سیّد لبید غزنوی
رکن
- شمولیت
- مئی 16، 2013
- پیغامات
- 258
- ری ایکشن اسکور
- 7
- پوائنٹ
- 75
بچوں کو تھوڑا سا وقت دیں...............
اپنے بچوں کے ساتھ جتنا وقت گزار سکیں گزاریں۔جگر گوشوں کو جیب خرچ ، کھلونے، سوٹ، موٹر سائیکل، گھڑی یا موبائل فون سے بھی بہت پہلے آپ کی قربت چاہیے۔ فاصلہ پیدا ہوگا تو بیچ میں کوئی نہ کوئی تیسرا آ جائے گا اور یہ تیسرا کوئی فرشتہ بھی ہو سکتا ہے اور شیطان بھی۔ انسان سماجی جانور ہے اور تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسے قدم قدم پر رشتے داروں، جان پہچان والوں اور طاقتوروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مگر اندھا اعتماد بھی تو خود کو اندھی گلی میں لے جانے کا راستہ ہے۔
مت کیجیے اندھا اعتماد۔آپ کے بچے یا بچی کو کسی اجنبی سے صرف 30 فیصد جنسی خطرہ ہے۔70 فیصد خطرہ رشتے داروں ، جاننے والوں یا اردگرد کے لوگوں سے ہے۔ تب ہی تو ہمیں اور آپ کو اپنے بچوں سے ہونے والی زیادتی سے زیادہ یہ فکر رہتی ہے کہ منہ کھولا تو دنیا کیا کہے گی۔
تو پھر کریں کیا؟
اس سے پہلے کہ بچوں کو کسی اور سے پتہ چلے۔آپ خود دوستانہ تعلیمی انداز میں انسانی جسم اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں ان کی عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے آسان لہجے میں سمجھائیں۔ یہ بھی بتائیں کہ ماں، باپ اور بہن ، بھائیوں کے علاوہ اگر کوئی بھی قریبی یا دور کا جاننے والا یا اجنبی غیر معمولی انسیت یا بے تکلفی برتے یا مادی ترغیب دے تو دماغ میں الارم بجنا چاہیے اور اس بارے میں والدین کو ضرور بتانا چاہیے اور ایسا کرنے پر شاباش بھی ملے گی۔
پھر بھی ہمارا بچہ شکار بن جائے تو کیا کریں ؟ سب سے پہلے یہ کریں کہ اسے پہلے سے زیادہ پیار اور توجہ دیں تا کہ یہ احساس نہ کھا جائے کہ وہ تنہا ہے یا وہی قصور وار ہے اور پھر فیصلہ کریں کہ مزید کیا کرنا ہے ؟ چپ سادھ کے شکاریوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہے یا شور مچا کر ان کے گرد گھیرا تنگ کرنا اور دوسروں کو خبردار کرنا ہے؟
جب آپ کسی اور کے بچے کی حفاظت کرتے ہیں تو اصل میں اپنے ہی بچے کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر بات اب بھی سمجھ میں نہیں آ رہی تو وائلڈ لائف چینل باقاعدگی سے دیکھیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ جانور اپنے بچوں کو کیسے بچاتے ہیں۔جنگل میں تو کوئی ریاست ، تھانہ اور کچہری بھی نہیں ہوتے۔
***لبید غزنوی***
اپنے بچوں کے ساتھ جتنا وقت گزار سکیں گزاریں۔جگر گوشوں کو جیب خرچ ، کھلونے، سوٹ، موٹر سائیکل، گھڑی یا موبائل فون سے بھی بہت پہلے آپ کی قربت چاہیے۔ فاصلہ پیدا ہوگا تو بیچ میں کوئی نہ کوئی تیسرا آ جائے گا اور یہ تیسرا کوئی فرشتہ بھی ہو سکتا ہے اور شیطان بھی۔ انسان سماجی جانور ہے اور تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسے قدم قدم پر رشتے داروں، جان پہچان والوں اور طاقتوروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مگر اندھا اعتماد بھی تو خود کو اندھی گلی میں لے جانے کا راستہ ہے۔
مت کیجیے اندھا اعتماد۔آپ کے بچے یا بچی کو کسی اجنبی سے صرف 30 فیصد جنسی خطرہ ہے۔70 فیصد خطرہ رشتے داروں ، جاننے والوں یا اردگرد کے لوگوں سے ہے۔ تب ہی تو ہمیں اور آپ کو اپنے بچوں سے ہونے والی زیادتی سے زیادہ یہ فکر رہتی ہے کہ منہ کھولا تو دنیا کیا کہے گی۔
تو پھر کریں کیا؟
اس سے پہلے کہ بچوں کو کسی اور سے پتہ چلے۔آپ خود دوستانہ تعلیمی انداز میں انسانی جسم اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں ان کی عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے آسان لہجے میں سمجھائیں۔ یہ بھی بتائیں کہ ماں، باپ اور بہن ، بھائیوں کے علاوہ اگر کوئی بھی قریبی یا دور کا جاننے والا یا اجنبی غیر معمولی انسیت یا بے تکلفی برتے یا مادی ترغیب دے تو دماغ میں الارم بجنا چاہیے اور اس بارے میں والدین کو ضرور بتانا چاہیے اور ایسا کرنے پر شاباش بھی ملے گی۔
پھر بھی ہمارا بچہ شکار بن جائے تو کیا کریں ؟ سب سے پہلے یہ کریں کہ اسے پہلے سے زیادہ پیار اور توجہ دیں تا کہ یہ احساس نہ کھا جائے کہ وہ تنہا ہے یا وہی قصور وار ہے اور پھر فیصلہ کریں کہ مزید کیا کرنا ہے ؟ چپ سادھ کے شکاریوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہے یا شور مچا کر ان کے گرد گھیرا تنگ کرنا اور دوسروں کو خبردار کرنا ہے؟
جب آپ کسی اور کے بچے کی حفاظت کرتے ہیں تو اصل میں اپنے ہی بچے کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر بات اب بھی سمجھ میں نہیں آ رہی تو وائلڈ لائف چینل باقاعدگی سے دیکھیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ جانور اپنے بچوں کو کیسے بچاتے ہیں۔جنگل میں تو کوئی ریاست ، تھانہ اور کچہری بھی نہیں ہوتے۔
***لبید غزنوی***