- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
ایک نکتہ رس کالم نویس نے مقتدر حلقوں کو دلچسپ نام دیا ہے۔ مقتدر حلقے ایسی اصطلاح ہے جو عوام ٹھیک طریقے سے سمجھ ہی نہیں سکتے۔ اکثر اوقات وہ غیر مقتدر حلقے یعنی حکومت کو مقتدر حلقہ سمجھ لیتے ہیں۔ کالم نویس نے انہیں پوشیدہ اور رنجیدہ حلقوں کا نام دیا ہے۔
پوشیدہ تو وہ ہیں کہ نظر نہیں آتے لیکن ان کا کام پوشیدہ نہیں‘ ہر ایک پر ظاہر ہے۔ اکثر اوقات کٹی پھٹی گولیوں سے چھلنی لاشوں کی صورت نظر آتا ہے جو ان دنوں خاص طور سے بلوچستان اور فاٹا وغیرہ میں کثرت سے ملتی ہیں۔ ان میں چھوٹی عمر کے بچوں کی لاشیں بھی ہوتی ہیں۔غالباً حضرت خضر ؑ کے واقعہ سے جواز حاصل کرتے ہیں۔ ان بچوّں نے بڑا ہو کر ’’غلط‘‘ آدمی بننا تھا‘ ہم نے معاشرے کو قبل از وقت نجات دلا دی۔ حضرت خضرؑ نظام تکوین میں ایک ہستی ہیں‘ یہ پوشیدہ حلقے خود کو ہستی نہیں سمجھتے‘ ان کا خیال ہے کہ وہ بذات خود نظامِ تکوین ہیں۔ دوسرا نام رنجیدہ حلقے ہے جو مبنی بر احوال واقعی ہے۔ یہ حلقے ہمیشہ رنجیدہ رہتے ہیں۔1971ء میں انہوں نے آدھی وجہ ناراضگی سے نجات حاصل کر لی تھی۔ آج کل ان پوشیدہ حلقوں کی ناراضگی پھر سے بڑھی ہوئی ہے۔ وجوہات ایک اور کالم نویس (+اینکر پرسن) کے کالم سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔ حکومت کے بالعموم ناقداس کالم نویس نے لکھا ہے:
ہمیں یہ حقیقت بہرحال ماننا ہوگی کہ نواز شریف کی معاشی پالیسیاں درست ہیں‘ پاکستان معاشی ترقی کر رہا ہے‘ زر مبادلہ کے ذخائر بہتر ہو رہے ہیں‘ سٹاک ایکسچینج توانا ہوگئی‘ چین اور ترکی سرمایہ کاری کر رہے ہیں‘ صوبے موٹر ویز کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑ رہے ہیں‘ بجلی کے منصوبے لگ رہے ہیں‘ کرپشن میں بھی کمی ہو رہی ہے۔ پنجاب کے حالات دوسرے صوبوں سے بہت بہتر ہیں۔ پنجاب میں رات کے وقت نکلا جا سکتا ہے جبکہ دوسرے صوبوں میں اس کا تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ناقد کالم نویس نے اس کے بعد حکومت کی خامیاں بیان کی ہیں جوواقعتاحکومت میں ہیں لیکن رنجیدہ حلقوں کا ان خامیوں سے واسطہ نہیں۔ رنجیدہ حلقوں کی ناراضگی کی مندرجہ بالا وجوہات رنجیدگی کے لئے کافی سے بھی زیادہ ہیں۔ انہیں ایسی حکومت چاہئے جو معاشی اور معاشرتی انار کی پھیلائے‘ غربت بڑھائے‘ ملک کا دیوالیہ نکالے‘ ترقیاتی نشانات بالخصوص ’’سڑکات‘‘کا نام و نشان نہ رہنے دے (جیسا کہ مٹّی پاؤ برادران نے اپنے پنجسالہ دور حکومت میں پنجاب کی تقریباً ساری ہی سڑکیں مٹی برد کر دی تھیں) مذکورہ بالا ’’جرائم‘‘ کا ذکر عوام نے رنجیدہ حلقوں کے سدا بہار ترجمان لالہ لئی سے سنا ہوگا۔ خاص طور سے چین اور ترکی کی سرمایہ کاری کا ذکر کرتے ہوئے لالہ لئی کے منہ سے جتنا جھاگ ایک ہی گھنٹے کے پروگرام میں نکلتا ہے‘ نالہ لئی سال بھر میں بھی اتنا پیدا نہیں کر سکتا۔