• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بر صغیر میں اہل حدیث کی عظیم کار کردگی: شیخ عبدالمعید مدنی (علی گڑھ)

شمولیت
ستمبر 11، 2013
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
بر صغیر میں اہل حدیث کی عظیم کار کردگی
فضیلۃ الشیخ عبدالمعید مدنی حفظہ اللہ (علی گڑھ)
پوری تاریخ اسلام میں ہر جگہ منہج سلف کے حاملین نے اپنا دینی فریضہ نبھایا اور ہمیشہ ہر جگہ ان کی علمی و اخلاقی ہیمنت قائم رہی۔ چار صدیوں تک یہی منہج سلف مسلمانوں کے اندر ہر میدان عمل میں معمول بہ رہا۔ اس کے بعد بھی شمع ہدایت ہر جگہ یہی اٹھائے رہے اور آج تک اٹھائے ہوئے ہیں۔
ہندوستان میں بھی چوتھی صدی تک مفتوحہ مسلم خطوں میں اور مسلم آبادیوں میں اہل حدیثیت کا بول بالا رہا۔ چوتھی صدی کے بعد ہندوستان تورانی ثقافت، فقہ حنفی اور وحدۃ الوجود کا ریلا آیا اور سارا ملک اسی رنگ میں رنگ گیا لیکن تورانی ثقافت کے مقابلے میں بھی کہیں نہ کہیں اہل حدیثیت زندہ رہی خصوصا تغلق گھرانے کے دور حکومت میں۔ مغلوں کے ساتھ جب ہندوستان میں ایرانی ثقافت آئی اور لوگ تورانی ثقافت کے بعد وحدۃ الوجود، منطق اور فلسفہ میں منہمک ہوگئے۔ اس وقت بھی ملک کے مختلف علاقوں میں ایسے علماء موجود تھے جو خالص کتاب و سنت کی تعلیم دیتے تھے۔ اور تقلید کی ہلاکت خیزیوں سے لوگوں کو آگاہ کرتے تھے۔
شاہ ولی اللہ ان کے تلامذہ اور ان کے بیٹوں نے لوگوں کے اندر تقلیدی ثقافت سے ہٹ کر سنت کی راہ مستقیم پر چلنے کی طرف توجہ دلائی۔ اس سنی اور حدیثی ثقافتی رجحان سے تھوڑا کچھ علماء کی سوچ میں بدلاؤ آیا۔ شاہ ولی اللہ کی الانصاف، عقدالجید، ازالۃ الخفاء، حجۃ اللہ البالغہ، تراجم ابواب البخاری، فارسی میں ان کے بعض وصایاقرآن کریم کا فاری ترجمہ قرۃ العینین اور ان کی تدریس حدیث نے رجوع الی الکتاب و السنۃ کا علماء کے اندر ایک مثبت رجحان بنایا۔ جامد تقلیدی ماحول میں یہ بہت عظیم کارنامہ تھا۔
ان کے بعد ان کے بیٹے خصوصا شاہ عبدالعزیز کی تفسیر اور فتاوی میں تقلیدی جمود پر قیمتی مباحث، ان کی کتاب تحفہ اثنا عشریہ، شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین کے تراجم قرآنی نے ایرانی و تورانی ثقافت کو متزلزل کیا۔شاہ ولی اللہ کے شاگردوں میں مرزا مظہر جان جاناں، قاضی ثناء اللہ پانی پتی صاحب تفسیر مظہری اور ملا معین الدین صاحب دراسات اللبیب کی دعوت رجوع الی الکتاب والسنہ نے اپنا ایک حلقہ بنایا جن کی تقلیدی ماحول میں الگ پہچان بنی۔ اسی طرح علماء سندھ میں جو شاہ ولی اللہ کے قریب و بعید کے ہمسر تھے ان کی بھی رجوع الی الکتاب والسنہ کی جہود اہمیت کی حامل ہیں۔
