lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
بوطیقا --- ارسطو --- عالمِ مثال ایک باطل اصطلاح ہے
عالم حواس کی ہر شے عالم مثال کی نقل ہے ۔ ارسطو کے نزدیک انسان حواس کے ذریعہ کسی شے کا ادراک کرتا ہے - حواس کے ذریعہ جس دنیا کو محسوس کیا جاتا ہے وہ "اصل حقیقت" کے نامکمل اور ادھورے مظاہر ہیں - طبعی دنیا کی مختلف شکلیں جدائی اور مثالی شکلوں کی نقلیں تھیں جنہیں اس مادی دنیا میں ھونے والے حادثات نے مسخ کر دیا ہے ہر شے کے اندر ایک مثالی ہیت موجود ہے - لیکن خود اس شے سے اس ہیت کا ادھورا اور نامکمل اظہار ہوتا ہے - یہ ہیئت فنکار کے ذہن پرحسی شکل میں اثر انداز ہوتی ہے اور وہ اس کے بھرپور اظہار کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح اس عالم مثال کو سامنے لاتا ہے جودنیا ئے رنگ وبو میں نامکمل طور پر ظاہر ہوا ہے - فلسفی کاکام یہ ہے کہ وہ ان اتفاقی اور مسخ شدہ شکلوں کے اندر "اصل حقیقت" کو دریافت کرے اور ان قوتوں کو تلاش کرے جو ساری ہستی کا سبب ہیں اور اسے حرکت میں لاتے ہیں -
یعنی عالم مثال ایک متوازی دنیا ہے اور اس دنیا کا ہر وجود اور شے عالم مثال میں بھی ظاہر ہوتا ہے - انسان اصل حقیقت تک اس دنیا میں نہیں پہنچ سکتا کیونکہ اس کے حواس خمسہ محدود صلاحیت کے حامل ہیں لہذا عالم مثال تک رسائی ضروری ہے -
مسلمان فلاسفر ان سے اتنے متاثر ہوئے کہ ارسطو کو المعلم الأول کا خطاب دیا - مسلم فلسفیوں ابن سینا (المتوفی ٤٢٩ ھ) اور ابن رشد (المتوفی ٥٩٥ ھ) سے ہوتا ہوا عالم مثال کا یہ نظریہ ابن العربی (المتوفی ٦٣٨ ھ) کی متصوفانہ کتب میں داخل ہوا اور کتاب فصوص الحکم کا سارا زور اس پر رہا کہ جو بھی خواب انبیا نے دیکھے یا ان کو غیب کی خبریں دے گئیں وہ سب ارسطو کے اس عالم مثال سے ظاہر ھو رہی تھیں - پھر سارے صوفیاء نے اس اصطلاح کو بے دھڑک استمعال کی - ابن الوزير (المتوفى٨٤٠ هـ) نے کتاب "العواصم والقواصم في الذب عن سنة أبي القاسم" میں اس کو استعمال کیا - ہندو پاک کے اسلامی لٹریچر میں اس کو داخل کیا اور مکاشفوں کے علی الحق ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا -
حتیٰ کہ قرآن کی تفسیریں بھی اسی ارسطو سوچ پر لکھی گئیں مثلا تفسير أبي السعود ، تفسیر مظہری ، روح البيان ، البحر المديد في تفسير القرآن المجيد وغیرہ - قرآن و حدیث کے ساتھ یہ یونانی سوچ منطبق کرتے ہوئے ان کو بالکل کوئی یہ خیال نہ گذرا کہ قرآن تو ان اصطلاحات سے پاک ہے اور اس کا مقصد کسی فلسفی کو حق پر ثابت کرنا بھی نہیں وہ تو حق کی طرف ہدایت دیتا ہے تو پھر اس اصطلاح کو استمعال کرنا چہ معنی!
لیکن افسوس ہے کہ اپنی کتابوں میں فلسفیانہ موشگافیوں کو شامل کرنا شاید ٦٣٨ ہجری کے بعد علمی دھاک بٹھانے کا طریقہ بن گیا تھا - اسی یونانی سوچ سے لبریز کتاب "مقام حیات" از خالد محمود صاحب ہیں -
کتاب میں جا بجا بے تکان عالم مثال کی ترکیب استمعال کی گئی ہے - معراج النبوی ہو ، انبیاء کے خواب ہوں ، عالم ارواح ہو ، برزخ ہو ، عام انسانوں کے خواب ہوں ، صوفیاء کے مکاشفے ہوں - الغرض ہر مسئلہ کو اسی عدسے سے دیکھا گیا ہے - اور جیسا کہ واضح ہے قدیم کے ان یونانی افکار سے تعلّق کا حق ادا کر دیا گیا ہے -
کیا الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس اصطلاح کو استمعال کیا ، کیا قرآن میں اس متوازی دنیا کا کوئی ادنی سا اشارہ بھی ہے ، کیا ابن العربی سے پہلے اس اصطلاح کو کسی نے اسلامی لٹریچر میں استمعال کیا؟ ان سب کا جواب نفی میں ہے اور یہ سب متصوفین کو پتہ ہے لیکن بعض باتوں میں سحر ہوتا ہے - تصوف کا فسوں اسقدر ہوش ربا تھا کہ حق و باطل کی تمیز مٹ گئی اور ایک یکسر متوازی دین پیدا ہو گیا -