لالہ سے کبھی راہ چلتے چین اور ترکی کی سرمایہ کاری کے بارے میں سوال پوچھ لیجئے‘ اور پھر خدا کی قدرت دیکھئے‘ اتنا جھاگ جھاڑے گاکہ راہگزر سیلاب کی نذر ہو جائے گی۔ رنجیدہ حلقے گوادر پورٹ پر بھی سخت رنجیدہ ہیں اس لئے کہ اس پورٹ سے امریکہ رنجیدہ ہے۔ امریکہ کو زیادہ رنج اس بات کا نہیں کہ اس سے پاکستان کا فائدہ ہوگا‘ اسے زیادہ رنج اس بات پر ہے کہ اس سے چین کا فائدہ ہوگا۔ وہی چین جس کے مشرق میں وہ ایک ہلالی حصار بنا رہا ہے: جنوبی کوریا‘ جاپان‘ ویت نام‘ فلپائن اور تائیوان۔ گوادر سے چین کا رابطہ ہوگیا تو یہ مشرقی حصار تقریباً بے کار ہو جائے گا‘ امریکہ اس لئے رنجیدہ ہے اور امریکہ رنجیدہ ہے تو رنجیدہ حلقے سوا رنجیدہ ہیں۔
رنجیدہ حلقوں کا ایک مرکز توجہّ کراچی ہے۔ پچھلے دنوں ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کے خلاف آپریشن شروع ہوا جن کے بعد وارداتوں میں60 نہیں تو50فیصد کمی ضرورآگئی۔ رنجیدہ حلقوں کی اداسی بلکہ غم و غصہ بڑھنا ہی تھا۔ اسی ہفتے اُمّت اخبار کی رپورٹ ہے کہ کراچی آپریشن کی سمت درست کر دی گئی ہے اور خبردار کر دیا گیا ہے کہ ٹارگٹ کلرز وغیرہ کو کچھ نہ کہا جائے۔ چنانچہ اسی ہفتے سے ’’پرانی رونق‘‘ بحال ہوگئی ہے‘ لاشیں حسب دلخواہ گر رہی ہیں اور رنجیدہ رخساروں پر پھر سے تازگی ہے۔ فائدہ اس کا یہ بھی ہوا ہے کہ حکومت سے رنجیدہ حلقوں کی ایک اور وجہ رنجیدگی دور ہوگئی ہے لیکن مجموعی طور پر فہرست ہائے رنجیدگی کافی لمبی ہے۔ اب آئی ڈی پیز کے مسئلے پر ایک اضافہ اور ہوگیا ہے۔ امت ہی کی رپورٹ ہے کہ مولوی صاحب کی کینیڈا سے درآمد پلان اے کا حصہ تھا وہ انجامِ نامطلوب کو پہنچا‘ اب ان کی موجودگی بی پلان کا حصہ ہے تاکہ وزیرستان کے ان پانچ لاکھ بے گھروں کے مصائب پس منظر میں رہیں اور میڈیا اور عوام کی توجہ مولوی صاحب پر رہے۔ چنانچہ توجہ مولوی صاحب پر ہے۔اور بے گھروں کو کوئی پوچھ رہا ہے نہ دیکھ رہا ہے۔کسی چینل پر البتہ طاہرہ عبداللہ بے خوف ہو کر بولیں اور رو پڑیں۔
آصف زرداری نے بیان دیا ہے کہ شمالی وزیرستان آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد ’’ہیرو‘‘ ہیں۔ ہیرو بننا بہت اچھی بات ہے۔ کاش زرداری‘ نواز شریف اور جملہ ارب کھرب پتی حضرات بھی ایسے ہی ہیرو بن جائیں۔ ان ہیروز کے شاندار حالات پر بھی نظر ڈال لینی چاہئے کہ فی الحال نظر ڈالنا ’’جرم‘‘ قرار نہیں دیا گیا ۔ ہیروز 60,60 میل پیدل تپتے ہوئے چٹانی علاقوں سے سفر کرکے بنّوں پہنچ رہے ہیں۔ ان میں90,90سال کے بوڑھے اور بوڑھی عورتیں بھی ہیں۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں‘ ان کے پاس پینے کو کچھ نہیں اور ان کے پاس دھوپ سے بچنے کو بھی کچھ نہیں۔ بے شمار لوگ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ طرح طرح کی بیماریاں ان میں پھیل گئی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے مر رہے ہیں ۔