بخاری سید
رکن
- شمولیت
- مارچ 03، 2013
- پیغامات
- 255
- ری ایکشن اسکور
- 470
- پوائنٹ
- 77
یہ مضمون برطانوی میڈیا پر اشاعت کے بعد یہاں دیگر ساتھیوں کے تبصرے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے لہذا میرا اس مضمون نگار سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
برطانیہ میں کویلیم فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے محقق ڈاکٹر اسامہ حسن نے زور دیا ہے کہ اعتدال پسند مسلمانوں کو اپنے نوجوان ہم مذہبوں کو اپنے قریب لانے کے لیے زیادہ محنت کرنی چاہیے۔انہوں نے یہ بات لندن کے علاقے وُولِچ میں بظاہر اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھوں ایک برطانوی فوجی کی ہلاکت کے پس منظر میں کہی ہے۔
ڈاکٹر حسن کے مضمون کا ترجمہ
کئی دہائیوں سے برطانیہ اور دیگر ممالک میں مسلمانوں کے بارے میں بحث میں بنیاد پرستی اور اسلام پسندی جیسے موضوعات کا غلبہ رہا ہے۔ میں نے، برطانیہ میں کئی اور ہزاروں اور مسلم ممالک کے لاکھوں لوگوں کی طرح، ایک لمبا عرصہ ان تنگ نظر خیالات اور اسلام کی سطحی اور غلط تشریح کو فروغ دینے میں گزار دیا۔ لیکن پھر بالآخر روحانی اور زندگی کے تجربات کی بدولت میں سوچ اور ایمان کی ان پستیوں سے باہر آنے میں کامیاب ہو گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے سوچ کے ان دھاروں کو شکست دی جائے اور ان کے مقابلے میں نئی سوچ کو فروغ دیا جائے۔ بنیاد پرستی سے میری مراد کلام کو سیاق و سباق سمجھے یا اس کو تاریخ کے تناظر میں دیکھے بغیر پڑھنا ہے۔ ایسی بنیاد پرستی کی مثالوں میں انسانی حقوق کے میدان میں پیش رفت، خواتین اور مردوں کے لیے مساوی حقوق اور سماجی اور سیاسی اصلاحات کی مخالفت شامل ہیں۔ قرآن کی آیات میں انسانوں کے درمیان مکمل برابری کی بات کی گئی ہے اور اِن میں غلامی، نسل پرستی، زن بیزاری کی گنجائش نہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ وہ آیات ہیں جن میں بظاہر غلامی، غیر مسلموں اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور خواتین کو مارنے کی بات کی گئی ہے واضح طور پر خاص وقت کے لیے آئی تھیں اور یہ آزادی کی طرف سفر میں عارضی اقدامات تھے۔ اسلام نے ساتویں صدی کے عرب معاشرے میں خواتین اور غلاموں کا مقام بلند کیا۔ تاریخ سے نابلد بنیاد پرست تشریح میں اس دور میں لیے گئے اقدامات کو تمام ادوار کے لیے سمجھتے ہیں اور بالکل آگے بڑھنے سے انکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ مُصر ہیں کہ ساتویں صدی کی اقدار تمام معاشروں اور تمام ادوار کے لیے برحق ہیں۔ اسلام پرستی کو ’پولیٹیکل اسلام‘ کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ اس کی زیادہ درست تعریف ’حد سے زیادہ سیاسی بنیاد پرست اسلام‘۔ اسلام پرستی کے بنیادی محرکات میں اُمّہ، خلیفہ، شریعہ اور جہاد شامل ہیں اور ان تصورات کو حد سے زیادہ سیاسی بنا دیا گیا ہے۔ اسلام پرستوں امہ کے تصور کو اس حد تک آگے لے جاتے ہیں کہ مسلمان اور ان کی’عالمی سطح پر تکالیف‘ مستقل ان کے ذہن پر طاری رہتی ہیں(توجہ صرف ان کے مسائل پر رہتی اور ان پر ہونے والی بھلائیوں کا کبھی ذکر نہیں ہوتا)۔ نتیجتًا مظلوم ہونے کا احساس مستقل ان میں گھر کر جاتا ہے۔ مسلمان ممالک کی دوسروں سے لڑائی کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے مثلاً کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق جبکہ مسلمانوں کی باہمی وحشیانہ لڑائیوں جیسے کے ایران عراق جنگ، دارفور اور شام کی لڑائیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ کئی مسلم ممالک جیسے کہ پاکستان، مصر اور ایران میں عیسائیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا کبھی ذکر نہیں ہوتا۔ اسلام پرستوں کے نزدیک خلیفہ کے تصور کے تحت وہ اسلامی ریاستیں بنانے کے پابند ہیں جو مِل کر ایک عالمی اسلامی ریاست کے ماتحت ہوں گی۔ ان لوگوں کے نزدیک شریعہ کا مطلب قرون وسطیٰ کے اسلامی اصولوں کو جدید دور کی اسلامی ریاستوں میں نافذ کرنا ہیں۔ اسلام پرستوں کے نزدیک جہاد کا مطلب تشدد(فوجی، نیم فوجی یا دہشت گردی) ہے۔ ان کے جہاد کا مطلب اسلامی ریاست کا تحفظ یا اسے وسعت دینا ہے۔ شدت پسند اسلام کے لیے چین، امریکہ، بھارت اور روس کو شکست دے کر پوری دنیا فتح کرنے کے بھی خواب دیکھتے ہیں۔ اسلام پرستوں کی سوچ سے مخالف سوچ بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔ قرآن میں جب امہ کا ذکر آتا ہے تو تاریخی حوالے بھی دیے جاتے ہیں جن میں دیگر مذاہب کے پیغمبروں اور ان کے پیروکاروں کا ذکر آتا ہے۔ اسلام کے شروع کے دنوں میں اُمّہ سے مراد سیاسی آبادیاں تھیں جن میں عیسائی اور یہودی بھی شامل تھے۔اس کی ایک مثال پیغمبر اسلام کے دور میں مدینہ کی دی جا سکتی ہے۔ انیسویں صدی میں سلطنت عثمانیہ میں شہریوں کا تصور رائج تھا جن میں تمام لوگوں کو ان کے مذہب سے قطع نظر مساوی حقوق حاصل تھے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے بھی ایک ایسی ریاست کا تصور پیش کیا تھا جس میں ہندووں، سکھوں اور عیسائیوں کو مساوی حقوق ملنے تھے۔ شریعہ کی مختلف مکاتب فکر نے الگ الگ تشریح کی ہے۔ اس معاملے میں تنگ نظری جدید دور میں کام نہیں آئے گی۔شریعہ کی تشریع جسے مقاصد الشریعہ کہا جاتا ہے اور جس میں مساوات، انصاف اور پیار محبت کو قانون کی بنیاد سمجھا جاتا ہے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔
برطانیہ میں کویلیم فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے محقق ڈاکٹر اسامہ حسن نے زور دیا ہے کہ اعتدال پسند مسلمانوں کو اپنے نوجوان ہم مذہبوں کو اپنے قریب لانے کے لیے زیادہ محنت کرنی چاہیے۔انہوں نے یہ بات لندن کے علاقے وُولِچ میں بظاہر اسلامی شدت پسندوں کے ہاتھوں ایک برطانوی فوجی کی ہلاکت کے پس منظر میں کہی ہے۔
ڈاکٹر حسن کے مضمون کا ترجمہ
کئی دہائیوں سے برطانیہ اور دیگر ممالک میں مسلمانوں کے بارے میں بحث میں بنیاد پرستی اور اسلام پسندی جیسے موضوعات کا غلبہ رہا ہے۔ میں نے، برطانیہ میں کئی اور ہزاروں اور مسلم ممالک کے لاکھوں لوگوں کی طرح، ایک لمبا عرصہ ان تنگ نظر خیالات اور اسلام کی سطحی اور غلط تشریح کو فروغ دینے میں گزار دیا۔ لیکن پھر بالآخر روحانی اور زندگی کے تجربات کی بدولت میں سوچ اور ایمان کی ان پستیوں سے باہر آنے میں کامیاب ہو گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے سوچ کے ان دھاروں کو شکست دی جائے اور ان کے مقابلے میں نئی سوچ کو فروغ دیا جائے۔ بنیاد پرستی سے میری مراد کلام کو سیاق و سباق سمجھے یا اس کو تاریخ کے تناظر میں دیکھے بغیر پڑھنا ہے۔ ایسی بنیاد پرستی کی مثالوں میں انسانی حقوق کے میدان میں پیش رفت، خواتین اور مردوں کے لیے مساوی حقوق اور سماجی اور سیاسی اصلاحات کی مخالفت شامل ہیں۔ قرآن کی آیات میں انسانوں کے درمیان مکمل برابری کی بات کی گئی ہے اور اِن میں غلامی، نسل پرستی، زن بیزاری کی گنجائش نہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ وہ آیات ہیں جن میں بظاہر غلامی، غیر مسلموں اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور خواتین کو مارنے کی بات کی گئی ہے واضح طور پر خاص وقت کے لیے آئی تھیں اور یہ آزادی کی طرف سفر میں عارضی اقدامات تھے۔ اسلام نے ساتویں صدی کے عرب معاشرے میں خواتین اور غلاموں کا مقام بلند کیا۔ تاریخ سے نابلد بنیاد پرست تشریح میں اس دور میں لیے گئے اقدامات کو تمام ادوار کے لیے سمجھتے ہیں اور بالکل آگے بڑھنے سے انکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ مُصر ہیں کہ ساتویں صدی کی اقدار تمام معاشروں اور تمام ادوار کے لیے برحق ہیں۔ اسلام پرستی کو ’پولیٹیکل اسلام‘ کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ اس کی زیادہ درست تعریف ’حد سے زیادہ سیاسی بنیاد پرست اسلام‘۔ اسلام پرستی کے بنیادی محرکات میں اُمّہ، خلیفہ، شریعہ اور جہاد شامل ہیں اور ان تصورات کو حد سے زیادہ سیاسی بنا دیا گیا ہے۔ اسلام پرستوں امہ کے تصور کو اس حد تک آگے لے جاتے ہیں کہ مسلمان اور ان کی’عالمی سطح پر تکالیف‘ مستقل ان کے ذہن پر طاری رہتی ہیں(توجہ صرف ان کے مسائل پر رہتی اور ان پر ہونے والی بھلائیوں کا کبھی ذکر نہیں ہوتا)۔ نتیجتًا مظلوم ہونے کا احساس مستقل ان میں گھر کر جاتا ہے۔ مسلمان ممالک کی دوسروں سے لڑائی کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے مثلاً کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق جبکہ مسلمانوں کی باہمی وحشیانہ لڑائیوں جیسے کے ایران عراق جنگ، دارفور اور شام کی لڑائیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ کئی مسلم ممالک جیسے کہ پاکستان، مصر اور ایران میں عیسائیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا کبھی ذکر نہیں ہوتا۔ اسلام پرستوں کے نزدیک خلیفہ کے تصور کے تحت وہ اسلامی ریاستیں بنانے کے پابند ہیں جو مِل کر ایک عالمی اسلامی ریاست کے ماتحت ہوں گی۔ ان لوگوں کے نزدیک شریعہ کا مطلب قرون وسطیٰ کے اسلامی اصولوں کو جدید دور کی اسلامی ریاستوں میں نافذ کرنا ہیں۔ اسلام پرستوں کے نزدیک جہاد کا مطلب تشدد(فوجی، نیم فوجی یا دہشت گردی) ہے۔ ان کے جہاد کا مطلب اسلامی ریاست کا تحفظ یا اسے وسعت دینا ہے۔ شدت پسند اسلام کے لیے چین، امریکہ، بھارت اور روس کو شکست دے کر پوری دنیا فتح کرنے کے بھی خواب دیکھتے ہیں۔ اسلام پرستوں کی سوچ سے مخالف سوچ بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔ قرآن میں جب امہ کا ذکر آتا ہے تو تاریخی حوالے بھی دیے جاتے ہیں جن میں دیگر مذاہب کے پیغمبروں اور ان کے پیروکاروں کا ذکر آتا ہے۔ اسلام کے شروع کے دنوں میں اُمّہ سے مراد سیاسی آبادیاں تھیں جن میں عیسائی اور یہودی بھی شامل تھے۔اس کی ایک مثال پیغمبر اسلام کے دور میں مدینہ کی دی جا سکتی ہے۔ انیسویں صدی میں سلطنت عثمانیہ میں شہریوں کا تصور رائج تھا جن میں تمام لوگوں کو ان کے مذہب سے قطع نظر مساوی حقوق حاصل تھے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے بھی ایک ایسی ریاست کا تصور پیش کیا تھا جس میں ہندووں، سکھوں اور عیسائیوں کو مساوی حقوق ملنے تھے۔ شریعہ کی مختلف مکاتب فکر نے الگ الگ تشریح کی ہے۔ اس معاملے میں تنگ نظری جدید دور میں کام نہیں آئے گی۔شریعہ کی تشریع جسے مقاصد الشریعہ کہا جاتا ہے اور جس میں مساوات، انصاف اور پیار محبت کو قانون کی بنیاد سمجھا جاتا ہے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