ایک اور تھریڈ میں @
تلمیذ بھائی نے یہ سوال پوچھا ہے -
السلام علیکم
میرا سوال یہ ہے کہ کتاب الرجال میں سند اور اتصال کی کیا حیثیت ہے ؟
ایک محدث اگر کسی راوی کے متعلق کچھ کہتا ہے تو اس محدث کا اس راوی سے ملاقات ثابت ہونا چاہئیے یا نہیں ؟
ایک مثال سے بات کو واضح کرتا ہوں ۔
ایک کتاب ہے "میزان الاعتدال فی نقد الرجال " تالیف ہے الامام الحافظ شمس الدین محمد بن احمد الذھبی کی
حروف الالف میں ابان بن جبلہ الکوفی کے بارے میں صفحہ 119 پر لکھتے ہیں
و قال البخاري : منکر الحديث
الامام الذھبی کی تاریح پیدائش 673 ہجری اور وفات 748 ہجری ہے ۔ اور امام بخاري کی تاریخ پیدائش 194 ہجری اور وفات 256 ہجری ہے ۔
امام الذھبی کا یہ کہنا و قال البخاري : منکر الحديث قابل اعتبار ہوگا یا نہیں کیوں امام الذھبی امام بخاری کے بہت بعد آئے تھے ۔ اس لئیے اس قول کے ذکر کرنے کی کوئی سند نہیں تو کیا عدم سند کی وجہ سے امام الذھبی کے اس قول کا اعتبار کیا جائے گا یا نہیں
آگلی سطر میں امام الذھبی لکھتے ہیں
و نقل ابن القطان ان البخاري قال : کل من قلت فيہ منکر الحدیث فلا تحل الروایہ عنہ
اب امام الذھبی ابن القطان کے حوالہ سے کہ رہے ہیں کہ انہوں کہا کہ امام بخاری نے کہا کہ کل من قلت فيہ منکر الحدیث فلا تحل الروایہ عنہ
تو کیا یہاں سند متصل ہے نہیں ۔ اگر متصل ہے تو کیا صحیح ہے یا نہیں ۔
کیا دوسری سطر کے لحاظ سے امام الذھبی کا ابن القطان سے ملاقات ثابت ہونا ضروری ہے یا نہیں اور آگے ابن القطان کی امام بخاری سے ملاقاقت ثابت ہونا ضروری ہے یہ نہیں۔
اگر یہ سند متصل ہے تو کیا ابن القطان کا ثقہ ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟ کیا ابن القطان کے متعلق تحقیق کی جائے گي کہ یہ ثقہ ہیں یا نہیں ؟ اگر کسی مجتھد سے ثابت ہو کہ انہوں نے ابن القطان کو ثقہ کہا ہے تو کیا وہاں بھی سند کی اتصال اور سند کی صحت کا دھیان رکھنا ہوگا ؟ یہ سلسلہ (سند کی اتصال اور صحت کا ) کہاں تک جائے گآ ؟
علم الرجال حدیث سے متعلق ہے اسلئیے اس سوال کو حدیث کی تحقیق کے حصہ میں پیش کر رہا ہوں ۔
جزاکم اللہ خیرا
لنک
http://forum.mohaddis.com/threads/اقوال-جرح-وتعدیل-کی-سند-وصحت-اور-اس-کی-حد.9797/
ان کے سوال کا جواب یہ ہے کہ
امام بخاری کی اپنی تحقیق بھی ہوتی ہے جس پر وہ ١٠٠ سال قبل والے راوی پر تعدیل و جرح کرتے ہیں
آج بھی یہ کام البانی رحم الله نے کیا ہے کہ انہوں نے راوی پر جرح کی ہے
ابن القطان کا قول شاید استنباطی ہے کیونکہ یہ قول بخاری کی کسی کتاب میں نہیں ہے
محقق کی ملاقات راوی سے ضروری نہیں