نے ذات کے اس شرک کے متعلق ارشاد فرمایا کہ:
(یہ ایسی سنگین بات ہے کہ) قریب ہے اگر آسمان پھٹ پڑیں ، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ڈھے جائیں تو بعید نہیں -
(سورۃ مریم:٩٠)
یہودونصاریٰ کے جب یہ کارنامے ہوں تو یہ نام نہاد امت مسلمہ ان سے کیوں پیچھے رہتی کیونکہ مشہورحدیث ہے کہ:
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ ضرور بالضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے راستے پر چلوگے ، بالشت بہ بالشت اور ہاتھ بہ ہاتھ - یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ کے بل میں داخل ہوا ہوگا تو تم بھی اس میں داخل ہوگے
- صحابہ نے پوچھا کے پہلے لوگوں سے کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر اور کون؟ - (صحیح بخاری ، جلد ٣ ، کتاب الاعتصام ، باب ۱۲۲۱قول النبی صلی الله علیہ وسلم لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ ، صفحہ ٩٣٧)
چنانچہ اس امت نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور نبی صلی الله علیہ وسلم کو اﷲ کی ذات کا ہی حصہ قرار دے ڈالا - اوپر بیان کردہ عیسائیوں کے عقائد سے کتنی مماثلت ہے ان مسلک پرستوں کے عقائد میں! اس مسئلے پر مسلک پرست مختلف الرائے ہیں - کچھ مسلک پرست اﷲ کو نور کہتے ہیں اور نبی صلی الله علیہ وسلم کو اس نورالٰہی کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں چنانچہ ان کی عبادت گاہوں سے یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ:
اَلصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ --- وَعَلیَ آلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَانُوْراً مِّنْ نُّوْرِاللہِ
یعنی اے اﷲ کے رسول صلے الله علیہ وسلم اور اے اﷲ کے نور میں سے ایک نور! آپ صلی الله علیہ وسلم پر اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی آل اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے
اصحاب پر سلامتی ہو - اور ان کے وظائف و عملیات کے مجموعوں میں اس ندا سے متعلق مشکل کشائی وغیرہ کے بڑے حیرت انگیز فضائل بیان کیے جاتے ہیں - ان کے "اعلیٰ حضرت" تو یہاں تک کہہ گئے کہ:
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا - تو ہے عین نور ،تیرا سب گھرانہ نور کا - (حدائق بخشش ، رضا خاں بریلوی ، حصہ دوم ، صفحہ ٤ ، فرید بک اسٹال اردو بازار ، لاہور)
ان کے ایک شعر
مقصود یہ ہیں آدم و نوح و خلیل سے - تخم کرم میں ساری کرامت ثمر کی ہے
پر حاشیہ لکھا گیا ہے کہ
علمأ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم تمام عالم کے پدرِ معنوی ہیں کہ سب کچھ انہیں کے نور سے پیدا ہوا - (ایضاً ، حصہ اول ، صفحہ ٧٥)
کتابِ ہٰذا کے عنوان ۱میں اس نعتیہ مجموعے کا یہ شعر
معراج کا سماں ہے کہاں پہنچے زائرو - کرسی سے اونچی کرسی اسی پاک گھر کی ہے
عشاقِ روضہ سجدہ میں سوئے حرم جھکے - اﷲ جانتا ہے کہ نیت کدھر کی ہے
"....عاشقانِ روضہ کا سجدہ اگرچہ صورۃً سوئے حرم ہے مگر نیت کا حال خدا جانتا ہے کہ وہ کسی وقت اس کے محبوب سے جدا نہ ہوئے - وہ خوب جانتے ہیں کہ ؏ ........................ کعبہ بھی انہیں کی تجلی کا ایک ظِلّ
کعبہ بھی انہیں کے نور سے بنا - انہیں کے جلوہ نے کعبہ کو کعبہ بنا دیا - تو حقیقتِ کعبہ و ہ جلوہ محمدیہ ہے جو اس میں تجلی فرما ہے - وہی روح قبلہ اور اسی کی طرف حقیقۃً سجدہ ہے - اتنا یاد رہے کہ حقیقتِ محمدیہ ہماری شریعت میں مسجود الیہا ہے اور اگلی شریعتوں میں سجدۂ تعظیمی کی مسجود لہا تھی - ملائکہ و یعقوب و ابنائے یعقوب علیہم الصلوٰۃ والسلام نے اسی کو سجدہ کیا - آدم و یوسف علیہما الصلوٰۃ والسلام قبلہ تھے" - (ایضاً ، حصہ اول ، صفحہ ٨١ تا ٨٢)
اس سےیہ عقدہ کشائی ہوتی ہے کہ ان "اعلیٰ حضرت" کے معتقدین حج و عمرے میں خانہ کعبہ کا نہیں بلکہ حقیقت میں سبزگنبد کا طواف کرتے ہیں اور اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے بھی قبلہ ان کا بیت اللہ نہیں بلکہ یہی سبزگنبد ہوتا ہے! صورتاً وہ کعبہ رخ ہوتے ہیں لیکن درحقیقت وہ "روضۂ رسول" کا استقبال کرتے ہیں! ان کے پیچھے نمازیں پڑھنے والوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے قبرکی طرف رخ کرکے صلوٰۃ ادا کرنے سے منع فرمایا ہے (جامع ترمذی ، کتاب الجنائز) اور اس سبزگنبدکے نیچے تین قبریں ہیں -
