کنعان
فعال رکن
- شمولیت
- جون 29، 2011
- پیغامات
- 3,564
- ری ایکشن اسکور
- 4,425
- پوائنٹ
- 521
بسوں کی معلومات کے لیے ’بس دا پتہ‘ نامی ایپ
شمائلہ جعفری بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
14 جولائی 2015
آفتاب نے حال ہی میں لانچ ہونے والی لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کی مفت اینڈروئیڈ موبائل اپیلیکشن اپنے سمارٹ فون پر ڈاون لوڈ کی ہے
آفتاب احمد پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم ہیں، انھیں ہر روز جلو موڑ سے نیو کیمپس کا سفر لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کے زیر انتطام چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ پر کرنا پڑتا ہے۔
گرمی اور ساتھ ہی ساتھ کلاسوں کا سخت شیڈیول۔ اس دوران آفتاب کے لیے اگر کوئی چیز سب سے قممتی ہے تو وہ ہے وقت، جو پہلے تو بس میں سفر کی وجہ سے خوب ضائع ہوتا تھا لیکن اب ایسا نہیں۔
آفتاب نے حال ہی میں لانچ ہونے والی لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کی مفت اینڈروئڈ موبائل اپیلیکشن اپنے سمارٹ فون پر ڈاون لوڈ کی ہے۔
’بس دا پتہ‘ نامی اس ایپ کے فائدے آفتاب نے کچھ یوں گنوائے:
’پہلے ایسا ہوتا تھا کہ مجھے بس سٹاپ پر آدھے گھنٹے تک انتظار کرنا پڑتا تھا کیونکہ مجھے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ میری بس کتنی دور ہے اور کب تک آئے گی، لیکن اس ایپ سے مجھے یہ معلومات انتہائی درست ملتی ہیں۔ میں بس کی لائیو لوکیشن دیکھتا ہوں اور جب وہ سٹاپ کے قریب ہوتی ہے تو دو منٹ پہلے وہاں پہنچ کر بس پر سوار ہو جاتا ہوں۔ اس سے میرا وقت بھی بہت بچتا ہے اور گرمی میں سہولت بھی کافی رہتی ہے۔‘
’ہمیں توقع ہے کہ طلبہ یہ ایپ سب سے زیادہ استعمال کریں گے‘
ایل ٹی سی اس وقت لاہور کے 33 روٹوں پر پرائیویٹ آپریٹروں کے ذریعے لگ بھگ 450 بسیں چلا رہی ہے۔ ان بسوں کو پہلے مرحلے میں جی پی ایس ٹریکنگ کے نظام سے منسلک کیا گیا تھا۔
اس کا مقصد بس کی رفتار اور اس بات پر نظر رکھنا تھا کہ وہ اپنے مخصوص روٹ سے ادھر ادھر نہ ہو اور اب ان بسوں کی تازہ ترین معلومات لینے کے لیے ’بس دا پتہ‘ نامی ایپ لانچ کی گئی ہے۔
کمپنی کے چیف ٹیکنیکل آفیسر بدیع الرحمان خان کہتے ہیں کہ ایک عام تاثر یہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والے سمارٹ فون تک رسائی نہیں رکھتے تاہم ’بس دا پتہ‘ کی کامیابی دیکھ کر یہ تاثر غلط ثابت ہو جاتا ہے۔
بدیع الرحمان خان کہتے ہیں کہ ’چند ہی دونوں میں اس ایپ کو ایک ہزار مسافروں نے ڈاون لوڈ کر لیا، اور اگر آپ ایپ سٹور پر دیکھیں تو یہ معلوم ہوگا کہ ’بس دا پتہ‘ دنیا بھر میں ٹاپ فری ٹرانسپورٹ ایپ ہے اور ابھی تو گرمیوں کی چھٹیاں ہیں۔‘
لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کے حکام کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ویگنوں کو بھی ڈجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے مانیٹر کیا جائے گا
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں توقع ہے کہ طلبہ یہ ایپ سب سے زیادہ استعمال کریں گے۔ اس کے لیے ہم آگہی مہم بھی چلا رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔‘
تاہم اس اپیلیکشن پر تنقید یہ کی جارہی ہے کہ اسے صرف سمارٹ فون رکھنے والے مسافر ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ عام فون رکھنے والوں کے لیے بس اس کے کرائے اور روٹ کی معلومات ایک ایس ایم ایس سروس کے ذریعے دی جا رہی ہیں۔
تاہم روٹ پر چلنے والی بس کی درست لوکیشن بتانا تاکہ مسافروں کو یہ معلوم ہو سکے کہ ان کی مطلوبہ بس سٹاپ سے کتنی دور ہے اور کتنے وقت میں وہ ان تک پہنچے گی، ٹیکسٹ سروس کے ذریعے ممکن نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق کمپنی کی بسوں اور ویگنوں پر روزانہ اوسطاً پانچ لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں۔
پنجاب حکومت ان بسوں کو چلانے کے لیے ہر مہینے تقریبا ڈیڑھ کروڑ روپے سبسڈی بھی دے رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے مسافر ایسے ہیں جو لاہور کی پبلک ٹرانسپورٹ سروس سے مطمئن نہیں اور سمجھتے ہیں کہ ڈجیٹل ٹیکنالوجی سے آسانیاں تو پیدا ہو رہی ہیں، تاہم بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کمپنی کی بسوں اور ویگنوں پر روزانہ اوسطاً پانچ لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں
مسافروں کا کہنا ہے کہ بسوں کی تعداد بہت کم ہے اور ’جب بسیں ہی کم ہوں گی تو جو مرضی ٹیکنالوجی لے آئیں مسافر تو خوار ہوتے رہیں گے۔‘
کچھ مسافرں کو بسوں کے عملے کے رویے اور زیادہ کرایہ لینے کی شکایات بھی ہیں جبکہ سواریوں کو بس بھری ہونے کی وجہ سے گرمی میں بس سٹاپ پر انتظارکا شکوہ بھی عام ہے۔
لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کی جانب سے دو روٹوں پر ای ٹکٹنگ کا نظام بھی شروع کیا گیا ہے جس کا مقصد اوور چارجنگ کو روکنا ہے لیکن ابھی یہ نظام تجرباتی بنیادوں پر کام کر رہا ہے اور مسافر انتہائی محدود تعداد ہی میں اس سے فائدہ اٹھا پا رہے ہیں۔
بسوں کے علاوہ 40 سے زیادہ روٹوں پر ویگینں بھی چلائی جارہی ہیں، جن میں نہ تو جی پی ایس ٹریکر ہیں اور نہ ہی ان کی نگرانی کا کوئی اور موثر انتظام۔
تاہم لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کے حکام کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ویگنوں کو بھی ڈجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے مانیٹر کیا جائے گا تا کہ سروس کے معیار کو بہتر اور عام آدمی کی زندگی کو کچھ آسان بنایا جا سکے۔
ح