شاہ ولی اللہ کے سلسلہ درس و تدریس اور تعلیم وتعلم کی تیسری پیڑھی شاہ اسماعیل مولانا عبدالحئی بڈھانوی سید احمد شہیداور شاہ اسحاق کے دور میں رنگ ہی کچھ اور نکھر چکا تھا۔ یہ سبھی تقلیدی جمود سے باہر آچکے تھے اور ان کے منہج دعوت میں نکھار آچکا تھا اور یہ لوگ عملا اور تعلیماً ہر طرح تقلید و سنت میں مقابلہ آرائی کے موقع پر سنت کو ترجیح دیتے تھے۔
اس تیسری نسل میں شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید کا رنگ سب سے زیادہ نرالا تھا۔ اور ان دونوں میں شاہ شہید کا رنگ ہی الگ تھا۔ انھوں نے ماحول کی ساری تقلیدی بندھنوں کو توڑ ڈالا اور دعوت حق کے مشن کو تدریسی حجروں سے نکالا اور عملی میدان میں لاکھڑا کیا، عوام میں توحید کی صدا بلند کی، جہاد کے لیے منصوبہ بنایا، افراد کی تربیت کی، عوام کے لیے دعوتی تحریریں چھاپیں، تقویۃ الایمان کو پورے بر صغیر میں پھیلایا۔ پورے ملک میں دعوتی جہادی دورے ہوئے۔ حج کے لیے سفر کیا گیا۔ اس طرح پورے ملک میں ہر جگہ دعوت رجوع الی الکتاب والسنۃ کی آواز پہونچی اور اس کی خاطر مثالی عملی جدو جہد شروع ہوئی۔ دین کے کام میں پھیلاؤ ہوا اور پورے ملک میں اصلاح دعوت تعلیم اور جہاد کا کام شروع ہو گیا۔ ہر طرف کتاب و سنت کی دعوت دی جانے لگی۔ تقلیدی جمود ٹوٹا اور ملک کو شاہراہ کتاب و سنت پر لانے کی بھرپور کوشش شروع کی گئی۔ شرک و بدعت کی دلدل سے بندگان الہی کو نکالا گیا۔ فکرو خیال میں تازہ کاری آئی۔ اعمال میں نکھار آیا۔ معاشرے میں زندگی آئی۔ اسلامی شناخت بننے لگی۔ ملک کا ہر طبقہ تجدید دعوت کے اس سلفی مشن سے متاثر اور مستفید ہوا۔
دعوت و تعلیم اور اصلاح وجہاد کا یہ کام چوتھی نسل کے ہاتھ میں آتا ہے۔شاہ اسحق کی تدریس حدیث کی وراثت سید السادات میاں نذیر حسین کو ملتی ہے۔ علمی کارواں کی حدی خوانی سید والا جاہ نواب صدیق حسن کو ملتی ہے۔ جہاد کا کام مولانا ولایت علی اور عنایت علی کو سپرد کیا جاتا ہے اور تینوں خدمت دین کے سوتے ایک ساتھ مل جاتے ہیں۔ اور تینوں جہتیں مل کر دعوت و اصلاح کا وہ کام کرتی ہیں کہ تاریخ اسلام کے نقوش اولیں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ دعوت و اصلاح تعلیم و تدریس اور جہاد کے یہ تینوں مورچے اور ان پر لگے حذام اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں اپنا سب کچھ لگا دیتے ہیں اور یہ تمنا کرتے ہیں کہ جو کچھ ان کے پاس تھا اس سے سوا ہوتا تو وہ بھی اللہ کی راہ میں لٹا دیتے لگا دیتے۔