"شیخ الحدیث" زکریا کاندھلوی صاحب نے بھی اس میں حصہ ڈال کر اپنی حدیث دانی کا ثبوت عنایت فرمایا:
حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کے بدن یا کپڑوں میں جوں نہیں ہوتی تھی - اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جوں بدن کے میل سے پیدا ہوتی ہے اور پسینہ سے بڑھتی ہے اور حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم سراسر نور تھے وہاں میل کچیل کہاں تھا؟ اسی طرح آپ کا پسینہ سراسر گلاب تھا جو خوشبو میں استعمال کیا جاتا تھا - بھلا عرقِ گلاب میں جوں کا کہاں گذر ہوسکتا ہے" - (خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی از زکریا کاندھلوی ، صفحہ ٣٤٨ ، ثقافت اسلامیہ پبلی کیشنز ، لاہور)
کچھ مسلک پرستوں نےاس مسئلے میں یہ انداز اپنایا کہ
میرے عقیدے میں آپ صلی الله علیہ وسلم بیک وقت نور بھی ہیں اور بشر بھی - اور میرے نزدیک نور و بشر کو دو خانوں میں بانٹ کر ایک کی نفی اور دوسرے کا اثبات غلط ہے - (اختلاف امت اور صراطِ مستقیم از یوسف لدھیانوی ، حصہ اول ، صفحہ ٣٣ ، مکتبہ مدینہ ، اردو بازار ، لاہور)
اور کچھ یہاں تک گئے کہ نور محمدی کو کائنات کی سب سے پہلی تخلیق قرار دیا حالانکہ صحیح روایات میں نبی صلی الله علیہ وسلم کا اپنا ارشاد منقول ہے کہ:
اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ الْقَلَمَ - اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا - (جامع ترمذی ، جلد ۲ ، ابواب تفسیر القرآن ، باب و من سورۃ نون والقلم ، صفحہ ٦٠٢)
موصوف لکھتے ہیں:
عبدالرزاق نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداﷲ انصاری سے روایت کیا ہے کہ میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ صلی الله علیہ وسلم پر فدا ہوں مجھ کو خبر دیجیے کہ سب اشیاء سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے کونسی چیز پیدا کی ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اے جابر اﷲ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے ، نہ بایں معنیٰ کہ نور الٰہی اس کا مادہ تھا ، بلکہ اپنے نور کے فیض سے پیدا کیا - پھر وہ نور قدرت الٰہیہ سے جہاں اﷲ تعالیٰ کو منظور ہوا سیر کرتا رہا اور اس وقت نہ لوح تھی ، نہ قلم تھا ، نہ بہشت تھی ، نہ دوزخ تھی ، نہ فرشتے تھے ، نہ آسمان ، نہ زمین ، نہ سورج ، نہ چاند ، نہ جن ، نہ انسان - پھر جب اﷲ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے کیے اور ایک حصے سے قلم پیدا کیا اور دوسرے سے لوح ، اور تیسرے سے عرش - اس حدیث سے نورمحمدی صلی اللھ علیہ وسلم کا اول الخلق ہونا باوّلیت حقیقہً ثابت ہوا کیونکہ جن جن اشیاء کی نسبت روایت میں اوّلیت کا حکم آیا ہے ان اشیاء کا نورمحمدی صلی الله علیہ وسلم سے متاخر ہونا اس حدیث میں منصوص ہے - (نشرالطیب فی ذکر الحبیب از اشرف علی تھانوی ، صفحہ ٥ تا ٦)
نبی صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ سے منسوب ایسا کوئی ارشاد صحیح احادیث میں نہیں ملتا - مُصَنَّف عبدالرزاق اگرچہ حدیث کی ابتدائی تالیفات میں سے ہے لیکن التزام صحت کی کمی اور رطب و یابس کی وجہ سے محدثین اسے چوتھے درجے کی کتب حدیث میں شمار کرتے ہیں - شاہ ولی اﷲ تک نے ، جو مسلک پرستوں کی متفق علیہ شخصیت ہیں ، مصنف عبدالرزاق کو تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے اور اس کی وجہ اس میں ان ہی ضعیف ، منکر ، مقلوب ، شاذ وغیرہ روایات کا بکثرت پایا جانا ہے - (حجۃ اﷲ البالغہ / مترجم ، طبقات کتب حدیث ، صفحہ ٤١٢ ، دار الاشاعت ، اردو بازار ، کراچی)
یہاں ہم قارئین سے درخواست کریں گے کہ وہ گزشتہ صفحات میں بیان کردہ مسیحی عقائد Nicene Creed پرایک دفعہ پھر نظر ڈال لیں اور اوپر بیان کردہ ان مسلک پرستوں کے عقائد سے موازنہ کرکے مماثلت کا اندازہ خود کرلیں۔کیسا یہ ان کے قدم بقدم چل کر مذکورہ صدر حدیثِ رسول صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق کر رہے ہیں!
اَللہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ "اﷲ زمین و آسمان کا نور ہے" ، اس سے یہ مسلک پرست یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ اﷲ ایک نور ہے - حالانکہ نور تو خود ایک مخلوق ہے ، اﷲ اس کا خالق ہے جیسا کہ فرمایا:
تمام تعریف اﷲ ہی کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اوراندھیرے اور نور کو بنایا ، پھر بھی یہ کافر لوگ (اور چیزوں کو) اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں - (الانعام:١)
مگر ان مسلک پرستوں کا فیصلہ ہے کہ:
اﷲ تبارک و تعالیٰ جو مجرد نور ہے ، مادیت کا سایہ بھی اس کے پاس نہیں - اس نور ہی نور سے سیدنا حضرت موسیٰ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو ہم کلامی کا شرف حاصل رہا ہے - (بریلوی فتنہ کا نیا روپ ، عارف سنبھلی ، صفحہ ١٦٢ ، ادارہ اسلامیات ، اردو بازار ، لاہور)
یہ لوگ اﷲ کو نور قراردیتے ہیں اور رسو ل صلی الله علیہ وسلم کو اس کا ایک ٹکڑا بتاتے ہیں حالانکہ اﷲ کی کوئی مثال ہی نہیں (سورۃ الشوری:١١) اس کے برابر تو ہرگز کوئی نہیں (سورۃ الاخلاص:٤) اس کی ذات کے سواتو سب کچھ فنا ہوجانے والا ہے ( سورۃ القصص:٨٨ / الرحمٰن:٢٦ تا ٢٧) تو پھر اﷲ کو ایک فانی چیز بنانا کیا اس کے ساتھ ظلم نہیں؟ افتراپردازی نہیں؟ مالک کا ارشاد ہے:
اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اﷲ پر جھوٹ باندھے - ( الصف:٧)
قَدْ جَآءَكُمۡ مِّنَ اللہِ نُوۡرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ
بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے - (سورۃ المآئدہ:١٥)
اور اس سے وہ کچھ ثابت کرتے ہیں جو پیچھے بیان کیا گیا - یہ چیز خود نبی صلی الله علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ قرآن کی تفسیر قرآن کے ذریعے کی جائے (ہمارے لیے یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر پہلے قرآن سے کی جائے ، اگر وہاں نہ ملے تو پھرصحیح احادیث میں تلاش کی جائے) جیسا کہ سورۃ الانعام کی درج ذیل آیت کی تشریح میں کیا گیا:
اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمْ یَلْبِسُوۡۤااِیۡمَاَنَہُمۡ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمْنُ وَہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ
جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم کی ملاوٹ نہیں کی ، ان کے لیے ہی امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں - (الانعام:٢٨)
صحابہ رضی الله عنہم پر یہ بات بہت شاق گزری اور انہوں نے کہا کہ اے اﷲ کے رسول! ہم میں سے ایسا کون ہے جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیا ہو۔ رسول اﷲ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا یہ مطلب نہیں جو تم سمجھے ہو بلکہ اس سے مراد وہ ہے جو لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا یعنی یہاں ظلم سے مراد عام ظلم نہیں بلکہ شرک کا ظلم عظیم ہے - پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے سورہ لقمان کی آیت پڑھی:
اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ - بیشک شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے - (لقمان:١٣) - (صحیح بخاری ، کتاب الانبیاء ، باب ٣٤٢ قول اﷲ تعالیٰ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ صفحہ ٣٤٤)
اسی لیے اہل علم میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ اَلْقُرْاٰنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضاً یعنی قرآن کی آیات خود ایک دوسرے کی تشریح کرتی ہیں - زیرنظر آیت کی تشریح سورۃ التغابن میں ملتی ہے:
فَاٰمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ النُّوۡرِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلْنَا
تو تم ایمان لاؤ اﷲ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پرجو ہم نے نازل کیا ہے - (التغابن:٨)