صرف ایک قافلے کے14شیر خوار بچے پیاس اور گرمی سے تڑپ تڑپ کر مر گئیاور انہیں دینے کے لئے کفن بھی نہیں۔ ایک تصویر چھپی ہے جس میں ایک نہایت بوڑھی عورت کو کوئی روٹی کا ایک چوتھائی ٹکڑا تھما رہا ہے۔ ایک رپورٹ میں ہے کہ گاڑیاں گزرنے کی آواز سن کر بچے بری طرح رونے لگتے ہیں کہ بم برسانے والا جہاز آگیا۔اس تپتے ہوئے بے آب کربلا میں ان پانچ لاکھ افراد کا کوئی والی وارث نظر نہیں آتا۔ انہیں ہیرو‘ قرار دینے والے زرداری کی حکومت نے پابندی لگا دی ہے کہ کوئی ہیرو سندھ داخل نہیں ہو سکتا۔ ایسی ہی پابندی بلوچستان اور پنجاب نے بھی لگا رکھی ہے۔ گویا یہ ’’ہیرو‘‘ ایسے ہیں جنہیں دور سے سلام۔ حکومت امداد کر رہی ہے لیکن ڈر ڈر کے۔ دو روز پہلے تک وہ پانچ لاکھ میں سے صرف دو ہزار افراد کو چند ہزار روپے کی امداد فراہم کر سکی۔ کیا امریکہ کا ڈر اتنا زیادہ ہے؟ امریکہ کا حکم انہیں صرف بے گھر کرنا تھا ‘ انہیں بھوک اور پیاس کی کربلا میں مارنے کا حکم تو سامنے نہیں آیا۔امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے تازہ بیان میں ڈومور کا حکم ضرور ہے لیکن ایسا کوئی حکم نہیں کہ اس سیاہ بخت آبادی کا دانہ پانی بھی بند رکھا جائے۔ ہیلری کلنٹن نے حکم دیا ہے کہ وزیرستان آپریشن کے حوالے سے مزید سخت فیصلے کرو۔ مزید سخت فیصلوں کی وضاحت دفاعی ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔ شاید وہاں کے پہاڑ پگھلا کر کوئی جھیل وغیرہ بنانے کا مطالبہ ہو۔ پہاڑوں کو پگھلانے والا کوئی کیمیکل پاکستان کے پاس نہیں ہے‘ امریکہ پہلے یہ کیمیکل دے ۔کیمیکل مفت نہیں ملے گا‘ پاکستانی عوام کی جیبوں پر مزید ٹیکس لگا کر اس کی قیمت دینا ہوگی۔ حکومت حرکت میں نہیں آ رہی تو رفاہی تنظیموں کو ہمّت کرنا چاہئے۔ شاید وہ بھی ’’ڈاہڈے کی مار‘‘ سے ڈرتی ہیں۔
لطیفہ سنئے‘ کنٹینر والے مولوی نے شہر اعتکاف منسوخ کر دیا ہے اور اس کا بجٹ وزیرستان بدر لوگوں کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ کتنی ہمدردی ہے۔ شہر اعتکاف کا بجٹ ایک کروڑ روپے یا شاید اس سے بھی کم ہوگا۔ اخباری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ’’ہوائی انقلاب‘‘ کے موقع پر مولوی موصوف نے ٹی وی اینکرز اور مالکان‘ اخباری کالم نویسوں اور دوسرے میڈیا ٹولز کو ایک ارب روپے کے ’’عطیات‘‘ دیئے تاکہ وہ انقلاب کے تام جھام کو دھوم دھام سے دکھائیں۔ ’’غبارے‘‘ پر ایک ارب روپیہ خرچ کرنے والا آئی ڈی پیز کو ایک کروڑ روپے دے کر حاتم طائی کی قبر پر بیک وقت دو لاتیں رسید کر رہا ہے‘ سبحان تیری قدرت۔ سنا ہے کہ انقلاب کا جو بھرکس نکلا ہے‘ مولوی صاحب کو اطلاع ملی تھی کہ اس کے فال آؤٹ کے طور پر شہر اعتکاف آنے والے حضرات کی تعداد آدھی سے بھی کم رہ جائے گی۔ دراصل یہ اسی کی پردہ پوشی ہے۔ واللہ اعلم!