ایک فقیر بے نوا درِکبریا پر بیٹھا علم کا دریا بہائے ہوئے تھا۔ جس کی لہریں بر صغیر کے علاوہ ایران توران نجد و حجاز عرب و عجم تک پہونچیں اور جس نے اس کے دربار گہربار سے استفادہ کر لیا اگر وہ ذرہ تھا تو نیر تاباں بن گیا۔ بر صغیر کا گوشہ گوشہ اس کے جود علم سے فیض یاب ہوا۔اس کے تلامذہ نے سارے بر صغیر میں دعوت و تعلیم اور جہاد و اصلاح کو اپنا مشن بنا لیا اور صادق پور کے جہادی مشن میں مکمل مشارکت کی زیر زمین بھی اور آن دی گراؤنڈ بھی۔
بھوپال میں دوسرے فدائے سنت نے بر صغیر اور اس سے ورے اپنے فیضانِ علم کی وہ بارش کی کہ گھر گھر میں علم کی روشنی پہونچی۔ علماء کا کفیل بن گیا اور بلا طلب مستند ثقہ اور معتبر علماء کے لیے سہارا بن گیا اور خدمت دین کے لیے انھیں فارغ البال کر دیا۔ اس کی کرم گستری کا یہ حال تھا کہ کے خانپور کے قاضی برادران کو خدمت دین کے لیے اتنا نوازا کہ آج کے دور میں اس کا حساب کروڑوں نہیں اربوں میں ہوگا۔اس نواب اور اپنے دور کے سب سے بڑے قلمکار سید زادے نے مسلمانوں کے اندر دینی کتابوں کو چھاپنے اور مفت بانٹنے کی سنت حسنہ قائم کی جس پر آج دینی علمی دنیا میں ہر خطے میں عمل ہو رہا ہے۔اور اسی تتبع میں ’’دارالمعارف العثمانیہ‘‘حیدرآباد کا قیام عمل میں آیا اور اس کی نقل ’’دارالمصنفین‘‘، ’’ندوۃ المصنفین‘‘ اور دوسرے تالیفی و تحقیقی ادارے ہیں۔ان سے پہلے جزوی طور پر یہ کام مولانا ولایت علی صادق پوری نے بھی کیا تھا۔
صادق پور عظیم آباد کا صدیقی گھرانہ بھی نوابوں کا گھرانہ تھا اس میں کئی پٹیاں تھیں۔ اور بعض استثناء ات کے ساتھ سب پورے برصغیر کے مسلمانوں کی تعلیمی جہادی اور دعوتی قیادت کر رہی تھیں ان کا یہ نیٹ ورک زیر زمین سونا جنگل بنگلہ دیش سے پشاور تک پھیلا ہوا تھا اور اس سے دہلی کی مسند درس سے وابستہ لوگ بھی جڑے ہوئے تھے۔ اور بھوپال کے دربار علم سے وابستہ لوگ بھی اور بنگال کے دادو میاں ٹیٹو میاں کے مشن کے لوگ بھی۔
اس گھرانے کی اتنی قربانیاں ہیں کہ اسے بر صغیر کا اول گھرانہ کہنا چاہیے۔ علم دولت جاہ و حشمت کیا کچھ نہیں تھا اس گھرانے میں۔ مولانا ولایت علی کے چھوٹے بھائی مولانا عنایت علی نے ۱۸۴۰ء کے قریب گھرانے کی جائداد سے اپنا حصہ لے کر سرحد جابسے اور راہ جہاد میں ان کا گھرانہ مر کھپ گیا اس وقت ان کا حصہ ۶؍لاکھ روپئے نکلا۔ اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر انھوں نے جان و مال سب کی قربانی دے دی۔ اندازہ لگائیے پونے دو سو سال پہلے چھ لاکھ کی قیمت آج کتنی ہوگی۔صادق پور گھرانے کی قربانیوں کی یہ عظیم شاہکار مثال ہے اور اس گھرانے کی دوسری قربانیاں بھی شاہکار ہیں۔ بر صغیر کے ہر فرد کی گردن پر اس گھرانے کا احسان ہے۔ اس گھرانے کی قربانیوں کا اعتراف پنڈت جواہر لال نہرو نے کیا تھا۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نے مولانا سید عبدالخبیر کی زیارت کی اور کہا ہندوستان کی آزادی کی ساری قربانیوں کو اگر ایک پلڑے میں رکھا جائے اور صادق پور گھرانے کی آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کو دوسرے پلڑے میں تو صادق پوری قربانیوں کا پلڑا بھاری ہوگا۔