پس واضح ہوگیا کہ سورۃ المآئدۃ کی آیت میں جو "نور" ہے وہ سورۃ التغابن کے مطابق ہدایت دینے والی کتاب قرآن مجید ہی ہے جو اﷲ نے نازل کی ہے -
قرآن عربی ادب کا ایسا لاثانی شاہکار ہے جس نے بڑے بڑے فصحا کوگُنگ کردیا تھا اور وہ اس کلام کے کھلے چیلنج فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ کے آگے قطعاً بے بس تھے - ادبی انداز میں کسی چیز کی اہمیت کو زیادہ کرنے کے لیے مترادف الفاظ کی تکرار کی جاتی ہے جس کی قرآن میں متعدد مثالیں موجود ہیں مثلاً اَلرَّحْمٰن الرَّحِیْم دونوں ہم معنی الفاظ ہیں ، اگرچہ ان میں باہم ایک لطیف فرق ضرور ہے جو اس طرح کے تمام مترادف الفاظ میں ہوتا ہے - اﷲ کی مہربانی ، رحم ، عفو و کرم کی زیادتی کو ظاہر کرنے کے لیے یہ انتہائی فصیح و بلیغ اور متنوع الفاظ استعمال ہوئے ہیں - اسی طرح سورۃ المآئدۃ کی آیت میں "نور" اور"کتاب مبین" دونوں ہم معنی اور مترادف الفاظ ہیں جن کا یکجا استعمال کلام میں زور پیداکرتا ہے - اور دونوں کا تعلق ایک ہی اسم سے ہے جس کی شہادت اس سے اگلی آیت
یَہۡدِیۡ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ بِاِذْنِہٖ وَیَہۡدِیۡہِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیۡمٍ
جس کے ذریعے اﷲ اپنی رضا پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے اور اپنے حکم سے اندھیرے میں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور ان کو سیدھے رستے پر چلاتا ہے - (المآئدہ:١٦)
اس آیت کے لفظ "بِهِ" (جس کے ذریعے) کی واحد مذکر غائب کی ضمیر متصل ہے جو ایک ہی اسم کو راجع ہے ورنہ اگر "نور" اور "کتاب مبین" سے دو جدا جدا مراجع مراد ہوتے تو ضمیر میں تثنیہ کا صیغہ "بِھِمَا" (جن کے ذریعے) ہوتا - مزید برآں اگر 'نور' اور "کتاب مبین" کو غیر مترادف گردانتے ہوئے دو مختلف ذوات مراد لی جائیں اور مذکورہ ضمیر واحد کے لیے یہ کہا جائے کہ یہ متصل اور قریبی اسم "کتاب مبین" کو راجع ہے تو پھر اس بات کی نفی لازم آئے گی کہ آیتِ بالا میں بیان کردہ راہ نجات اور سلامتی کے راستے کی طرف رہنمائی کا کام اسم بعید "نور" کے ذریعے نہیں ہوسکتاجبکہ یہ حقیقت کے منافی ہے تو پھر قواعد کی رُو سے صیغۂ تثنیہ "بھما" آنا چاہیے تھا تاکہ دو مختلف ذوات کی طرف نسبت ہوجاتی - لیکن چونکہ صیغۂ واحد ہی آیا ہے اس لیے یہ اس بات کو مستلزم ہے کہ یہاں "نور" اور "کتاب مبین" سے مترادفاً فقط ایک ہی ذات مقصودِ بیان ہو - اس تشریح کی تائید قرآن کی دوسری آیات سے بھی ہوتی ہے:
لوگو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل (روشن) آچکی ہے اور ہم نے (کفر اور ضلالت کا اندھیرا دور کرنے کو) تمہاری طرف چمکتا ہوا نور بھیجا ہے - (النسآء:١٧٤)
وہ جو (محمد) رسول (اﷲ) کی جو اُمّی نبی ہیں ، پیروی کرتے ہیں جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے یہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، وہ انہیں نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں اورپاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں ، تو جو لوگ اُن پر ایمان لائے اور انکی رفاقت کی اور انہیں مدد دی ، اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی پیروی کی ، وہی مراد پانے والے ہیں - ((الاعراف:١٥٧)
اس سلسلے میں قرآن میں اور بہت سے آیات موجود ہیں - لیکن ماننے والوں کے لئے اتنا کافی ہے ، اور نہ ماننے والوں کے سامنے اگر قرآن و صحیح حدیث کا ذخیرہ بھی رکھ دیا جائے تو وہ نہ مانے -
یہ کتاب مندرجہ ذیل ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کی گئی -
http://justus.anglican.org/resources/bcp/1928Standard/Standard.htm
نائسین کریڈ سے متعلق آن لائن حوالہ "انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا" کی "آفیشل" ویب سائٹ پر ملاحظہ کیجئے -
http://www.britannica.com/EBchecked/topic/413955/Nicene-Creed