(عبداللہ طارق سہیل)
پوشیدہ تو وہ ہیں کہ نظر نہیں آتے لیکن ان کا کام پوشیدہ نہیں‘ ہر ایک پر ظاہر ہے۔ اکثر اوقات کٹی پھٹی گولیوں سے چھلنی لاشوں کی صورت نظر آتا ہے جو ان دنوں خاص طور سے بلوچستان اور فاٹا وغیرہ میں کثرت سے ملتی ہیں۔ ان میں چھوٹی عمر کے بچوں کی لاشیں بھی ہوتی ہیں۔غالباً حضرت خضر ؑ کے واقعہ سے جواز حاصل کرتے ہیں۔ ان بچوّں نے بڑا ہو کر ’’غلط‘‘ آدمی بننا تھا‘ ہم نے معاشرے کو قبل از وقت نجات دلا دی۔ حضرت خضرؑ نظام تکوین میں ایک ہستی ہیں‘ یہ پوشیدہ حلقے خود کو ہستی نہیں سمجھتے‘ ان کا خیال ہے کہ وہ بذات خود نظامِ تکوین ہیں۔ دوسرا نام رنجیدہ حلقے ہے جو مبنی بر احوال واقعی ہے۔ یہ حلقے ہمیشہ رنجیدہ رہتے ہیں۔1971ء میں انہوں نے آدھی وجہ ناراضگی سے نجات حاصل کر لی تھی۔ آج کل ان پوشیدہ حلقوں کی ناراضگی پھر سے بڑھی ہوئی ہے۔ وجوہات ایک اور کالم نویس (+اینکر پرسن) کے کالم سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔ حکومت کے بالعموم ناقداس کالم نویس نے لکھا ہے:
ہمیں یہ حقیقت بہرحال ماننا ہوگی کہ نواز شریف کی معاشی پالیسیاں درست ہیں‘ پاکستان معاشی ترقی کر رہا ہے‘ زر مبادلہ کے ذخائر بہتر ہو رہے ہیں‘ سٹاک ایکسچینج توانا ہوگئی‘ چین اور ترکی سرمایہ کاری کر رہے ہیں‘ صوبے موٹر ویز کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑ رہے ہیں‘ بجلی کے منصوبے لگ رہے ہیں‘ کرپشن میں بھی کمی ہو رہی ہے۔ پنجاب کے حالات دوسرے صوبوں سے بہت بہتر ہیں۔ پنجاب میں رات کے وقت نکلا جا سکتا ہے جبکہ دوسرے صوبوں میں اس کا تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ناقد کالم نویس نے اس کے بعد حکومت کی خامیاں بیان کی ہیں جوواقعتاحکومت میں ہیں لیکن رنجیدہ حلقوں کا ان خامیوں سے واسطہ نہیں۔ رنجیدہ حلقوں کی ناراضگی کی مندرجہ بالا وجوہات رنجیدگی کے لئے کافی سے بھی زیادہ ہیں۔ انہیں ایسی حکومت چاہئے جو معاشی اور معاشرتی انار کی پھیلائے‘ غربت بڑھائے‘ ملک کا دیوالیہ نکالے‘ ترقیاتی نشانات بالخصوص ’’سڑکات‘‘کا نام و نشان نہ رہنے دے (جیسا کہ مٹّی پاؤ برادران نے اپنے پنجسالہ دور حکومت میں پنجاب کی تقریباً ساری ہی سڑکیں مٹی برد کر دی تھیں) مذکورہ بالا ’’جرائم‘‘ کا ذکر عوام نے رنجیدہ حلقوں کے سدا بہار ترجمان لالہ لئی سے سنا ہوگا۔ خاص طور سے چین اور ترکی کی سرمایہ کاری کا ذکر کرتے ہوئے لالہ لئی کے منہ سے جتنا جھاگ ایک ہی گھنٹے کے پروگرام میں نکلتا ہے‘ نالہ لئی سال بھر میں بھی اتنا پیدا نہیں کر سکتا۔لالہ سے کبھی راہ چلتے چین اور ترکی کی سرمایہ کاری کے بارے میں سوال پوچھ لیجئے‘ اور پھر خدا کی قدرت دیکھئے‘ اتنا جھاگ جھاڑے گاکہ راہگزر سیلاب کی نذر ہو جائے گی۔ رنجیدہ حلقے گوادر پورٹ پر بھی سخت رنجیدہ ہیں اس لئے کہ اس پورٹ سے امریکہ رنجیدہ ہے۔ امریکہ کو زیادہ رنج اس بات کا نہیں کہ اس سے پاکستان کا فائدہ ہوگا‘ اسے زیادہ رنج اس بات پر ہے کہ اس سے چین کا فائدہ ہوگا۔ وہی چین جس کے مشرق میں وہ ایک ہلالی حصار بنا رہا ہے: جنوبی کوریا‘ جاپان‘ ویت نام‘ فلپائن اور تائیوان۔ گوادر سے چین کا رابطہ ہوگیا تو یہ مشرقی حصار تقریباً بے کار ہو جائے گا‘ امریکہ اس لئے رنجیدہ ہے اور امریکہ رنجیدہ ہے تو رنجیدہ حلقے سوا رنجیدہ ہیں۔
رنجیدہ حلقوں کا ایک مرکز توجہّ کراچی ہے۔ پچھلے دنوں ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کے خلاف آپریشن شروع ہوا جن کے بعد وارداتوں میں60 نہیں تو50فیصد کمی ضرورآگئی۔ رنجیدہ حلقوں کی اداسی بلکہ غم و غصہ بڑھنا ہی تھا۔ اسی ہفتے اُمّت اخبار کی رپورٹ ہے کہ کراچی آپریشن کی سمت درست کر دی گئی ہے اور خبردار کر دیا گیا ہے کہ ٹارگٹ کلرز وغیرہ کو کچھ نہ کہا جائے۔ چنانچہ اسی ہفتے سے ’’پرانی رونق‘‘ بحال ہوگئی ہے‘ لاشیں حسب دلخواہ گر رہی ہیں اور رنجیدہ رخساروں پر پھر سے تازگی ہے۔ فائدہ اس کا یہ بھی ہوا ہے کہ حکومت سے رنجیدہ حلقوں کی ایک اور وجہ رنجیدگی دور ہوگئی ہے لیکن مجموعی طور پر فہرست ہائے رنجیدگی کافی لمبی ہے۔ اب آئی ڈی پیز کے مسئلے پر ایک اضافہ اور ہوگیا ہے۔ امت ہی کی رپورٹ ہے کہ مولوی صاحب کی کینیڈا سے درآمد پلان اے کا حصہ تھا وہ انجامِ نامطلوب کو پہنچا‘ اب ان کی موجودگی بی پلان کا حصہ ہے تاکہ وزیرستان کے ان پانچ لاکھ بے گھروں کے مصائب پس منظر میں رہیں اور میڈیا اور عوام کی توجہ مولوی صاحب پر رہے۔ چنانچہ توجہ مولوی صاحب پر ہے۔اور بے گھروں کو کوئی پوچھ رہا ہے نہ دیکھ رہا ہے۔کسی چینل پر البتہ طاہرہ عبداللہ بے خوف ہو کر بولیں اور رو پڑیں۔
آصف زرداری نے بیان دیا ہے کہ شمالی وزیرستان آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد ’’ہیرو‘‘ ہیں۔ ہیرو بننا بہت اچھی بات ہے۔ کاش زرداری‘ نواز شریف اور جملہ ارب کھرب پتی حضرات بھی ایسے ہی ہیرو بن جائیں۔ ان ہیروز کے شاندار حالات پر بھی نظر ڈال لینی چاہئے کہ فی الحال نظر ڈالنا ’’جرم‘‘ قرار نہیں دیا گیا ۔ ہیروز 60,60 میل پیدل تپتے ہوئے چٹانی علاقوں سے سفر کرکے بنّوں پہنچ رہے ہیں۔ ان میں90,90سال کے بوڑھے اور بوڑھی عورتیں بھی ہیں۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں‘ ان کے پاس پینے کو کچھ نہیں اور ان کے پاس دھوپ سے بچنے کو بھی کچھ نہیں۔ بے شمار لوگ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ طرح طرح کی بیماریاں ان میں پھیل گئی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے مر رہے ہیں ۔