اس رجوع الی الکتاب و السنہ کی دعوت اور جدو جہد میں ملک کے مسلم باشندوں کے ہر طبقے سے لوگ شریک ہوئے۔ اور اس سے وابستہ ہوگئے اور اس دینی اجتماعی جدو جہد کے ہمہ گیر اثرات مرتب ہوئے۔اس میں سارے اہل حدیث تجار شریک ہوئے کلکتہ پٹنہ بنارس لکھنؤ قنوج بھوپال دہلی آگرہ ممبئی لاہور پشاور امرتسر کے مشہور تاجروں کی فیاضی خفیہ طور پر کام آتی رہی۔ عوامی تعاون ہر اہل حدیث کرتا رہا اور خفیہ طریقے سے یہ کام آزادی ہند تک جاری رہا اس میں علماء تعلیم یافتہ غیر تعلیم یافتہ مختلف پیشوں سے وابستہ حضرات طلباء اور محنت و مزدوری کرنے والے اہل حدیث بھی شریک رہے۔ اس میں بہت سے نوابوں زمین داروں اور جاگیر داروں کی بھی حصہ داری رہی۔ یہ سارا کام عیاں و نہاں مشن کے طور پر جاری رہا اور اتنے منظم فداکارانہ اور رضاکارانہ ڈھنگ سے ہوا کہ ڈیڑھ سو سال تک خفیہ جہادی تعلیمی و تنظیمی مشن کی تاریخ میں ایک غدار نہیں نکلا۔ بڑی سی بڑی اذیتیں جھیل لیں لیکن کبھی مشن کے بر خلاف کام نہیں کیا نہ اس کے ساتھ وفاداری میں فرق آیا۔
مومنین صادقین کا یہ کاروان قریب ایک صدی تک تنہا برٹش استعمار سے لڑتا رہا۔ ۱۹۱۶ء ؁ تک ندوہ، دیوبند، بریلی، فرنگی محل حمایت اسلام لاہور استعمار کے ہمنوا تھے یہ تو علماء، اصلاحی تنظیمات اور اداروں کا حال ہوا۔ ملک کے جاگیر دار، نواب رجواڑے، بنئے سب استعمار کے ساتھ۔ ملک کی ساری اسلامی تنظمیں ان صادقین کے خلاف۔ ان کو وہابی مترادف باغی قرار دے کر پھانسی پر لٹکانے کے لیے سفارش میں سرگرم۔ ہندوستانی وہابیوں کے خلاف ملک کے سارے مقلدین کے متفقہ فتاوی، تکفیر کے فتاوی، ضلالت و تفسیق کے فتاوی، سماجی بائیکاٹ کی قراردادیں، مساجد سے نکالنے کی اپیلیں،کورٹ میں مقدمے، قتل و خونریزی مار پیٹ سب روا۔ علّاماؤں کی استعماری حکومت سے گزارش کہ وہابیوں کو باغی قرار دے کر انھیں تہہ تیغ کر دیا جائے۔ یہ سب ہوا لیکن کاروان دعوت و جہاد چلتا رہا۔ اس کے توڑ میں دیوبند میں استعمار کے نوکروں نے مدرسہ قائم کیا اور استعمار غلامی کی برٹش استعمار سے سند حاصل کی۔ ۱۹۱۶ء ؁ کے بعد قومی سیاسی عمل شروع ہوا اور سیاسی تحریکیں اٹھیں تو یہ بیچارے بھی اس میں شریک ہوگئے اور آزادی کا ہیرو بننے کا افسانہ گھڑنے لگے۔
بر صغیر میں بہت سے جھوٹے مسیحا پیدا ہوئے اور اپنے لیے عظمت کا مینار قائم کرنے لگے۔ سر سید کی عظمت کے لیے بڑی چھلانگیں لگائی جاتی ہیں اس استشراقی بندے، استعماری غلام اور انکار حدیث کے بانی اکبر کے کمالات میں ایک کالج کے قیام کو بڑا عظیم قرار دیا جاتا ہے جب کہ وہ استعمار کے در کی ایک بھیک کے سوا کچھ نہ تھا اور ہزاروں کے بجٹ سے آگے نہ جاتا تھا اور یہاں عظمت کے میناروں کا یہ حال ہے کہ بر صغیر میں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے ایک فرد واحد سر سید سے چالیس سال قبل ۶؍لاکھ خرچ کر دیتا ہے اور اپنی پوری فیملی کھپا دیتا ہے اور کسی سے اس کا صلہ نہیں مانگتا، نہ شہرت کی راہ سے، نہ منصب کی راہ سے۔ بر صغیر کی سو سالہ عظمتیں اداروں تنظیموں اور قائدین کی شکل میں اگر صرف مولانا عنایت اللہ صادق پوری پر قربان ہو جائیں تب بھی ان کی عظمت کا حق ادا نہ کر سکیں گی۔ مگر افسوس خود اہل حدیث اپنی عظمتوں کو نہیں جانتے اور ہما و شما کی خود ساختہ جعلی عظمتوں کے سامنے شرمانے لگتے ہیں۔
بر صغیر میں اہل حدیثوں کے کارناموں کے ہمہ گیر اثرات اور ان کی عظمت و اہمیت کو نہ اپنے جانتے ہیں نہ غیر۔ یہاں تو پیہم یہ صدا آتی رہتی تھی۔
سودا خمار عشق کا خسرو سا کوہکن
بازی اگرچہ پانہ سکا سر تو کھو سکا
اور راہ حق میں سب کچھ لٹا کر یہ صدا لگاتے تھے:
ہم کھوکے تری راہ میں کل دولت دنیا
سمجھا ہے کہ کچھ اس سے سوا میرے لیے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیے ہے
 
Last edited by a moderator:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
یہ تحریر بھی مولانا عبدالمعید مدنی صاحب کی سابقہ تحریروں کی ہی طرح ہے، یعنی بغیر دلیل کے بڑے بڑے دعوے۔
اس رجوع الی الکتاب و السنہ کی دعوت اور جدو جہد میں ملک کے مسلم باشندوں کے ہر طبقے سے لوگ شریک ہوئے۔ اور اس سے وابستہ ہوگئے اور اس دینی اجتماعی جدو جہد کے ہمہ گیر اثرات مرتب ہوئے۔اس میں سارے اہل حدیث تجار شریک ہوئے کلکتہ پٹنہ بنارس لکھنؤ قنوج بھوپال دہلی آگرہ ممبئی لاہور پشاور امرتسر کے مشہور تاجروں کی فیاضی خفیہ طور پر کام آتی رہی۔ عوامی تعاون ہر اہل حدیث کرتا رہا اور خفیہ طریقے سے یہ کام آزادی ہند تک جاری رہا اس میں علماء تعلیم یافتہ غیر تعلیم یافتہ مختلف پیشوں سے وابستہ حضرات طلباء اور محنت و مزدوری کرنے والے اہل حدیث بھی شریک رہے۔ اس میں بہت سے نوابوں زمین داروں اور جاگیر داروں کی بھی حصہ داری رہی۔ یہ سارا کام عیاں و نہاں مشن کے طور پر جاری رہا اور اتنے منظم فداکارانہ اور رضاکارانہ ڈھنگ سے ہوا کہ ڈیڑھ سو سال تک خفیہ جہادی تعلیمی و تنظیمی مشن کی تاریخ میں ایک غدار نہیں نکلا۔ بڑی سی بڑی اذیتیں جھیل لیں لیکن کبھی مشن کے بر خلاف کام نہیں کیا نہ اس کے ساتھ وفاداری میں فرق آیا۔