صرف ایک قافلے کے14شیر خوار بچے پیاس اور گرمی سے تڑپ تڑپ کر مر گئیاور انہیں دینے کے لئے کفن بھی نہیں۔ ایک تصویر چھپی ہے جس میں ایک نہایت بوڑھی عورت کو کوئی روٹی کا ایک چوتھائی ٹکڑا تھما رہا ہے۔ ایک رپورٹ میں ہے کہ گاڑیاں گزرنے کی آواز سن کر بچے بری طرح رونے لگتے ہیں کہ بم برسانے والا جہاز آگیا۔اس تپتے ہوئے بے آب کربلا میں ان پانچ لاکھ افراد کا کوئی والی وارث نظر نہیں آتا۔ انہیں ہیرو‘ قرار دینے والے زرداری کی حکومت نے پابندی لگا دی ہے کہ کوئی ہیرو سندھ داخل نہیں ہو سکتا۔ ایسی ہی پابندی بلوچستان اور پنجاب نے بھی لگا رکھی ہے۔ گویا یہ ’’ہیرو‘‘ ایسے ہیں جنہیں دور سے سلام۔ حکومت امداد کر رہی ہے لیکن ڈر ڈر کے۔ دو روز پہلے تک وہ پانچ لاکھ میں سے صرف دو ہزار افراد کو چند ہزار روپے کی امداد فراہم کر سکی۔ کیا امریکہ کا ڈر اتنا زیادہ ہے؟ امریکہ کا حکم انہیں صرف بے گھر کرنا تھا ‘ انہیں بھوک اور پیاس کی کربلا میں مارنے کا حکم تو سامنے نہیں آیا۔امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے تازہ بیان میں ڈومور کا حکم ضرور ہے لیکن ایسا کوئی حکم نہیں کہ اس سیاہ بخت آبادی کا دانہ پانی بھی بند رکھا جائے۔ ہیلری کلنٹن نے حکم دیا ہے کہ وزیرستان آپریشن کے حوالے سے مزید سخت فیصلے کرو۔ مزید سخت فیصلوں کی وضاحت دفاعی ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔ شاید وہاں کے پہاڑ پگھلا کر کوئی جھیل وغیرہ بنانے کا مطالبہ ہو۔ پہاڑوں کو پگھلانے والا کوئی کیمیکل پاکستان کے پاس نہیں ہے‘ امریکہ پہلے یہ کیمیکل دے ۔کیمیکل مفت نہیں ملے گا‘ پاکستانی عوام کی جیبوں پر مزید ٹیکس لگا کر اس کی قیمت دینا ہوگی۔ حکومت حرکت میں نہیں آ رہی تو رفاہی تنظیموں کو ہمّت کرنا چاہئے۔ شاید وہ بھی ’’ڈاہڈے کی مار‘‘ سے ڈرتی ہیں۔
لطیفہ سنئے‘ کنٹینر والے مولوی نے شہر اعتکاف منسوخ کر دیا ہے اور اس کا بجٹ وزیرستان بدر لوگوں کو دینے کا اعلان کیا ہے۔ کتنی ہمدردی ہے۔ شہر اعتکاف کا بجٹ ایک کروڑ روپے یا شاید اس سے بھی کم ہوگا۔ اخباری ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ’’ہوائی انقلاب‘‘ کے موقع پر مولوی موصوف نے ٹی وی اینکرز اور مالکان‘ اخباری کالم نویسوں اور دوسرے میڈیا ٹولز کو ایک ارب روپے کے ’’عطیات‘‘ دیئے تاکہ وہ انقلاب کے تام جھام کو دھوم دھام سے دکھائیں۔ ’’غبارے‘‘ پر ایک ارب روپیہ خرچ کرنے والا آئی ڈی پیز کو ایک کروڑ روپے دے کر حاتم طائی کی قبر پر بیک وقت دو لاتیں رسید کر رہا ہے‘ سبحان تیری قدرت۔ سنا ہے کہ انقلاب کا جو بھرکس نکلا ہے‘ مولوی صاحب کو اطلاع ملی تھی کہ اس کے فال آؤٹ کے طور پر شہر اعتکاف آنے والے حضرات کی تعداد آدھی سے بھی کم رہ جائے گی۔ دراصل یہ اسی کی پردہ پوشی ہے۔ واللہ اعلم!
(عبداللہ طارق سہیل)