یہ کہناکہ مولانا صادق علی کی حمایت ومدد اہل حدیث تجار نے کی ،ایک سفید اورنہایت بڑاجھوٹ ہے، حضرت سید احمد شہید کی تحریک سے برصغیر کے بیشتر مسلمانوں کوعقیدت تھی اوریہ بات معلوم ومشہور ہے کہ برصغیر میں تب اکثریت کن کی تھی،ان تمام کو ایک سطری دعوی سے اہل حدیث بنالینا مولانا معید مدنی کی کرتب بازی ہے اورکچھ نہیں، ورنہ وہ دلیل دیں کہ ج لوگوں نے مدد کی تھی وہ اہل حدیث تھے، اس وقت گنتی کے چند اہل حدیث تھے،یہ بات تاریخ کا ہرمطالعہ کرنے والاجانتاہے، غیرمقلدین بڑی تلاش اورجستجو کے باوجود تاریخ کے صفحات سے مولانا فاخر الہ آبادی اورچند نام کے سواکچھ نہیں پیش کرسکتے، مولانا نذیر حسین صاحب کے وقت سے اہل حدیث بطور ایک جماعت منظم ہونی اوربڑھنی شروع ہوئی، ورنہ گتنی کے کچھ لوگ پورے ملک میں بطور اہل حدیث تھے،مولانا صادق صاحب اورمولانا عنایت کی بیشتر اورزیادہ تر امداد دہلی ،کلکتہ،سےآتی تھی اور ان کی مدد اس لئے نہیں ہوتی تھی کہ وہ اہل حدیث تھے بلکہ اس لئے کہ وہ سید احمد شہید کے مشن اورکاز کو جاری رکھے ہوئے تھے۔
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 11، 2013
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
اس وقت گنتی کے چند اہل حدیث تھے،یہ بات تاریخ کا ہرمطالعہ کرنے والاجانتاہے، غیرمقلدین بڑی تلاش اورجستجو کے باوجود تاریخ کے صفحات سے مولانا فاخر الہ آبادی اورچند نام کے سواکچھ نہیں پیش کرسکتے، مولانا نذیر حسین صاحب کے وقت سے اہل حدیث بطور ایک جماعت منظم ہونی اوربڑھنی شروع ہوئی، ورنہ گتنی کے کچھ لوگ پورے ملک میں بطور اہل حدیث تھے
خوش فہمی سب سے بڑی وبا ہے۔۔۔۔ مگن رہیں۔۔۔ والسلام
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
بدفہمی اس سے بھی بڑی وباہے، اس سے بچیں۔۔۔۔۔وماتوفیقی الاباللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یہ کہناکہ مولانا صادق علی کی حمایت ومدد اہل حدیث تجار نے کی ،ایک سفید اورنہایت بڑاجھوٹ ہے،
جن لوگوں کا کاروبار ’’ سفید ، اور نہایت بڑے جھوٹوں ‘‘ پر قائم ہو ، وہ دوسروں کے بارے بھی یہی گمان رکھیں توانہیں معذور سمجھنا چاہیے ۔
 
شمولیت
ستمبر 11، 2013
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
اس وقت گنتی کے چند اہل حدیث تھے،یہ بات تاریخ کا ہرمطالعہ کرنے والاجانتاہے
کاش ان میں سے آپ بھی ہوتے۔ ویسے اس موضوع پر اگر گھر ہی کے لوگوں کی کتابیں پڑھ لیتے تو آپ کے شکوک و شبہات کا علاج ممکن ہے ہو جاتا۔
 
Top